Featured Post

Khalid001

17 September 2019

Khalid086


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  86
سالار عدی بن حاتم بھی اپنے دستوں کو سالارِ اعلیٰ کا یہی پیغام دے رہے تھے۔سالار عاصم بن عمرو بھی جو سالار قعقاع بن عمرو کے بڑ ے بھائی تھے۔اپنے مجاہدین کے ساتھ یہی باتیں کر رہے تھے۔خالدؓ نے اپنے تمام سالاروں سے کہا تھا کہ مجاہدین کے جسم لڑنے کے قابل نہیں رہے اور یہ عزم کی پختگی کا کرشمہ ہے کہ شل اور چور جسموں سے بھی ہر میدان میں یہ تازہ دم ہو جاتے ہیں، خالدؓنے سالاروں سے کہا تھا کہ ان کے حوصلے اور جذبے کو قائم رکھنا بہت ضروری ہے۔
’’دشمن کے پاؤں اکھڑے ہوئے ہیں۔‘‘ … خالدؓنے کہا تھا۔اسے سنبھلنے کی مہلت مل گئی تو یہ ہمارے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے … اور میرے رفیقو! جس طرح اﷲہمیں فتح پر فتح عطا کرتا چلا جا رہا ہے، یہ فتوحات بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ہمارا یہ لشکر کہیں یہ نہ سمجھ لے کہ ہمیں شکست ہو ہی نہیں سکتی ۔انہیں بتاؤ کہ انہیں دشمن پر ہر میدان مین غالب کرنے والا صرف اﷲہے۔اس کی ذاتِ باری کو دل سے نہ نکالیں اور تکبر سے بچیں۔‘‘
مدینہ کے مجاہدین کا حوصلہ تو بھاگتے دشمن کو، میدانِ جنگ میں اس کے زخمیوں کو تڑپتا اور لاشوں کو سرد ہوتا دیکھ کر تروتازہ ہو جاتا تھا لیکن وہ آخر انسان تھے اور انسان کوتاہی کا مرتکب بھی ہو سکتاہے۔اپنا سر غرور اور تکبر سے اونچا بھی کر سکتا ہے۔خالد اس خطرے کو محسوس کر رہے تھے انہوں نے کفار پر اپنی دہشت طاری کر کے اسے نفسیاتی لحاظ سے بہت کمزور کر دیا تھا لیکن ان مؤرخین کے مطابق جو جنگی امور کو سمجھتے تھے ،خالدؓکو یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ ان کی سپاہ اس مقام تک نہ پہنچ جائے جہاں یکے بعد دیگرے کئی فتوحات کے بعد دشمن کے دباؤ سے تھوڑا سا بھی پیچھے ہٹنا پڑے تو سپاہ بالکل ہی پسپا ہو جائے۔
اس خطرے نے انہیں پریشان سا کر دیا تھا۔انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ اپنے لشکر کو آرام کیلئے کچھ وقت دے دیں ، وہ ایسی جنگی چالیں سوچ رہے تھے جن سے دشمن کو بے خبری میں دبوچا جا سکے۔ایک چال خالدؓ مضیح میں آزما چکے تھے ۔یہ کامیاب رہی تھی۔ یہ تھا شب خون۔پورے لشکر نے دشمن کی خیمہ گاہ پر حملہ کر دیا تھا لیکن ضروری نہیں تھا کہ یہ چال ہر بار کامیاب ہوتی۔کیونکہ پورے لشکر کو خاموشی سے دشمن کی خیمہ گاہ تک پہنچانا آسان کام نہیں تھا۔
اس وقت دشمن کا لشکر دو مقامات پر جمع تھا،ایک ذومیل تھا، اور دوسرا تھا ثنّی۔انہی دو مقامات کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ آتش پرستوں اور عیسائیوں کے لشکر جمع ہیں۔اب حُصید کا بھاگا ہوا لشکر بھی وہیں جا پہنچا تھا اور مضیح سے دشمن کی جو نفری بچ نکلی تھی، وہ بھی انہی دو مقامات پر چلی گئی تھی۔
اس شکست خوردہ نفری نے ثنّی اور ذومیل میں جاکر دہشت پھیلا دی۔وہاں سردار اور سالار بھی تھے،انہیں بہت مشکل پیش آئی۔جذبے کے لحاظ سے لشکر لڑنے کے قابل نہیں تھا۔جسمانی لحاظ سے لشکر تازہ دم تھا۔ثنّی میں ان کی عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی تھے۔عورتوں نے مردوں کو بزدلی اور بے غیرتی کے طعنے دیئے اور انہیں لڑنے کیلئے تیار کیا۔
…………bnb…………

ان دو مقامات پر جنگ کی تیاریوں کا منظر جنگ جیسا ہی تھا۔ سوار اور پیادے تیغ زنی کی مشق صبح سے شام تک کرنے لگے۔ سوار دستوں کو حملہ کرنے اور حملہ روکنے کی مشقیں کرائی جانے لگیں۔ اس وقت تک کسریٰ کے سالار اور ان کے اتحادی عیسائیوں کے سردار خالدؓ کی جنگی چالیں سمجھ چکے تھے۔
’’لیکن چالیں سمجھنے سے کیا ہوتا ہے!‘‘ … عیسائیوں کے ایک قبیلے کا سردار ربیعہ بن بجیر کہہ رہا تھا۔ … ’’دل کو ذرا مضبوط رکھیں تو ان تھوڑے سے مسلمانوں کو کچلنا کوئی مشکل نہیں۔‘‘
اس کے پاس عیسائیوں کے بڑے سردار عقہ بن ابی عقہ کا بیٹا بلال بن عقہ بیٹھا ہوا تھا۔عقہ بن ابی عقہ سرداروں میں سرکردہ سردار تھا۔اس نے للکار کر کہا تھاکہ وہ خالدؓکا سر کاٹ کر لائے گا۔مگر عین التمر کے معرکے میں وہ پکڑا گیا،اس سے پہلے خالدؓ نے قسم کھائی تھی کہ وہ عقہ کو زندہ پکڑیں گے ۔خالدؓکی قسم پوری ہو گئی ۔انہوں نے عقہ کا سر اپنی تلوار سے کاٹا تھا۔ بلال عقہ کا جوان بیٹا تھا۔ جو اپنے باپ کے خون کا بدلہ لینے آیا تھا۔
’’ابنِ بجیر!‘‘ … اس نے اپنے سردار ربیعہ کی بات سن کر کہا۔ …’’میں اپنے باپ کے سر کے بدلے خالد کا سر لینے آیا ہوں۔‘‘
’’ایک نہیں ہم پر ہزاروں سروں کا قرض چڑھ گیا ہے۔‘‘ … ربیعہ بن بجیرنے کہا۔
وہ کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر بلال بن عقہ چلا گیا۔ رات کا وقت تھا۔ رات سرد اور تاریک تھی۔ مہینہ نومبر کا تھا اور اسی شام رمضان کا چاند نظر آیا تھا۔ بلال باہر جا کر رک گیا۔ وہ اپنے لشکر کے خیموں سے کچھ دور تھا۔ اسے ایک طرف سے اپنی طرف کوئی آتا نظر آیا۔ نیا چاند کبھی کا ڈوب چکا تھا۔ تاریک رات میں چلتے پھرتے انسان متحرک سائے لگتے تھے۔ سایہ جو بلال کی طرف آرہا تھا، قریب آیا تو بلال نے دیکھا کہ وہ کوئی آدمی نہیں عورت ہے۔
’’ابنِ عقہ!‘‘ … عورت نے کہا۔ … ’’میں صابحہ ہوں … صابحہ بنتِ ربیعہ بن بجیر … ذرا رُک سکتے ہو میری خاطر؟‘‘
’’اوہ!ربیعہ بن بجیر کی بیٹی!‘‘ … بلال بن عقہ نے مسرور سے لہجے میں کہا۔ … ’’کیا میں ابھی ابھی تیرے گھر سے اٹھ کر نہیں آیا؟‘‘
’’لیکن بات جو کہنی ہے وہ میں باپ کے سامنے نہیں کہہ سکتی تھی۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔
’’کیا تو نے مجھے اپنے قابل سمجھا ہے؟‘‘ … بلال نے کہا۔ … ’’بات جو تو کہنا چاہتی ہے وہ پہلے ہی میرے دل میں ہے۔‘‘
’’غلط نہ سمجھ ابنِ عقہ!‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’پہلے میری بات سن لے! … مجھے بتا کہ مجھ سے زیادہ خوبصورت لڑکی تو نے کبھی دیکھی ہے؟‘‘
’’نہیں بنتِ ربیعہ!‘‘
’’کبھی مدائن گیا ہے تو؟‘‘ … صابحہ نے کہا۔
’’گیا ہوں؟‘‘
’’سناہے فارس کی لڑکیاں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’کیا وہ مجھ سے زیادہ خوبصورت ہیں؟‘‘
’’کیا یہ اچھا نہیں ہو گا کہ تو وہ بات کہہ دے جو تیرے دل میں ہے؟‘‘ … بلال نے پوچھا اور کہا۔ … ’’میں نے تجھ سے زیادہ کسی لڑکی کو کبھی حسین نہیں سمجھا۔میں تجھے تیرے باپ سے مانگنا چاہتا تھا۔ میں نہیں جانتا تھا کہ تیرے دل میں پہلے ہی میری محبت پیدا ہو چکی ہے۔‘‘
’’محبت تو اب بھی پیدا نہیں ہوئی۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’میں کسی اور کو چاہتی ہوں۔آج سے نہیں۔اس دن سے چاہتی ہوں اسے جس دن میں نے محسوس کیا تھا کہ میں جوان ہونے لگی ہوں، اور جوانی ایک ساتھی کا مطالبہ کرتی ہے۔‘‘
’’پھر مجھے کیا کہنے آئی ہے تو؟‘‘
’’یہ کہ میں نے اسے اپنے قابل سمجھناچھوڑ دیا ہے۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’مرد کی طاقت عورت کے جسم کیلئے ہی تو نہیں ہوتی۔وہ طاقتور اور خوبصورت آدمی ہے۔وہ جب گھوڑے پر بیٹھتا ہے تو مجھے اور زیادہ خوبصورت لگتا ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا اُسے؟‘‘
’’وہ بزدل نکلا۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’وہ لڑائیوں میں سے بھاگ کر آیا ہے۔ دونوں بار اسے خراش تک نہیں آئی تھی۔ مجھے شک ہے کہ وہ لڑے بغیر بھاگ آتا رہا ہے، وہ میرے پاس آیا تھا، میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ وہ مجھے بھول جائے۔ میں کسی بزدل کی بیوی نہیں بن سکتی۔ اس نے میرے باپ کو بتایا تو باپ نے مجھے کہا کہ میں تو اس کی بیوی بننے والی ہوں۔ میں نے باپ سے بھی کہہ دیا ہے کہ میں میدان سے بھاگے ہوئے کسی آدمی کی بیوی نہیں بنوں گی۔ میں نے باپ سے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے اس شخص کی بیوی بنانا ہے تو میری لاش اس کے حوالے کر دو۔‘‘
’’کیا اب تم میری بہادری آزمانا چاہتی ہو؟‘‘ … بلال نے پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’اور اس کا انعام دیکھ۔اتنا حسین جسم تجھے کہا ں ملے گا!‘‘
’’کہیں نہیں۔‘‘ … بلال نے کہا۔ … ’’لیکن میں ایک کام کا وعدہ نہیں کروں گا۔ہمارے سردار اور ہمارے قبیلوں کے جوشیلے جوان یہ اعلان کرکے مسلمانوں کے خلاف لڑنے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے سالار خالدبن ولید کا سر کاٹ لائیں گے مگر وہ خود کٹ جاتے ہیں یا بھاگ آتے ہیں۔میں ایسا وعدہ نہیں کروں گا۔خالد کا سر کون کاٹے گا،اس تک کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا۔‘‘
’’میں ایسا وعدہ نہیں لوں گی۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’میں تیرے منہ سے نہیں ، دوسروں سے سننا چاہتی ہوں کہ تو نے سب سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے اور مسلمانوں کو شکست دینے میں تیرا ہاتھ سب سے زیادہ ہے۔ میں یہ بھی وعدہ کرتی ہوں کہ تو مارا گیا تو میں کسی اور کی بیوی نہیں بنوں گی۔اپنے آپ کو ختم کر دوں گی۔‘‘
’’میں تجھے ایک بات بتا دیتا ہوں صابحہ!‘‘ … بلال نے کہا۔ … ’’میں تیری خاطر میدان میں نہیں اُتر رہا۔میرے اوپر اپنے باپ کے خون کا قرض ہے۔میں نے یہ قرض چکانا ہے۔ میری روح کو تسکین تب ہی ہوگی کہ میں ابنِ ولید کا سر اپنی برچھی پر لاؤں اور بنی تغلب کے بچے بچے کو دِکھاؤں۔ لیکن وہ بات کیوں زبان پر لاؤں جو ہاتھ سے نہ کر سکوں۔اس تک پہنچوں گا ضرور۔ راستے میں جو آئے گا اسے کاٹتا جاؤں گا۔ میں نے اپنا گھوڑا تبدیل کر لیا ہے۔ ہوا سے تیز ہے اور بڑا ہی طاقتور۔‘‘
’’میں تیری طاقت اور تیزی اور پھرتی دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘صابحہ نے کہا۔’’اگر ایسا ہو تو مجھے ساتھ لے چل۔مردوں کی طرح لڑوں گی لیکن اگر تو نے پیٹھ دکھائی تو میری تلوار تیری پیٹھ میں اتر جائے گی۔‘‘
’’میں تجھے مالِ غنیمت میں مسلمانوں کے حوالے نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ … بلال نے کہا۔ … ’’اور یہ بھی سن لے صابحہ!میرا باپ عقہ بن ابی عقہ یہی عہد کرکے گیا تھا کہ وہ خالد بن ولید کو خون میں نہلا کر آئے گا۔ مگر اس نے ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا۔ معلوم نہیں مسلمانوں کو کس نے بتادیا یہ شخص ابنِ ولید کا خون بہانے کا عہد کرکے آیا تھا۔ ابنِ ولید نے میرے باپ کو قیدیوں سے الگ کیا اور سب کے سامنے اپنی تلوار سے اس کا سر کاٹ دیا … میں تجھے بھی یہی کہتا ہوں کہ وہ بات نہ کہہ جو تو نہیں کر سکتی۔‘‘
’’اور میں تجھے ایک بات کہنا چاہتی ہوں جو تجھے اچھی نہیں لگے گی۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’اگر اب میرے قبیلے نے میدان ہار دیا تو میں اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کر دوں گی اور ان سے کہوں گی کہ میں اس آدمی کی بیوی بننا چاہتی ہوں جو سب سے زیادہ بہادر ہے۔‘‘
’’ہم اس کوشش میں اپنی جانیں لڑا دیں گے کہ مسلمان ہماری عورتوں تک نہ پہنچ سکیں۔‘‘ … بلال بن عقہ نے کہا۔ … ’’لیکن کوئی نہیں بتا سکتا کیا ہوگا۔ایک طرف تیرے دل میں مسلمانوں کی دشمنی ہے اور دوسری طرف تم اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کی باتیں کرتی ہو۔‘‘
’’میں یہ باتیں اس لئے کرتی ہوں کہ میرے دل میں کچھ شک اور کچھ شبہے پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’مجھے ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے مذہب مسلمانوں کا ہی سچا ہے۔ اتنی تھوڑی تعداد میں وہ فارس کے اور ہمارے تمام قبیلوں کے لشکروں کو ہر میدان میں شکست دیتے چلے آرہے ہیں تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ انہیں کسی غیبی طاقت کی مددحاصل ہے۔ اگر یسوع مسیحؑ خدا کے بیٹے ہوتے تو کیا خدااپنے بیٹے کی امت کو اس طرح ذلیل و خوار کرتا؟ مجھے بتا نے والا کوئی نہیں کہ مسلمان اسی خدا کو اﷲکہتے ہیں یا اﷲکوئی اور ہے۔‘‘
’’ایسی باتیں منہ سے نہ نکالو صابحہ!‘‘ … بلال نے جھنجھلاکر کہا۔ … ’’تم بہت بڑے سردار کی بیٹی ہو۔اپنے مذہب پر ایسا شک نہ کرو کہ اس کی سزا ہم سب کو ملے۔‘‘
’’میں مجبور ہوں ابنِ عقہ!‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’میری ذات سے کچھ آوازیں سی اٹھتی ہیں ۔کبھی خیال آتا ہے جیسے میں اپنے قبیلے میں اور اپنے گھر میں اجنبی ہوں۔ ایسے لگتا ہے میں کہیں اور کی رہنے والی ہوں … میں کچھ نہیں سمجھتی بلال … میں جو کہتی ہوں وہ کرو پھر میں تمہاری ہوں۔‘‘
’’ایساہی ہوگا صابحہ!‘‘ … بلال نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا۔ … ’’میں اگر زندہ واپس آیا تو فاتح ہو کر آؤں گا۔اگر مارا گیا تو واپس آنے والوں سے پوچھ لیناکہ میں نے مرنے سے پہلے کتنے مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔‘‘
بلال ثنّی کی رات کی تاریکی میں غائب ہو گیا۔ صابحہ بنتِ ربیعہ بن بجیر وہیں کھڑی بلال کو سائے کی طرح رات کی تاریکی میں تحلیل ہوتا دیکھتی رہی۔
…………bnb…………

تین یا چار راتیں ہی گزری تھیں، ثنّی کی خیمہ گاہ اور عیسائیوں کی بستیاں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں،رمضان ۱۲ ھ کا تیسرا یا چوتھا چاند کبھی کا افق میں اُتر چکا تھا۔انسانوں کا ایک سیلاب ثنّی کی طرف بڑھا آرہا تھا۔ یہ مدینہ کے مجاہدین کی فوج تھی جو سیلاب کہلانے کے قابل نہیں تھی کیونکہ ان کی تعداد پندرہ یا سولہ ہزار کے درمیان تھی اور دشمن کی نفری تین چار گنا تھی۔ خالدؓ نے ثنّی پر بھی مضیح والا داؤ آزمانے کا فیصلہ کیا تھا۔  انہوں نے اپنے مجاہدین سے کہا تھا کہ دشمن کو اور اپنے آپ کو بھی مہلت دینا خطرناک ہوگا، اﷲہمارے ساتھ ہے۔ فتح اور شکست اسی کے ہاتھ میں ہے۔ہم اسی کی ذاتِ باری کے نام پر کفر کی آگ میں کودے ہیں۔ خالدؓ نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا۔ مجاہدین کے انداز میں جوش وخروش پہلے والا ہی تھا،جسموں میں البتہ وہ دم خم نہیں رہا تھا،لیکن عزم روزِ اول کی طرح زندہ و پائندہ تھا۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ پندرہ سولہ ہزار کے لشکر سے دشمن پر شب خون مارنا اس لیے خطرناک ہوتا ہے کہ خاموشی برقرار نہیں رکھی جا سکتی اور دشمن قبل از وقت بیدار ہو جاتا ہے۔ اس میں دشمن کی گھات کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ خالدؓ نے ان خطروں سے نمٹنے کایہ اہتمام کر رکھاتھا کہ پہلے شب خون کی طرح اب کے بھی انہوں نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ سالار بھی وہی تھے جنہیں پہلے شب خون کا تجربہ حاصل ہو چکا تھا۔
اب جاسوسوں نے انہیں دشمن کے قیام کی جو اطلاعیں دی تھیں ان کے مطابق مدائن کی فوج اور عیسائیوں کا لشکر ایک ہی خیمہ گاہ میں نہیں تھے ۔خیمہ گاہ میں صرف مدائن کی فوج تھی اور عیسائی اپنی بستیوں میں تھے یہ بنی تغلب کی بستیاں تھیں۔جاسوسوں نے ان بستیوں کے محل وقوع بتا دیئے تھے ۔خالدؓنے اپنی فوج کے ایک حصے کی کمان سالار قعقاع کو اور دوسرے حصے کی کمان سالار ابو لیلیٰ کو دی تھی۔تیسرا حصہ اپنی کمان میں رکھا تھا۔انہوں نے قعقاع اور ابو لیلیٰ کو عیسائی قبیلے بنی تغلب کی بستیوں پر شب خون مارنا تھا جو بستیوں کی نسبت ذرا قریب تھی۔تینوں حصوں کو بیک وقت حملہ کرنا تھا۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ خالدؓنے حکم دیاتھا کہ کسی عورت اور کسی بچے پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔
کفار کو مضیح کے مقام پر مسلمانوں کے ایک شب خون کا بڑا ہی تلخ تجربہ ہو چکا تھا۔انہوں نے ثنّی کی خیمہ گاہ کے اردگرد پہرے کا بڑا سخت انتظام کر رکھا تھا۔گشتی پہرے کا انتظام بھی تھا۔چار چار گھوڑ سوار خیمہ گاہ سے دور دور تک گشت کرتے تھے۔مسلمان جاسوسوں نے خالدؓ کو اس انتظام کی بھی اطلاع دے دی تھی۔خالدؓنے اس انتظام کو بیکار کرنے کا بندوبست کر دیا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages