Featured Post

Khalid001

21 May 2019

Khalid006


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  6
خالد کو آج چار برس بعد وہ وقت کل کی بات کی طرح یاد آرہا تھا ۔اسے یقین تھا کہ مسلمانوں کو اہلِ قریش کچل کر رکھ دیں گے۔ لیکن مسلمان جس طرح جانیں قربان کر رہے تھے اس نے خالد کو پریشان کر دیا۔یوں لگتا تھا جیسے مسلمان پیادوں سے قریش کے گھوڑے بھی خوف زدہ ہیں۔ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور اس خونریز معرکے میں ابو سفیان کو تلاش کرتا اس تک پہنچا۔
”کیا ہم مسلمانوں کو فیصلہ کن شکست دینے کے قابل نہیں رہے ؟“خالد نے ابو سفیان سے کہا ۔”کیا قریش کی ماؤں کے دودھ ناقص تھے کہ یہ ان مٹھی بھر مسلمانوں سے خوف ذد ہ ہوئے جا رہے ہیں ؟“
”دیکھو خالد!“ ابی سفیان نے کہا ۔”جب تک محمد ان کے ساتھ ساتھ ہے اور وہ زندہ سلامت ہے یہ خون کاآخری قطرہ بہہ جانے تک شکست نہیں کھائیں گے۔“
”تو یہ فرض مجھے کیوں نہیں سونپ دیتے؟“خالد نے کہا۔
”نہیں!“ ابو سفیان نے کہا۔” تم اپنے سواروں کے پاس جاؤ‘ تمہاری قیادت کے بغیروہ بکھر جائیں گے ۔محمد اور اسکے ساتھیوں پر حملہ کرنے کیلئے میں پیادے بھیج رہا ہوں۔“
آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو افسوس ہو رہا تھا کہ ابو سفیان نے اس کے ایک عزم کوکچل ڈالا تھا ۔رسولِ خداﷺ کے قتل کو وہ اپنا فرض سمجھتا تھا ۔وہ رسولِ خداﷺ کو قتل کرکے اپنے سب سے بڑے دیوتاؤں ہبل اور عزیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا تھا ۔اس نے اپنے سالار کا حکم ماننا ضروری سمجھا اور اپنے سوار دستے کی طرف چلا گیا ۔اسے اطمینان ضرور تھا کہ رسولِ اکرمﷺ کے ساتھ اب چند ایک ساتھی ہی رہ گئے ہوں گے اور آپﷺ کو قتل کرنا اب کوئی مشکل نہیں ہوگااور اس کے بعد مسلمان اٹھنے کے قابل نہیں ہوں گے ۔خالد کو میدانِ جنگ کی کیفیت بڑی اچھی طرح یاد تھی۔ اس نے ذرابلندی سے دیکھا تھا کہ احد کے دامن میں دور دور تک زمین خون سے لال ہو گئی تھی۔ کہیں گھوڑے تڑپ رہے تھے اور کہیں خون میں نہائے ہوئے انسان کراہ رہے تھے۔ زخمیوں کو اٹھانے کا ابھی کسی کو ہوش نہ تھا۔
پھر اس نے دیکھا ۔پیادہ قریش رسولِ کریمﷺ کے پاس پہنچ گئے تھے اور انہوں نے آپﷺ کے ساتھیوں کا حلقہ بھی توڑ لیا تھا۔ قریش کے تین آدمی عتبہ بن ابی وقاص، عبداﷲ بن شہاب اور ابنِ قمہ رسولِ کریمﷺ پر پتھر برسانے لگے۔ عجیب صورت یہ تھی کہ عتبہ کا سگا بھائی سعد بن ابی وقاصؓ رسولِ اکرمﷺ کی حفاظت میں لڑ رہا تھا ۔رسولِ اکرم ﷺکے ساتھیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی یا وہ لڑتے لڑتے بکھر گئے تھے۔
عتبہ نے آپﷺ پر جو پتھر برسائے ان سے آپ ﷺ کے نیچے والے دو دانت ٹوٹ گئے اور نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا۔ عبداﷲ کے پتھر سے آپﷺ کی پیشانی پر خاصا گہرا زخم آیا ۔ابنِ قمہ نے آپﷺ کے قریب آ کر اتنی زور سے پتھر مارا کہ آپ ﷺکے خود کی زنجیر کی دو کڑیاں ٹوٹ کر رخسار میں اتر گئیں ان سے رخسار کی ہڈی بھی بری طرح مجروح ہوئی ۔آپﷺ نے برچھی سے دشمنوں پر وار کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن دشمن قریب نہیں آتے تھے ۔آپﷺ کاخون اتنا نکل گیا تھا کہ آپﷺ گر پڑے ۔اس وقت آپﷺ کے ایک صحابیؓ طلحہ ؓنے جو قریش کے دوسرے آدمیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے دیکھ لیا اور دوڑتے ہوئے آپﷺ تک پہنچے۔ ان کی للکار پر ان کے دوسرے ساتھی بھی آ گئے ۔ آپﷺ کو پتھروں سے گرانے والے قرش آپﷺ پر تلواروں سے حملہ کرنے ہی والے تھے کہ سعدؓ بن ابی وقاص نے اپنے سگے بھائی عتبہ پر حملہ کر دیا ۔عتبہ اپنے بھائی کا غیض و غضب دیکھ کر بھاگ نکلا۔
طلحہؓ نے رسولِ خداﷺ کو سہارا دے کر اٹھایا ۔آپﷺ پوری طرح سے ہوش میں تھے اس دوران آپﷺ کے ساتھیوں نے ان آدمیوں کو بھگا دیا تھا جنہوں نے رسولِ کریمﷺ پر حملہ کیاتھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ:” سعدؓ بن ابی وقاص پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا ،سعد کہتے تھے ”میں اپنے بھائی کو قتل کر کے اس کے جسم کے ٹکڑے کردینا چاہتا ہوں جس نے میری موجودگی میں میرے نبیﷺ پر حملہ کیا ہے۔“ وہ اکیلے ہی قریش کی طرف دوڑنے کی کوشش کرتے تھے انہیں بڑی مشکل سے روکا گیا اگر رسولِ خداﷺ انہیں رکنے کا حکم نہ دیتے تو و ہ کبھی نہ رکتے۔“
…………bnb…………

قریش غالباً بہت ہی تھک گئے تھے ۔وہ معرکے سے منہ موڑ گئے ،تب رسولِ اکرمﷺ کے ساتھیوں نے آپﷺ کے زخموں کی طرف توجہ دی۔جو خواتین آپﷺ کے ساتھ تھیں انہوں نے آپﷺ کو پانی پلایا ‘کپڑوں سے زخم صاف کیے‘ اس وقت یہ دیکھا گیا کہ خود کی زنجیروں کی ٹوٹی ہوئی کڑیاں آپﷺ کے رخسار کی ہڈی میں اتری ہوئی ہیں ۔ایک صحابی ابو عبیدہؓ جو عرب کے ایک مشہور جرّاح کے فرزند تھے آگے بڑھے اور آپﷺ کے رخساروں سے کڑیا ں نکالنے لگے لیکن ہاتھوں سے کڑیاں نہ نکلیں۔ آخر ابو عبیدہؓ نے دانتوں کی مدد سے ایک کڑی نکال لی ۔جب دوسری کڑی نکالی تو کڑی تو نکل آئی لیکن ابی عبیدہؓ کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے ابو عبیدہ کو الاثرم “کہنا شروع کر دیا۔اس کا مطلب ہے وہ آدمی جس کے سامنے والے دانت نہ ہوں۔پھر وہ اسی نام سے مشہور ہوگئے۔
اُمّ ِایمنؓ جو رسول ِ اکرمﷺ کے بچپن میں آپﷺ کی دایہ رہ چکی تھیں ‘آپﷺ پر جھکی ہوئی تھیں ۔اس وقت تک آپﷺ کی طبیعت سنبھل چکی تھی۔ اچانک ایک تیر امِ ایمن ؓکی پیٹھ میں اتر گیا اور اس کے ساتھ ہی دور سے ایک قہقہہ سنائی دیا۔ سب نے ادھر دیکھا تو قریش کاایک آدمی حبان بن العرقہ دور کھڑا ہنس رہا تھااس کے ہاتھ میں کمان تھی۔ یہ تیر اسی نے چلایا تھا۔ وہ ہنستا ہوا پیچھے کو مڑا ‘رسولِ خداﷺ نے ایک تیر سعد ؓبن ابی وقاص کو دے کر کہا کہ:” یہ شخص یہاں سے تیر لے کرہی واپس جائے ۔ سعدؓ نے جو تمام قبائل میں تیر اندازی میں خصوصی شہرت رکھتے تھے ‘کمان میں تیر ڈال کر حبان پر چلایا ‘تیر حبان کی گردن میں اتر گیا۔ سعدؓ کے تمام ساتھیوں نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور حبان نے ڈگمگاتے ہوئے چند قدم اٹھائے اوروہ گر پڑا۔
آج خالد جب مدینہ کی طرف بڑھتا جا رہا تھا اور احد کی پہاڑی افق سے اوپر ہی اوپر اٹھتی آ رہی تھی۔ اسے اپنے کچھ ساتھی یاد آنے لگے۔ عقیدوں کے اختلاف نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا دیا تھا لیکن خالد کو یہ خیال بھی آیا کہ بعض لوگ اپنے عقیدے کو اس لیے سچا سمجھتے ہیں کہ وہ اس کے پیروکار ہوتے ہیں ۔حق اور باطل کے فرق کو سمجھنے کیلئے بڑی مضبوط شخصیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک سوال اسے پھر پریشان کرنے لگا :”میں مدینہ کیوں جا رہا ہوں ؟اپنا عقیدہ مدینہ والوں پر ٹھونسنے کیلئے یا ان کا عقیدہ اپنے اوپر مسلط کرنے کیلئے؟“ اسے ابو سفیان کی آواز سنائی دی جو ایک ہی روز پرانی تھی۔ ”کیا یہ سچ ہے کہ تم مدینہ جا رہے ہو؟ کیا تمہاری رگوں میں ولید کا خون سفید ہو گیا ہے؟“
صحرا میں جاتے ہوئے ان آوازوں نے کچھ دور تک اس کاتعاقب کیا پھر وہ اپنے ان دوستوں کی یاد میں کھو گیا جن کے خلاف وہ لڑا اور جن کا خون اس کے سامنے بہہ گیا تھا ۔ان میں ایک ”مصعب ؓبن عمیر“ بھی تھے۔
قریش جو معرکے سے منہ موڑ گئے تھے کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور ابو سفیان کو جا پکڑا۔ اس نے ابو سفیان سے پوچھا کہ:” تم لوگ جنگ کو ادھورا چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ مسلمانوں کا دم خم ختم ہو چکا ہے؟“ ابو سفیان بھی یہی چاہتا تھا کہ یہ معرکہ فیصلہ کن نتیجے پر پہنچے۔ قریش کے چند سوار وہیں سے پلٹ آئے۔ خالد دیکھ چکا تھا کہ رسولِ کریمﷺکہاں ہیں ۔یہاں پھر ابو سفیان نے خالد کو کسی اور طرف بھیج دیا اور کچھ آدمیوں کونبی کریمﷺ پر حملے کا حکم دیا۔ اب رسول کریمﷺ کے ساتھ کچھ اور مسلمان آن ملے تھے۔
…………bnb…………

اب پھر ابن قمہ لڑتے ہوئے مسلمانوں کا حلقہ توڑ کر رسولِ اکرمﷺ تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس وقت رسولِ اکرمﷺ کے پاس مصعب ؓبن عمیرکھڑے تھے اور اُمّ ِعمارہؓ اپنے قریب پڑے ہوئے دو تین زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں۔ انہوں نے جب قریش کو ایک بار پھر حملے کیلئے آتے دیکھا تو زخمیوں سے ہٹ کر انہوں نے ایک زخمی کی تلوار اٹھا لی اور قریش کے مقابلے کیلئے ڈٹ گئیں۔ قریش کا سب سے پہلا سوار جو ان کے قریب آیا ۔اس تک وہ نہیں پہنچ سکتی تھیں اس لیے انہوں نے تلوار سے اس کے گھوڑے پر ایسا وار کیا کہ گھوڑا گر پڑا۔ سوار گھوڑے کے دوسری طرف گرا ۔ام عمارہؓ نے گھوڑے کے اوپر سے کود کر قریش کے اس آدمی پر وار کیا اور اسے زخمی کر دیا۔وہ اٹھا اور بھاگ گیا۔
سیدنا مصعب ؓبن عمیر کا قد بت اور شکل و صورت بھی رسولِ کریمﷺ کے ساتھ نمایاں مشابہت رکھتی تھی۔ ابن ِ قمہ مصعبؓ کو رسولِ خداﷺ سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوا ۔مصعبؓ تیارتھے انہو ں نے ابنِ قمہ کا مقابلہ کیا پھر دونوں میں تیغ زنی ہوئی لیکن ابنِ قمہ کا ایک وار مصعبؓ پر ایسا بھرپور پڑا کہ وہ گرے اور شہید ہو گئے۔ ام عمارہؓ نے مصعبؓ کو گرتے دیکھا ۔غیض و غضب سے ابنِ قمہ پر تلوارکا وار کیا لیکن ابنِ قمہ نے زرہ پہن رکھی تھی اور وار کرنے والی ایک عورت تھی‘ اس لیے ابنِ قمہ کو کوئی زخم نہ آیا۔ ابنِ قمہ نے ام عمارہ ؓکے کندھے پر بھرپور وار کیا جس سے وہ شدید زخمی ہو کر گر پڑیں۔
اس وقت رسولِ کریمﷺ جو قریب ہی تھے ۔ابنِ قمہ کی طرف بڑھے لیکن ابنِ قمہ نے پینترا بدل کر آپﷺ پہ ایسا وار کیا جو آپﷺ کے خود پر پڑا ۔تلوار خود سے پھسل کر آپﷺ کے کندھے پر لگی آپﷺ کے بالکل پیچھے ایک گڑھا تھا آپﷺ زخم کھاکر پیچھے ہٹے اور گڑھے میں گر پڑے۔ ابنِ قمہ نے پیچھے ہٹ کر گلا پھاڑ کر کہا:” میں نے محمد کو قتل کر دیا ہے۔“ وہ یہی نعرے لگاتا میدانِ جنگ میں گھوم گیا۔اس کی آواز قریش نے بھی سنی اور مسلمانوں نے بھی۔
قریش کو تو خوش ہونا ہی تھا۔ مسلمانوں پر اس کا بڑا تباہ کن اثر ہوا کہ حوصلہ ہار بیٹھے اوراحدکی پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے۔
’’اپنے نبیﷺ کے شدائیو!“بھاگتے ہوئے مسلمانوں کو ایک للکار سنائی دی۔” اگر نبیﷺ نہ رہے تو لعنت ہے ہم پر کہ ہم بھی زندہ رہیں۔ تم کیسے شیدائی ہو کہ نبی کریمﷺ کی شہادت کے ساتھ ہی تم موت سے ڈر کر بھاگ رہے ہو؟“
مسلمان رک گئے۔ اس للکار نے انہیں آگ بگولہ کر دیا‘ وہ پیادہ تھے لیکن انہوں نے قریش کے گھڑ سواروں پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ خالد اور عکرمہ کے گھڑ سواروں پر ہوا تھا۔
خالد کو آج یاد آرہا تھا کہ اس کے ہاتھوں کتنے ہی مسلمانوں کا خون بہہ گیا تھا ان میں ایک رفاعہؓ بن وقش بھی تھے ۔خالد کے دل میں درد کی ایک ٹیس سی اٹھی ‘اسے کچھ ایسا احساس ہونے لگا جیسے وہ بے مقصد خون بہاتا رہا ہے لیکن اس وقت وہ مسلمانوں کو اپنا بد ترین دشمن سمجھتا تھا۔
اب مسلمانوں کا دم خم ٹوٹ چکا تھا۔ پیادے گھڑ سواروں کا مقابلہ کب تک کرتے ؟وہ مجبور ہو کر پہاڑی کی طرف پسپا ہونے لگے ۔رسولِ اکرمﷺ بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک تنگ سی وادی کی طرف جا رہے تھے۔ جس طرح مسلمانوں نے فتح کی خوشی میں اپنا مورچہ چھوڑ دیا تھا اور جنگ کا پانسا اپنے خلاف پلٹ لیا تھا اسی طرح اب قریش کے آدمی مسلمانوں کی لاشوں پر اور تڑپتے ہوئے زخمیوں پر مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کیلئے ٹوٹ پڑے۔ ان میں سے کچھ قریش رسولِ کریمﷺ کے تعاقب میں چلے گئے‘ لیکن آپﷺ کے ساتھیوں نے ان پر ایسی بے جگری سے ہلہ بولا کہ ان میں سے زیادہ تر قریش کو جان سے مار ڈالا اور جو بچ گئے وہ بھاگ نکلے ۔رسولِ اکرمﷺ ایک بلند جگہ پہنچ گئے ۔آپﷺ نے وہاں سے صورتِ حال کا جائزہ لیا‘ آپﷺ کے تیس صحابہؓ میں سے سولہ شہید ہو چکے تھے جو چودہ زندہ تھے ا ن میں زیادہ تر زخمی۔ آپﷺ نے بلندی سے میدانِ جنگ کا جائزہ لیا آپﷺ کو کوئی مسلمان نظر نہیں آ رہا تھا۔ مسلمان یہ سمجھ کر کہ رسولِ اکرمﷺ شہید ہو چکے ہیں‘ سخت مایوسی کے عالم میں اِدھر ُادھر بکھر گئے۔کچھ واپس مدینہ چلے گئے۔ کچھ قریش کے انتقام سے بچنے کے لئے پہاڑی کے اندر جا چھپے۔
یہاں رسولِ خداﷺ کو اپنے زخموں کی طرف توجہ دینے کی فرصت ملی ۔آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ جو آپﷺ کو ہر طرف تلاش کرکر کہ تھک چکی تھیں۔ آپﷺ کے پاس آ پہنچی تھیں ۔قریب ہی ایک چشمہ تھا ۔حضرت علیؓ وہاں سے کسی چیز میں پانی لائے اور آپﷺ کو پلایا ۔حضرت فاطمہؓ آپﷺ کے زخم دھونے لگیں ۔وہ سسک سسک کر رو رہی تھیں۔
…………bnb…………

ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages