Featured Post

Khalid001

09 June 2019

Khalid061


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  61
سواروں کے کمانداروں نے معنّٰی کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے تلاشی کس طرح لی ہے اور کیا کچھ دیکھا ہے۔کہیں بھی انہیں کوئی ایرانی سپاہی نظر نہیں آیا تھا۔اس عورت کا اپنا قبیلہ تھا جس کے آدمی تیروں،تلواروں اور برچھیوں وغیرہ سے مسلح تھے۔ ان میں معنّٰی کے سواروں کے خلاف لڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ قلعے کی مالکن نے انہیں لڑنے کی اجازت بھی نہیں دی تھی۔ اس قلعے کو اپنی اطاعت میں لینا ضروری تھا۔ کیونکہ یہ کسی بھی موقع پر ایرانیوں کے کام آ سکتا تھا۔معنّٰی نے اِدھر ُادھر دیکھا۔وہ عورت اسے نظر نہ آئی۔ معنّٰی اندر چلا گیا۔
’’کچھ ملا میرے قلعے سے؟‘‘ عورت نے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ معنّٰی نے جواب دیا۔ ’’میرے لیے شک رفع کرنا ضروری تھا۔اور اب یہ پوچھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرے کسی سوار نے تمہارے کسی آدمی یا عورت کو یا میں نے تمہیں کوئی تکلیف تو نہیں دی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘عورت نے کہااور ذرا سوچ کر بولی۔’’لیکن تم چلے جاؤ گے تو مجھے بہت تکلیف ہوگی۔‘‘
’’کیا تم ایرانیوں کا خطرہ محسوس کر رہی ہو؟‘‘معنّٰی نے پوچھا۔’’یا تمہارے دل میں مسلمانوں کا ڈر ہے؟‘‘
’’دونوں میں سے کسی کا بھی نہیں۔‘‘عورت نے جواب دیا۔’’مجھے تنہا ئی کا ڈر ہے۔تم چلے جاؤ گے تو مجھے تنہائی کا احساس ہوگا۔جو تمہارے آنے سے پہلے نہیں تھا۔‘‘
معنّٰی نے اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
’’تم اپنے فرض میں اتنے الجھے ہوئے ہوکہ تمہیں یہ احساس بھی نہیں کہ تم ایک جوان آدمی ہو۔‘‘عورت نے کہا۔’’فاتح سب سے پہلے مجھ جیسی عور ت کو اپنا کھلونا بناتے ہیں۔ میں نے تم جیسا آدمی کبھی نہیں دیکھا۔اب دیکھا ہے تو دل چاہتا ہے کہ دیکھتی ہی رہوں۔ کیا میں تمہیں اچھی نہیں لگی؟‘‘
معنّٰی نے اسے غور سے دیکھا۔سر سے پاؤں تک پھر پاؤں سے سر تک دیکھا۔اسے ایک آواز سنائی دی۔’’ـخدا کی قسم! میں نے قلعے سر کرنے والوں کو ایک عورت کی تیکھی نظروں اور اداؤں سے سر ہوتے دیکھا ہے۔‘‘
’’کیاتم ہوش میں نہیں ہو؟‘‘عورت نے پوچھا۔
’’میں شاید ضرورت سے زیادہ ہوش میں ہوں۔‘‘ معنّٰی نے کہا۔’’تم مجھے اچھی لگی ہو یا نہیں یہ بعد کی بات ہے۔اس وقت مجھے تمہارا قلعہ اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
’’کیا میرا یہ تحفہ قبول کرو گے؟‘‘ عورت نے کہا۔ ’’طاقت سے قلعہ سر کرنے کے بجائے مجھ سے یہ قلعہ محبت کے تحفے کے طور پر لے لو تو کیا یہ اچھا نہیں رہے گا؟‘‘
’’محبت!‘‘ معنّٰی نے زیرِ لب کہا۔پھر سر جھٹک کر جیسے بیدار ہوگیا ہو۔کہنے لگا۔’’محبت کا وقت نہیں۔میں تمہارے ساتھ شادی کر سکتا ہوں۔ اگر تم رضا مند ہو تو پہلے اپنے سارے کے سارے قبیلے سمیت اسلام قبول کرو۔‘‘
’’میں نے قبول کیا۔‘‘ عورت نے کہا۔ ’’میں اس مذہب پر جان بھی دے دوں گی جس کے تم پیروکار ہو۔‘‘ دو مؤرخوں طبری اور ابنِ رُستہ نے اس خاتون کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔ لیکن دونوں کی تحریروں میں اس خاتون کا نام نہیں ملتا۔
…………bnb…………

شہنشاہِ فارس اردشیر آگ بگولہ ہوا جا رہا تھا۔اسے ہرمز پر غصہ آ رہا تھا جس نے کمک مانگی تھی۔کمک بھیجنے کے بعد اسے ابھی کوئی اطلاع نہیں ملی تھی کہ میدانِ جنگ کی صورتِ حال کیا ہے۔وہ دربار میں بیٹھتا تو مجسم عتاب بنا ہوتا۔محل میں وہ کہیں بھی ہوتا تو اس کیفیت میں ہوتا کہ بیٹھتے بیٹھتے اٹھ کھڑا ہوتا۔تیز تیز ٹہلنے لگتا۔اور بلا وجہ کسی نہ کسی پر غصہ جھاڑنے لگتا۔ اس روز وہ باغ میں ٹہل رہا تھا۔جب اسے اطلاع ملی کہ قارن کا قاصد آیا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ قاصد کوبلاتا ، وہ قاصد کی طرف تیزی سے چل پڑا۔
’’کیا قارن نے ان صحرائی گیدڑوں کو کچل ڈالا ہے؟‘‘ اردشیر نے پوچھا۔
’’شہنشاہِ­فارس!‘‘ … قاصد نے کہا۔ … ’’جان بخشی ہو۔شہنشاہ کا غلام اچھی خبر نہیں لایا۔‘‘
’’کیا قارن نے بھی کمک مانگی ہے؟‘‘ …اردشیر نے پوچھا۔
’’نہیں شہنشاہِ فارس!‘‘ …قاصد نے کہا۔ … ’’سالار ہرمز مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔‘‘
’’ماراگیا ہے؟‘‘ اردشیر نے حیرت سے کہا۔ ’’کیا ہرمز کو بھی مارا جا سکتا ہے؟ نہیں نہیں یہ غلط ہے۔ یہ جھوٹ ہے۔‘‘ …اس نے گرج کر قاصد سے پوچھا۔ …’’تمہیں یہ پیغام کس نے دیا ہے؟‘‘
’’سالار قارن بن قریاس نے۔‘‘ … قاصد نے کہا۔ …’’ہمارے دو سالار قباذ اور انوشجان پسپا ہو کر آ رہے تھے۔ باقی سپاہ بھی جو زندہ تھی،ایک ایک دو دو کر کے ان کے پیچھے آ رہی تھی۔ دریائے معقل کے کنارے وہ ہمیں آتے ہوئے ملے۔ انہوں نے بتایا کہ سالار ہرمز نے مسلمانوں کو انفرادی مقابلے کیلئے للکارا تو ان کاایک سالار خالد بن ولید ہمارے سالار کے مقابلے میں آیا۔ سالار ہرمز نے اپنے محافظوں کو ایک طرف چھپا دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے سالار کو گھیرے میں لے کر قتل کرنا تھا۔ انہوں نے اسے گھیرے میں لے بھی لیا تھا۔ لیکن کسی طرف سے ایک مسلمان سوار سرپٹ گھوڑا دوڑاتا آیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں برچھی اور دوسرے میں تلوار تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سالار ہرمز کے چھ سات محافظوں کو ختم کر دیا۔ عین اس وقت مسلمانوں کے سالار نے سالار ہرمز کو گرا لیااور خنجر سے انہیں ختم کر دیا۔‘‘
اُردشیر کا سر جھک گیااور وہ آہستہ آہستہ محل کی طرف چل پڑا۔ جب وہ محل میں پہنچا تو اس نے یوں دیوار کا سہارا لے لیا۔ جیسے اسے ٹھوکر لگی ہو اور گرنے سے بچنے کیلئے اس نے دیوار کا سہارالے لیا ہو۔ وہ اپنے کمرے تک دیوار کے سہارے پہنچا۔ کچھ دیر بعد محل میں ہڑبونگ سی مچ گئی، طبیب دوڑے آئے۔ اُردشیر پر کسی مرض کا اچانک حملہ ہو گیا تھا۔ یہ صدمے کا اثر تھا۔ فارس کی شہنشاہی شکست سے نا آشنا رہی تھی۔ اسے پہلی ضرب رومیوں کے ہاتھوں پڑی تھی اور فارس کی شہنشاہی کچھ حصے سے محروم ہو گئی تھی۔ اب اس شہنشاہی کواس قوم کے ہاتھوں چوٹ پڑی تھی جسے اُردشیر قوم سمجھتا ہی نہیں تھا۔ اردشیر کیلئے یہ صدمہ معمولی نہیں تھا۔
…………bnb…………

قارن بن قریانس ابھی دریائے معقل کے کنارے پر خیمہ زن تھا  ۔اس نے وہاں اتنے دن اس لئے قیام کیا تھا کہ ہرمز کی فوج کے بھاگے ہوئے کماندار اور سپاہی ابھی تک چلے آ رہے تھے۔ قارن انہیں اپنے لشکر میں شامل کرتا جا رہا تھا۔ ہرمز کے دونوں سالار قباذ اور انوشجان اس کے ساتھ ہی تھے۔ وہ اپنی شکست کا انتقام لینے کا عہد کیے ہوئے تھے۔ ان کے کہنے پر قارن پیش قدمی میں محتاط ہو گیا تھا۔
قیام کے دوران اس کے جاسوس اسے اطلاعیں دے رہے تھے کہ مسلمانوں کی سرگرمیاں اور عزائم کیا ہیں۔ ان اطلاعوں سے اسے یقین ہو گیا تھا کہ مسلمان واپس نہیں جائیں گے بلکہ آگے آ رہے ہیں۔
خالدؓ نے جنگِ سلاسل جیتنے کے بعد کاظمہ، اُبلہ اور چھوٹی چھوٹی آبادیوں کے انتظامی امور اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔ جب وہ ان آبادیوں میں گئے تو وہاں کے مسلمانوں نے چِلّا چِلّا کر خالد زندہ باد … اسلام زندہ باد … خلافتِ مدینہ زندہ باد کے نعرے لگائے۔ وہ سر سبز اور شاداب علاقہ تھا۔ عورتوں نے خالدؓ اور اس کے محافظوں کے راستے میں پھول پھینکے۔
اس علاقے کے مسلمانوں کو بڑی لمبی مدت بعد ایرانی جورواستبداد سے نجات ملی تھی۔
خالدؓ کیا تو ہماری عصمتوں کا انتقام لے گا؟‘‘خالدؓ کو کئی عورتوں کی آوازیں سنائی دیں۔
’’ہمارے جوان بیٹوں کے خون کا انتقام … انتقام … خالد انتقام …‘‘ یہ ایک شور تھا ،للکار تھی اورخالدؓ اس شور سے گزرتے جا رہے تھے۔
’’ہم واپس جانے کیلئے نہیں آئے۔‘‘ …خالدؓ نے وہاں کے مسلمانوں سے کہا۔ …’’ہم انتقام لینے آئے ہیں۔‘‘
مسلمانوں کے ایک وفد نے خالدؓ کو بتایا کہ اس علاقے کے غیر مسلموں پر وہ بھروسہ نہ کرے۔ ’’یہ سب فارسیوں کے مددگار ہیں۔‘‘ وفد نے خالد ؓکو بتایا۔’’مجوسیوںنے ہمیشہ ہمارے خلاف مخبری کی ہے۔ہمارے بیٹے جب فارسی فوج کی کسی چوکی پر شب خون مارتے تھے تو مجوسی مخبری کر کے ہمارے بیٹوں کو گرفتار کرا دیتے تھے۔‘‘
’’تمام عیسائیوں اور یہودیوں کو گرفتار کر لو۔‘‘ خالدؓ نے حکم دیا۔ ’’اور مسلمانوں میں سے جو اسلامی لشکر میں آنا چاہتے ہیں ‘آجائیں۔‘‘
’’وہ پہلے ہی مثنیٰ بن حارثہ کے ساتھ چلے گئے ہیں۔‘‘ خالدؓ کوجواب ملا۔
فوراً ہی مجوسیوں اور دیگر غیر مسلموں کی پکڑ دھکڑشروع ہوگئی۔ان میں سے صرف انہیں جنگی قیدی بنایا گیا جن کے متعلق مصدقہ شہادت مل گئی کہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف جنگی کارروائیاں کی تھیں یا مخبری کی تھی۔
نظم و نسق کیلئے اپنے کچھ آدمی کاظمہ میں چھوڑ کر خالدؓ آگے بڑھ گئے۔اب ان کی پیش قدمی کی رفتار تیز نہیں تھی کیونکہ کسی بھی مقام پر ایرانیوں سے لڑائی کا امکان تھا۔ خالد ؓنے اپنے جاسوس جو اس علاقے کے مسلمان تھے ،آگے اور دائیں بائیں بھیج دیئے تھے۔
…………bnb…………

مثنیٰ بن حارثہ آگے ہی آگے بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ دریائے معقل عبور کرنا چاہتا تھا لیکن دور سے اسے ایرانیوں کی خیمہ گاہ نظر آئی۔ وہ بہت بڑا لشکر تھا۔ مثنیٰ کے پاس ڈیڑھ ہزار سے کچھ زیادہ سوار تھے۔ اتنی تھوڑی تعداد سے مثنیٰ ایرانی لشکر سے ٹکر نہیں لے سکتا تھا۔
’’ہمیں یہیں سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔‘‘ مثنیٰ کے ایک ساتھی نے کہا۔ ’’یہ لشکر ہمیں گھیرے میں لے کر ختم کر سکتا ہے۔‘‘
’’سمجھنے کی کوشش کرو۔‘‘ …مثنیٰ نے کہا۔ …’’اگر ہم پیچھے ہٹے تو فارسیوں کے حوصلے بڑھ جائیں گے۔ ہمارے سپہ سالار خالد نے کہا تھا کہ پیشتر اس کے کہ فارسیوں کے دلوں سے ہماری دہشت ختم ہو جائے ہم ان پر حملے کرتے رہیں گے۔ہمیں اپنی دہشت برقرار رکھنی ہے۔میں آگ کے ان پجاریوں کی فوج کو یہ تاثر دوں گا کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول دستہ ہیں۔ ہم لڑنے کیلئے بھی تیار رہیں گے۔ اگر لڑنا پڑا تو ہم ان سے وہی جنگ لڑیں گے جو ایک مدت سے لڑ رہے ہیں … ضرب لگاؤ اور بھاگو … کیا تم ایسی جنگ نہیں لڑ سکتے؟‘‘ …مثنیٰ نے ایک سوار کو بلایا اور اسے کہا۔ …’’گھوڑے کو ایڑ لگاؤ ۔سپہ سالار خالد بن ولید کاظمہ یا ابلہ میں ہوں گے۔ انہیں بتاؤ کہ معقل کے کنارے فارس کا ایک لشکر پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ انہیں کہنا کہ میں اس لشکر کوآگے نہیں بڑھنے دوں گااور آپ کا جلدی پہنچنا ضروری ہے۔‘‘
خالدؓ پہلے ہی کاظمہ سے چل پڑے تھے۔ انہیں گھوڑوں اور بار بردار اونٹوں کیلئے چارے اور لشکر کیلئے کھانے پینے کے سامان کی کمی نہیں تھی۔ اس علاقے کے مسلمانوں نے ہر چیز کا بندوبست کر دیا تھا۔ خالد ؓکا رستہ کوئی اور تھا۔ وہ ابلہ سے کچھ دور کھنڈروں کے قریب سے گزر رہے تھے۔ سامنے ایک گھوڑ سوار بڑی تیز رفتار سے آ رہا تھا۔ خالدؓ نے اپنے دو محافظوں سے کہا کہ وہ آگے جا کر دیکھیں یہ کون ہے؟
محافظوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آنے والے سوار کو راستہ میں جالیا۔اس سوار نے گھوڑا روکا نہیں۔دونوں محافظوں نے اپنے گھوڑے اس کے پہلوؤں پر کرلئے اور اس کے ساتھ آئے۔
’’مثنیٰ بن حارثہ کا پیغام لایا ہے۔‘‘ دور سے ایک محافظ نے کہا۔
’’فارس کا ایک تازہ دم لشکر دریائے معقل کے کنارے پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔‘‘ مثنیٰ کے قاصد نے خالد ؓکے قریب آکر رکتے ہوئے کہا۔ ’’تعداد کا اندازہ نہیں۔ آپ کے اورمثنیٰ کے لشکر کی تعداد سے اس لشکر کی تعداد سات آٹھ گنا ہے۔ فارس کے بھاگے ہوئے سپاہی بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے ہیں۔‘‘
’’مثنیٰ کہاں ہے؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔’’فارسیوں کے سامنے۔‘‘قاصد نے کہا۔’’مثنیٰ نے حکم دیا ہے کہ کوئی عسکری پیچھے نہیں ہٹے گا اور ہم فارسیوں کو یہ تاثر دیں گے کہ ہم اپنے لشکر کا ہراول ہیں … مثنیٰ نے پیغام دیا ہے کہ جلدی پہنچیں۔‘‘
خالد ؓنے اپنی فوج کی رفتار تیز کردی اور رخ ادھر کر لیا جدھر مثنیٰ بن حارثہ تھے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages