Featured Post

Khalid001

21 May 2019

Khalid007


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  7
خالد کو آج یاد آ رہا تھا کہ رسولِ کریمﷺ کی شہادت کی خبر نے اسے روحانی سا اطمینان دیا تھا لیکن ایک للکار نے اسے چونکا دیا۔ وادی میں للکار کی گونج بڑی دور تک سنائی دے رہی تھی ۔کوئی بڑی ہی بلند آواز میں کہہ رہا تھا:” مسلمانو! خوشیاں مناؤ ۔ہمارے نبیﷺ زندہ اور سلامت ہیں ۔“اس للکار پر خالد کو ہنسی بھی آئی تھی اور افسوس بھی ہوا تھا۔اس نے اپنے آپ سے کہا تھا کہ کوئی مسلمان پاگل ہو گیا ہے۔
ہوا یوں تھا کہ جس طرح مسلمان اِکا دُکا اِدھر ُادھر بکھر گئے یا چھپ گئے تھے ۔اسی طرح کعب بن مالکؓ نام کا ایک مسلمان اِدھر ُادھر گھومتا پہاڑی کے اس مقام کی طرف چلا گیا جہاں رسولِ اکرمﷺ سستا رہے تھے۔ اس نے نبی کریمﷺ کو دیکھا تو اس نے جذبات کی شدت سے نعرہ لگایا ”ہمارے نبیﷺ زندہ ہیں“۔ تمام مسلمان جو اکیلے اکیلے یا د دو چار چار کی ٹولیوں میں اِدھر ُادھر بکھر گئے تھے اس آواز پر دوڑ کر آئے۔ حضرت عمرؓ بھی اسی آواز پر رسولِ خداﷺ تک پہنچے تھے۔
اس سے پہلے ابو سفیان میدانِ جنگ میں پڑی ہوئی ہر ایک لاش کو دیکھتا پھر رہا تھا‘ وہ رسولِ کریمﷺ کا جسدِمبارک تلاش کر رہا تھا ۔ اسے قریش کا جو بھی آدمی ملتا اس سے پوچھتا :”تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟“اسی تلاش میں خالد اس کے سامنے آگیا۔
”خالد!“ ابو سفیان نے پوچھا:” تم نے محمد کی لاش نہیں دیکھی؟“
”نہیں“۔خالد نے جواب دیا اور ابو سفیان کی طرف ذرا جھک کر پوچھا :”کیا تمہیں یقین ہے کہ محمدقتل ہو چکا ہے؟“
”ہاں !“ ابی سفیان نے جواب دیا:” وہ ہم سے بچ کر کہاں جا سکتاہے ۔تمہیں شک ہے؟“
”ہاں ابوسفیان!“خالد نے جواب دیا ۔”میں اس وقت تک شک میں رہتا ہوں جب تک کہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں۔ محمد (ﷺ) اتنی آسانی سے قتل ہوجانے والا شخص نہیں ہے۔“
”معلوم ہوتا ہے تم پر محمد (ﷺ) کا طلسم طاری ہے۔“ ابو سفیان نے تکبر کے لہجے میں کہا۔” کیا محمد (ﷺ) ہم میں سے نہیں تھا ؟کیا تم اسے نہیں جانتے تھے۔ جو شخص اتنی قتل و غارت کا ذمہ دار ہے ۔ایک روز اسے بھی قتل ہونا ہے۔ محمد (ﷺ) قتل ہو چکا ہے۔ جاؤ اور دیکھو‘ اس کی لاش کو پہچانو۔ہم اسکا سر کاٹ کر مکہ لے جائیں گے۔“
عین اس وقت پہاڑی میں سے کعب ؓبن مالک کی للکار گرجی” مسلمانو! خوشیاں مناؤ ۔ہمارے نبیﷺ زندہ سلامت ہیں۔“ پھر یہ آواز بجلی کی کڑک کی طرح گرجتی کڑکتی وادی اور میدان میں گھومتی پھرتی رہی۔
”سن لیا ابو سفیان!“ خالد نے کہا ۔”اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ محمد (ﷺ) کہاں ہے۔ میں اس پر حملہ کرنے جا رہا ہوں لیکن میں تمہیں یقین نہیں دلا سکتا کہ میں محمد (ﷺ) کو قتل کر آؤں گا۔“
کچھ دیر پہلے خالد نے رسولِ کریمﷺ اور ان کے ساتھیوں کو پہاڑی کے اندر جاتے دیکھا تھا لیکن وہ بہت دور تھا۔ خالد ہار ماننے والا اور اپنے ارادے کوادھورا چھوڑنے والا آدمی نہیں تھا ۔اس نے اپنے چند ایک سواروں کو ساتھ لیا اورپہاڑی کے اس مقام کی طرف بڑھنے لگا جدھر اس نے رسولِ کریمﷺ کو جاتے دیکھا تھا۔
مشہور مؤرخ ابن ہشام کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے جب خالد کو اپنے سواروں کے ساتھ اس گھاٹی پر چڑھتے دیکھا جہاں آپﷺ تھے تو آپﷺ کے منہ سے بے ساختہ دعا نکلی” خدائے ذوالجلال! انہیں اس وقت وہیں کہیں روک لے۔“
خالد اپنے سواروں کے ساتھ گھاٹی چڑھتا جا رہا تھا۔و ہ ایک درہ سا تھا جوتنگ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ گھوڑوں کو ایک قطار میں ہونا پڑا۔ رسولِ کریمﷺ زخموں سے چور پڑے تھے ۔حضرت عمرؓ نے جب خالد اور اس کے سواروں کو اوپر آتے ہوئے دیکھا تو وہ تلوار نکال کر کچھ نیچے اترے۔
”ولید کے بیٹے !“حضرت عمرؓ نے للکارا۔”اگر لڑائی لڑنا جانتے ہو تو اس درّہ کی تنگی کو دیکھ لو۔ اس چڑھائی کو دیکھ لو ۔کیا تم اپنے سواروں کے ساتھ ہمارے ہاتھ سے بچ کر نکل جاؤ گے؟“
خالد لڑنے کے فن کو خوب سمجھتا تھا ۔اس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ جگہ گھوڑوں کو گھما پھرا کر لڑانے کیلئے موزوں نہیں ہے بلکہ خطرناک ہے ۔خالد نے خاموشی سے اپنا گھوڑا گھمایا اور اپنے سواروں کے ساتھ وہاں سے نیچے اتر آیا ۔
…………bnb…………

جنگِ اُحد ختم ہو چکی تھی۔ قریش اس لحاظ سے برتری کا دعویٰ کر سکتے تھے کہ انہوں نے مسلمانوں کو زیادہ نقصان پہنچایا لیکن یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔
”لیکن یہ ہماری شکست تھی۔“ خالد کو جیسے اپنی آواز سنائی دی۔ ”مسلمانوں کی نفری سات سو تھی اور ہم تین ہزار تھے۔ ہمارے پاس دو سو گھوڑے تھے ۔ہماری فتح تب ہوتی جب ہم محمد (ﷺ) کو قتل کردیتے۔“
خالد نے اپنے آپ میں جھنجھناہٹ محسوس کی۔ اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی کہ اس کے دانت بجنے لگے۔ اسے جنگ کا آخری منظر یاد آنے لگا تھا۔ اُس نے اِس بھیانک یاد کو ذہن سے نکالنے کیلئے سر کو جھٹکا دیا لیکن مکھیوں کی طرح یہ یاد اس کے ارد گرد بھنبھناتی رہی۔ اسے اپنے آپ میں شرم سی محسوس ہونے لگی ۔جنگجو یوں نہیں کیا کرتے۔
خالد جب حضرت عمرؓ کی للکار پر واپس آ رہا تھا تو اس بلندی سے اس کی نظر میدانِ جنگ پر پڑی ۔وہاں لاشیں بکھری ہوئی تھیں ۔شاید ان میں بے ہوش زخمی بھی ہوں گے۔ لاشوں اور زخمیوں کو اٹھانے کیلئے نہ ابھی مسلمان آگے بڑھے تھے نہ اہلِ قریش ۔خالد کو ابو سفیان کی بیوی ہند نظر آئی ۔وہ ہاتھ میں خنجر لیے ہوئے دوڑے چلی آ رہی تھی۔ اس کے اشارے پر قریش کی وہ عورتیں جو قریش کے لشکر کے ساتھ آئی تھیں اس کے پیچھے پیچھے دوڑی آئیں۔ ہند ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی ۔وہ اونچے قد کی اور فربہی مائل جسم کی پہلوان قسم کی عورت تھی۔ وہ ہر ایک لاش کو دیکھتی تھی۔ کوئی لاش اوندھے منہ پڑی ہوئی نظر آتی تو وہ پاؤں کی ٹھوکر سے اس لاش کو سیدھا کر کے دیکھتی تھی۔ اس نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا کہ وہ حمزہؓ کی لاش تلاش کریں۔
اسے حمزہ ؓکی لاش مل گئی۔ ہند بھوکے درندے کی طرح لاش کو چیرنے پھاڑنے لگی ۔اس نے لاش کے کچھ اعضاءکاٹ کر پرے پھینک دیئے۔ اس نے دوسری عورتوں کو دیکھا جو اس کے قریب کھڑی تھیں ۔
”کھڑی دیکھ کیا رہی ہو؟“ ہند نے ان عورتوں سے یوں کہا جیسے وہ پاگل ہو چکی ہو ۔”یہ دیکھو میں نے اپنے باپ ،اپنے چچا اور اپنے بیٹے کے قاتل کی لاش کا کیا حال کر دیا۔ جاؤ مسلمانوں کی ہر ایک لاش کا یہی حال کردواور سب کے کان اور ناک کاٹ کر لے آؤ۔“
جب وہ عورتیں مسلمانوں کی لاشوں کو چیرنے پھاڑنے کیلئے وہاں سے ہٹ گئیں تو ہند نے خنجر سے سیدنا حمزہؓ کا پیٹ چاک کر کے اس کے اندر ہاتھ ڈالا۔ اس کا ہاتھ باہر آیا تو اس میں لاش کا کلیجہ تھا جو ہند نے خنجر سے کاٹ لیا۔ اس نے اسی پر اکتفا نہ کیا۔ حمزہؓ کے کلیجے کا ایک ٹکڑ کاٹ کر اس نے اپنے منہ میں ڈال لیا اور درندوں کی طرح اسے چبانے لگی لیکن تھوڑی دیر بعد اس نے کلیجے کے اس ٹکڑے کو اگل دیا۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ اس ٹکڑے کو نگلنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن یہ ٹکڑا اس کے حلق سے نیچے نہیں جا رہا تھا۔
خالد کو دور ابوسفیان کھڑا نظر آیا۔ ہند کی اس وحشیانہ حرکت نے خالد کا مزہ کرکرا کر دیا تھا۔ وہ جنگجو تھا۔ وہ صرف آمنے سامنے آکر لڑنے والا آدمی تھا۔ اپنے دشمن کی لاشوں کے ساتھ یہ سلوک نہ صرف یہ کہ اسے پسند نہ آیا بلکہ اس نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔
ابوسفیان کو دیکھ کر خالد نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ابوسفیان کے پاس جا گھوڑا روکا۔
’’ابوسفیان!‘‘ خالد نے غصے اور ح قارت کے ملے جلے لہجے میں کہا۔۔ ’’کیا تم اپنی بیوی اور ان عورتوں کی اس وحشیانہ حرکت کو پسند کر رہے ہو؟‘‘
ابوسفیان نے خالد کی طرف ایسی نگاہوں سے دیکھا جس میں بے بسی کی جھلک تھی اور صاف پتہ چلتا تھا کہ اسے لاشوں کے ساتھ اپنی بیوی کا یہ سلوک پسند نہیں۔
’’خاموش کیوں ہو؟ ابوسفیان!‘‘
’’تم ہند کو جانتے ہو خالد!‘‘۔۔ ابوسفیان نے دبی سی زبان سے کہا۔۔ ’’یہ عورت اس وقت پاگلوں سے بدتر ہے۔ اگر میں یا تم اسے روکنے کے لیے آگے بڑھے تو یہ خنجر سے ہمارے پیٹ بھی چاک کر دے گی۔‘‘
خالد ہند کو جانتا تھا۔ وہ ابوسفیان کی بے بسی کو سمجھ گیا۔ ابوسفیان نے سر جھکایا‘ گھوڑے کی لگام کو جھٹکا دیا اور منہ پھیر کر دوسری طرف چل پڑا۔ خالد بھی اس منظر کو برداشت نہ کر سکا۔
جب ہند حمزہؓ کی لاش کا کلیجہ چبا کر اگل چکی تو اس نے پیچھے دیکھا۔ اس کے پیچھے جبیر بن مطعم کا غلام وحشی ابن حرب کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میں افریقہ کی بنی ہوئی وہی برچھی تھی جس سے اس نے حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔
’’یہاں کیا کر رہے ہو بن حرب!‘‘ ۔۔ ہند نے تحکمانہ انداز میں اسے کہا۔۔ ’’جاؤ اور مسلمانوں کی لاشوں کے ٹکڑے کر دو۔‘‘
وحشی بن حرب بولتا بہت کم تھا۔ اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ زیادہ سے زیادہ بات اشاروں میں ہی کر لی جائے۔ اس نے ہند کا حکم ماننے کی بجائے اپنا ہاتھ ہند کے آگے پھیلا دیا اور اس کی نظریں ہند کے گلے میں لٹکتے ہوئے سونے کے ہار پر جم گئیں۔ ہند کو اپنا وعدہ یاد آگیا۔ اس نے وحشی سے کہا تھا کہ ’’تم میرے باپ‘ چچا اور بیٹے کے قاتل کو قتل کر دو تو میں نے جتنے زیورات پہن رکھے ہیں وہ تمہارے ہوں گے۔‘‘  اب وحشی اپنا انعام لینے آیا تھا۔ ہند نے اپنے تمام زیورات اتار کر وحشی بن حرب کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ وحشی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی اور وہ وہاں سے چل پڑا۔ ہند پر اس وقت فتح اور انتقام کا بھوت سوار تھا۔
’’ٹھہر جاؤ بن حرب!‘‘ ۔۔ ہند نے جوشیلی آواز میں اس حبشی کو بلایا۔ وہ جب اس کے پاس آیا تو ہند نے کہا۔۔ ’’میں نے تمہیں کہا تھا کہ میرا کلیجہ ٹھنڈا کر دو تو تمہیں اپنے زیورات دوں گی لیکن تم اس سے زیادہ انعام کے حقدار ہو۔‘‘ ۔۔ ہند نے قریش کی عورتوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا ۔۔ ’’تم جانتے ہو ان عورتوں میں کنیزیں کون کون ہیں۔ دیکھو‘ وہ جوان بھی ہیں خوبصورت بھی۔ تمہیں جو کنیز اچھی لگتی ہے اسے لے جاؤ۔‘‘
وحشی بن حرب نے اپنی عادت کے مطابق خاموشی سے چند لمحے ہند کے چہرے پر نظریں گاڑیں لیکن اس کی نظریں کنیزوں کی طرف نہ گئیں۔ اس نے انکار میں سر ہلایا اور وہاں سے چلا گیا۔
کچھ دیر بعد میدان جنگ کی ہولناکی میں سے ہند کی بلند اور مترنم آواز سنائی دینے لگی۔ مؤرخ ابن ہشام کے مطابق اس نے ترنم سے جو نغمہ گایا اس کے الفاظ کچھ اس طرح تھے:
ہم نے بدر کے معرکے کا حساب برابر کر لیا ہے
ایک خونریز معرکے کے بدلے ہم نے ایک خونریز معرکہ لڑ لیا ہے
عتبہ کا غم میری برداشت سے باہر تھا
عتبہ میرا باپ تھا
مجھے چچا کا بھی غم تھا‘ اپنے بیٹے کا بھی غم تھا
اب میرا سینہ ٹھنڈا ہو گیا ہے
میں نے اپنی قسم پوری کر دی ہے
وحشی نے میرے دل کے درد کا مداوا کر دیا ہے
میں عمر بھر وحشی کی احسان مند رہوں گی
…………bnb…………

ابوسفیان اس بھیانک منظر کو برداشت نہ کر سکا تھا۔ وہ پہلے ہی منہ پھیر کر جا چکا تھا۔ اس نے اپنے دو ساتھیوں سے کہا کہ اسے یقین نہیں آ رہا کہ رسول اکرمﷺ زندہ ہیں۔
’’خالد نے دور سے کسی اور کو دیکھ کر سمجھ لیا ہو گا کہ وہ محمد (ﷺ) ہے۔‘‘ ۔۔ کسی نے ابوسفیان سے کہا۔
ابوسفیان یہ کہہ کر کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آتا ہے‘ اس تنگ سے درے کی طرف چلا گیا جہاں سے خالد اپنے سواروں کو واپس لایا تھا۔ وہ ایسی جگہ جا کھڑا ہوا جہاں سے اسے مسلمان بیٹھے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
’’محمد (ﷺ) کے پیروکارو !‘‘ابو سفیان نے بلند آواز سے کہا ۔’’کیا تم میں محمد )ﷺ(زندہ ہے؟‘‘
رسولِ کریمﷺ نے آواز سنی تو اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے مسلمانوں کو اشارہ کیا کہ وہ خاموش رہیں ۔ابو سفیان نے اپنا سوال اور زیادہ بلند آواز سے دہرایا۔ا ب بھی اسے کوئی جواب نہ ملا۔
’’کیا ابو بکر تم میں زندہ موجود ہے ؟‘‘ابو سفیان نے بلند آواز سے پوچھا۔ اب بھی اسے کوئی جواب نہ ملا ۔تین بار پوچھنے کے باوجود بھی مسلمان خاموش رہے۔
’’کیا عمر زندہ ہے؟‘‘ ابوسفیان نے پوچھا۔
اب کے بھی مسلمانوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔
ابو سفیان نے گھوڑے کو دوڑایا۔ اس نے نیچے دیکھا ۔قریش کے بہت سے آدمی رسولِ اکرمﷺ کے متعلق صحیح خبر سننے کو بیتاب کھڑے تھے۔
’’اے اہلِ قریش!‘‘ ابو سفیان نے چلّا کر اعلان کیا ۔’’محمد)ﷺ( مر چکا ہے ۔ابو بکر و عمر بھی زندہ نہیں۔ اب مسلمان تمہارے سائے سے بھی ڈریں گے۔ خوشیاں مناؤ ،ناچو۔‘‘
اہلِ قریش ناچنے اور ہلڑ مچانے لگے لیکن گرجتی ہوئی ایک آواز نے انہیں خاموش کر دیا۔
’’اے خدا کے دشمن !‘‘درّے کے بلندی سے حضرت عمرؓ کی آواز گونجی۔’’ اتنا جھوٹ نہ بول ،وہ تینوں زندہ ہیں جن کے نام لے کہ تو انہیں مردہ کہہ رہا ہے۔ اپنے قبیلے کو دھوکہ مت دے۔ تجھے تیرے گناہوں کی سزا دینے کیلئے ہم سب زندہ ہیں۔‘‘
ابو سفیان نے طنزیہ قہقہہ لگایا اور بلند آواز سے بولا۔’’ ابنِ الخطاب! تیرا خدا تجھے ہم سے محفوظ رکھے ۔کیاتو اب بھی ہمیں سزا دینے کی بات کر رہا ہے؟ کیا تو یقین سے کہتا ہے کہ محمد (ﷺ) زندہ ہے؟‘‘
’’اﷲ کی قسم! ہمارے نبیﷺ زندہ ہیں ‘‘۔حضرت عمرؓ ابنِ الخطاب کی آوا ز جواب میں گرجی۔’’ اﷲ کے رسولﷺ تمہارا ایک ایک لفظ سن رہے ہیں۔‘‘
عربوں میں رواج تھا کہ ایک معرکہ ختم ہونے کے بعد دونوں فریقوں کے سردار یا سالار ایک دوسرے پر طعنوں اور پھبتیوں کے تیر برسایا کرتے تھے۔ ابو سفیان اسی دستور کے مطابق دور کھڑا حضرت عمرؓ سے ہم کلام تھا۔
’’تم ہبل اور عزیٰ کی عظمت کو نہیں جانتے۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔
حضرت عمرؓ نے رسولِ اکرمﷺ کی طرف دیکھا ۔آپﷺ اونچا بول نہیں سکتے تھے ۔آپﷺ نے حضرت عمرؓ کو بتایا کہ وہ ابو سفیان کو کیا جواب دیں۔
’’او باطل کے پجاری۔‘‘ حضرت عمر ؓنے بلند آواز سے کہا۔’’ اﷲ کی عظمت کو پہچان ،جو سب سے بڑاا ور سب سے زیادہ طاقت والا ہے۔‘‘
’’ہمارے پاس ہبل جیسا دیوتا اور عزیٰ جیسی دیوی ہے۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’کیا تمہارے پاس کوئی ایسا دیوتا یا دیوی ہے؟‘‘
’’ہمارے پاس اﷲ ہے۔‘‘ رسولِ کریمﷺ نے حضرت عمر ؓکی زبان سے کہلوایا۔ جو حضرت عمر ؓنے بلند آواز سے کہا۔’’ تمہارا خدا کوئی نہیں۔‘‘
جنگ کا فیصلہ ہو چکا تھا ۔ابو سفیان نے کہا ۔’’تم نے بدر میں فتح پائی تھی، ہم نے اس پہاڑی کے دامن میں تم سے انتقام لے لیا ۔اگلے سال ہم تمہیں بدر کے میدان میں ہی مقابلے کیلئے للکاریں گے۔‘‘
’’ان شاء اﷲ !‘‘حضرت عمر ؓنے رسول اﷲﷺ کے الفاظ بلند آواز سے دہرائے۔’’ اب تمہارے ساتھ ہماری ملاقات بدر کے میدان میں ہی ہو گی۔‘‘
ابو سفیان نے گھوڑا موڑا گھوڑا دو قدم ہی چلا ہو گا کہ اس نے گھوڑے کو روک دیا۔
’’اے عمر، ابو بکر اور محمد (ﷺ)!‘‘ ابو سفیان نے اب کے ذرا ٹھہری ہوئی آواز میں کہا۔’’ تم جب میدان سے اپنی لاشیں اٹھاؤ گے تو تمہیں کچھ ایسی لاشیں بھی ملیں گی جن کے اعضاء کٹے ہوئے ہوں گے اور انہیں چیرا پھاڑا گیا ہو گا۔ خدا کی قسم! میں نے کسی کو ایسا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا اور میں نے تمہاری لاشوں کے ساتھ یہ سلوک بالکل بھی پسند نہیں کیا ۔اگر اس کا الزام مجھ پر عائد کرو گے تو میں اسے اپنی توہین سمجھوں گا ۔‘‘ابو سفیان نے گھوڑا موڑا اور گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages