Featured Post

Khalid001

09 August 2019

Khalid077


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  77
’’ہم مدائن کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔‘‘ … خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔’’ہم دشمن کو سنبھلنے کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘
خالدؓاپنے سالاروں کو کوچ کے احکام دے ہی رہے تھے کہ انہیں اطلاع دی گئی کہ مدینہ سے خلیفۃ المسلمینؓ کا قاصد آیا ہے۔ خالدؓنے فوراً قاصد کو اندر بلا لیا۔
’’کیا مدینہ کے لوگ ہمیں اچھے نام سے یاد کرتے ہیں؟‘‘ … خالدؓنے قاصد سے پوچھا۔
’’خدا کی قسم! مدینہ کی ہوائیں بھی آ پ کو یاد کرتی ہیں۔‘‘ … قاصد نے کہا۔ … ’’امیر المومنین ؓمسجد میں آپ کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں … کیا اب مائیں خالد جیسا ایک اور بیٹا جَن سکیں گی؟ … لوگ ہر روز آپ کی خبر کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘
’’پیغام کیا ہے؟‘‘
قاصد نے پیغام خالدؓ کو دے دیا۔ خالدؓ پڑھتے جا رہے تھے اور ان کے چہرے کا تاثر بدلتا جا رہا تھا۔ وہاں جو سالار موجود تھے وہ پیغام سننے کیلئے بیتاب ہو گئے۔
’’امیر المومنین کے سوا مجھے کون روک سکتا تھا؟‘‘ … خالدؓ نے کہا اور سالاروں سے مخاطب ہوکر بولے۔ … ’’امیرالمومنین نے حکم بھیجا ہے کہ عیاض بن غنم دومۃ الجندل میں لڑ رہا ہے۔ اﷲاسے فتح عطا فرمائے۔ اُدھر سے فارغ ہوکر وہ ہمارے پاس آجائے گا۔ امیرالمومنین نے کہا ہے کہ جب عیاض اپنی فوج لے کر ہمارے پاس آجائے تو ہم آگے بڑھیں۔ اُس کے آنے تک ہم جہاں ہیں وہیں رکے رہیں۔‘‘
…………bnb…………

خالدؓ گہری سوچ میں کھو گئے،سالاروں کے اس اجلاس پر سناٹا طاری ہو گیا جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ خلیفۃ المسلمینؓ نے پیش قدمی روک دی تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ خالدؓ کے چہرے پر ایسا تاثر کبھی کبھی آیا کرتا تھا اور یہ تاثر ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتا تھا۔ کسی بھی سالار کو خلیفہ کے اس حکم کے متعلق کوئی بات کہنے کی جرأت نہ ہوئی۔
چند منٹ بعد خالدؓ گہری سوچ سے بیدار ہوئے اور قاصد کی طرف دیکھا۔
’’اﷲتجھے سفر میں سلامتی اور رحمت عطا کرے!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ ’’آرام کرنا چاہتا ہے تو کرلے اور واپسی کا سفر اختیار کر … امیر المومنین سے میرا اور میرے ساتھیوں کا سلام کہنا، پھر کہنا کہ جنگ کے حالات کو وہی بہتر سمجھتے ہیں جو میدانِ جنگ میں ہوتے ہیں۔ محاذ سے اتنی دور بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرنا لڑنے والوں کیلئے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے … پھر کہنا کہ ولید کا بیٹا خلافت کی حکم عدولی کی جرأت نہیں کرے گا لیکن حالات نے مجبور کیا اور اسلام کو خطرہ لاحق ہوا تو میں حکم کی پرواہ نہیں کروں گا۔ میں خلافتِ مدینہ کا امین اور اسلام کا پاسبان ہوں۔ میں دشمن کو اپنے اوپر آتا دیکھ کر ایک شخص کے حکم کو ایک طرف رکھ دوں گا۔ مجھے خوشنودی اﷲکی درکار ہے اﷲ کے کسی بندے کی نہیں۔ میں معلوم کروں گا کہ سالار عیاض کے محاذ کی صورتِ حال کیا ہے، ہو سکتا ہے اسے مدد کی ضرورت ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے محاذ سے جلدی فارغ نہ ہو سکے اور آتش پرست اس عرصے میں سنبھل جائیں۔ …
اور خلیفۃ المسلمین سے کہنا کہ ہم نے زرتشت کی آگ کو سرد کر دیا ہے اﷲنے ہمیں ایسی فتح عطا کی ہے کہ جس نے کسریٰ کے محل کو شیطان کا بسیرا بنادیا ہے۔ اُردشیر کے تخت پر جو کوئی بیٹھتا ہے وہ دو روز بعد اپنے بھائیوں کے ہاتھوں قتل ہو جاتا ہے۔ فارس کی شہنشاہی اور اس کی شان و شوکت کو ہم نے دجلہ اور فرات میں ڈبو دیا ہے۔ حیرہ جسے فارس کا ہیرا کہتے ہیں، ہمارا فوجی اڈہ ہے، ہمارے لیے دعاکرتے رہیں۔‘‘
قاصد کی روانگی کے بعد خالدؓ نے ایک کماندار کو بلا کر کہا کہ اپنے ساتھ دو بڑے تیز اور توانا سپاہی لے کر بہت تیز رفتار سے دومۃ الجندل جائے اور غور سے دیکھے کہ وہاں کیا صورتِ حال ہے اور سالار عیاض بن غنم کب تک فارغ ہو سکیں گے اور کیا ان کے جلدی فارغ ہونے کا امکان ہے بھی یا نہیں۔
کماندار اسی وقت روانہ ہو گیا۔
’’خلیفۃ المسلمین کے اس حکم کو جو تم نے سنا ہے، ذہن سے اتار دو۔‘‘ … خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔ … ’’دل میں خلافتِ مدینہ کا پورا احترام رکھتے ہوئے ان حالات کو دیکھوجو ہم نے آتش پرستوں کیلئے پیدا کر دیئے ہیں۔ اگر ہم عیاض کے انتظار میں یہیں بیٹھے رہے تو کسریٰ کی فوج کے سنبھلنے کا موقع مل جائے گا۔ خدا کی قسم!تم سب یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہو کہ کسریٰ کی فوج پر تم نے جو خوف طاری کر دیا ہے وہ انہیں کسی میدان میں تمہارے مقابلے میں نہیں ٹھہرنے دے گا …
 اور مدائن کے محلات میں تخت نشینی پر جو قتل و غارت ہو رہی ہے وہ ہمارے حق میں جاتی ہے۔ قوم کے سرداروں میں جب تخت نشینی وجہ پیکار بن جاتی ہے تو فوج ایسی تلوار کی مانند ہو جاتی ہے جو بڑے ہی ڈھیلے اور کمزورہاتھوں میں ہو۔‘‘
’’ہاں ابنِ ولید!‘‘ … سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔ … ’’کسریٰ کے جن سالارں نے فارس کے بچے ہوئے علاقوں میں اپنی فوج پھیلا دی ہے وہ سالار بھی تخت کے خواہشمند ہوں گے۔ وہ ہم پر فتح حاصل کرکے فارس کے تخت پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔‘‘
’’اگرایساہوا تو فارس جلدی تباہ ہوگا۔‘‘ … سالار عدی بن حاتم نے کہا۔ … ’’سالاروں کے دماغوں پر جب تخت و تاج سوار ہو جاتا ہے تو وہ اپنے ملک اور قوم کو بڑی جلدی تباہ کر دیتے ہیں۔‘‘
’’جب توجہ تخت کے لفظ اور اپنی ذات پر مرکوزہو جاتی ہے تو نگاہیں دشمن سے ہٹ جاتی ہیں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’میں ان حالات سے فائدہ اٹھاؤں گا۔اپنی فوج کو تیاری کی حالت میں رکھو۔ہم آخری فیصلہ دومۃالجندل کی صورتِحال معلوم ہو جانے پر کریں گے۔‘‘
…………bnb…………

دومۃ الجندل کی صورتِ حال سالار عیاض بن غنم کیلئے مخدوش تھی۔ دومۃ الجندل اس دور کا مشہور تجارتی مرکز تھا۔آج کے عراق اور شام کی شاہراہیں یہیں آکر ملتی تھیں۔ رسولِ اکرمﷺ نے تبوک پر چڑھائی کی تھی تو اس دوران خالدؓ دومۃ الجندل تک پہنچے اور یہاں کے قلعہ سے قلعہ داراُکیدربن مالک کو گرفتار کرکے رسولِ اکرمﷺ کے حضور پیش کیا تھا۔
اُکیدر بن مالک نے اسلام تو قبول نہ کیا، رسول اﷲﷺ کی اطاعت قبول کر لی تھی لیکن حضور ﷺ کی وفات کے بعد ارتدار کا فتنہ اٹھا تو اس شخص نے مدینہ کی وفاداری ترک کردی اور عیسائیوں اور بت پرستوں کو ساتھ ملا کر اس کا سردار بن گیا تھا۔ ابو بکرؓ نے اُکیدر بن مالک کی سرداری کو ختم اور اس کے زیرِ اثر غیر مسلم قبائل کو اپنے زیرِ نگیں کرنے کیلئے سالار عیاض بن غنم کو بھیجا تھا۔
عیاض تجربہ کار سالار تھے لیکن دومۃ الجندل پہنچے تو دیکھا کہ عیسائیوں کا ایک بہت بڑا قبیلہ جو کلب کہلاتا تھا ،اپنے علاقے کے دفاع کیلئے تیار تھا۔ یہ قبیلہ جنگ و جدل میں شہرت رکھتا تھا۔ عیاض نے قلعے کو محاصرے میں لے لیا لیکن عیسائیوں نے باہر سے مسلمانوں کو محاصرے میں لے لیا۔ عیاض کی فوج کو آگے بھی اور عقب میں بھی لڑنا پڑا۔ اس صورتِ حال نے جنگ کو ایسا طول دیا جوختم ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ اور یہ صورتِ حال عیاض کیلئے روز بروز مخدوش ہوتی جا رہی تھی۔
خالدؓ کا بھیجا ہوا کماندار واپس آیا تو اس نے خالدؓکو بتایا کہ عیاض بن غنم کیسے آئے گا؟ اسے تو خود مدد کی ضرورت ہے۔ کماندار نے دومۃ الجندل میں عیاض اور دشمن کی فوجوں کی پوزیشنیں تفصیل سے بیان کیں۔
’’خدا کی قسم! میں یہاں انتظا رمیں فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘ … خالدؓنے پر جوش آواز میں کہا۔ … ’’پیشتر اس کے کہ دشمن آگے آجائے۔میں آگے بڑھوں گا۔مدائن کی شہر پناہ مجھے پکار رہی ہے … کوچ کی تیاری کرو۔‘‘
مشہور مؤرخ طبری اور بلاذری نے لکھا ہے کہ خالدؓکی خود سری اور سرکشی مشہور تھی۔ وہ چَین سے بیٹھنے والے سالار نہیں تھے۔ اس صورت میں کہ دشمن چار شکستیں کھا چکا تھا اور اس کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا اور مدائن کے شاہی ایوان میں ابتری پھیلی ہوئی تھی، خالدؓ فارغ بیٹھ ہی نہیں سکتے تھے۔
خالدؓکا جاسوسی نظام بڑا تیز اور ذہین تھا۔ اس میں زیادہ تر وہ مسلمان تھے جو فارس میں غلاموں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہ ان علاقوں سے واقف تھے اور مختلف قبیلوں کی زبانیں بول سکتے تھے اور ان کا بہروپ دھار سکتے تھے۔وہ مدائن کے محلات کے اندر کی خبریں لے آئے تھے۔ انہوں نے خالدؓ کو خبریں دینی شروع کر دیں کہ فارس کی فوج کہاں کہاں موجود ہے اور کس جگہ کیا کیفیت ہے۔
ان کی اطلاعوں کے مطابق ایرانیوں کی فوج کی زیادہ تر نفری دو شہروں میں تھی۔ ایک تھا عین التمر اور دوسرا انبار۔ عین التمر حیرہ کے قریب تھا اور انبار اس سے دگنے فاصلے پر آگے تھا، عین التمر دریائے فرات سے دور ہٹ کر واقع تھا اور انبار فرات کے کنارے پر تھا۔ خالدؓنے فیصلہ کیا کہ پہلے انبار پرحملہ کیا جائے، یہ بھی تجارتی شہر تھاجس میں غلّے کے بہت بڑے بڑے ذخیرے تھے۔
جون ۶۳۳ء کے آخر (ربیع الاول ۱۲ ھ کے وسط) میں خالدؓ نے حیرہ سے کوچ کیا۔ ان کے ساتھ ان کی آدھی فوج یعنی نو ہزار نفری تھی جو حملے کیلئے بہت ہی تھوڑی تھی لیکن خالدؓکو اﷲپر اور اپنی جنگی فہم و فراست پر بھروسہ تھا۔ وہ مفتوحہ علاقوں کو فوج کے بغیر نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ عیسائی اور دیگر قبیلوں نے اطاعت تو قبول کر لی تھی لیکن مسلمانوں کو بڑے تلخ تجربے ہوئے تھے۔ اطاعت قبول کرنے والے موقع ملتے ہی اطاعت سے منکر اور باغی ہو جاتے تھے۔ حیرہ میں خالدؓ نے قعقاع بن عمرو اور اقرع بن حابس کو چھوڑا تھا۔
یہاں ایک غلطی کی وضاحت ضروری ہے۔دو چار تاریخ دانوں نے لکھاہے کہ خالدؓ حیرہ میں سالار عیاض بن غنم کے انتظار میں ایک سال کے رہے۔ یہ غلط ہے، اس دور کی تحریروں سے صاف پتا چلتا ہے کہ خالدؓنے حیرہ میں پورا ایک مہینہ بھی انتظار نہیں کیا نہ انہوں نے امیر المومنینؓ کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ ان کے حکم کے خلاف سالار عیاض بن غنم کا انتظار کیے بغیر مدائن کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ خالدؓ اپنی نَو ہزار سپاہ کے ساتھ فرات کے کنارے کنارے بڑی تیزی سے بڑھتے گئے۔ ان کے جاسوس مختلف بہروپوں میں دریا کے دوسرے کنارے پر آگے آگے جا رہے تھے۔ انبار سے تھوڑی دور رہ گئے تو خالدؓ نے فرات عبور کیا اور اس کنارے پر چلے گئے جس پر انبار واقع تھا۔ وہاں انہوں نے مختصر سا قیام کیا اور دو خط تحریر کرائے۔ ایک کسریٰ کے نام اور دوسرا مدائن کے حکام اور امراء وغیرہ کے نام۔ کسریٰ کے نام خالدؓ نے لکھوایا:
’’بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم! خالد بن ولید کی جانب سے شاہِ فارس کے نام۔ میں شکر ادا کرتا ہوں اﷲکا جس نے تمہاری بادشاہی کو تہہ و بالا کر ڈالا ہے اور تمہاری عیاریوں کو کامیابی سے محروم رکھا ہے اور تم آپس میں ہی دست و گریبان ہو رہے ہو۔ اﷲاگر تمہیں مذید مہلت دیتا تو بھی گھاٹے میں تم ہی رہتے۔اب تمہاری نجات کا ایک ہی راستہ ہے۔ مدینہ کی اطاعت قبول کر لو۔ اگر یہ منظور ہے تو میں شرائط طے کرنے کیلئے دوستوں کی طرح آؤں گا۔ پھر ہم تمہارے علاقے سے آگے نکل جائیں گے۔ اگر پس و پیش کرو گے تو تمہیں ایسی قوم کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑیں گے جسے موت اتنی عزیز ہے جتنا تم زندگی کو عزیز رکھتے ہو۔‘‘
خالدؓ نے مدائن کے حکام اور امراء کے نام لکھوایا:
’’بسم اﷲالرحمٰن الرحیم! خالد بن ولید کی جانب سے فارس کے امراء کے نام۔ تمہارے لیے بہتر صورت یہی ہے کہ اسلام قبول کر لو۔ ہم تمہاری سلامتی اور تحفظ کے ذمہ دار ہوں گے۔ اسلام قبول نہ کرو تو جزیہ ادا کرو، ورنہ سوچ لو کہ تمہارا سامنا ایک ایسی قوم سے ہے جو موت کی اتنی ہی شیدائی ہے جتنے فریفتہ تم شراب پر ہو۔‘‘
خالدؓ نے شاہِ فارس کے نام حیرہ کے رہنے والے ایک آدمی کے ہاتھ بھیجا اور امراء وغیرہ کے نام خط لے جانے والا انبار کا رہنے والا ایک آدمی تھا۔ کسی بھی مؤرخ نے ان دونوں آدمیوں کے نام نہیں لکھے۔
…………bnb…………

انبار جس علاقے میں تھاوہ ساباط کہلاتا تھا۔ ساباط آج کل کے ضلعوں کی طرح تھا اور انبار اس ضلعے کا سب سے بڑا شہر تھا۔ ساباط کا حاکم یا امیر شیر زاد تھا جو اس وقت انبار میں مقیم تھا۔ وہ دانشمند اور عالم تھا۔اس میں عسکری صلاحیت ذرا کم تھی ،لیکن انبار میں فوج اتنی زیادہ تھی کہ اسے عسکری سوجھ بوجھ کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ اپنی فوج کے علاوہ اسے ساتھ عیسائیوں کی بے شمار نفری تھی۔
اتنی زیادہ فوج کے علاوہ انبار کی شہر پناہ بڑی مضبوط تھی اور دفاع کا یہ انتظام بھی تھا کہ شہر کے اردگرد گہری خندق تھی جس میں پانی تھا۔ اس طرح انبار کو ناقابلِ تسخیر شہر بنا دیا گیا تھا۔ خالدؓ کیلئے تو یہ اس لئے بھی ناقابلِ تسخیر تھا کہ ان کی فوج کی کل نفری نو ہزار تھی۔
انبار کے جاسوسوں نے مسلمانوں کی فوج کو شہر کی طرف آتے دیکھا تو انہوں نے شیرزاد کو جا بتایا، پھر سارے شہر میں خبر پھیل گئی کہ مدینہ کی فوج آ رہی ہے۔شیرزاد دوڑاگیا اور دیوار پر جا چڑھا۔ اسے جاسوسوں نے مدینہ کی فوج کی نفری دس ہزار بتائی تھی۔
’’نہیں!یہ دھوکا ہے۔‘‘ … دیوار پر کھڑے شیرزاد نے مسلمانوں کی فوج کو دیکھ کر کہا۔ … ’’جنہوں نے ہماری اتنی زبردست فوج کو یکے بعد دیگرے چار لڑائیوں میں شکست دی ہے وہ اتنے احمق نہیں ہو سکتے کہ اتنے بڑے قلعے بند شہر پر حملہ کرنے کیلئے اتنی قلیل فوج لائیں۔ یہ ان کی فوج کا ہراول ہوگا۔ اگر ہراول نہیں تو اتنی ہی فوج پیچھے آرہی ہو گی یا کسی اور سمت سے آرہی ہوگی۔‘‘
شہر کے لوگوں میں افراتفری مچ گئی تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے بڑے دہشت ناک قصے سنے تھے۔انہوں نے اپنی شکست خوردہ فوج کے زخمیوں کو اور میدانِ جنگ سے بھاگ کر آنے والوں کو دیکھا تھا۔ ان کا خوف و ہراس بھی دیکھا تھا۔ پسپائی میں اپنے آپ کو حق بجانے ظاہر کرنے کیلئے انہوں نے لوگوں کو جنگ کے ایسے واقعات سنائے تھے جیسے مسلمان جن بھوت ہوں۔ اب وہ مسلمان ان کے اتنے بڑے شہر کو محاصرے میں لینے آئے تھے۔ انہوں نے اپنے زیورات اور رقمیں اور اپنی جوان لڑکیا ں چھپانی شروع کر دیں۔
شہر میں خوف و ہراس اور بھگدڑ زیادہ دیر نہ رہی کیونکہ دیوار کے اوپر سے بلند آوازیں سنائی دینے لگی تھیں کہ مسلمانوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہے کہ وہ ساری عمر شہر کی دیوار تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ پھر دیوار کے اوپر قہقہے بلند ہونے لگے۔
’’مسلمانو!‘‘ … آتش پرست مسلمانوں پر آوازے کَس رہے تھے۔ … ’’تمہیں موت یہاں تک لے آئی ہے۔‘‘
’’زندہ رہنا ہے تو مدینہ کو لَوٹ جاؤ۔‘‘
شہرِ پناہ پر تیر اندازوں کا ہجوم کھڑا تھا۔ مسلمانوں نے شہر کو محاصرے میں لے لیا تھااور خندق نے انہیں روک لیا۔ طبری اور یاقوت لکھتے ہیں کہ خندق دیوار کے اتنا قریب تھی کہ اس کے قریب آنے والے اوپر سے چھوڑے ہوئے تیروں کی زد میں آجاتے تھے۔ ایسا نہ ہوتا تو بھی خندق کو پھلانگنا ممکن نہ تھا۔ یہ بہت چَوڑی تھی۔ تیر انداز مسلمانوں پر ہنس رہے تھے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں دیوار پر یوں کھڑے تھے جیسے مسلمانوں کا تماشہ دیکھ رہے ہوں۔
’’خدا کی قسم!‘‘ … خالدؓنے بڑی بلند آواز سے کہا۔ … ’’یہ لوگ نہیں جانتے جنگ کیا ہے اور کس طرح لڑی جاتی ہے۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ انبار ہر لحاظ سے ناقابلِ تسخیر تھا لیکن خالدؓ کے چہرے پر پریشانی کاہلکاسا بھی تاثر نہیں تھا۔ وہ پر سکون تھے۔رات کو انہوں نے اپنے خیمے میں اپنے سالاروں کو یقین دلایا کہ فتح انہی کی ہوگی لیکن قربانی بہت دینی پڑے گی۔ انہیں صرف یہ بات فتح کی امید دلا رہی تھی کہ شہر کی دیوار اتنی اونچی نہیں تھی جتنی قلعوں کی ہوا کرتی تھی۔
…………bnb…………

صبح طلوع ہوتے ہی خالدؓ گھوڑے پر سوار ہوئے اور شہر کے اردگرد گھوڑا دوڑانے لگے۔ وہ دیوار اور خندق کا جائزہ لے رہے تھے ۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ انہیں ایک ہزارایسے تیر اندازوں کی ضرورت ہے جنہیں اپنے نشانے پر پورا پورا اعتماد ہو اور جن کے بازوؤں میں اتنی طاقت ہو کہ کمانوں کو کھینچیں تو کمانیں دہری ہو جائیں اور عام تیر اندازوں کی نسبت ان کے تیر بہت دور جائیں۔
’’جلدی۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’بہت جلدی ہمیں شام تک اس شہر میں داخل ہونا ہے۔‘‘
تھوڑی سی دیر میں ایک ہزار تیر انداز آگئے۔یہ چُنے ہوئے تھے اور سب کے سب جوان اور بڑے مضبوط جسموں والے تھے۔
’’تم سب خندق تک اس طرح ٹہلتے ہوئے جاؤ کہ کمانیں تمہارے ہاتھوں میں لٹک رہی ہوں۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’ایسا لگے کہ تم ٹہلتے ٹہلتے خندق کے قریب چلے گئے ہو۔ جوں ہی خندق کے قریب جاؤ،نہایت تیزی سے ترکشوں سے تیر نکالو ،کمانوں میں ڈالو اور دیوار پر کھڑے دشمن کے تیر اندازوں کی آنکھوں کا نشانہ لے کر تیر چلاؤ۔ پیشتر اس کے کہ وہ جان سکیں کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ ایک ایک، اس کے بعد پھر ایک ایک تیر چلاؤ۔‘‘
مورخ طبری کے مطابق خالدؓنے حکم دیا تھا۔ ’’صرف آنکھیں … صرف آنکھیں۔‘‘
ایک ہزار تیر انداز خالدؓ کے حکم کے عین مطابق آہستہ آہستہ خندق تک گئے۔ دیوار پر دشمن کے سپاہی ہنس رہے تھے اور بے پروائی سے کھڑے تھے۔ انہیں مسلمانوں کا کوئی ارادہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ وہ خندق کو پھلانگنے کی کوشش کریں گے۔ خندق کے قریب پہنچ کر ان ایک ہزار تیر اندازوں نے اوپر دیکھا، اِدھر اُدھر دیکھا، خندق میں دیکھا اور احمقوں کی سی حرکتیں کیں۔ آتش پرستوں کے تیر اندازوں نے ان پر تیر چلانے کی ضرورت محسوس نہ کی حالانکہ مسلمان تیر انداز ان کی زد میں تھے۔
اچانک مسلمان تیر انداز وں نے ترکشوں میں سے ایک ایک تیر نکالا ،پلک جھپکتے تیر کمانوں میں ڈالے، کمانیں آگے ر کھ کے دشمن کی آنکھوں کے نشانے لیے اور تیر چھوڑ دیئے۔ ایک ہزار تیروں سے بیشتر آتش پرستوں کے تیر اندازوں کی ایک ایک آنکھ میں اتر گئے۔ معاً بعد مسلمان تیر اندازوں نے ایک ہزار تیر چھوڑے، پھر ایک ہزار اور
یہ کہنا صحیح نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کا کوئی بھی تیر خطا نہیں گیا تاریخوں میں لکھاہے کہ زیادہ تیر دشمن کی آنکھوں میں لگے اور شہر میں یہ خبر تیز ہوا کی طرح پھیل گئی ہمارے سینکڑوں سپاہیوں کی آنکھیں ضائع ہو گئی ہیں۔ اب ان سینکڑوں سپاہیوں کو شہرِپناہ سے اتارا گیا تو شہر کے لوگوں نے ہر ایک کی ایک ایک آنکھ میں تیر اترا ہوا اور ان زخمیوں کو کرب ناک آہ و زاری کرتے دیکھا۔
ایک انگریز مبصر سر والٹر نے متعدد مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے تین ہزار تیر اتنی تیزی سے چلے کہ آتش پرست اپنے آپ کو بچا ہی نہ سکے اور تیر جن کی آنکھوں میں نہ لگے ان کے چہروں میں اتر گئے چونکہ فارس کے یہ سپاہی اور ان کی مدد کو آئے ہوئے عیسائی شہر پناہ پر گھنے ہجوم کی طرح کھڑے تھے اس لئے کوئی تیر ضائع نہ گیا۔ تیر نے ایک ایک آدمی کو زخمی کیا۔
طبری کی تحریر کے مطابق انبا ر کے محاصرے کو ’’ذات العیون‘‘ یعنی آنکھوں کی تکلیف بھی کہا جاتا رہا ہے۔
مسلمانوں کے اس وار نے شہر کے لوگوں پر ہی نہیں فارس کی فوج پر بھی خوف طاری کر دیا۔ مسلمانوں نے تو جادو کاکرتب دکھا دیا تھا۔ ساباط کا آتش پرست حاکم شیرزاد دانش مند اور دور اندیش آدمی تھا۔ اس نے بھانپ لیا کہ اس کی فوج میں جو لڑنے کا جذبہ موجو دتھا وہ ماند پڑ گیا ہے۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ اس کی فوج پہلی شکستوں کی بھی ڈری ہوئی ہے۔ چنانچہ مزید قتل و غارت کو روکنے کیلئے اس نے خالدؓ سے صلح کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے دو امراء کو قلعے کے باہر بھیجا۔
خندق کے قریب آکر ان دو امیروں نے مسلمانوں سے پوچھا کہ ان کا سالارِ اعلیٰ کہاں ہے۔ خالدؓ کو اطلاع ملی تو وہ آگئے۔
’’ہمارے امیر شیر زاد نے ہمیں بھیجا ہے۔‘‘ … شیر زاد کے بھیجے ہوئے دو آدمیوں میں سے ایک نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’ہم آپ سے صلح کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسی شرائط پر جو ہمارے لیے قابلِ قبول ہوں۔ اگر صلح ہوجائے تو شیرزاد اپنی فوج کو ساتھ لے کر انبار سے چلا جائے گا۔‘‘
’’شیر زاد سے کہو کہ شرطیں منوانے کا وقت گزر گیا ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اب شرطیں ہماری ہوں گی اور تم لوگ ہتھیار ڈالو گے۔‘‘
دونوں آدمی واپس چلے گئے اور شیرزاد کو خالدؓ کا پیغام دیا،شیرزاد نے اپنے سالاروں کی طرف دیکھا۔
’’ہم اتنی جلدی ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔‘‘ … ایک سالارنے کہا۔
’’ہمارے پاس فوج کی کمی نہیں۔‘‘ … دوسرے سالارنے کہا۔ … ’’مسلمان خندق سے آگے نہیں آسکتے۔‘‘
شیرزاد نے سر ہلایا۔ یہ ایسا اشارہ تھا جس سے پتہ نہیں چلتا کہ وہ شہر کا دفاع جاری رکھنا یا خالدؓ کے پیغام پر غور کرکے کوئی اور فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے سالاروں نے اس کے اشارے کو جنگ جاری رکھنے کا حکم سمجھا اور وہ شہرِ پناہ پر آگئے۔ ایک ہزار مسلمان تیر اندازجنہوں نے انبار کے دوہزار سے زائد سپاہیوں کی آنکھیں نکال دی تھیں، پیچھے ہٹ گئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages