Featured Post

Khalid001

30 May 2019

Khalid035


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  35
طائف بڑی خوبصورت بستی ہوا کرتی تھی۔ باغوں کی بستی تھی، پھولوں اور پھلوں کی مہک سے ہوائیں مخمور رہتی تھیں ۔طائف میں جا کر دکھی دل کھل اٹھتے تھے ۔یہ جنگجو سردارو ں کی بستی تھی۔ یہ ثقیف جیسے طاقتور قبیلے کا مرکز تھا۔اس بستی کے قریب اس قبیلے کی عبادت گاہ تھی جس میں ثقیف ،ہوازن اور چند اور قبائل کے دیوتا لات کا بت رکھا تھا۔جو بت نہیں ایک چبوترا تھا۔ یہ قبائل اس چبوترے کو دیوتا کہتے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔
اس عبادت گاہ میں ان کا کاہن رہتا تھا جسے خدا کا اوردیوتا لات کا ایلچی سمجھا جاتا تھا۔کاہن فال نکال کر لوگوں کو آنے والے خطروں سے آگاہ کر دیا کرتا تھا ۔کاہن کسی خوش نصیب کو ہی نظر آیا کرتا تھا۔عام لوگوں کو کاہن نہیں عبادت گاہ کے صرف مجاور ملا کرتے تھے۔کاہن کو جو دیکھ لیتا وہ ایسے خوش ہوتا تھا جیسے اس نے خدا کو دیکھ لیا ہو۔ طائف کیونکہ ان کے دیوتا کا مسکن تھا اس لیے یہ قبائل کا مقدس مقام تھا۔
ایک ہی مہینہ پہلے طائف میں جشن کا سماں تھا۔یہاں کے سردارِ اعلیٰ مالک بن عوف نے پنے قبیلے جیسے ایک طاقتور قبیلے ہوازن اور کچھ اور قبیلوں کے سرداروں کو بہت بڑی ضیافت میں مدعو کیا تھا۔ علاقے کی چنی ہوئی خوبصورت ناچنے اور گانے والیاں بلائی گئی تھیں۔ ان کے رقص نے تماشائیوں پر وجد طاری کر دیا تھا۔ اس رات شراب کے مٹکے خالی ہو رہے تھے۔
اُس رات اہلِ ثقیف اور اہلِ ہوازن نے عہد کیا تھا کہ وہ مکہ پر اچانک حملہ کرکے رسول ِ اکرمﷺ اور مکہ کے تمام مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے، ان قبائل کے ایک ضعیف العمر سردار دُرید بن الصّمہ نے کہا تھا: ’’اٹھو اور لات کے نام پر حلف اٹھاؤ کہ ہم محمد (ﷺ) اور اس کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے تمام بت توڑ ڈالے ہیں، ختم کرکے اپنی عورتوں کومنہ دکھائیں گے۔‘‘
مالک بن عوف جس کی عمر ابھی تیس سال تھی، جوش سے پھٹا جارہا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ ’’قبائل کا متحدہ لشکر مکہ میں مسلمانوں کو بے خبری میں جا دبوچے گا۔‘‘
اس رات مالک بن عوف ،دُرید بن الصّمہ اور دوسرے قبیلوں کے سردار کاہن کے پاس گئے تھے۔ کاہن سے انہوں نے پوچھا تھا کہ وہ مکہ کے مسلمانوں کو بے خبری میں دبوچ سکیں گے ؟اور کیا ان کا اچانک اورغیر متوقع حملہ مسلمانوں کو گھٹنوں بٹھا سکے گا؟
کاہن نے انہیں یقین دلایا تھا کہ دیوتا لات نے انہیں اشیرباد دے دی ہے۔کاہن نے بڑے وسوق سے کہا تھا ’’مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔‘‘
اب ایک ہی ماہ بعد طائف کا حسن اداس تھا ۔بستی کے ماحول پر خوف و ہراس طاری تھا۔ اپنے دیوتا لات کی اشیرباد سے اور کاہن کی یقین دہانی سے ثقیف، ہوازن اور دیگر قبائل کا جو لشکر مکہ پر حملہ کرنے گیا تھا وہ مکہ سے دور حنین کے مقام پر مسلمانوں کے ہاتھوں پٹ کر اور تتر بتر ہوکر واپس آ رہاتھا۔ بھاگ کے آنے والوں میں پیش پیش اس متحدہ لشکر کا سالارِ اعلیٰ جواں سال اور جوشیلا سردار مالک بن عوف تھا۔ وہ سب سے پہلے اسی لیے طائف پہنچا تھا کہ شہر کے دفاع کو مضبوط بنا سکے۔ مسلمان رسولِ اکرمﷺ کی قیادت میں طائف کی طرف بڑھے آ رہے تھے۔
’’طائف کے لوگو!‘‘ طائف کی گلیوں میں گھبرائی گھبرائی سی آوازیں اٹھ رہی تھیں ۔’’مسلمان آ رہے ہیں۔ شہر کا محاصرہ ہو گا ،تیار ہو جاؤ۔اناج اور کھجوریں اکھٹی کرلو۔پانی جمع کر لو۔‘‘
سب سے زیادہ گھبراہٹ مالک بن عوف پر طاری تھی۔ اسے طائف ہاتھ سے جاتا نظر آ رہا تھا۔اسے شکست اور پسپائی کی چوٹ تو پڑی ہی تھی، سب سے بڑی چوٹ اس پر یہ پڑی کہ وہ جب شہر میں داخل ہوا تو عورتوں نے اس کی بہادری اور فتح کے گیت گانے کی بجائے اسے نفرت کی نگاہوں سے دیکھا تھا اور اس کے لشکریوں کو بعض عورتوں نے طعنے بھی دیئے تھے۔
’’بیویاں اور بیٹیاں کہاں ہیں جنہیں تم ساتھ لے گئے تھے؟‘‘عورتیں ،لشکریوں سے طنزیہ لہجے میں پوچھ رہی تھیں۔
’’بچے بھی مسلمانوں کو دے آئے ہو؟‘‘ یہ بھی ایک طعنہ تھا جو عورتیں انہیں دے رہی تھیں۔
مالک بن عوف نے اپنے سامنے اپنے نائب سالاروں اور کمانداروں کو بٹھارکھا تھا اور انہیں بڑی تیز تیز بولتے ہوئے کہہ رہا تھاکہ ’’دوسرے قبیلوں کو بھی شہر میں لے آؤ۔مسلمان آ رہے ہیں۔‘‘ مالک بن عوف نے ذرا سا بھی آرام نہ کیا۔ آتے ہی طائف کا دفاع مضبوط کرنے میں لگ گیا۔اس کے نائب کماندار اور قاصد پسپا ہو کر آنے والوں کو اکھٹا کرنے میں لگے ہوئے تھے۔
آدھی رات تک وہ تھک کر چور ہو چکا تھا۔ اس نے اپنی سب سے زیادہ حسین اور چہیتی بیوی کو اپنے پاس بلایا، وہ آگئی۔
’’کیاآپ نے حلف نہیں اٹھایا تھا کہ محمد (ﷺ) اور ا س کے تمام پیروکاروں کو جنہوں نے مکہ کے بت توڑ ڈالے ہیں ختم کرکے اپنی عورتوں کو منہ دکھائیں گے؟‘‘ بیوی نے اسے کہا۔ ’’آپ فتح کی بجائے ماتھے پر شکست کا داغ لے کر آئے ہیں۔ آپ کے حلف اور عہد کے مطابق میرا وجود آپ پر حرام ہے۔‘‘
’’تم میری بیوی ہو۔‘‘ مالک بن عوف نے غصے سے کہا۔’’میری حکم عدولی کی جرات نہ کرو۔میں بہت تھکا ہوا ہوں اور میں بہت پریشان ہوں۔مجھے اس وقت تمہاری ضرورت ہے۔ تم میری سب سے پیاری بیوی ہو۔‘‘
’’آپ کو میری ضرورت ہے۔‘‘ بیوی نے کہا۔’’لیکن مجھے ایک غیرت مند مرد کی ضرورت ہے۔مجھے اس مالک بن عوف کی ضرورت ہے جو یہاں سے عہد کرکے نکلا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ کے اندر ہی ختم کرکے واپس آئے گا۔کہاں ہے وہ مالک بن عوف؟وہ میرے لیے مر گیا ہے۔ اس مالک بن عوف کو میں نہیں جانتی جو اپنے قبیلے اور اپنے دوست قبیلوں کی ہزاروں عورتوں اور ہزاروں بچے اپنے دشمن کے حوالے کرکے اپنی خواب گاہ میں آ بیٹھا ہے۔ وہ ایک عورت سے کہہ رہا ہے کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔‘‘ اس حسین عورت کی آواز بلند ہو کر جذبات کی شدت سے کانپنے لگی۔ وہ مالک بن عوف کے پلنگ سے ا ٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی۔ ’’آج رات تمہاری کوئی بیوی تمہارے پاس نہیں آئے گی۔ آج رات تمہاری کسی بیوی کو ان عورتوں کی آہیں اور فریادیں چَین سے سونے نہیں دیں گی جو مسلمانوں کے قبضے میں ہیں۔ ذار سوچ،تصور میں لا ان عورتوں کو۔ ان نو خیز لڑکیوں کو جنہیں تو مسلمانوں کے حوالے کرآیا ہے۔ وہ اب مسلمانوں کے بچے پیدا کریں گی، بچے جو ان کے قبضے میں ہیں وہ مسلمان ہو جائیں گے۔‘‘
مالک بن عوف توخطروں میں کود جانے والا خود سر آدمی تھا، اس نے اپنے بزرگ اور میدانِ جنگ کے منجھے ہوئے استاد دُرید بن الصّمہ کی پندونصیحت کو ٹھکرا دیا تھا کہ وہ عقل و ہوش سے کام لے اور جوانی کے جوش و خروش پر قابو پائے۔ اب وہی مالک بن عوف اپنی بیوی کے سامنے یوں سر جھکائے بیٹھا تھا جیسے دہکتے ہوئے انگاروں پر کسی نے پانی چھڑک دیا ہو۔ اس کی مردانگی ختم ہو چکی تھی۔
’’تمام مسلمانوں کو ختم کرنے گئے تھے مالک؟‘‘ بیوی اب اس طرح بولنے لگی جیسے اس کی نگاہوں میں اتنے جرّی اور بہادر شوہر کا احترام ختم ہو چکا ہو۔ وہ کہہ رہی تھی ’’مسلمانوں کو ختم کرتے کرتے تم مسلمانوں کی تعدا دمیں اضافہ کرآئے ہو۔‘‘
’’کاہن نے کہا تھا کہ…‘‘
’’کون کاہن؟‘‘ بیوی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’وہ جو مندر میں بیٹھا فالیں نکالتا رہتا ہے؟ تم جیسے آدمی اپنی قسمت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتے ہیں اور اپنی قسمت اپنے ہاتھوں بنایا اور بگاڑا کرتے ہیں۔ تم نے کاہن سے پوچھا نہیں کہ اس کی فال نے جھوٹ کیوں بولا ہے؟‘‘ مالک بن عوف اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کی سانسیں تیزی سے چلنے لگیں۔ اس کی آنکھوں میں خون اترنے لگا۔ اس نے دیوارکے ساتھ لٹکتی ہوئی تلوار اتاری اور بیوی سے کچھ کہے بغیر باہر نکل گیا۔
طائف میں رات توآئی تھی لیکن وہاں کی سرگرمیاں اور بھاگ دوڑ دیکھ کر دن کا گمان ہوتا تھا ۔باہرسے خبریں آ رہی تھیں کہ مسلمان طائف کی طرف بڑی تیزی سے بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ لوگ دفاعی تیاریوں میں مصروف تھے۔ سب سے بڑا مسئلہ خوراک اور پانی کا تھا۔ بہت سے لوگ پانی جمع کرنے کیلئے حوض بنا رہے تھے۔
مالک بن عوف ان سرگرمیوں کے شوروغل میں سے گزرتا چلا جا رہا تھا۔ لوگ اتنے مصروف تھے کہ کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ ان کے درمیان سے ان کاسالارِ اعلیٰ گزر گیا ہے۔
عبادت گاہ میں وہ کاہن جس نے کہا تھاکہ ثقیف اورہوازن مسلمانوں کو مکہ میں بے خبری میں جالیں گے۔ گہری نیند سویا ہوا تھا۔اسے جگانے کی کوئی جرات نہیں کر سکتا تھا۔ وہ عبادت گاہ کے کسی اندرونی حصے میں سویا ہوا تھا۔ عبادت گاہ کے مجاور بیرونی کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔ انہیں کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ یہ ان کے فرائض میں شامل تھا کہ کاہن کے کمرے تک کسی کو نہ پہنچنے دیں۔ دو تین مجاور اٹھ کر باہر آ گئے۔ ایک کے ہاتھ میں مشعل تھی۔
’’مالک بن عوف۔‘‘ ایک مجاور نے مالک کے راستے میں آ کر کہا۔ ’’کیا قبیلے کا سردار نہیں جانتا کہ اس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا ؟ہم سے بات کر مالک بن عوف۔‘‘
’’اور کیا تم نہیں جانتے ایک سردار کا راستہ روکنے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ مالک بن عوف نے تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ’’میں کاہن کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘
’’کاہن کے قہر کو سمجھ مالک۔‘‘ ایک اور مجاور نے کہا۔ ’’کاہن جو اس وقت تمہیں سویا ہوا نظر آئے گا، وہ لات کے حضور گیا ہوا ہے۔ اس حالت میں اس کے پاس جاؤ گے تو…‘‘
مالک بن عوف ایسی ذہنی کیفیت میں تھا جس نے اس کے دل سے کاہن کاتقدس اور خوف نکال دیا تھا۔ ایک تو وہ بہت بری شکست کھا کر آیا تھا دوسرے اس کی اس بیوی نے اسے دھتکار دیا تھا جسے وہ دل وجان سے چاہتا تھا۔ اس نے مجاور کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے مشعل کے ڈنڈے پر ہاتھ مارا اور اس کے ہاتھ سے مشعل چھین کر کاہن کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ مجاور اس کے پیچھے دوڑالیکن وہ کاہن کے کمرے میں داخل ہو گیا۔
کاہن مجاوروں کے شور سے جاگ اٹھا تھا۔اپنے کمرے میں مشعل کی روشنی دیکھ کر اُٹھ بیٹھا۔مالک بن عوف نے مشعل دیوار میں اس جگہ لگا دی جو اسی مقصد کیلئے دیوار میں بنائی گئی تھی۔
’’مقدس کاہن! ‘‘مالک بن عوف نے کہا۔’’میں پوچھنے آیا ہوں کہ…‘‘
’’کہ تمہاری شکست کا سبب کیا ہوا؟‘‘ کاہن نے اس کی بات پوری کرتے ہوئے کہا۔’’کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ ایک حام کی قربانی دو۔‘‘
’’اورمقدس کاہن۔‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔ ’’تم نے یہ بھی کہا تھاکہ حام نہ ملے تو اپنے قبیلے سے کہو کہ اپنے خون کی اور اپنی جانوں کی قربانی دیں۔ تم نے کہاتھا کہ حام کی تلاش میں وقت ضائع نہ کرنا۔ تم نے کہاتھاکہ مسلمان لڑنے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔‘‘
’’کیاتو اپنے دیوتا سے باز پرس کرنے آیا ہے کہ دشمن نے تمہیں شکست کیوں دی ہے؟‘‘ کاہن نے پوچھا۔ ’’میں نے کہا تھاکہ پیٹھ نہ دکھانا۔ کیا تیرے لشکر نے پیٹھ نہیں دکھائی۔ تیرے لشکر میں تو اتنی سی بھی غیرت نہیں تھی کہ اپنی عورتوں ا ور بچوں کی حفاظت کرتا۔‘‘
’’میں پوچھتا ہوں تم نے کیا کیا؟‘‘مالک بن عوف نے پوچھا۔’’اگر سب کچھ ہمیں ہی کرنا تھاتو تم نے کیا کمال دکھایا؟تم نے کیوں کہا تھا کہ مسلمانوں کو اس وقت پتا چلے گا جب تمہاری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں گی۔ کیا تم نے ہمیں دھوکانہیں دیا؟ کیا یہ درست نہیں کہ محمد (ﷺ) سچا ہے؟جس نے تمہاری فال کو جھٹلا دیا ہے۔ اگر تم کاہن نہ ہوتے تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔ اب طائف پر بہت بڑا خطرہ آ رہا ہے۔ کیا تم اپنے دیوتا کی بستی کو بچا سکتے ہو؟ کیا تم مسلمانوں پر قہر نازل کرسکتے ہو؟‘‘
’’پہلی بات یہ سن لے عوف کے بیٹے!‘‘ کاہن نے کہا۔ ’’کاہن کو دنیا کی کوئی طاقت قتل نہیں کر سکتی۔ کاہن کی جب عمر ختم ہوتی ہے تو وہ دیوتا لات کے وجود میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ تو مجھ پر تلوار اٹھا کر دیکھ لے اور دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان طائف تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہاں سے زندہ واپس نہیں جا سکتے۔‘‘
…………bnb…………

جس وقت مالک بن عوف کاہن کے کمرے میں داخل ہوا تھا، اس وقت کسی انسان کی شکل کا ایک سایہ عبادت گاہ کی عقبی دیوار پر رینگ رہاتھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا وہ اپنی جان کا خطرہ مول لے رہا تھا۔ مالک بن عوف ہی تھا جو سرداری کے رعب میں رات کے وقت کاہن کے کمرے تک پہنچ گیا تھا۔ یہ عبادت گاہ صدیوں پرانی تھی۔ عقبی دیوار میں چھوٹا سا شگاف تھا۔ وہ انسان جس کا سایہ دیوارپر رینگ رہا تھا اس شگاف میں داخل ہو گیا۔ آگے اونچی گھاس اور جھاڑیاں تھیں۔ وہ انسان گھاس اورجھاڑیوں میں سے یوں گزرنے لگا کہ اس کے قدموں کی آہٹ یا ہلکی سی سرسراہٹ بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔
وہ گھاس اور جھاڑیوں میں سے گزر کر اس چبوترے پر جا چڑھا، جس پر عبادت گاہ کی عمارت کھڑی تھی۔ اس طرف کے دروازے کے کواڑ دیمک خوردہ تھے۔ وہ انسا ن کھائے ہوئے ان کواڑوں میں سے گزر کر عبادت گاہ میں داخل ہو گیا۔ آگے تاریک غلام گردش تھی۔ اس انسان نے جوتے اتار دیئے اور دبے پاؤں آگے بڑھتا گیا۔
اس گھپ اندھیرے میں وہ یوں چلا جا رہا تھا جیسے پہلے بھی یہاں آیا ہو۔ وہ غلام گردش کی بھول بھلیوں میں سے گزرتا کاہن کے کمرے کے نزدیک پہنچ گیا۔ اسے کاہن کی اور کسی اور کی باتیں سنائی دیں۔ وہ مالک بن عوف تھا جو کاہن کے ساتھ باتیں کر رہاتھا، یہ انسان رک گیا اسے کاہن کے کمرے سے آتی ہوئی مشعل کی روشنی نظر آرہی تھی۔
مالک بن عوف کاہن سے اتنا مرعوب ہوا کہ وہ سر جھکائے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔ یہ انسان جو قریب ہی کہیں چھپ گیا تھا آگے بڑھا۔ کاہن دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں کیونکہ اس کے سامنے یک جوان سال لڑکی کھڑی تھی۔اس لڑکی کو وہ پہچانتا تھا۔ یہ وہی یہودی لڑکی تھی جسے ایک ضعیف العمر یہودی کاہن کے پاس تحفے کے طور پر لایاتھااور اس لڑکی کے ساتھ اس نے سونے کے دو ٹکڑے کاہن کی نظر کیے تھے۔ یہ کاہن کا انعام یا معاوضہ تھا۔ کاہن نے اسے یقین دلایا تھا کہ ثقیف اور ہوازن کے قبیلے مسلمانوں کو مکہ میں ہمیشہ کیلئے ختم کر دیں گے۔ اس نے اس بوڑھے یہودی سے کہا تھا۔ ’’دیوتا لات کا اشارہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔‘‘
بوڑھا یہودی اس یہودی لڑکی کو کاہن کے پاس ایک رات کیلئے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ طائف میں وہ اس خوش خبری کامنتظر بیٹھا تھا کہ ثقیف ہوازن اور ان کے دوست قبیلوں نے اسلام کو مسلمانوں کے خون میں ڈبو دیا ہے لیکن ہوا یہ کہ مالک بن عوف سر جھکائے ہوئے طائف میں داخل ہوا۔ پھر اس کے لشکری قدم گھسیٹتے ہوئے دو دو چار چار کی ٹولیوں میں طائف میں آنے لگے۔ بوڑھے یہودی کی کمر عمر نے پہلے ہی دوہری کر رکھی تھی۔ مالک بن عوف کو شکست خوردگی کی حالت میں واپس آتے دیکھ کر اس کی کمر جیسے ٹوٹ ہی گئی ہو۔ اس کی کمر پر آخری تنکا اس یہودی لڑکی نے رکھ دیا۔ جسے وہ انعام کے طورپر کاہن کے حوالے کر آیا تھا۔
’’میں حیران ہوں کہ تم جیسے جہاندیدہ بزرگ نے دھوکا کھایا۔‘‘ لڑکی نے اسے کہا تھا۔ ’’مجھے اس مکروہ کاہن کے کسی ایک لفظ پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ میں نے تمہارے حکم سے اپنی عصمت قربان کردی۔‘‘ ’’میرے حکم سے نہیں۔‘‘ بوڑھے یہودی نے کہا تھا۔ ’’خدائے یہودہ کے حکم سے۔ تمہاری عصمت کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔‘‘
یہودیوں میں یہ رواج عام تھا جو ابھی تک چلا آ رہا ہے کہ میدانِ جنگ میں آنے سے گریز کرتے تھے۔ وہ ایسی چال چلتے تھے کہ اپنے دشمنوں کو آپس میں لڑا دیا کرتے تھے۔ اس کیلئے وہ دولت کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹیوں کی عصمت بھی ایک کامیاب حربے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ یہودیوں کے معاشرے اور مذہب میں عصمت اور آبرو کی کوئی قدروقیمت نہیں تھی۔ لیکن یہ لڑکی اپنی قوم سے بہت ہی مختلف ثابت ہوئی۔ وہ بوڑھے یہودی پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتی تھی اور کہتی تھی کہ مسلمانوں کا قلع قمع ہوجاتا تووہ فخر سے کہتی کہ اس نے اس مقصد کیلئے اپنی عصمت کی قربانی دی ہے اور وہ یہ بھی کہتی تھی کہ کاہن نے انہیں دھوکا دیا ہے۔
رات کو جب بوڑھایہودی گہری نیند سویا ہوا تھا، یہ لڑکی اٹھی۔ اس نے خنجر اپنے تکیے کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ اس نے خنجر نکالا اوراپنے کپڑوں کے اندر چھپا لیا۔ وہ دبے پاؤں باہر نکل گئی۔
اُس رات اسے روک کر یہ پوچھنے والا کوئی نہیں تھا کہ وہ کون ہے اور کہاں جا رہی ہے۔ اس رات طائف میں ہر کوئی جاگ رہا تھا، عورتیں اپنے شکست خوردہ مردوں کو کوس رہی تھیں اور جن کے مرد واپس نہیں آئے تھے وہ بین کر رہی تھیں۔ گلیوں میں لوگ آ جا رہے تھے۔ لڑکی ان کے درمیان سے گذرتی لات کی عبادت گاہ تک پہنچ گئی۔ اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ وہ اس دور کی عورتوں میں سے ایک تھی جن میں مردانہ شجاعت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ عبادت گاہ کے پچھواڑے کی دیوار سے اندر چلی گئی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages