Featured Post

Khalid001

09 November 2019

Khalid101


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  101
جولائی ۶۳۴ء کے آخری ہفتے میں خالدؓ کی فوج اسی طرح اجنادین کی طرف پیش قدمی کر رہی تھی ۔ پہلے سنایا جا چکا ہے کہ مدینہ کی فوج کے چار حصے مختلف مقامات پر تھے۔ خالدؓ نے ان کے سالاروں کو پیغام دیئے تھے کہ سب اجنادین پہنچ جائیں۔
خالدؓنے بصرہ پر قبضہ کر لیا تھا، رومیوں اور غسانیوں کیلئے یہ چوٹ معمولی نہیں تھی۔بصرہ شام کا بڑا اہم شہر تھا،یہ مسلمانوں کا اڈہ بن گیا تھا۔سب سے بڑا نقصان رومیوں کو یہ ہوا تھا کہ لوگوں پر اور ان کی فوج پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔مسلمانوں نے بصرہ تک شکستیں دی تھیں، کہیں بھی شکست کھائی نہیں تھی،کہیں ایک سالار کو پسپا ہونا پڑا تو فوراً دوسرے سالار نے شکست کو فتح میں بدل دیا۔قیصر روم کی تو نیندیں حرام ہو گئی تھیں،خالدؓنے جب بصرہ کو محاصرہ میں لے رکھا تھا اور صورتِ حال بتا رہی تھی کہ بصرہ رومیوں کے ہاتھ سے جارہا ہے تو شہنشاہِ ہرقل رومی نے حمص کے حاکم وِردان کو ایک پیغام بھیجا تھا:
’’کیا تم شراب میں ڈوب گئے ہو یا تم ان عورتوں جیسی عورت بن گئے ہو جن کے ساتھ تمہاری راتیں گزرتی ہیں؟‘‘ہرقل نے لکھا تھا۔’’اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارا دن اونگھتے گزرتا ہے ۔کیا ہے ان مسلمانوں کے پاس جو تمہارے پا س نہیں؟اگر میں کہوں کہ قیصرِ روم کی ذلت کے ذمہ دار تم جیسے حاکم ہیں تو کیا جواب دو گے؟تم شاید یہ بھی نہیں سوچ رہے کہ مسلمانوں کی اتنی تیز پیش قدمی اور فتح پہ فتح حاصل کرتے چلے آنے کو کس طرح روکا جا سکتا ہے ۔کیا تمہاری تلواروں کو زنگ نے کھا لیا ہے؟ کیا تمہارے گھوڑے مر گئے ہیں؟لوگوں کو تم بتاتے کیوں نہیں کہ مسلمان تمہارے مال و اموال لوٹ لیں گے۔ تمہاری بیٹیوں کو ، تمہاری بیویوں اور تمہاری بہنوں کو اپنے قبضے میں لے لیں گے! … مجھے بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار سے ذرا کم یا زیادہ ہے۔ تم زیادہ سے زیادہ فوج اکٹھی کرو اور اجنادین کے علاقے میں پہنچ جاؤ۔ محاذ کو اتنا پھیلا دو کہ مسلمان اس کے مطابق پھیلیں تو ان کی حالت کچے دھاگے کی سی ہو جائے … انہیں اپنی تعداد میں جذب کرلو۔ انہیں اپنی تعداد میں گم کر دو۔‘‘
رومیوں کی بادشاہی میں ہنگامہ بپا ہو گیا تھا۔رومیوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہوں میں پادریوں اور پروہتوں نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز وعظ شروع کر دیئے تھے،وہ کہتے تھے کہ اسلام ان کے مذہبوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے گااور انہیں مجبوراًاسلام قبول کرنا پڑے گا،اور یہ ایسا گناہ ہوگا جس کی سزا بڑی بھیانک ہوگی۔
رومیوں کی فوج ایک منظم لشکر تھا۔ان کے پاس گھوڑوں کی تعداد زیادہ تھی اور ان کے پاس گاڑیاں بھی تھیں جو گھوڑے اور بیل کھینچتے تھے۔رسد کا انتظام بہت اچھا تھا۔عبادت گاہوں میں لوگوں نے وعظ سنے تو وہ فوج میں شامل ہونے لگے۔اس طرح ان کی فوج کی تعداد بڑھ گئی۔حمص کا حاکم وردان جب فوج کے ساتھ اجنادین کو روانہ ہوا اس وقت فوج کی تعداد نوے ہزار تھی۔
مسلمانوں کے جاسوسوں نے اس لشکر کو اجنادین کے علاقے میں خیمہ زن ہوتے دیکھا تھا۔اتنے بڑے اور ایسے منظم لشکر کے مقابلے کیلئے جانا ہی بہت بڑی جرأت تھی، مقابلہ تو بعد کا مسئلہ تھا۔
…………bnb…………

۲۴جولائی ۶۳۴ء کے روز خالدؓ اپنی فوج کے ساتھ اجنادین پہنچ گئے۔ وہ بیت المقد س کے جنوب میں پہاڑیوں میں سے گزرے تھے۔ ان پہاڑیوں کے ایک طرف میدان تھا۔ خالدؓ نے وہاں قیام کا حکم دیا۔ تقریباًایک میل دور رومی فوج خیمہ زن تھی۔ اس کا سالارِ اعلیٰ وردان اور سالار قُبقُلار تھا۔ رومی فوج تو جیسے انسانوں کا سمندر تھا۔ مسلمانوں کی فوج اس کے مقابلے میں چھوٹا سادریا لگتی تھی۔
اسلامی فوج کے جو دستے دوسری جگہوں پر تھے وہ آگئے اور مسلمانوں کی تعداد بتیس ہزار ہو گئی۔ ایک میل کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا۔ مسلمان اونچی جگہوں پر کھڑے ہوکر رومیوں کی خیمہ گاہ کی طرف دیکھتے تھے۔ انہیں حدّ نگاہ تک انسان اور گھوڑے نظر آتے تھے۔ دو تین دنوں بعد خالدؓ کو بتایا گیا کہ فوج میں کچھ گھبراہٹ سی پائی جاتی ہے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ اُن نو ہزار مجاہدین میں ذرا سی بھی گھبراہٹ نہیں تھی جو خالدؓ کے ساتھ تھے۔ وہ عیسائیوں غسانیوں اور رومیوں کے خلاف لڑتے چلے آئے تھے۔ وہ رومیوں کی اتنی زیادہ فوج سے خوفزدہ نہیں تھے۔ دوسرے دستوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے خالدؓ خیمہ گاہ میں گھومنے پھرنے لگے۔وہ جہاں رکتے ان کے اردگردمجاہدین کا مجمع لگ جاتا۔ خالدؓنے سب سے ایک ہی جیسے الفاظ کہے:
’’اسلام کے سپاہیو!میں جانتا ہوں تم نے اتنی زیادہ رومی فوج پہلے کبھی نہیں دیکھی لیکن تم اتنی بڑی فوج کو پہلے شکست دے چکے ہو۔ خدا کی قسم!تم ڈر گئے تو ہار جاؤ گے،اور اگر تم نے اس لشکر پر فتح پالی تو رومی ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں گے۔اپنے اﷲکے نام پر لڑو۔ اسلام کے نام پر لڑو۔ اگر تم نے پسپائی اختیار کی تو دوزخ کی آگ میں جلو گے۔جب لڑائی شروع ہو جائے تو اپنی صفوں میں بد نظمی پیدا نہ ہونے دینا۔ قدم جما کر رکھنا۔ جب تک میری طرف سے حکم نہ ملے، نہ پیچھے ہٹنا نہ حملہ کرنا … اﷲتمہارے ساتھ ہے۔‘‘
اُدھر رومیوں کا سالارِ اعلیٰ وردان اپنے کمانداروں سے کہہ رہا تھا: …
’’اے رومیو!قیصرِ روم کو شکست کی ذلت سے بچانا تمہارا فرض ہے، قیصر روم کو تم پر اعتماد ہے۔اگر تم نے ان عربی مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست نہ دی تو یہ تم پر ہمیشہ کی طرح غالب آجائیں گے ۔یہ تمہاری بہنوں ، بیٹیوں اور بیویوں کو بے آبرو کریں گے۔اپنے آپ کو منتشر نہ ہونے دینا، صلیب کی مددمانگو، فتح تمہاری ہے۔مسلمانوں کی تعدادبہت تھوڑی ہے۔ایک کے مقابلے میں تم تین ہو۔‘‘
…………bnb…………

دو تین دن مزید گزر گئے۔خالدؓ دشمنوں کی صحیح تعداد اور کیفیت معلوم کرنا چاہتے تھے۔وہ کسی بھی جاسوس کو بھیج سکتے تھے لیکن انہیں جس قسم کی معلومات کی ضرورت تھی وہ کوئی ذہین اور دلیر آدمی حاصل کرسکتا تھا۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ انہیں کوئی آدمی دیا جائے۔
’’ابنِ ولید!‘‘ … سالار ضرار بن الازور نے کہا۔ … ’’کیا میں یہ کام نہیں کر سکوں گا؟خدا کی قسم!مجھ سے بہتر یہ کام کوئی اور نہیں کر سکے گا۔‘‘
ضرار وہ سالار تھے جنہوں نے بصرہ کے معرکے میں نہ صرف اپنی زرہ اتار پھینکی بلکہ قمیص بھی اتار کر کمر تک برہنہ ہو گئے اور ایسے جوش سے لڑے کہ سارے لشکر کے جوش و جذبے میں بے پناہ اضافہ ہو گیا تھا۔
’’ہاں ابن الازور!‘‘خالدؓنے کہا۔’’ تمہارے سوا یہ کام اور کون کر سکتا ہے۔ تم ہی بہتر جانتے ہو کہ تمہیں وہاں کیا دیکھنا ہے۔‘‘
ضرار نے قمیص اتار پھینکی اور کمر تک برہنہ ہو گئے۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوئے تو خالدؓ اور دوسرے سالاروں نے قہقہہ لگایا۔
’’خدا حافظ میرے رفیقو!‘‘ … ضرار نے ہلکی سی ایڑ لگا کر کہا۔
’’اﷲتجھے سلامت رکھے ابن الازور!‘‘ … خالدؓنے کہا۔
رومیوں کی خیمہ گاہ کے قریب ایک اونچی ٹیکری تھی۔ ضرار نے گھوڑا نیچے چھوڑا اور ٹیکری پر چڑھ گئے۔مسلمانوں اور رومیوں کی خیمہ گاہ کے درمیان ایک میل کا علاقہ خالی تھا۔ دونوں فریقین کے گشتی سنتری اس علاقے میں گردش کرتے رہتے تھے۔یہ گشتی سنتری گھوڑ سوار ہوتے تھے۔
ضرار کو رومیوں کے گشتی سوار نہیں دیکھ سکے تھے۔ضرار ٹیکری پر چڑھے تو دوسری طرف رومیوں کے سنتری موجود تھے۔انہوں نے ضرار کو دیکھ لیا۔ ضرار تیزی سے نیچے اترے اور کود کر گھوڑے پر سوار ہوئے۔ انہیں پکڑنے کیلئے رومی سوارٹیکری کے دونوں طرف سے آئے۔ان کی تعداد (مؤرخوں کے مطابق) تیس تھی۔ ضرار نے گھوڑے کو ایڑ لگائی لیکن گھوڑے کو تیز نہ دوڑایا۔
رومی سواروں نے بھی گھوڑے تیز نہ دوڑائے۔وہ غالباً محتاط تھے کہ مسلمان سنتری کہیں قریب موجود ہوں گے۔پھر بھی رومی سواروں نے ضرار کا تعاقب جاری رکھااور ضرار معمولی رفتار سے چلے آئے۔ رومی سوار انہیں گھیرے میں لینے کیلئے پھیلتے چلے گئے اور وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔
ضرار ان کے بکھرنے کے ہی منتظر تھے۔ان کے پاس برچھی تھی،ان کی اپنی خیمہ گاہ قریب آگئی تھی۔اچانک ضرار نے تیزی سے گھوڑے کو پیچھے موڑا اور ایڑ لگائی۔ان کا رخ اس رومی سوار کی طرف تھا جو ان کے قریب تھا،انہوں نے اس رومی پر برچھی کا وار کیا۔وار بڑا زوردار تھا۔رومی سنبھل نہ سکا۔ ضرار کا حملہ غیر متوقع تھا۔یہ سوار گھوڑے سے گر پڑا۔
دوسرے رومی سوار ابھی سمجھ بھی نہ پائے تھے کہ یہ کیا ہوا ہے، کہ ضرار کی برچھی ایک اور رومی کے پہلو میں اتر چکی تھی۔ تیسرا سوار ضرار کی طرف آیا تو ضرار کی برچھی میں پرویا گیا۔ مسلمانوں کی خیمہ گاہ قریب ہی تھی پھر بھی رومی ضرار کو گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہے تھے۔ ضرار مانے ہوئے شہسوار تھے،وہ رومیوں کے ہاتھ نہیں آرہے تھے۔ رومیوں کی تعداد اب ستائیس تھی۔ ضرار بھاگ نکلنے کے بجائے انہی میں گھوڑا دوڑاتے اور پینترے بدلتے پھر رہے تھے۔ ان کی برچھی کا کوئی وار خالی نہیں جاتا تھا۔
واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ ضرار نے برچھی کے ساتھ ساتھ تلوار بھی استعمال کی تھی۔ ان کی تحریروں کے مطابق ضرار نے تیس میں سے انیس رومی سواروں کو مار ڈالا تھا۔ ضرار کو زد میں لینے کی کوششش میں رومی مسلمانوں کی خیمہ گاہ کے اورقریب آگئے تھے۔ بہت سے مسلمان سوار ضرار کی مدد کو پہنچنے کیلئے تیار ہونے لگے۔ باقیماندہ رومیوں نے یہ خطرہ بر وقت بھانپ لیا اور وہ بھاگ گئے۔
ضرار اپنی خیمہ گاہ میں داخل ہوئے تو مجاہدین نے دادوتحسین کا شور و غوغا بپا کرکے ان کا استقبال کیا لیکن خالدؓ کے سامنے گئے تو خالدؓ کے چہرے پر خفگی تھی۔
’’کیا میں نے تجھے کسی اور کام کیلئے نہیں بھیجا تھا؟‘‘ … خالدؓ نے درشت لہجے میں کہا۔ … ’’اور تو نے دشمن سے لڑائی شروع کر دی۔ کیا تو نے اپنے فرض کے ساتھ بے انصافی نہیں کی؟‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … ضرار بن الازور نے کہا۔ … ’’خدا کی قسم!تیرے حکم کا اور تیری ناراضگی کا خیال نہ ہوتا تو جو رومی بچ کر نکل گئے ہیں وہ بھی نہ جاتے۔انہوں نے مجھے گھیر لیا تھا۔‘‘
اس کے بعد خالدؓ نے کسی کو رومی خیمہ گاہ کی جاسوسی کیلئے نہ بھیجا۔
…………bnb…………

تین چار دن اور گزر گئے۔خالدؓ کے لشکر نے آرام کر لیا لیکن خالدؓکے اپنے شب وروز جاگتے سوچتے اور خیمے میں ٹہلتے گزرے۔اپنے سے تین گنا طاقتور فوج کو شکست دینا تو ذرا دور کی بات ہے، اس کے مقابلے میں اترنا ہی ایک بہادری تھی لیکن خالدؓ فتح کے سوا کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتے تھے۔وہ ہر شام سالاروں اور کمانداروں کو بلا کر ان سے مشورے لیتے اور ہدایات دیتے تھے۔
رومی کیمپ میں کچھ اور ہی صورتِ حال پیدا ہوگئی تھی۔ان کے سالار قُبقُلار کا حوصلہ جواب دے رہا تھا۔متعدد مؤرخوں نے خصوصاًواقدی نے یہ واقعہ تفصیل سے لکھا ہے۔
’’میں بڑا ہی خوش قسمت ہوتا اگر میں مسلمانوں کی فوج سے دور رہتا۔‘‘ … قُبقُلارنے اپنے سالارِ اعلیٰ وردان سے کہا۔ … ’’ایسے نظر آرہا ہے کہ وہ ہم پر غالب آجائیں گے۔‘‘
’’ایسی بے معنی بات میں آج پہلی بار سن رہا ہوں۔‘‘ … وردان نے کہا۔ … ’’کیا ایک آدمی کبھی تین آدمیوں پر غالب آیا ہے؟
’’ایسا کئی بار ہوا ہے۔‘‘ … قبقلار نے کہا۔
’’ہاں ایسا کئی بار ہوا ہے۔‘‘ … وردان نے کہا۔ … ’’اور وہ تم جیسے تین آدمی تھے جو میدان میں اترنے سے پہلے ہی حوصلہ ہار بیٹھے تھے۔‘‘
’’کیا وہ ایک آدمی نہیں تھا جس نے ہمارے تیس میں سے انیس سواروں کو مار گرایا ہے؟‘‘ … قبقلار نے کہا۔ … ’’تیس سوار ایک سوار پر غالب نہیں آسکے۔‘‘
’’وہ سپاہی تھے، بزدل تھے۔‘‘ … وردان نے کہا۔ … ’’تم سالار ہو، تم یہ بھی بھول گئے ہو کہ میدانِ جنگ میں بزدلی کی سزا موت ہے … لیکن مجھے یہ بتاؤ کہ تمہیں ہوا کیا ہے؟کیا تم پر مسلمانوں کا جادو چل گیا ہے؟‘‘
’’جب سے ایک مسلمان نے ہمارے تیس آدمیوں کا مقابلہ کیا اور انیس کو مار گرایا ہے میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ اس ایک آدمی میں اتنی طاقت اور اتنی پھرتی کہاں سے آگئی تھی؟‘‘ … سالار قبقلار نے کہا۔ … ’’میں نے ایک عربی عیسائی کو مسلمانوں کے کیمپ میں بھیج رکھا تھا۔ وہ تین چار دن مسلمان بن کر ان کی خیمہ گاہ میں رہا، کل وہ واپس آیا ہے۔ اس نے جوکچھ بتایا ہے اس سے مجھے پتا چلا ہے کہ ان کی طاقت کیا ہے۔‘‘
’’ا س نے کیا بتایا ہے؟‘‘ … وردان نے پوچھا۔
’’میں اسے ساتھ لایا ہوں۔‘‘ … قبقلار نے کہا۔ … ’’ساری بات اسی سے سن لیں۔‘‘
جاسوس کو بلایا گیا۔ وردان نے اس سے پوچھا کہ … ’’مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں اس نے کیا دیکھا ہے؟‘‘
’’سالارِ اعلیٰ کا رتبہ قیصرِ روم جتنا ہو۔‘‘ … جاسوس نے تعظیم سے کہا۔ … ’’میں نے اس خیمہ گاہ میں عجیب لوگ دیکھے ہیں۔وہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں، ہم جیسے نہیں۔‘‘
’’تم اتنے دن ان کے درمیان کس طرح رہے؟‘‘ … وردان نے پوچھا۔ … ’’کیا تم پر کسی نے شک نہیں کیا؟‘‘
’’میں ان کی زبان بولتا ہوں۔‘‘ … جاسوس نے جواب دیا۔ … ’’ان کے طور طریقے جانتا ہوں۔ان کے مذہب اور ان کی عبادت سے واقف ہوں،وہ اپنی فوج میں آپ کی طرح کسی کو بھرتی نہیں کرتے، جو کوئی ان کی فوج میں شامل ہونا چاہتا ہے ، اپنا ہتھیار اور اپنا گھوڑا لے کر شامل ہو جاتاہے۔میں مسلمان بن کر ان کی فوج میں شامل ہو گیا تھا …‘‘
’’میں نے ان مسلمانوں میں کچھ نئے اصول دیکھے ہیں۔ رات کو وہ عبادت گزار ہوتے ہیں، اور دن کو ایسے جنگجو جیسے وہ لڑنے مرنے کے سوا کچھ جانتے ہی نہ ہوں۔ اپنے عقیدے کے تحفظ اور اس کے فروغ کیلئے لڑنے اور جان دینے کو یہ اپنا ایمان کہتے ہیں، ان کا ہر ایک سپاہی اس طرح بات کرتا ہے جیسے وہ کسی سالار کے حکم سے نہیں بلکہ اپنی ذاتی لڑائی کیلئے آیا ہو۔ وہ سب ایک جیسے ہیں۔ لباس سے سالار اور سپاہی میں فرق معلوم نہیں کیا جا سکتا…‘‘
’’میں نے ان میں مساوات کے علاوہ انصاف دیکھا ہے۔ اگر ان کے حاکم یا امیر کا بیٹا چوری کرے تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتے ہیں۔ اگر وہ کسی عورت کے ساتھ بدکاری کرتے ہوئے پکڑا جائے تو اسے سرِ عام کھڑا کرکے پتھر مارتے ہیں حتیٰ کہ وہ مر جاتا ہے۔ یہ لوگ اتنے مطمئن ہیں کہ انہیں کوئی فکر اور کوئی پریشانی نہیں…‘‘
’’سالارِ اعلیٰ اگر مجھے معاف کر دیں تو میں کہوں……ہماری فوج میں وہ وصف نہیں جو مسلمانوں میں دیکھ کر آیا ہوں۔ مسلمانوں کا کوئی بادشاہ نہیں۔ہمارے سپاہی بادشاہ کے حکم سے لڑتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ بادشاہ انہیں نہیں دیکھ رہا تو وہ اپنی جانیں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مسلمان ایک خدا کو اپنا بادشاہ سمجھتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور انہیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
مشہور مؤرخ طبری نے لکھاہے کہ قبقلار بول پڑا۔’’ اس نے کہا … ’’میں کہتا ہوں میں اس زمین کے نیچے چلا جاؤں جس زمین پر ان سے مقابلہ کرنا پڑے۔ کاش! میں ان کے قریب نہ جا سکوں۔نہ خدا اُن کے خلاف میری نہ میرے خلاف اُن کی مدد کرے۔‘‘
وردان نے قبقلار سے کہا کہ … ’’اسے لڑنا پڑے گا۔‘‘ لیکن قبقلار کا لڑنے کا جذبہ ماند پر گیا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages