Featured Post

Khalid001

09 November 2019

Khalid103


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  103
یہ اس زمانے کا رواج تھا کہ فوجوں کی لڑائی سے پہلے دونوں فوجوں میں سے کسی ایک کا ایک آدمی اپنے دشمن کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارتا تھا۔اُدھر سے ایک آدمی آگے آتا اور دونوں زندگی اور موت کا معرکہ لڑتے تھے۔ اس کے بعد جنگ شروع ہوتی تھی۔مقابلے کیلئے للکارنے والا اپنے دشمن کو توہین آمیز باتیں کہتا تھا۔ ضرار بن الازور رومیوں کے سامنے گئے اور انہیں للکارا … ’’میں سفید چمڑی والوں کیلئے موت کا پیغام لایا ہوں۔‘‘
’’رومیو!میں تمہارا قاتل ہوں۔‘‘
’’میں خدا کا قہر بن کر تم پر گروں گا۔‘‘
’’میرا نام ضرار بن الازور ہے۔‘‘
رومیوں کی طرف سے ضرار کے مقابلے کیلئے آنا تھا لیکن چار پانچ رومی سوار آگے آگئے۔ضرار نے پہلے اپنی خود اتاری پھر زرہ اتاری پھر قمیص بھی اتاردی، اور کمر تک برہنہ ہو گئے۔ تب ان رومیوں نے انہیں پہچانا جو بصرہ میں انہیں اس حالت میں لڑتے دیکھ چکے تھے،اور وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ اس شخص میں جنات جیسی پھرتی اور طاقت ہے حقیقت بھی یہی تھی۔ضرار ایک سے زیادہ آدمیوں کا مقابلہ کرنے کی خصوصی مہارت رکھتے تھے۔
ضرار کے مقابلے میں جو رومی آئے تھے ان میں دوسالار بھی تھے۔ ایک طبریہ کا اور دوسرا عمان کا حاکم یا امیر تھا۔باقی بھی کوئی عام سپاہی نہیں تھے۔وہ کمانداروں کے رتبے کے تھے۔انہوں نے ضرار کو گھیرے میں لینے کیلئے گھوڑوں کے رخ موڑے۔ضرار نے اچانک گھوڑے کو ایڑ لگائی اور جب وہ عمان کے حاکم کے قریب سے گزر گئے تو یہ سالار اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر ہی دوہرا ہو گیا پھر گھوڑے سے لڑھک کر نیچے جا پڑا۔ ضرار کی تلوار اس کے پہلو سے اس کے جسم میں گہری اتر گئی تھی۔
حیران کن پھرتی سے ضرار کا گھوڑا مڑااور ایک اور رومی ان کی تلوار سے کٹ کر گرا۔ضرار ایسی چال چلتے اور ایسا پینترا بدلتے تھے کہ رومی سواروں کے دو تین گھوڑے آپس میں ٹکراجاتے یا ایک دوسرے کے آگے آجاتے تھے۔اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ضرار ان میں سے ایک کو تلوار سے کاٹ جاتے تھے۔
کوئی رومی سوار گرتا تھا تو مسلمان بڑے جوش سے نعرے لگاتے تھے۔ضرار کا یہ عالم تھا جیسے ان میں مافوق الفطرت طاقت آگئی ہو۔ اپنے مقابلے میں آنے والے رومیوں میں سے زیادہ تر کو انہوں نے گرا دیا۔ ان میں سے ایک دو ایسے بھی تھے جنہیں مہلک زخم نہیں آئے تھے لیکن وہ دوڑتے گھوڑوں کے قدموں تلے کچلے گئے۔ دو رومی سوار بھاگ کر اپنے لشکر میں چلے گئے۔
ضرارفاتحانہ انداز سے خون ٹپکاتی تلوار کو لہراتے اور رومیوں کو للکار رہے تھے۔ … ’’میں سفید چمڑی والوں کا قاتل ہوں … رومیو! میری تلوار تمہارے خون کی پیاسی ہے۔‘‘
مؤرخوں (واقدی، ابنِ ہشام اور طبری)نے لکھاہے کہ دس رومی سوار گھوڑے دوڑاتے آگے آئے۔ یہ سب سالاری سے ذرا نیچے کے عہدوں کے رومی تھے۔ خالدؓ نے جب دس سواروں کو آگے آتے دیکھاتو اپنے محافظ دستے میں سے انہوں نے دس سوار منتخب کیے اور انہیں آگے لے گئے۔
رومی سوار ضرار کی طرف آرہے تھے۔ خالدؓ نے نعرہ لگایا۔ … ’’خدا کی قسم!ضرار کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ … اس کے ساتھ انہوں نے اپنے دس سواروں کو اشارہ کر کے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ دس سوار ان کے ساتھ گئے۔رومی سواروں کی نظریں ضرار پر لگی ہوئی تھیں۔ خالدؓ اور ان کے سوار رومی سواروں پر جا جھپٹے۔ ضرار کی تلوار بھی حرکت میں آگئی۔ رومیوں نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ اور ان کے سواروں کی تیزی اور تندی نے رومیوں کی ایک نہ چلنے دی اور سب کٹ گئے۔
رومی سالاروں نے اسے اپنی بے عزتی سمجھااور مزید آدمیوں کو انفرادی مقابلوں کیلئے آگے بھیجنے لگے۔ ضرار نے ان میں سے دو تین کو ہلاک کر دیا۔ مقابلے کیلئے آگے آنے والے ہر رومی کے ساتھ ضرار ہی مقابلہ کرنا چاہتے تھے لیکن خالدؓ نے انہیں پیچھے بلالیا، اور دوسرے مجاہدین (تاریخوں میں ان کے نام نہیں)کو باری باری آگے بھیجا۔ ہر مقابلے میں مجاہدین فاتح رہے۔ دونوں فوجوں کے درمیان بہت سے رومیوں کی لاشیں پڑی تھیں۔
…………bnb…………

مؤرخوں کے مطابق یہ مقابلے کم و بیش دو گھنٹے جاری رہے اور سورج اس مقام پر آگیاجس مقام پر خالدؓ چاہتے تھے کہ آجائے تو حملہ کریں گے۔
مقابلوں کے دوران تیر انداز اور فلاخن سے پتھر پھینکنے والے خاموش کھڑے تھے۔ مقابلہ ابھی جاری تھا، خالدؓ نے حملے کا حکم دے دیا۔یہ عام قسم کا حملہ تھا جسے ہلہ یا چارج کہا جاتا ہے۔ اس سے پہلے رومی تیر اندازاور فلاخن بہت بڑی رکاوٹ تھے۔ انہیں خاموش دیکھ کر خالدؓ نے حملہ کیا تھا۔حملہ اتنا زور دار تھا اور مجاہدین میں اتنا قہر بھرا ہواتھاکہ رومی سالارِ اعلیٰ وردان کو کوئی چال چلنے کی مہلت ہی نہ ملی۔وہ اپنے لشکر کے آگے کھڑا مقابلے دیکھ رہا تھا، اس نے پیچھے کو بھاگ کر اپنی جان بچائی۔
توقع یہ تھی کہ وردان اپنی تعداد کی افراط کے بل بوتے پر اپنے پہلوؤں کو آگے بڑھا کر خالدؓ کے پہلوؤں سے آگے نکلنے اور عقب میں آنے کی کوشش کرے گا لیکن اسے اتنا ہوش ہی نہیں تھا، اس نے اپنے لشکر کو پھیلانے کے بجائے اس کی گہرائی زیادہ کر دی تھی یعنی دستوں کے پیچھے دستے رکھے تھے۔ اس کی یہ ترتیب بڑی اچھی تھی، لیکن خالدؓ کی چال نے اس کی ترتیب کو اس کیلئے ایک مسئلہ بنا دیا۔
مسلمان دستوں نے سامنے سے حملہ کیا تو رومیوں کے اگلے دستے پیچھے ہٹنے لگے۔پچھلے دستوں کو اور پیچھے ہونا پڑا۔ پھر ان کی ترتیب گڈ مڈ ہوگئی۔ مسلمانوں کو اس سے بہت فائدہ پہنچا، یہ بڑا ہی شدید معرکہ تھا اور بڑا ہی خونریز۔
سورج مغرب کی سمت ڈھل گیا تھا۔ خالدؓنے محسوس کیا کہ مجاہدین تھک گئے ہوں گے، انہوں نے مجاہدین کو معرکے سے نکلنے کا حکم دیا۔ ایسے لگا کہ رومی سالار بھی یہی چاہتے تھے۔انہوں نے اپنے دستوں کو پیچھے ہٹانا بہتر سمجھا۔جب دونوں فوجیں پیچھے ہٹیں تو پتہ چلا کہ رومی ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے ہیں، اور زخمیوں کی تعداد بھی بے شمار ہے۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کا نقصان بہت ہی تھوڑا تھا۔
سورج غروب ہونے کو تھا اس لیے دونوں میں سے کوئی بھی فوج حملہ نہیں کر سکتی تھی ۔اس طرح پہلے روز کی جنگ ختم ہو گئی۔
…………bnb…………

رات کو دونوں فوجوں کے سالاروں نے اپنے اپنے نائب سالاروں وغیرہ کو بلایا، اور اپنے اپنے نقصان کا جائزہ لینے لگے اور اگلی کاروائی کے متعلق سوچنے لگے۔رومیوں کے سالارِ اعلیٰ وردان کی کانفرنس میں گرما گرمی زیادہ تھی۔وردان نے صاف کہہ دیا کہ جنگ کی یہی صورتِ حال رہی جو آج ہو گئی تھی تو نتیجہ ظاہر ہے کیا ہو گا اور اس نتیجے کا نتیجہ کیا ہوگا۔
’’کیا میں نے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا؟‘‘ … وردان کے سالار قُبقُلار نے کہا۔ … ’’میں اب بھی کہتا ہوں کہ اور زیادہ سوچو اور وجہ معلوم کرو کہ ہر میدان میں فتح مسلمانوں کی ہی کیوں ہوتی ہے اور وہی خوبی ہماری فوج میں کیوں پیدا نہیں ہوتی،آج کی لڑائی دیکھ کر مجھے اپنی فتح مشکوک نظر آنے لگی ہے۔‘‘
’’کیا تو یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہم میدان چھوڑ کر بھاگ جائیں؟‘‘ … وردان نے کہا۔ … ’’میں تم سب کو کہتا ہوں کہ اپنی اپنی رائے اور مشورہ دو کہ ہم مسلمانوں کو کس طرح شکست دے سکتے ہیں۔‘‘
قُبقُلار کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ آگئی۔اس نے کچھ بھی نہ کہااور دوسرے سالار اپنی آراء اور مشورے دینے لگے۔ان سالاروں کے مشورے مختلف تھے لیکن ایک بات مشترک تھی ۔سب کہتے تھے کہ مسلمانوں کو شکست دینی ہے اور ایسی شکست کہ ان میں سے زندہ وہی رہے جو جنگی قیدی ہو۔
’’اگر خالد ان کا سالار نہ ہو تو انہیں شکست دینا آسان ہو جائے۔‘‘ … ایک سالا رنے کہا۔ … ’’وہ جدھر جاتا ہے اس کی شہرت اور دہشت اس کے آگے آگے جاتی ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ مسلمانوں کے اس سالار میں اتنی زیادہ جنگی مہارت ہے جو بہت کم سالاروں میں ہوتی ہے … میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔‘‘
سب متوجہ ہوئے۔
’’مسلمانوںکو خالد سے محروم کر دیا جائے۔‘‘ … اس نے کہا۔ … ’’اور اس کا ایک ہی طریقہ ہے … قتل!‘‘
’’کل کی لڑائی میں اسے قتل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔‘‘ … وردان نے کہا۔ … ’’یہ مشورہ کوئی مشورہ نہیں۔‘‘
’’لڑائی میں ابھی تک اسے کوئی قتل نہیں کر سکا۔‘‘ … مشورہ دینے والے سالار نے کہا۔ … ’’میری تجویز یہ ہے کہ ہماری طرف سے ایک ایلچی خالد کے پاس جائے اور کہے کہ ہم مزید خون خرابہ روکنا چاہتے ہیں۔ہمارے پاس آؤ، اور ہمارے ساتھ بات چیت طے کرلو۔وہ جب ہمارے سالارِ اعلیٰ وردان سے ملنے آرہا ہوتو کم از کم دس آدمی راستے میں گھات میں بیٹھے ہوئے ہوں۔ وہ خالد کو اس طرح قتل کریں کہ اس کے جسم کی بوٹی بوٹی کر دیں۔‘‘
’’بہت اچھی تجویز ہے۔‘‘ … وردان نے کہا۔ … ’’میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں… داؤد کو بلاؤ۔‘‘
تھوڑی ہی دیر بعد ایک عیسائی جس کا نام تاریخوں میں داؤد لکھا ہے وردان کے سامنے کھڑا تھا۔
’’داؤد!‘‘ … وردان نے اس عیسائی عرب سے کہا۔ … ’’ابھی مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں جاؤاور ان کے سپہ سالار خالدبن ولید کو ڈھونڈ کر اسے بتانا کہ میں رومیوں کے سالار کا ایلچی ہوں۔ اسے میری طرف سے یہ پیغام دینا کہ ہم اس کے ساتھ صلح کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ہمارے پاس کل صبح آئے اور ہمارے ساتھ بات کرے کہ کن شرائط پر صلح ہو سکتی ہے۔ اسے یہ بھی کہنا کہ اس بات چیت میں صرف وہ اور میں اکیلے ہوں گے۔ ہم دونوں کے ساتھ ایک بھی محافظ نہیں ہوگا۔‘‘
داؤد معمولی آدمی نہیں تھا، نہ وہ فوجی تھا۔وہ قیصرِ روم کا ایک طرح کا نمائندہ تھا، اور اس کا رُتبہ وردان سے ذرا ہی کم تھا۔
’’وردان!‘‘ … داؤد نے کہا۔ … ’’میرا خیال ہے کہ تم قیصرِ روم کے حکم کی خلاف ورزی کر رہے ہو۔ کیا شہنشاہِ ہرقل نے یہ حکم نہیں بھیجاتھا کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کردو؟ میں سمجھ نہیں سکتا کہ تم صلح اور شرائط کی بات کس کے حکم سے کر رہے ہو؟ … میں صلح کا پیغام لے کر نہیں جاؤں گا۔‘‘
’’پھر تمہیں اپنے راز میں شریک کرنا پڑے گا۔‘‘ … وردان نے کہا۔ … ’’میں مسلمانوں کو تباہ برباد کرنے کا ہی منصوبہ بنارہاہوں۔ میں خالد بن ولید کو صلح کا دھوکا دے رہا ہوں، وہ اگر آگیا تو مجھ تک اس کی لاش پہنچے گی۔ میں نے راستے میں اس کے قتل کا انتطام کر رکھا ہے۔‘‘
’’اگر یہ کام کرنا ہے تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ … داؤد نے کہا۔ … ’’میں ابھی جاتا ہوں۔‘‘
…………bnb…………

داؤد مسلمانوں کے کیمپ میں چلاگیا۔ہر طرف چھوٹی بڑی مشعلیں جل رہی تھیں۔داؤد نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ رومیوں کا ایلچی ہے، اور ان کے سپہ سالار کیلئے پیغام لایا ہے۔اسے اسی وقت خالدؓکے خیمے تک پہنچا دیا گیا۔داؤد آداب بجالایا اور اپنا تعارف کراکے وردان کا پیغام دیا۔
خیمے میں مشعلوں کی روشنی تھی۔ خالدؓ نے داؤد سے اتنا بھی نہ کہا کہ وہ بیٹھ جائے۔ وہ خالدؓ کے سامنے کھڑا رہا۔خالدؓآہستہ آہستہ اٹھے، اور اس کے تھوڑا اور قریب چلے گئے۔ان کی نظریں داؤد کی آنکھوں میں گڑ گئی تھیں۔انہوں نے داؤد سے کچھ بھی نہ کہااور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتے رہے، خالدؓدراز قد اور قوی ہیکل تھے۔ان کی شخصیت کا پر تو ان کی آنکھوں کی چمک میں تھا۔اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ کی آنکھوں کا سامنا کوئی مضبوط دل گردے والا ہی کرسکتا تھا۔ یہ ایمان کا جلال تھا اور آنکھوں کی اس چمک میں عشقِ رسولﷺ رچا بسا تھا۔ اس کے علاوہ خالدؓ شام کے علاقے میں خوف و ہراس کا ایک نام بن گیا تھا۔
خالدؓ داؤد کو دیکھے جا رہے تھے۔ داؤد کا ضمیر مجرمانہ تھا، وہ خالدؓکی نظروں کی تاب نہ لا سکا، مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓکے چہرے پر ایک یا دو زخموں کے نشان تھے جن سے ان کا چہرہ بگڑا تو نہیں تھا لیکن زخموں کے نشانات کا اپنا ایک تاثر تھا جو داؤد کیلئے غالباً دہشت ناک بن گیا تھا۔
’’اے عربی سالار!‘‘ … داؤد بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔ … ’’میں فوجی نہیں ہوں، میں ایلچی ہوں۔‘‘
’’سچ بول داؤد!‘‘ … خالدؓ نے اس کے ذرا اور قریب آکر کہا۔ … ’’تو ایک جھوٹ بول چکا ہے ، اب سچ بول اور اپنی جان سلامت لے جا۔‘‘
داؤد خالدؓ کے سامنے کھڑا چھوٹا سا آدمی لگتا تھا۔ حالانکہ قد اس کا بھی کچھ کم نہیں تھا۔
’’اے عربی سالار!‘‘ … داؤد نے اپنے جھوٹ کو دہرایا۔ … ’’میں صلح کا پیغام لے کر آیا ہوں، اور اس میں کوئی دھوکا نہیں۔‘‘
’’اگر تو دھوکا دینے آیا ہے تو میری بات سن لے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’جتنی مکاری اور عیاری ہم لوگوں میں ہے اتنی تم میں نہیں۔ مکروفریب میں ہمیں کوئی مات نہیں دے سکتا۔ اگر تمہارے سپہ سالار وردان نے کوئی فریب کاری سوچی ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ رومیوں کی تباہی کا عمل اس سے تیز ہوجائے گا جتنا میں نے سوچا تھا … اور اگر اس نے سچی نیت سے صلح کا پیغام بھیجا ہے تو جاؤ اسے کہو کہ جزیہ ادا کردے پھر ہم صلح کر لیں گے۔‘‘
داؤد میں اتنی سی بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ کوئی اور بات کرتا۔وہ آداب بجا لاکر چل پڑا۔خیمے کے دروازے میں جاکر پیچھے دیکھا، خالدؓکی نظریں ابھی تک اسے گھور رہی تھیں۔داؤد نے منہ پھیر لیا لیکن چلا نہیں ، وہیں کھڑا رہا۔وہ محسوس کر رہا تھا کہ خالدؓ کی نظریں اس کی کھوپڑی میں سے گزر کر اس کی آنکھوں میں داخل ہو رہی ہیں۔ وہ خالدؓکی طرف گھوما، اور اچانک اس طرح تیز قدم اٹھائے جیسے خالدؓ پر جھپٹنے لگا ہو۔
’’ابنِ ولید!‘‘ … داؤد نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔ … ’’میں تجھے دھوکا دینے آیا تھا۔‘‘ … اس نے وردان کی سازش پوری کی پوری بیان کر دی اور یہ بھی بتا دیا کہ کل صبح وردان کے دس آدمی کس جگہ گھات میں ہوں گے۔
’’کیا تو بتا سکتا ہے؟‘‘ … خالدؓ نے داؤد سے پوچھا۔ … ’’کہ تو جاتے جاتے رک کیوں گیا اور تو نے یہ سچ کیوں بولا؟‘‘
’’سچ کا صلہ لینے کیلئے۔‘‘ … داؤد نے کہا۔ … ’’مجھے نقد انعام کی ضرورت نہیں۔ جس فوج کے سالار کی نظریں انسانوں کے جسموں میں برچھی کی طرح اتر جانے والی ہوں اس فوج کو کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی … اے عربی سالار! میرا تجربہ اور میری عقل بتاتی ہے کہ فتح تیری ہوگی۔میں صرف اتنا صلہ مانگتا ہوں کہ جب تو ہماری بستیوں پر قبضہ کرلے تو میرے خاندان پر رحم کرنا، اور ان کی عزت کا ان کی جان و مال کا خیال رکھنا۔‘‘ اس نے بتایا کہ اس کا خاندان کون سی بستی میں رہتا ہے۔
خالدؓ نے داؤد کو رخصت کر دیا۔
داؤد نے واپس جاکر وردان کو بتایا کہ وہ خالدؓکو پیغام دے کر آگیا ہے اور خالدؓمقررہ وقت پر اکیلے آئیں گے۔
داؤد نے خالدؓ کی شخصیت سے ایسا تاثر لیا تھا کہ اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا تھا کہ رومی ہاریں گے اور فتح مسلمانوں کی ہوگی۔ اس نے اپنی فوج کے سالارِ اعلیٰ سے جھوٹ بولاکہ خالدؓمقررہ وقت پر آجائیں گے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages