Featured Post

Khalid001

17 September 2019

Khalid085


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  85
خنافس کے لشکر پر حملہ کرنے کیلئے خالدؓ نے سالار ابو لیلیٰ کو اس ہدایت کے ساتھ بھیجا کہ خنافس اور حُصید پر بیک وقت حملے ہوں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔وجہ یہ تھی کہ خنافس حُصید کی نسبت دور تھا۔ابولیلیٰ اپنی پانچ ہزار فوج کو لے کر چلے تو بہت تیز لیکن بر وقت نہ پہنچ سکے۔حُصید پر قعقاع نے پہلے حملہ کر دیا۔تاخیر کا نقصان یہ ہونا تھا کہ دشمن بیدار ہوتا لیکن تاخیر بھی سود مند ثابت ہوئی۔وہ اس طرح کہ ابو لیلیٰ کے پہنچنے سے ذرا ہی پہلے خنافس کے لشکر کو اطلاع مل گئی کہ مسلمانوں نے روزبہ اور زرمہر کو مار ڈالا ہے اور لشکر بُری طرح سے کٹ رہا ہے۔
ابو لیلیٰ جب دشمن کے سامنے گئے تو دشمن کو لڑائی کیلئے تیار پایا۔دشمن کی تعداد کئی گنا زیادہ تھی ۔ابو لیلیٰ کو سوچ سمجھ کرآگے بڑھنا تھا۔وہ ہلّہ نہیں بول سکتے تھے۔انہیں چالوں کی جنگ لڑنی تھی۔
اس انتظار میں کہ دشمن حملے میں پہل کرے ،حُصید سے بھاگے ہوئے سپاہی خنافس کی خیمہ گاہ میں پہنچنے لگے ۔سب سے پہلے گھوڑ سوار آئے ۔ان میں سے بہت زخمی تھے۔یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بلا وجہ نہیں بھاگے ،انہوں نے مسلمانوں کے لشکر کی تعداد اور ان کے لڑنے کے قہر و غضب کو مبالغے سے بیان کیااور ایسی دہشت پھیلائی کہ خنافس کے لشکر کا حوصلہ لڑے بغیر ہی ٹوٹ گیا۔بھگوڑوں نے یہ خبر بھی سنائی کہ خالدؓاپنے لشکر کے ساتھ آگیا ہے۔
خنافس والے لشکر کی کمان اب ایک اور آتش پرست سالار مہبوذان کے پاس تھی۔زیادہ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مہبوذان اور دیگر تمام سالاروں کو یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمان قلعوں میں بند ہیں اور ان کی نفری بہت تھوڑی ہے اور یہ بھی کہ خالد جا چکا ہے۔لہٰذا قلعوں پر حملے کرکے مسلمانوں کو ختم کر دینا ہے۔اب صورتِ حال بالکل ہی بدل گئی تھی۔ مدائن کے سالار مہبوذان نے روزبہ کے لشکر کی حالت سنی اور اپنے لشکر کی ذہنی حالت دیکھی اور یہ سنا کہ خالدؓاپنے لشکر کو لے کر آگئے ہیں تو اس نے لڑائی کا ارادہ ترک کر دیا اور اپنے لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا۔
ابو لیلیٰ نے بغیر لڑے ہی فتح حاصل کر لی۔اس نے اپنے ایک دوآدمی مہبوذان کے لشکر کے پیچھے بھیجے کہ وہ چھپتے چھپاتے جائیں اور دیکھیں کہ یہ لشکر کہاں جاتا ہے۔
…………bnb…………

خالدؓعین التمر میں تھے۔ انہیں پہلی اطلاع یہ ملی کہ حُصیدکا لشکر بھاگ گیا ہے۔بہت دیر بعد ابولیلیٰ کا بھیجا ہواقاصد خالدؓ کے پاس پہنچا اور یہ خبر پہنچائی کہ خنافس والا لشکر بغیر لڑے پسپا ہو گیا ہے اور مضیح پہنچ کر عیسائیوں کے ساتھ جا ملا ہے۔وہاں جوعیسائی عربوں کالشکر جمع تھا ،اس کی کمان ھذیل بن عمران کے پا س تھی۔
اس طرح مضیح میں دشمن کا بہت بڑا لشکر جمع ہوگیا۔خالدؓ سوچ میں پڑ گئے۔وہ آتش پرستوں کے مرکزی مقام مدائن پر حملہ کر سکتے تھے۔مدائن فارس کی جنگی طاقت کا دل تھا۔خالدؓ نے سوچا کہ وہ اس دل میں خنجر اتار سکتے ہیں یا نہیں ۔مشہور مؤرخ طبری لکھتا ہے کہ خالدؓ مدائن پر حملہ کرتے تو فتح کا امکان تھا ،لیکن ان پر عقب سے یہ لشکر حملہ کر سکتا تھا جو مضیح میں جمع ہو گیا تھا۔ خالدؓنے اپنے سالاروں سے مشورہ کیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ پہلے مضیح کی اجتماع گاہ کو ختم کیا جائے۔
یہ فیصلہ اور ارادہ کر لیناکہ اس لشکر کو ختم کیا جائے ،آسان تھا عملاًاتنے بڑے لشکر کو اتنی تھوڑی نفری سے ختم کرنا کہاں تک ممکن تھا۔یہ یقینی نہیں تھا مگر خالدؓ اسے یقینی بنانے پر تُلے ہوئے تھے۔ وہ نا ممکن کو ممکن کر دکھانے والے جرنیل تھے۔ انہوں نے ایسی اسکیم بنائی جسے آج کے جنگی مبصر بے مثال کہتے ہیں۔
’’میرے رفیقو!‘‘ … خالدؓ نے اپنے سالاروں، نائب سالاروں اور کمانداروں کو بلا کر کہا۔ … ’’خدا کی قسم!تم نے جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں یہ انسانی سطح سے بالاتر تھیں۔ تم نے پانچ گُنا قوی دشمن کو اس سے بھی زیادہ نفری کو جس طرح کاٹا اور بھگایا ہے ،یہ تمہاری مافوق الفطرت طاقت تھی۔ یہ ایمان کی قوت ہے۔تمہیں اس کا اجر خدا دے گا … اب میں تمہیں ایک بڑے ہی کٹھن امتحان میں ڈال رہا ہوں۔‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … سالار قعقاع بن عمرو نے خالدؓکو ٹوک دیا۔ … ’’کیا اتنی باتوں کو ضروری سمجھتا ہے؟ ربّ کعبہ کی قسم! ہم اس اﷲکے حکم سے لڑ رہے ہیں جس نے تجھے ہمارا امیر بنایا ہے۔حکم دے کہ ہم آگ میں کود جائیں پھر ہمارے جسموں کو جلتا ہوا دیکھ۔‘‘
’’تجھ پر خدا کی رحمت ابنِ عمرو!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’میں نے یہ باتیں اس لئے ضروری سمجھی تھیں کہ میں تمہیں آگ میں کودنے کا حکم دینے والا ہوں۔میں ڈرتا ہوں کہ کوئی مجاہد یہ نہ کہے کہ ولید کے بیٹے نے بڑا ظالم حکم دے دیا تھا … میرے رفیقو! ہمیں جان کی بازی لگانی ہے ۔تمام مجاہدین سے کہو کہ تمہارے صبر اور استقلال کا ایک اور امتحان باقی ہے اور اسے اﷲکا حکم سمجھنا۔‘‘
خالدؓ نے اپنی جو سکیم سب کو بتائی تھی وہ یہ تھی کہ دشمن پر رات کے وقت تین اطراف سے حملہ کرنا ہے اور حملے کے مقام تک اتنی خاموشی سے پہنچنا ہے کہ دشمن کو خبر نہ ہونے پائے۔خالدؓ نے اپنی تمام تر فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ہر حصے میں تقریباً پانچ ہزار سوار اور پیادے تھے۔یہ تینوں حصے ایک جگہ نہیں بلکہ ایک دوسرے سے دور مختلف جگہوں پر تھے۔ ……حُصید ،خنافس اور عین التمر…… ان سب کو اپنے اپنے مقام سے مقررہ راستوں سے مضیح تک پہنچنا تھا۔ خالدؓ نے حملے کی رات بھی مقرر کر دی تھی اور مقام بھی جومضیح میں دشمن کی اجتما گاہ سے کچھ دور تھا۔تینوں حصوں کو رات کے وقت اس مقام پر پہنچنا تھا۔مضیح میں دشمن کا جو لشکر خیمہ زن تھا ،اس کی تعداد کے متعلق مؤرخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دشمن کی تعداد ساٹھ اور ستّر ہزار کے درمیان تھی۔ اس پر حملہ کرنے والے مجاہدین کی تعداد پندرہ ہزار تھی۔
…………bnb…………

اس قسم کی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانا نا ممکن کی حد تک مشکل تھا۔پانچ پانچ ہزار کے لشکر کیلئے سفر کے دوران خاموشی برقرار رکھنا آسان کام نہیں تھا لیکن بڑی سختی سے خاموشی برقرار رکھنی تھی۔دوسری مشکل خالدؓ کیلئے تھی۔وہ خود عین التمر میں تھے جہاں ان کی فوج کا صرف ایک حصہ تھا۔دوسرے دو حصوں کو حُصید اور خنافس سے چلنا تھا۔انہیں قاصدوں کے ذریعے اپنے رابطے میں رکھنا تھا تاکہ حملے والے مقام پر بروقت پہنچ سکیں۔
جو رات مقرر کی گئی تھی وہ نومبر ۶۳۳ء کے پہلے (شعبان ۱۲ ہجری کے چوتھے) ہفتے کی ایک رات تھی۔
خالدؓکے مجاہدین کے تینوں حصے اپنے اپنے مقام سے چل پڑے۔گھوڑوں کے منہ باندھ دیئے گئے تھے۔تینوں حصوں نے یہ انتظام کیا تھا کہ چندایک آدمی لشکر کے آگے اور دائیں بائیں جا رہے تھے۔ان کا کام یہ تھا کہ کوئی بھی آدمی رستے میں مل جائے اُسے پکڑ لیں تاکہ وہ دشمن تک خبر نہ پہنچا سکے۔دشمن کے بیدار ہوجانے کی صورت میں مجاہدین کی کامیابی مخدوش ہو جاتی اور دشمن گھات بھی لگا سکتا تھا۔
رات کے چلے ہوئے اُسی رات نہیں پہنچ سکتے تھے۔دن کو لشکر کو چھپا کر رکھا گیا۔دیکھ بھال والے آدمی دور دور پھیلے رہے۔خالدؓ نے اپنے جاسوس دشمن کی اجتماع گاہ مضیح تک بھیج رکھے تھے۔وہ دشمن کے متعلق اطلاعیں دے رہے تھے۔ان کی آخری اطلاع یہ تھی کہ دشمن نے ابھی تک کوئی ایسی حرکت نہیں کی جس سے پتہ چلے کہ وہ کسی طرف حملہ کیلئے کوچ کرنے والا ہے۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ دشمن کے سالار اپنے سالارِ اعلیٰ بہمن جاذویہ کے اگلے حکم کا انتظار کر رہے تھے ۔خالدؓ کے آجانے سے ان کیلئے صورتِ حال بدل گئی تھی۔اس کے مطابق انہوں نے اپنی ساری اسکیم بدلنی تھی۔
…………bnb…………

اس رات بھی مضیح کی خیمہ گاہ میں دشمن کا لشکر گہری نیند سو رہا تھا جس رات خالدؓ کی فوج کے تینوں حصے بخیرو خوبی سکیم کے عین مطابق مضیح کے قریب مکمل خاموشی سے پہنچ گئے تھے۔بعض مؤرخوں نے اسے محض ایک معجزہ کہا ہے اور کچھ اسے خالدؓ کی دی ہوئی ٹریننگ اور ان کے پیدا کیے ہوئے ڈسپلن کا کرشمہ کہتے ہیں۔
آدھی رات سے ذرا بعد دشمن پر قہر ٹوٹ پڑا۔لشکر سویا ہوا تھا۔مجاہدین نے جگہ جگہ آگ لگا دی تھی۔جس کی روشنی میں اپنے پرائے کی پہچان آسان ہو گئی تھی۔مدائن کے اور عیسائی قبیلوں کے اس لشکر کو سنبھلنے اور تیار ہونے کی مہلت ہی نہ ملی۔مسلمان نعرے لگا رہے تھے۔زخمیوں کی چیخ و پکار اس دہشت میں اضافہ کر رہی تھی،جو دشمن کے لشکر پر طاری ہو گئی تھی۔
’’مدینہ کے مجاہدو!‘‘ … خالدؓ کے حکم سے یہ للکاربڑی بلند تھی۔ … ’’کسی کو زندہ نہ رہنے دو۔دشمن کا صفایا کردو۔‘‘
دشمن کے گھوڑے جہاں بندھے تھے، وہیں بندھے رہے۔ان کے سوار ان تک پہنچنے سے پہلے ہی کٹ رہے تھے۔مسلمانوں نے رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھایا تھا۔اسی اندھیرے سے دشمن نے بھی فائدہ اٹھایا۔ کئی آتش پرست اور عیسائی زندہ نکل گئے۔ان کی اجتماع گاہ ڈیڑھ دو میل کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔حملہ تین طرف سے کیا گیا تھا۔
صبح کا اجالا صاف ہوا تو دشمن کی اتنی وسیع و عریض خیمہ گاہ میں کوئی بھی لشکری زندہ نہیں تھا۔زندہ وہی رہے تھے جو مسلمانوں کے اس پھندے سے نکل گئے تھے۔منظر بڑا ہی ہیبت ناک تھا۔ جدھر نظر جاتی تھی سوائے لاشوں کے کچھ نظر نہ آتا تھا۔ لاشوں کے اوپر لاشیں پڑی تھیں۔ زخمی تڑپ تڑپ کر بے ہوش ہو رہے تھے۔ فضاء خون اور موت کی بُو سے بوجھل تھی۔
سالاروں کے خیمے دیکھے گئے۔ان میں سامان وغیرہ پڑا تھا۔شراب کی صراحیاں رکھی تھیں۔ہر چیز ایسے پڑی تھی جیسے ان شاہانہ خیموں کے مکین ابھی ابھی نکل کے گئے ہیں اور ابھی واپس آجائیں گے۔کوئی سالار نظر نہ آیا۔وہ زندہ نکل گئے تھے۔سالار مہبوذان بھی نکل گیا تھا اور عیسائیوں کا سردار اور سالار ھذیل بن عمران بھی زندہ نکل گیا تھا۔
جاسوسوں کی اطلاعوں کے مطابق آتش پرستوں اور عیسائیوں کے سردار ذُومیل چلے گئے تھے جہاں عیسائی قبائل کا دوسرا حصہ خیمہ زن تھا۔وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ابھی تیاری ہی کر رہا تھا۔وہ جس لشکر کا حصہ تھا،اس کے تین حصے تباہ ہو چکے تھے ۔ذومیل والے اس لشکر کا سردار ربیعہ بن بجیر تھا۔
مالِ غنیمت میں مسلمانوں کو جو سب سے زیادہ قیمتی اور کارآمد چیز ملی وہ ہزاروں گھوڑے تھے جو انہیں زینوں سمیت مل گئے تھے۔
اس سے آگے ثنّی اور ذومیل دو مقامات تھے جہاں بنی تغلب ،نمر اور ایاد کے عیسائی مسلمانوں کے خلاف خیمہ زن تھے ۔وہ بھی مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے ارادے سے گھروں سے نکلے تھے۔عیسائیوں کے سردار عقہ بن ابی عقہ کا بیٹا بلال بن عقہ بھی کہیں آگے تھا۔وہ اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینے کیلئے عیسائی لشکر کے ساتھ آیا تھا۔
’’خدا کی قسم!‘‘ … خالدؓ نے مضیح کی معجزہ نما فتح کے بعد اپنے سالاروں سے کہا۔ … ’’میں دومۃ الجندل سے قسم کھا کر چلا تھا کہ بنی تغلب پر اس طرح جھپٹوں گا کہ پھر وہ کبھی اسلام کے خلاف اٹھنے کے قابل نہیں رہیں گے … بنی تغلب ابھی آگے ہیں،ان پر جھپٹنے کی تیاری کرو۔‘‘
مضیح کی بستی پر بھی مسلمانوں نے چھاپہ مارا تھا۔یہ عیسائیوں کی بستی تھی۔ وہاں دو ایسے آدمیوں کو مسلمانوں نے قتل کر دیا جو مسلمان تھے۔انہوں نے کسی وقت مدینہ میں آکر اسلام قبول کیا اور واپس اپنی بستی میں چلے گئے تھے۔ انہیں مجاہدین نے انجانے میں عیسائی سمجھ کر مارڈالا۔
خالدؓ نے اتنی بڑی فتح کی خبر خلیفۃ المسلمین حضرت ابو بکر صدیقؓ کو مدینہ بھیجی اور پیغام میں یہ اطلاع بھی دے دی کہ مجاہدین کے ہاتھوں عیسائیوں کی ایک بستی میں دو مسلما ن بھی غلطی سے مارے گئے ہیں،خلیفۃ المسلمینؓ نے فتح کی خبر کے ساتھ ان دو مسلمانوں کے قتل کی خبر بھی سب کو سنا دی۔
’’خالدؓ کو اس کی سزا ملنی چاہیے۔‘‘ … عمرؓ نے کہا۔ … ’’مسلمان کا خون معاف نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
’’جو لوگ کفار کے ساتھ رہتے ہیں وہ اس صورتِ حال میں جو وہاں پیدا ہو گئی تھی،مارے جا سکتے ہیں۔‘‘ … خلیفۃ المسلمینؓ نے کہا۔
’’اس قتل کا ذمہ دار خالد ہے۔‘‘ … عمرؓ نے اصرار کیا۔ … ’’اسے سزا ملنی چاہیے۔‘‘
’’خلافتِ مدینہ کی طرف سے دونوں مقتولین کے پسماندگان کو خون بہا ادا کیا جائے گا۔‘‘ … ابو بکر صدیقؓ نے فیصلہ سنایا۔ … ’’اور یہ خون بہا اسی قاصدکے ساتھ بھیج دیا جائے جو فتح کی خبر لایا ہے۔‘‘
عمرؓ نے پھر سزا کی بات کی۔
’’عمر!‘‘ … خلیفۃ المسلمینؓ نے گرج کر کہا۔ … ’’خالدواپس نہیں آئے گا،میں اس شمشیر کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اﷲنے کفار کے خلاف بے نیام کیا ہے۔‘‘ (بحوالہ طبری، ابنِ ہشام، ابو سعید، حسین ہیکل)
…………bnb…………

مضیح کے میدانِ جنگ میں ہڈیاں اور کھوپڑیاں رہ گئی تھیں۔جو دور دور تک بکھری ہوئی تھیں۔گدّھ، گیدڑ ، بھیڑیئے ،صحرائی لومڑیاں،گرگٹ،سانپ، اور حشرات الارض ان ہڈیوں سے گوشت کھا گئے تھے۔یہ آتش پرستوں کی اس جنگی قوت کی ہڈیاں تھیں،جس نے عرب عراق اور شام پر دہشت طاری کر رکھی تھی۔
ان میں ان عیسائیوں کی ہڈیاں بھی شامل تھیں جو فارس کی جنگی قوت میں اضافہ کرنے آئے تھے۔یہ عیسائی اپنے سرداروں کے خون کا بدلہ لینے آئے تھے ۔اسے انہوں نے مذہبی جنگ بھی سمجھا تھا،وہ اسلام کے راستے میں حائل ہونے آئے تھے۔
ان ہڈیوں میں ان ہاتھوں کی ہڈیاں بھی تھیں جنہوں نے حق پرستوں کو کاٹنے کیلئے نیاموں سے تلواریں نکالی تھیں۔ان ہاتھوں میں برچھیاں بھی تھیں۔ان ہاتھوں میں گھوڑوں کی باگیں بھی تھیں۔وہ اس خوش فہمی میں مبتلاہو کر آئے تھے کہ ارض و سما کی طاقت انہی کے ہاتھوں میں ہے اور وہ سمجھتے تھے کہ جب وہ گھوڑوں پر سوار ہوتے ہیں تو ان کے نیچے زمین کانپتی ہے مگر اب وہ زمین جو کبھی کسی انسان اور اس کے گھوڑے کے بوجھ اور خوف سے نہیں کانپی،ان کے نیچے سے نکل گئی تھی،اور زمین نے ان کے مُردہ جسموں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
زمین اور حق پرستوں کے بوجھ اور رعب سے بھی نہیں کانپتی تھی۔اﷲکا فرمان قرآن کی صورت میں مکمل ہو چکا تھا اور اﷲکو وحدہٗ لا شریک ماننے والے اﷲکے اس فرمان سے آگاہ تھے کہ گردن کو کتنا ہی اکڑا لے، سر کو جتنا اونچا کرلے ، تو پہاڑوں سے اونچا نہیں ہو سکے گا، اور تو کتنے ہی رعب اور دبدبے سے کیوں نہ چلے، زمیں کو تُو نہیں پھاڑ سکے گا۔
حق پرستوں کو اﷲ کا یہ وعدہ بھی یاد تھا کہ تم میں دس ایمان والے ہوئے تو ایک سو کفار پر غالب آئیں گے۔یہ ایمان کی ہی قوت تھی کہ دس ایمان والے ایک سو پر اور بیس دوسو پر غالب آگئے تھے۔
’’سالارِ اعلیٰ ابنِ ولید کہے نہ کہے، کیا تم خود نہیں جانتے؟‘‘ … مسلمانوں کے سالار ابو لیلیٰ اپنے کمانداروں اور چند ایک سپاہیوں کو جو ان کےاردگرد اکٹھے ہو گئے تھے، کہہ رہے تھے۔ … ’’اگر تم سے ایمان لے لیا جائے تو تمہارے پاس گوشت اور ہڈیوں کے جسم رہ جائیں گے … کیا انجام ہو گا ان جسموں کا؟ … وہ دیکھو۔وہ کھوپڑیاں دیکھو۔ان کے اوپر کا گوشت کھایا جا چکا ہے۔ان کے اندر مغز موجود ہیں مگر یہ مغز اب سوچنے کے قابل نہیں رہے۔ ان میں کیڑے داخل ہو چکے ہیں اور ان کے مغز کیڑوں کی خوراک بن رہے ہیں۔‘‘
وہ ذرا اونچی جگہ کھڑے تھے ۔سب نے اس وسیع میدان کی طرف دیکھاجہاں کسریٰ کی فوج کا اور عیسائیوں کے لشکر کا کیمپ تھا۔ تین راتیں پہلے یہاں گہما گہمی تھی۔ سپاہی ناچ رہے تھے،اس کے سالار اور سردار خیموں میں شراب پی رہے تھے۔ مسلمانوں کا شب خون ان پر قیامت بن کر ٹوٹا تھا۔
’’…اور اب دیکھو!‘‘ … سالار قعقاع بن عمرو نے اپنے ماتحتوں اور سپاہیوں سے کہہ رہے تھے۔ … ’’یہ ان کا انجام ہے جنہوں نے اﷲکو نہ مانا،محمدﷺ کو اﷲکا رسول نہ مانا،انہوں نے اپنے خدا بنائے ہوئے تھے۔ان کے سردار خداؤں کے ایلچی بنے ہوئے تھے۔فارس کے بادشاہ اﷲکے بندوں کو اپنے بندے سجھتے تھے۔سالارِ اعلیٰ ابنِ ولید نے کہا ہے کہ مجاہدین کوبتاؤکہ تمہیں اﷲدیکھ رہا ہے،اور وہی ہے اجر دینے والا، اور اسی نے تمہارے جسموں میں اتنی طاقت بھر دی ہے کہ آرام کا ایک پل نہیں ملتا ۔تمہارے جسم لڑ رہے ہوتے ہیں یا کوچ کر رہے ہوتے ہیں اور اگلے روز اگلی لڑائی کیلئے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔یہ طاقت جسمانی نہیں، یہ روح کی طاقت ہے اور روح کو ایمان تقویت دیتا ہے۔‘‘
’’سالارِ اعلیٰ نے کہا ہے کہ سب سے کہہ دو کہ تم زمین کی ملکیت پر لڑنے نہیں آئے، تم کفر پر غالب آنے کیلئے لڑ رہے ہو۔‘‘ … سالار زبرقان اپنے دستوں کے کمانداروں سے کہہ رہے تھے۔ … ’’ابنِ ولید نے کہاہے کہ ان جسموں کو ایمان سے اور پاک عزم سے خالی کردوتو ابھی گر پڑو گے اور جسم روحوں سے خالی ہو جائیں گے۔جسم تو دو لڑائیاں لڑ کرہی ختم ہوگئے تھے، اب تمہاری روحیں لڑ رہی ہیں۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages