Featured Post

Khalid001

17 September 2019

Khalid087


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  87
ثنّی سے کچھ دور خالدؓ کی فوج پہلے سے طے کیے ہوئے منصوبے کے مطابق رُک گئی۔اسے آگے کی اطلاع کے مطابق آگے بڑھنا تھا۔چند ایک شتر سوار جو مثنیٰ بن حارثہ کے آزمائے ہوئے چھاپہ مار تھے، آگے چلے گئے تھے۔وہ اونٹوں کے قافلے کی صورت میں جا رہے تھے۔وہ ثنّی کی خیمہ گاہ سے ابھی دور ہی تھے کہ انہیں کسی نے للکارا۔وہ رُک گئے اور اپنی طرف آتے ہوئے گھوڑوں کے ٹاپ سننے لگے۔چار گھوڑے ان کے پاس آرُکے۔
’’کون ہو تم لوگ؟‘‘ … ایک گھوڑ سوار نے ان سے پوچھا۔ … ’’مسافر ہیں۔‘‘ … ایک شتر سوار نے ڈرے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ اور کسی بستی کا نام لے کر کہا کہ وہاں جا رہے ہیں۔ شتر سوار آٹھ دس تھے، ان میں سے ایک تو گھوڑ سواروں کو بتا رہا تھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں۔ دوسرے شتر سوار اونٹوں کو آہستہ آہستہ حرکت دیتے رہے حتیٰ کہ چار گھوڑ سوار ان کے نرغے میں آگئے۔
’’اُترو اونٹوں سے!‘‘ … ایک گھوڑ سوار نے بڑے رعب سے حکم دیا۔
چار شتر سوار اونٹوں سے اس طرح اُترے کہ اوپر سے ایک ایک گھوڑ سوار پر جھپٹے۔ان کے ہاتھوں میں خنجر تھے جو گھوڑ سواروں کے جسموں میں اُتر گئے۔انہیں گھوڑوں سے گرا کر ختم کر دیا گیا۔چار مجاہدین چاروں گھوڑوں پر سوار ہو گئے اور دشمن کی خیمہ گاہ تک چلے گئے۔ایک سنتری انہیں اپنی سوار گشت سمجھ کر ان کے قریب آیا۔اندھیرے میں دو گھوڑ سوار اترے اور اس سنتری کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا۔
انہوں نے کئی اور سنتریوں کو خاموشی سے ختم کیا اور واپس آگئے۔ خالدؓبے صبری سے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ جو اونٹوں پر گئے تھے ،چار گھوڑے بھی ساتھ لے آئے۔ انہوں نے خالدؓکو بتایا کہ راستہ صاف ہے۔
خالدؓ نے سرگوشیوں میں قاصدوں کو دوسرے سالاروں کی طرف اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیا کہ ہلہ بول دو۔ اس وقت تک گھوڑوں کے منہ بندھے ہوئے تھے وہ ہنہنا نہیں سکتے تھے، سواروں نے سالاروں کے کہنے پر گھوڑوں کے منہ کھول دیئے۔ان کے ہدف دور نہیں تھے،کچھ دور تک گھوڑے پیادوں کی رفتار کے ساتھ آہستہ چلائے گئے پھر رفتار تیز کر دی گئی اور پیادوں کو دوڑنا پڑا۔
بستیوں کے قریب جا کر مشعلیں جلالی گئیں۔ خالدؓنے اپنے دستوں کو اتنی تیزی سے آگے نہ بڑھایا۔ انہیں انہوں نے شب خون کی ترتیب میں پھیلا دیا تھا۔
یہ ایسی پیش قدمی تھی جس میں کوئی نعرہ نہ لگایا گیا، نہ کسی کو للکارا گیا۔
…………bnb…………

نومبر ۶۳۳ء کے دوسرے اور رمضان المبارک کی ۱۲ ہجری کے پہلے ہفتے کی وہ رات بہت سرد تھی۔ بنی تغلب کی بستیوں میں اور فارس کی فوج کی خیمہ گاہ میں جو وسیع وعریض تھی، لوگ گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے۔کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ کون کیا خواب دیکھ رہا تھا۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر ایک کے ذہن پر مسلمانوں کی فوج اور اس کی دہشت سوار ہو گی۔لوگ اسی فوج کی باتیں کرتے سوئے تھے۔
اچانک بستیوں کے گھروں کے دروازے ٹوٹنے لگے۔گلیوں میں گھوڑے دوڑنے لگے۔مجاہدین نے مکانوں سے چارپائیاں اور لکڑیاں باہر لاکر جگہ جگہ ان کے ڈھیر لگائے اور آگ لگادی تاکہ بستیاں روشن ہوجائیں۔عورتوں اور بچوں کی چیخ و پکار نے سرد رات کو ہلا کر رکھ دیا۔
’’عورتیں اپنے بچوں کے ساتھ باہر آکر ایک طرف کھڑی ہو جائیں۔‘‘ … یہ مجاہدین کی للکار تھی جو بار بار سنائی دیتی تھی۔
بنی تغلب کے آدمی کٹ رہے تھے ۔خالدؓکا حکم تھا کہ بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے سوا کسی آدمی کو زندہ نہ رہنے دیا جائے۔
ان لوگوں کو وہ لشکر بچا سکتا تھا جو تھوڑی ہی دور خیمہ گاہ میں پڑ اتھا۔بستیوں کا واویلا لشکر تک پہنچا لیکن وہاں نیند اور سردی نے سب کو بے ہوش ساکر رکھا تھا۔لشکر کو جگانے کیلئے کوئی سنتری زندہ نہ تھا۔
آخر خیمہ گاہ میں کچھ لوگ بیدار ہو گئے ۔انہیں ارد گرد کی بستیوں میں روشنی نظر آئی جیسے آگ لگی ہوئی ہو۔شور بھی سنائی دیا۔وہ ابھی سمجھنے بھی نہ پائے تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ویسی ہی ہڑ بونگ خیمہ گاہ کے ایک گوشے میں بپا ہوئی جو آندھی کی مانند بڑھتی اور پھیلتی گئی۔کچھ خیموں کو آگ لگ گئی۔خالدؓ کے دستوں نے آتش پرستوں کی فوج کو کاٹنا شروع کر دیا تھا۔یہ فو ج اب کٹنے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔
دشمن کے بہت سے سپاہی خیموں میں دبک گئے تھے۔ان خیموں کی رسیاں مسلمانوں نے کاٹ دیں۔خیمے سپاہیوں کیلئے جال اور پھندے بن گئے۔مسلمانوں نے انہیں بر چھیوں سے ختم کر دیا۔مسلمانوں کے نعرے اور ان کی للکار بڑی دہشت ناک تھی۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کو اتنے وسیع پیمانے پر شب خون مارنے کا دوسرا تجربہ ہوا۔اب انہوں نے یہ انتظام کر دیا تھا کہ کسی کو بھاگنے نہ دیا جائے۔بستیوں اور خیمہ گاہ کے اردگرد مثنیٰ بن حارثہ کے گھوڑ سوار گھوم پھر رہے تھے۔کوئی آدمی بھاگ کے جاتا نظر آتا تو اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا جاتا اور برچھی یا تلوار سے اسے ختم کر دیا جاتا۔اگر کوئی عورت بھاگتی نظر آتی تو اسے پکڑ کر اس جگہ پہنچا دیتے جہاں عورتوں اور بچوں جو اکٹھا کیا جارہا تھا۔
جوں جوں رات گزرتی جا رہی تھی۔بنی تغلب کی بستیوں میں اور مدائن کی فوج کی خیمہ گاہ میں شوروغوغا اور واویلا کم ہوتا جا رہا تھااور زخمیوں کی کرب ناک آوازیں بلند ہوتی جا رہی تھیں۔مسلمانوں کو تباہ برباد کرنے کیلئے جو نکلے تھے ، ان کی لاشیں تھنڈی ہو رہی تھیں اور ان کے زخمی پیاسے مر رہے تھے اور ان کی بیٹیاں مسلمانوں کے قبضے میں تھیں۔
صبح طلوع ہوئی تو اُجالے نے بڑا ہی بھیانک اور عبرتناک منظر دکھایا۔ لاشوں کے سوا کچھ نظرنہیں آتا تھا۔لاشیں خون سے نہائی ہوئی تھیں۔یہ فتح ایسی تھی جیسے کسریٰ کے بازو کاٹ دیئے گئے ہوں۔ خیمہ گاہ اور بستیاں موت کی بستیاں بن گئی تھیں۔جن گھوڑوں پر ان کفارکو نازتھا۔وہ گھوڑے وہیں بندھے ہوئے تھے جہاں گزشتہ شام انہیں باندھا گیا تھا۔
عورتیں الگ بیٹھی رو رہی تھیں۔بچے بلبلا رہے تھے۔خالدؓ نے حکم دیا کہ سب سے پہلے عورتوں اور بچوں کو کھانا دیا جائے۔
مجاہدین مالِ غنیمت لا لا کر ایک جگہ جمع کر رہے تھے۔سالار ابو لیلیٰ کے پاس ایک بہت ہی حسین لڑکی کو لایاگیا۔اس نے درخواست کی تھی کہ اسے سالارِ اعلیٰ یا کسی سالار کے ساتھ بات کرنے کی اجازت دی جائے۔
’’یہ ایک سردار کی بیٹی ہے۔‘‘ … اسے لانے والے سالار نے ابو لیلیٰ سے کہا۔ … ’’سالار کا نام ربیعہ بن بجیر بتاتی ہے۔یہ اپنے باپ کی لاش کے پاس بیٹھی رو رہی تھی۔‘‘
’’کیا نام ہے تیرا؟‘‘ … ابو لیلیٰ نے لڑکی سے پوچھا۔
’’صابحہ!‘‘ … لڑکی نے جواب دیا۔ … ’’صابحہ بنتِ ربیعہ بجیر … میرے باپ کو لڑنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔‘‘
’’کیا تو یہی بات کہنے کیلئے ہمارے سالارِ اعلیٰ سے ملنا چاہتی ہے؟‘‘ … سالار ابو لیلیٰ نے پوچھا۔ … ’’جنہیں لڑنے کا موقع ملا تھا، کیا تو نے ان کا انجام نہیں دیکھا؟ … اب بتا تُو چاہتی کیا ہے!‘‘
’’تم لوگ مجھے اجازت نہیں دو گے کہ میں لاشوں میں ایک آدمی کی لاش ڈھونڈ لوں۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’اس کا نام بلال بن عقہ ہے۔‘‘
’’کیا جلی ہوئی لکڑیوں کے انبار میں کسی ایک خاص درخت کی لکڑی کو ڈھونڈ لے گی؟‘‘ … ابولیلیٰ نے پوچھا۔ … ’’تو اسے ڈھونڈ کہ کیا کرے گی؟ زندہ ہے تو ہمارا قیدی ہوگا۔ مر گیا ہے تو تیرے کس کام کا؟‘‘
صابحہ نے سالار ابو لیلیٰ کو وہ گفتگو سنائی جو اس کے اور بلال بن عقہ کے درمیان ہوئی تھی اور کہا کہ وہ دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ زندہ ہے یا مارا گیا ہے۔
مسلمان سالاروں نے چند عیسائیوں کو اس مقصد کیلئے زندہ پکڑ لیا تھا کہ ان سے اس علاقے اور علاقے کے لوگوں کے متعلق معلومات اور جنگی اہمیت کی معلومات لی جائیں۔ ابولیلیٰ کے حکم سے ایسے دو تین آدمیوں کو بلا کر بلال بن عقہ کے متعلق پوچھا۔
’’دو تین روز پہلے تک وہ یہیں تھا۔‘‘ … ایک عیسائی نے بتایا۔ … ’’وہ ذومیل چلا گیا ہے۔‘‘
’’کیا اسے وہاں ہونا چاہیے تھا یا یہاں؟‘‘ … ابولیلیٰ نے پوچھا۔
’’وہ قبیلے کے سردار کا بیٹا ہے۔‘‘ … عیسائی نے بتایا۔ … ’’وہ کسی کے حکم کا پابند نہیں۔وہ حکم دینے والوں میں سے ہے۔‘‘
’’کیا وہ اپنے باپ کے خون کا انتقام لینے آیا ہے؟‘‘
’’اس نے کئی بار کہا ہے کہ وہ ابنِ ولید سے اپنے باپ کے خون کا انتقام لے گا۔‘‘ … دوسرے عیسائی نے جواب دیا۔
’’اب بتا لڑکی!‘‘ … ابو لیلیٰ نے صابحہ سے پوچھا۔
’’میں تمہاری قیدی ہوں۔‘‘ … صابحہ نے کہا۔ … ’’میرے ساتھ لونڈیوں اور باندیوں جیساسلوک کرو گے تو میں تمہیں نہیں روک سکوں گی۔سنا ہے مسلمانوں کے دلوں میں رحم ہوتا ہے۔میری ایک التجا ہے … میں اک سردار کی بیٹی ہوں، کیا میری اس حیثیت کا خیال رکھا جائے گا؟‘‘
’’اسلام میں انسانوں کو درجوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔‘‘بولیلیٰ نے کہا۔’’ہم اس شخص کو بھی اپنا سردار مان لیا کرتے ہیں جس کے آباء اجداد نے کبھی خواب میں بھی سرداری نہیں دیکھی ہوتی۔ ہم صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ سرداری کا اہل ہے اور اس کا اخلاق بہت اونچا اور پاک ہے اور ا س کو اپنی ذات کا کوئی لالچ نہیں … پریشان نہ ہو لڑکی! تو خوبصورت ہے۔ایسا نہیں ہو گا کہ تجھے جو چاہے گا اپنا کھلونا بنا لے گا۔ کوئی ہمت والا تجھے خریدے گا اور تیرے ساتھ شادی کر لے گا۔‘‘
’’تمہاری قیدی ہو کر میری پسند اور ناپسند ختم ہو گئی ہے۔اگر مجھے پسند کی ذرا بھی آزادی دی جائے تو میں تم میں سے اس کی بیوی بننا پسند کروں گی جو سب سے زیادہ بہادر ہے۔ جو اپنی قوم اور قبیلے کی عزت اور غیرت پر جان دینے والا ہو۔میدان سے بھاگنے والا نہ ہو … عورت کا مذہب وہی ہوتا ہے جو اس آدمی کا مذہب ہے جس کی ملکیت میں اسے دے دیا جاتا ہے لیکن عقیدے دلوں میں ہوتے ہیں۔ عورت کے جسم کو ملکیت میں لے سکتے ہو،اس کے دل کا مالک کوئی نہیں بن سکتا … میں وعدہ کرتی ہوں کہ مجھے کوئی مضبوط دل والا اور قبیلے کی غیرت پر دشمن کا خون بہانے والا اور اپنا سر کٹوانے والا آدمی مل جائے تو میں اپنا دل اور اپنے عقیدے اس پر قربان کر دوں گی۔‘‘
’’خداکی قسم!تو غیرت اور عقل والی لڑکی ہے۔‘‘ … ابولیلیٰ نے کہا۔ … ’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ تو نے بلال بن عقہ سے جو وعدہ کیا تھا وہ میں پورا کروں گا،شرط یہ ہوگی کہ وہ اپنا وعدہ پورا کردے۔وہ ہمارے سالارِ اعلیٰ خالد بن ولید کو اپنے ہاتھوں قتل کردے، لیکن بنتِ ربیعہ !وہ ایسا نہیں کر سکے گا۔ابنِ ولید کے سر پر اﷲکا ہاتھ ہے، اسے رسول ﷺ نے اﷲکی تلوار کہاہے۔پھر بھی تم انتظار کرو۔ذومیل میں بلال کے ساتھ ہماری ملاقات ہو گی۔‘‘
’’کیا میں اپنے گھر میں رہ سکتی ہوں؟‘‘
’’کیا ہے اس گھر میں؟‘‘ … ابولیلیٰ نے کہا۔ … ’’وہاں تیرے باپ، بھائیوں اور محافظوں کی لاشوں کے سوا رہ ہی کیا گیا ہے؟ اپنے قبیلے کی عورتوں کے ساتھ رہ، کوئی تکلیف نہیں ہو گی تجھے۔ہمارا کوئی آدمی کسی عورت کے قریب نہیں جائے گا۔‘‘
صابحہ بنتِ ربیعہ بجیر رنجیدہ سی چال چلتی ہوئی ایک مجاہد کے ساتھ اس طرف چلی گئی جہاں عورتوں اور بچوں کو رکھا گیا تھا۔ اس کی رنجیدہ چال میں اور ملول چہرے پر تمکنت تھی۔ صاف پتا چلتا تھا کہ وہ عام سے کردار کی لڑکی نہیں۔
…………bnb…………

’’ابنِ حارثہ!‘‘ … خالدؓنےفتح کی مسرت سے لبریزلہجے میں مثنیٰ بن حارثہ سے کہا۔ … ’’کیا اﷲنے تیری ہر خواہش پوری نہیں کردی؟‘‘
’’لاریب، لاریب!‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے جوشیلے لہجے میں کہا۔ … ’’کفار کی آنے والی نسلیں کہیں گی کہ مسلمانوں نے ان کے آبا ء اجداد پر بہت ظلم کیا تھا اور ہماری نسلیں انہیں اپنے اﷲکا یہ فرمان سنائیں گی کہ جس پرظلم ہوا وہ اگر ظالم پر ظلم کرے تو اس پر کوئی الزام نہیں … تو نہیں جانتا ولید کے بیٹے !ان آتش پرستوں نے اور صلیب کے پجاریوں نے جو ظلم ہم پر توڑے ہیں، تو نہیں جانتا۔ تو نے سنے ہیں، ہم نے سہے ہیں۔‘‘
’’اب یہ لوگ اﷲکی گرفت میں آگئے ہیں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’لیکن حارثہ کے بیٹے!میں ڈرتا ہوں تکبر اور غرور سے … دل میں بار بار یہ ارادہ آتا ہے حج پر جاؤں۔ … میں خانہ کعبہ میں جا کر اﷲکا شکر اداکروں گا۔کیا اﷲمجھے یہ موقع دے گا کہ میں اپنا یہ ارادہ پورا کر سکوں؟‘‘
’’تو نے ارادہ کیا ہے تو اﷲتجھے ہمت بھی دے گا۔موقع بھی پیدا کر دے گا۔‘‘ … مثنیٰ نے کہا۔
کچھ دیر بعد تمام سالار خالدؓکے سامنے بیٹھے تھے اور خالدؓ انہیں بتا رہے تھے کہ اگلا ہدف ذومیل ہے۔جاسوسوں کو ذومیل بھیج دیاگیا تھا۔
’’پہلے یوں ہوتا رہا ہے کہ ایک جگہ ہم حملہ کرتے تھے تو دشمن کے آدمی بھاگ کر کہیں اور اکٹھے ہو جاتے تھے۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔ … ’’اب ہم نے کسی کو بھاگنے نہیں دیا۔ ثنّی سے شاید ہی کوئی بھاگ کر ذومیل پہنچا ہو۔ لیکن ذومیل خالی نہیں۔وہاں بھی دشمن موجود ہے اور وہ بے خبر بھی نہیں ہوگا۔ کل رات ذومیل کی طرف کوچ ہو گا اور اگلی رات وہاں اسی قسم کا شب خون مارا جائے گا۔‘‘
تاریخوں میں یہ نہیں لکھا کہ ثنّی میں خالدؓنے کس سالار کو چھوڑا۔سورج غروب ہوتے ہی مسلمانوں کا لشکر ذومیل کی سمت کوچ کر گیا۔ساری رات چلتے گزری۔دن نشیبی جگہوں میں چھپ کر گزرا اور سورج کا سفر ختم ہوا تو مجاہدین اپنے ہدف کی طرف چل پڑے۔
ذومیل میں بھی دشمن سویا ہوا تھا۔سنتری بیدار تھے ۔یہاں بھی گشتی سنتریوں اور دیگر سنتریوں کو اسی طریقے سے ختم کیا گیا جو مضیح اور ثنّی وغیرہ میں آزمایا گیا تھا۔ مسلمانوں کی ترتیب وہی تھی یعنی ان کا لشکر تین حصوں میں تقسیم تھا۔
یہ شب خون بھی پوری طرح کامیاب رہا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ کسی ایک بھی آدمی کو زندہ نہ نکلنے دیاگیا۔یہاں بھی عورتوں اور بچوں کو الگ کر لیاگیا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages