Featured Post

Khalid001

09 November 2019

Khalid102


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  102
۲۷ جمادی الاول ۱۳ہجری (۲۹ جولائی ۶۳۴ء) کی شام خالدؓنے اپنے سالاروں کو آخری ہدایات دیں اور اپنے لشکر کی تقسیم کر دی۔
۲۸ جمادی الاول ۱۳ ہجری (۳۰ جولائی ۶۳۴ء) کو مجاہدین نے روز مرہ کی طرح فجر کی نماز باجماعت پڑھی۔سب نے گڑگڑاکر بڑے ہی جذباتی اندازمیں دعائیں مانگیں۔بہت سے ایسے تھے جن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ان میں سے نہ جانے کس کس کی یہ آخری نماز تھی۔نماز کے فوراًبعد انہیں اپنے اپنے دستوں کے ساتھ ان جگہوں پر چلے جاناتھا جو ان کیلئے گذشتہ رات مقرر کی گئی تھیں۔
سورج نکلنے سے پہلے پہلے خالدؓ کا لشکر اپنی جگہوں پر پہنچ چکا تھا۔رومیوں نے یہ سوچا تھا کہ وہ اپنی اتنی زیادہ تعداد کے بل بوتے پر اتنا پھیل جائیں گے کہ مسلمان اتنا پھیلے تو ان کی صفوں میں شگاف پڑ جائیں گے۔لیکن خالدؓ نے تعداد کی قلت کے باوجود محاذ پانچ میل لمبا بنا دیا،اس سے یہ خطرہ کم ہو گیا کہ رومی پہلوؤں میں جا کر یا پہلوؤں سے عقب میں جاکر حملہ کریں گے۔
خالدؓنے دوسری دانشمندی یہ کی کہ اپنے لشکر کا منہ مغرب کی طرف رکھا تاکہ سورج ان کے پیچھے اور رومیوں کے سامنے رہے اور وہ آنکھوں میں سورج کی چمک پڑنے کی وجہ سے آنکھوں کو کھول نہ سکیں۔
حسبِ معمول خالدؓ نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔ایک پہلو کے دستوں کے سالار سعید بن عامر تھے، دوسرے کے امیرالمومنین ابو بکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن،اور قلب کی کمان معاذؓ بن جبل کے پاس تھی۔خالدؓنے دونوں پہلوؤں کے دستوں کی حفاظت کے لئے یا مشکل کے وقت ان کی مدد کو پہنچنے کا یہ اہتمام کیا تھا کہ ان دستوں کے آگے ایک ایک دستہ کھڑا کر دیا تھا۔
چار ہزار نفری جس کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے، خالدؓ نے قلب کے عقب میں محفوظہ)ریزرو( کے طور پر رکھ لی، وہاں اس نفری کی موجودگی اس لیے بھی ضروری تھی کہ وہاں عورتیں اور بچے تھے۔
خالدؓنے سالاری کے رتبے کے افراد کو اپنے ساتھ رکھ لیا، مقصد یہ تھا کہ جہاں کہیں سالار کی ضرورت پڑے، ان میں سے ایک کو وہاں بھیج دیا جائے، یہ چاروں بڑے قابل اور تجربہ کار سالار تھے۔ عمرؓ کے بیٹے عبداﷲؓ، عمروؓ بن العاص، ضرار بن الازور، اور رافع بن عمیرہ۔
سورج طلوع ہوا تورومی سنتریوں نے اپنے سالاروں کو اطلاع دی کہ مسلمان جنگی ترتیب میں تیار ہو گئے ہیں۔ رومیوں کے اجتماع میں ہڑبونگ مچ گئی۔ ان کا خدشہ بجا تھا کہ مسلمان حملہ کر دیں گے۔ رومی سالاروں نے بڑی تیزی سے اپنے لشکر کو تیار کیااور مسلمانوں کے سامنے کھڑا کر دیا۔دونوں فوجوں کے درمیان فاصلہ تقریباً چار فرلانگ تھا۔
خالدؓنے اپنے محاذ کو کم و بیش پانچ میل لمبا کر دیا تھا۔رومی اپنے لشکر کو اس سے زیادہ پھیلا سکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے محاذ کی لمبائی تقریباً اتنی ہی رکھی جتنی خالدؓنے رکھی تھی۔ اس سے خالدؓکا یہ مسئلہ تو حل ہو گیا کہ رومی مسلمانوں کے پہلوؤں کیلئے خطرہ نہ بن سکے لیکن رومی لشکر کی گہرائی زیادہ بلکہ بہت زیادہ تھی۔ دستوں کے پیچھے دستے اور ان کے پیچھے دستے تھے۔ مسلمانوں کیلئے ان کی صفیں توڑنا تقریباًناممکن تھا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومیوں کا لشکر جب اس ترتیب میں آیا تو دیکھنے والوں پر ہیبت طاری کرتا تھا۔بہت سی صلیبیں جن میں کچھ بڑی اور کچھ ذرا چھوٹی تھیں ، اس لشکر میں سے اوپر کو ابھری ہوئی تھیں اور کئی رنگوں کے جھنڈے اوپر کو اٹھے ہوئے لہرا رہے تھے۔اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی فوج نہایت معمولی اور بے رعب سی لگتی تھی۔
رومیوں کا سالار رودان اور سالار قُبقُلار اپنے لشکر کے قلب کے سامنے گھوڑوں پر سوار کھڑے تھے۔ان کے ساتھ ان کے محافظوں کا ایک دستہ تھا جو لباس وغیرہ سے بڑی شان والے لگتے تھے۔
…………bnb…………

رومیوں کی تعداد اور ان کے ظاہری جاہ وجلال کو دیکھ کر خالدؓ نے محسوس کیا ہوگا کہ ان کے مجاہدین پر رومیوں کا ایسا اثر ہو سکتا ہے کہ ان کا جذبہ ذرا کمزور ہو جائے۔شاید اسی لیے خالدؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ گائی اور گھوڑے کا رخ اپنی فوج کے ایک سرے کی طرف کر دیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اپنامحاذ اتنا زیادہ پھیلایا تھا،انہوں نے گھوڑا ایک پہلو کے دستے کے سامنے جا روکا۔
’’یاد رکھنا کہ تم اس اﷲ کے نام پر لڑنے آئے ہو جس نے تمہیں زندگی عطا کی ہے۔‘‘ … خالدؓنے ایک ہاتھ اور اس ہاتھ کی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف کرکے انتہائی بلند آواز میں کہا۔ … ’’اﷲکسی اور طریقے سے بھی اپنی دی ہوئی زندگی تم سے واپس لے سکتا ہے۔اﷲنے تمہارے ساتھ ایک رشتہ قائم کر رکھا ہے ،کیا یہ اچھا نہیں کہ تم اﷲکی خاطر اپنی جانیں قربان کردو؟اﷲاس کا اجر دے گا۔ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے کہ تم تھوڑے تھے اور تمہارا مقابلہ اس دشمن سے ہوا جو تم سے دوگنا اور تین گناتھااور اتنا طاقتور دشمن تمہاری ضرب سے اس طرح بھاگا جس طرح بکری شیر کو اور بھیڑ بھیڑیئے کو دیکھ کر بھاگتی ہے … رومیوں کی ظاہری شان و شوکت کو نہ دیکھو۔شان و شاکت ایمان والوں کی ہوتی ہے۔جاہ و جلال ان کا ہے جن کے ساتھ اﷲہے۔اﷲتمہارے ساتھ ہے۔آج اپنے اﷲپر اور اﷲکے رسولﷺ پر ثابت کر دو کہ تم باطل کے پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنیو الے ہو۔
یہ تو جذباتی باتیں تھیں جو خالدؓ نے کیں، اور ان کا اثر وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا، خالدؓنے ان باتوں کے علاوہ کچھ ہدایات دیں، مورخوں نے ان کے صحیح الفاظ لکھے ہیں:
’’جب آگے بڑھ کر حملہ کرو تو مل کر دشمن پر دباؤ ڈالو، جیسے ایک دیوار بڑھ رہی ہو، جب تیر چلاؤ تو سب کے تیر اکٹھے کمانوں سے نکلیں اور دشمن پر بوچھاڑ کی طرح گریں، دشمن کو اپنے ساتھ بہا لے جاؤ۔‘‘
خالدؓ تمام دستوں کے سامنے رُکے، اور یہی الفاظ کہے۔ اس کے بعد وہ عقب میں عورتوں کے پاس چلے گئے۔
’’دعا کرتی رہنا اپنے خاوندوں کیلئے ۔ اپنے بھائیوں اور اپنے باپوں کیلئے!‘‘ … خالدؓنےعورتوں سے کہا۔ … ’’تم دیکھ رہی ہو کہ دشمن کی تعداد کتنی زیادہ ہے، اور ہم کتنے تھوڑے ہیں، ایسا ہو سکتا ہے کہ دشمن ہماری صفوں کو توڑکے پیچھے آجائے ۔خدا کی قسم!مجھے پوری امید ہے کہ اپنی عزت اور اپنی جانیں بچانے کیلئے تم مردوں کی طرح لڑو گی۔ ہم انہیں تم تک پہنچنے نہیں دیں گے لیکن وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جو ہم نہیں چاہتے کہ ہو جائے۔‘‘
’’ولید کے بیٹے!‘‘ … ایک عورت نے کہا۔ … ’’کیا وجہ ہے کہ ہمیں آگے جا کر لڑنے کی اجازت نہیں؟‘‘
’’مرد زندہ ہوں تو عورت کیوں لڑے!‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’اور اپنے آپ کو بچانے کیلئے لڑنا تم پر فرض ہے، اور تم پر فرض ہے کہ مرد تھوڑے رہ جائیں، دشمن غالب آرہا ہو تو آگے بڑھو، اور مردوں کی طرح لڑو، اور اپنے اوپر غیر مرد کا غلبہ قبول نہ کرو۔‘‘
یہ پہلا موقع تھا کہ خالدؓ نے عورتوں کو بھی دشمن سے خبردار کیا اور انہیں اپنے دفاع میں لڑنے کیلئے تیار کیاتھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں خاصی تشویش تھی۔انہوں نے کسریٰ کی فوجوں کو شکست پہ شکست دی تھی لیکن رومی فارسیوں کی نسبت زیادہ منظم اور طاقتور تھے۔خالدؓ کے سامنے یقیناً یہ پہلو بھی ہو گا کہ مجاہدین کو گھروں سے نکلے خاصا عرصہ ہو چکا تھا، اور وہ مسلسل لڑائیوں کے تھکے ہوئے بھی تھے۔انہیں اپنے اﷲپر، اﷲکی دی ہوئی روحانی طاقتوں پر اور ایمان پر بھروسہ تھا۔
دونوں فوجیں لڑائی کیلئے تیار ہو گئیں۔
…………bnb…………

رومیوں کی طرف سے ایک معمر پادری آگے آیا اور مسلمانوں سے کچھ دور آکر رک گیا۔
’’اے مسلمانو!‘‘ … اس نے بلند آواز سے کہا۔ … ’’تم میں کوئی ایسا ہے جو میرے پاس آکر بات کرے؟‘‘
خالدؓنے اپنے گھوڑے کی لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور پادری کے سامنے جا گھوڑا روکا۔
’’تم سالار ہو۔‘‘ … بوڑھے پادری نے کہا۔ … ’’کیا تم میں مجھ جیسا کوئی مذہبی پیشوا نہیں؟‘‘
’’نہیں!‘‘ خالدؓ نے جواب دیا۔ … ’’ہمارے ساتھ کوئی مذہبی پیشوا نہیں ہوتا،سالار ہی امام ہوتا ہے۔ میں سپہ سالار ہوں اور میں معزز پادری کو یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ میں اس وقت تک سپہ سالار رہوں گا جب تک میری قوم اور میری فوج چاہے گی۔ اگر میں اپنے اﷲ وحدہ لا شریک کے احکام اور اس کے رسول ﷺ کے فرمان سے انحراف کروں گاتومجھے سپہ سالار نہیں رہنے دیا جائے گا۔اگر اس حالت میں بھی سپہ سالار رہوں گا تو سپاہیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ میرا کوئی حکم نہ مانیں۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ معمر پادری پر خاموشی طاری ہو گئی،اور وہ کچھ دیر خالدؓکے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔
پھر گویا ہوا: … ’’شاید یہی وجہ ہے۔‘‘ … پادری نے ذرا دبی زبان میں کہا۔ … ’’یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ فتح ہمیشہ تمہاری ہوتی ہے۔‘‘
’’وہ بات کر معزز پادری جو تو کرنے آیا ہے۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔
’’ہاں!‘‘ … پادری نے جیسے بیدار ہوکر کہا۔ … ’’اے عرب سے فتح کی امید لے کر آنے والے!کیا تو نہیں جانتا کہ جس زمین پر تو فوج لے کر آیا ہے،اس پر کسی بادشاہ کو کبھی پاؤں رکھنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی؟ تو اپنے آپ کوکیا سمجھ کر یہاں آگیا ہے، فارسی آئے تھے لیکن ان پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ بھاگ گئے کئی دوسرے بھی آئے تھے وہ بڑی بہادری سے لڑے تھے لیکن ناکامی اور مایوسی کے سوا انہیں کچھ حاصل نہ ہوا، اور وہ چلے گئے … تجھے ہمارے خلاف کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں لیکن یہ خیال دماغ سے نکال دے کہ ہر میدان میں فتح تو ہی پائے گا۔‘‘
مؤرخوں کے مطابق خالدؓ خاموشی سے سن رہے تھے، اور بوڑھا پادری پُر اثر لہجے میں بول رہا تھا۔
’’میرا سپہ سالار وردان جومیرا آقا ہے، تجھ پر کرم اور نوازش کرنا چاہتا ہے۔‘‘ … پادری کہہ رہا تھا۔ … ’’اس سے بڑی نوازش اور کیا ہوگی کہ اس نے تیری فوج کو کاٹ دینے کے بجائے مجھے یہ پیغام دے کر تیرے پاس بھیجا ہے کہ اپنی فوج کو ہمارے ملک سے واپس لے جا۔ میرا آقا تیرے ہر سپاہی کو ایک دینار، ایک قبا، اور ایک عمامہ دے گا اور تجھے ایک سو عمامے، ایک سو قبائیں، اور ایک سو دینارعطا کرے گا۔ تیرے لیے یہ فیاضی معمولی نہیں،کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ ہمارا لشکر ریت کے ذروں کی طرح بے حساب ہے؟ تو جن فوجوں سے لڑ چکا ہے ہماری فوج ان فوجوں جیسی نہیں۔ تو نہیں جانتا کہ اس فوج پر قیصر روم کا ہاتھ ہے۔ اس نے منجھے ہوئے تجربہ کار سالار اور چوٹی کے پادری اس فوج کو دیئے ہیں … بول …تیرا کیا جواب ہے؟ انعام چاہتا ہے یا اپنی اور اپنی فوج کی تباہی؟‘‘
’’دو میں سے ایک!‘‘ … خالدؓ نے جواب دیا۔ … ’’میری دو شرطوں میں سے ایک پوری کر دو تو میں اپنی فوج کو لے کر چلاجاؤں گا … اپنے آقا سے کہو کہ اسلام قبول کر لو یا جزیہ ادا کرو، اگر نہیں تو ہماری تلواریں فیصلہ کریں گی۔میں تیرے آقا کے کہنے پر واپس نہیں جاؤں گا … تیرے آقا نے جو دینار قبائیں اور عمامے پیش کیے ہیں وہ تو ہم وصول کر ہی لیں گے۔‘‘
’’ایک بار پھر سوچ عربی سالار!‘‘
’’عرب کے سالار نے سوچ کر جواب دیا ہے۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ ’’جا اپنے آقا تک میرا جواب پہنچا دے۔‘‘
…………bnb…………

بوڑھے پادری نے رومی سپہ سالار وردان کو خالدؓ کا جواب دیا۔
’’عرب کے ڈاکوؤں کی یہ جرأت؟‘‘ وردان نے غصے سے پھٹتے ہوئے کہا۔ … ’’کیا وہ نہیں جانتے کہ میں ان سب کو ایک ہی ہلہ میں ختم کر سکتا ہوں؟‘‘ … اس نے اپنی سپاہ کی طرف گھوڑا گھما کر حکم دیا۔ … ’’تیر انداز آگے جائیں اور ان بد بختوں کو فنا کرنے کیلئے تیار ہو جائیں، فلاخن بھی آگے لے آؤ۔‘‘
تیر انداز آگے آئے تو مسلمانوں کے قلب کے سالار معاذؓ بن جبل نے اپنے دستوں کو حملے کی تیاری کا حکم دیا۔
’’ٹھہر جا ابنِ جبل!‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’جب تک میں نہ کہوں حملہ نہ کرنا۔‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … معاذؓ بن جبل نے کہا۔ … ’’کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ ان کی کمانیں ہم سے اچھی اور بڑی ہیں جو بہت دور تک تیر پھینک سکتی ہیں؟وہ ہمارے تیر اندازوں کی زد سے دور ہیں ۔میں ان تیر اندازوں پر حملہ کرکے انہیں بیکار کرناچاہتا ہوں، ان کے فلاخن دیکھو۔ یہ پتھر برسائیں گے۔‘‘
’’رومی ترتیب میں کھڑے ہیں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ہم نے حملے میں پہل کی تو ہمیں پسپا ہونا پڑے گا۔ ان کی ترتیب ذرا اکھڑنے دو۔ان کا کوئی نہ کوئی کمزور پہلو ہمارے سامنے آجائے گا۔‘‘
رومیوں نے کچھ دیر انتظار کیا،مسلمانوں نے کوئی حرکت نہ کی تو وردان کے حکم پر اس کے تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑیں پھینکنی شروع کر دیں اور فلاخن سے وہ پتھر پھینکنے لگے۔ کئی مسلمان شہید اور زخمی ہو گئے۔ خالدؓنے یہ نقصان دیکھ کر بھی حملے کاحکم نہ دیا۔ رومی تیر اندازوں کو تیروں سے مؤثر جواب نہیں دیا جا سکتا تھا کیونکہ مسلمانوں کی کمانیں نسبتاً چھوٹی ہونے کی وجہ سے دور تک تیر نہیں پھینک سکتی تھیں۔
اُدھر سے تیر اور پتھر آتے رہے۔ تب مسلمانوں میں ہیجان اور اضطراب نظر آنے لگا،وہ حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن انہیں حکم نہیں مل رہا تھا۔سالار ضرار بن الازور دوڑے دوڑے خالدؓکے پاس گئے۔
’’ابنِ ولید!‘‘ … ضرار نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’تو کیا سوچ رہاہے؟کیا تو دشمن کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہم اس سے ڈر گئے ہیں؟ … اگر اﷲہمارے ساتھ ہے تو مت سوچ! حملے کا حکم دے۔‘‘
خالدؓکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، یہ اطمینان اور سکون کی مسکراہٹ تھی۔ ان کے سالار اور سپاہی پسپائی کے بجائے حملے کی اجازت مانگ رہے تھے۔
’’ابن الازور!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’تو آگے جا کر دشمن کو مقابلے کیلئے للکار سکتا ہے۔‘‘
ضرار نے زرّہ اورخود پہن رکھی تھی۔ان کے ایک ہاتھ میں چمڑے کی ڈھال اور دوسرے ہاتھ میں تلوار تھی۔انہوں نے پچھلے ایک معرکے میں یہ ڈھال ایک رومی سے چھینی تھی،ضرار آگے گئے تو رومی تیر اندازوں نے اپنے سالار کے حکم سے کمانیں نیچے کرلیں۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages