Featured Post

Khalid001

21 May 2019

Khalid008


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  8
چلتے چلتے خالد کے گھوڑے نے اپنے آپ ہی رخ بدل لیا۔ خالد نے گھوڑے کو نہ روکا ۔وہ سمجھ گیاکہ گھوڑے نے پانی کی مشک پا لی ہے۔ کچھ دور جا کر گھوڑا نیچے اترنے لگا ۔خالد کو یہ مقام یاد آ گیا۔ جنگِ احد کے بعد واپسی پر قریش نے کچھ دیر یہاں پر قیام کیا تھا۔ نیچے پانی کا خاصا ذخیرہ موجود تھا۔ گھوڑا بڑا تیزی سے گھاٹی اتر گیا اور پانی پر جا رکا۔ خالد گھوڑے سے کود کر نیچے اترا اور دو زانو ہو کر چلو بھر بھر کر اپنے چہرے پر پانی پھینکنے لگا ۔ذرا سستانے کیلئے بھربھر ی سی ایک چٹا ن کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اسے وہ وقت یاد آیا جب احد کے معرکے کے بعد اہلِ قریش واپس آ ئے تھے۔ انہوں نے مدینہ سے کچھ دور آ کر قیام کیا تھا ۔اس قیام کے دوران قریش کے سردار اس بحث میں الجھ گئے تھے کہ واپس مکہ پہنچا جائے یا مسلمانوں پر ایک اور حملہ کیا جائے۔
صفوان بن امیہ نے کہا تھا۔’’ ہم شکست کھا کر نہیں آئے ۔اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلمانوں کی حالت بہت بری ہے تو اپنی حالت دیکھو ۔ہماری حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اب مسلمانوں کے ساتھ اتنی جلدی لڑنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے ۔ہو سکتا ہے قسمت ہمارا ساتھ نہ دے۔‘‘
جب یہ بحث جاری تھی تو قریش کے کچھ آدمی دو مسافروں کو پکڑ کر سرداروں کے سامنے لے آئے ۔انہیں بتایا گیا کہ یہ دونوں آدمی جو اپنے آپ کو مسافر کہتے ہیں ہمارے خیموں کے اردگرد گھوم پھر رہے تھے اور ہمارے چار پانچ آدمیوں سے انہوں نے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جا رہے ہو ؟ان دونوں نے ابو سفیان اور دوسرے سرداروں کے سامنے بھی یہی بیان دیئے کہ وہ مسافر ہیں اور کسی جگہ کا نام لے کر کہاکہ وہ ادھر جارہے ہیں۔ ابو سفیان کے حکم سے ان کے پھٹے پرانے کپڑے جو انہوں نے پہن رکھے تھے۔اتروائے گئے تو اندر سے خنجر اور تلواریں برآمد ہوئیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ تم نے یہ ہتھیار چھپا کر کیوں رکھے ہیں؟ خالد کی نظر بہت تیز تھی۔ اسے شک ہوا کہ یہ مسلمانوں کے جاسوس ہیں۔ ان دونوں کو قریش کی فوج کے سامنے کھڑا کر دیا گیا اور پوچھا گیا کہ انہیں کوئی پہچانتا ہے؟
دو تین آوازیں آئیں کہ ’’ہم انہیں پہچانتے ہیں ۔یہ یثرب (مدینہ) کے رہنے والے ہیں۔‘‘
’’اس ایک کومیں اچھی طرح جانتا ہوں ۔‘‘قریش کے آدمی نے اٹھ کر کہا۔’’ اسے میں نے اپنے خلاف لڑتے ہوئے دیکھا تھا۔‘‘
’’تم اپنی زبان سے کہہ دو کہ تم محمد کے جاسوس ہو ۔‘‘ابو سفیان نے ان دونوں سے کہا۔’’ اور جاؤ میں تمہاری جان بخشی کرتا ہوں۔‘‘
دونوں میں سے ایک نے اعتراف کر لیا۔
’’جاؤ!‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’ہم نے تمہیں معاف کیا۔‘‘
دونوں جو واقعی مسلمانوں کے بھیجے ہوئے جاسوس تھے اور قریش کے عزائم معلوم کرنے آئے تھے ۔ہنسی خوشی اپنے اونٹوں کی طرف چل پڑے ۔ابو سفیان کے اشارے پر کئی ایک تیر اندازوں نے کمانوں میں تیر ڈالے اور پیچھے سے ان دونوں مسلمانوں پر چلا دیئے۔ دونوں کئی کئی تیر اپنے جسم میں لے کر گرے پھر اٹھ نہ سکے۔
’’کیا تم اس کا مطلب سمجھتے ہو؟‘‘ ابو سفیان نے اپنے قریب کھڑ ے سرداروں سے کہا۔’’ جاسوس بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہارے نہیں۔ وہ ابھی یا کچھ ہی عرصے بعد ہم پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔فوراً مکہ کو کوچ کرو اور اگلی جنگ کی تیاری کرو۔‘‘
اگلے روز رسولِ اکرمﷺ کو کسی نے آ کر بتایا کہ ا ہل ِقریش نے جہاں پڑاؤ کیا تھاوہاں اپنے دونوں جاسوسوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور اہلِ قریش مکہ کو روانہ ہو گئے ہیں۔
خالد نے یہ پہلی جنگ لڑی ۔لیکن وہ سمجھتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکا ہے۔ آج چار برس بعد وہ اس سوچ میں غرق تھا کہ مسلمانوں کی یہ طاقت عام انسانوںکی طاقت نہیں تھی کوئی راز ہے جسے وہ ابھی تک نہیں پا سکا۔ اسے اہلِ قریش کی کچھ خامیاں یاد آنے لگیں۔ کچھ باتیں اور کچھ اعمال اسے اچھے نہیں لگ رہے تھے۔ اسے یہودیوں کی دو بڑی خوبصورت عورتیں بھی یاد آئیں جو اہلِ قریش کے سواروں میں گھل مل گئی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ یہودی اپنے نسوانی حسن کے جادو سے اہلِ قریش پر چھا جانے کی اور انہیں مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ طریقہ اسے پسند نہ تھا لیکن ان میں سے ایک عورت ایک روز خالد سے ملی تو خالد نے محسوس کیا کہ یہ عورت جو کچھ کہہ رہی ہے اس میں عقل و دانش ہے۔ اس عورت کے حسن و جوانی کا اپنا ایک اثر تھا لیکن طلسم جو اس کی زبان میں تھا اس کا اثر خالد نے بھی محسوس کیا تھا۔ کچھ دیر تک یہ عورت خالدکے خیالوں پر چھائی رہی۔ اسکا گھوڑا ہنہنایا تو خالد جیسے خواب سے بیدار ہو گیا۔ وہ تیزی سے اٹھا، گھوڑے پر سوار ہوا اور پھر مدینہ کے راستے پر ہو لیا۔
ولید کا بیٹا خالد شہزادہ تھا ۔عیش و عشرت کا بھی دلدادہ تھا لیکن فنِ حرب و ضرب کا جنون ایسا تھا کہ عیش و عشرت کو اس جنون پر حاوی نہیں ہونے دیتا تھا۔ مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اسے وہ حسین و جمیل یہودن یاد آئی جس کا نام’’ یو حاوہ‘‘ تھا۔ اس نے اس یہودن کو ذہن سے نکال دیا لیکن یوحاوہ رنگ برنگی تتلی بن کر اس کے ذہن میں اڑتی رہی۔ خالد اسے ذہن سے نکال نہ سکا۔
خالد کے ذہن میں اڑتی ہوئی اس تتلی کے رنگ پھیکے پڑنے لگے ۔پھر تمام رنگ مل کر سرخ ہو گئے۔ خون جیسے سرخ ۔یہ ایک بھیانک یاد تھی۔ خالد نے اسے ذہن سے اگل دینے کی بہت کوشش کی لیکن تتلی جو زہریلی بھڑ بن گئی تھی۔ اس کے ذہن سے نہ نکلی۔
یہ معرکہ اُحد کے تین چار ماہ بعد کا ایک واقعہ تھا۔ یہ ایک سازش تھی جس میں وہ شریک نہ تھا لیکن وہ قبیلہ قریش کا ایک بڑا ہی اہم فرد تھا ۔مسلمانوں کے خلاف کسی سازش میں شریک نہ ہونے کے باوجود وہ دعویٰ نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اس میں شریک نہ تھا۔
معرکہ اُحد میں زخمی ہونے والے بعض اہلِ قریش کے زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے کہ ایک روز خالد کو خبر ملی کہ مدینہ سے چھ مسلمان تبلیغِ اسلام کیلئے رجیع کی طرف جا رہے تھے کہ عفان سے تھوڑی دور ایک غیر مسلم قبیلے نے انہیں روک لیا اور ان میں سے دو کو مکہ لایا گیا اور انہیں نیلام کیا جا رہا ہے ۔
خالد دوڑتا ہوا وہاں گیا ۔وہ دو مسلمان خبیبؓ بن عدی، اور زیدؓ بن الدثنہ تھے۔ خالد دونوں کو جانتا پہچانتا تھا ۔وہ اسی کے قبیلے کے افراد ہوا کرتے تھے ۔انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا ۔ان میں حب رسولﷺ کا یہ عالم تھا کہ رسولِ خدا ﷺ پر جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے تھے۔ رسولِ خداﷺ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ خالد نے دیکھا کہ انہیں ایک چبوترے پر کھڑا کر دیا گیا تھا اور اردگرد اہلِ قریش کا ہجوم تھا۔ ایک غیر مسلم قبیلے کے چار افراد ان کے پاس کھڑے تھے ۔دونوں کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔
’’یہ دونوں مسلمان ہیں۔‘‘ ایک آدمی چبوترے پر کھڑا علان کر رہا تھا۔’’ یہ دونوں اُحد میں تمہارے خلاف لڑے تھے۔ ان کے ہاتھوں تمہارے عزیز اور خون کے رشتے دار مارے گئے تھے ۔ہے کوئی جو انتقام کی آگ بجھانا چاہتا ہے ؟انہیں خریدو انہیں اپنے ہاتھوں قتل کرو،اور خون کے بدلے خون بہاؤ ۔یہ آدمی سب سے اونچی بولی دینے والے کو ملیں گے ۔بولو؟‘‘
’’دو گھوڑے۔‘‘ ایک آواز آئی۔
’’بولو بڑھ کر بولو۔‘‘
’’دو گھوڑے ایک اونٹ ۔‘‘ایک اور آواز آئی۔
’’گھوڑوں اونٹوں کو چھوڑو ۔سونے میں بولی دو۔سونا لاؤ، دشمن کے خون سے انتقام کی پیاس بجھاؤ۔‘‘
وہ لوگ جن کے قریبی رشتے دار احد کی لڑائی میں مارے گئے تھے ۔بڑھ چڑھ کر بولی دے رہے تھے۔ خبیب ؓاور زیدؓ چپ چاپ کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر خوف نہ تھا گھبراہٹ نہیں تھی ۔ہلکی سی بے چینی بھی نہیں تھی ۔خالد ہجوم کو چیرتا ہوا آگے چلا گیا۔
’’او قریش کے سردار کے جنگجو بیٹے !‘‘خبیبؓ نے خالد کو دیکھ کر بڑی بلند آواز سے کہا۔’’تیرا قبیلہ ہم دونوں کا خون بہا کر اس مقدس آواز کو خاموش نہیں کر سکتا جو غارِ حرا سے اٹھی ہے ۔لا اپنے قبیلے کا کوئی نامور لڑاکا اور میرے ہاتھ کھلوادے پھر دیکھ کون کس کے خون سے پیاس بجھاتا ہے؟‘‘
’’میدانِ جنگ میں پیٹ دکھانے والو! ‘‘زیدؓ نے گرجدار آواز میں کہا۔’’ تم نے شکست کا انتقام ہمارے بھائیوں کی لاشوں سے لیا ۔تمہاری عورتوں نے احد کے میدان میں ہماری لاشوں کے کان اور ناکیں کاٹ کر ان کے ہار اپنے گلوں میں لٹکائے ہیں۔‘‘
آج چار برس بعد مدینہ کی طرف جاتے ہوئے خالد کو خبیب ؓاور زیدؓ کی للکار اور طعنے صاف سنائی دے رہے تھے۔ وہ زیدؓ کے طعنے کو برداشت نہیں کر سکا تھا۔ آج چار برس بعد اسے یہ طعنہ یاد آیا تو بھی اس کے جسم میں جھرجھری لی ۔ اسے احد کے میدان کا وہ منظر یاد آیا جب ابو سفیان کی بیوی ہند نے حمزہؓ کی لاش کا کلیجہ نکال کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور چبا کر اگل دیا تھا ۔اسی عورت نے اپنے ساتھ کی عورتوں سے کہا تھا کہ وہ مسلمانوں کی لاشوں کے کان اور ناکیں کاٹ لائیں ۔ان عورتوں نے اس کے آگے کانوں اور ناکوں کا ڈھیر لگا دیا تھا۔ ہند نے ان کا نوں اور ناکوں کا ہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈال لیا تھا اور وہ پاگلوں کی طرح میدان میں ایک گیت گاتی اور ناچتی پھری تھی ۔اس منظر کو اس کے خاوند ابوسفیان نے پسند نہیں کیا تھا ۔خالد نے تو نفرت سے منہ پھیر لیا تھا۔
…………bnb…………

تین چار ماہ بعد دو مسلمان جن کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے ۔اسے طعنے دے رہے تھے ۔وہ اوچھے طریقے سے انتقام لینے والا آدمی نہیں تھا۔ وہ یہاں سے کھسک آیا اور اہلِ قریش کے ہجوم میں گم ہو گیا۔اسے اس قبیلے کا ایک آدمی مل گیاجو ان دو مسلمانوں کو پکڑ لایا تھا۔ کسی بھی تاریخ میں ا س قبیلے کا نام نہیں ہے۔ مؤرخوں نے بھی ہشام کے حوالے سے ایک جنگجو قبیلہ لکھا ہے جو قریش کا اتحادی تھا۔
خالد نے اس جنگجو قبیلے کے اس آدمی سے پوچھا کہ ان دو مسلمانوں کو کس طرح پکڑا گیا۔ ’’خدا کی قسم! ‘‘اس آدمی نے کہا۔’’ کہو تو ہم ان مسلمانوں کے رسول کو پکڑ لائیں اور نیلامی کے چبوترے پر کھڑا کر دیں۔‘‘
’’تم جو کام نہیں کر سکتے اس کی قسم نہ کھاؤ۔‘‘خالد نے کہا ۔’’مجھے بتاؤ کہ ان دو کو کہاں سے پکڑا گیا ہے؟‘‘
یہ چھ تھے ۔اس شخص نے جواب دیا۔’’ ہم نے احد میں مارے جانے والوں کا انتقام لیا ہے۔ آئندہ بھی ایسے ہی انتقام لیتے رہیں گے۔ ہمارے قبیلے کے کچھ آدمی مدینہ میں محمد (ﷺ) کے پاس گئے اور کہا کہ وہ اسلام قبول کرنے آئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا پورا قبیلہ اسلام قبول کرنے کا ارادہ کر چکا ہے لیکن پورا قبیلہ مدینہ نہیں آسکتا۔ ہمارے ان آدمیوں نے محمد (ﷺ) سے کہا کہ ان کے ساتھ چند ایک مسلمانوں کو ان کے قبیلے میں بھیجا جائے جو پورے قبیلے کو مسلمان کرے اور پھر قبیلے کو مذہبی تعلیم دینے کیلئے کچھ عرصہ وہیں رہے۔‘‘
’’ہمارے یہ آدمی جب واپس آئے تو ان کے ساتھ چھ مسلمان تھے ۔ادھر ہمارے سردار شارجہ بن مغیث نے ایک سو آدمیوں کو رجیع کے مقام پر بھیج دیا ۔جب یہ چھ مسلمان رجیع پہنچے تو ہمارے ایک سو آدمیوں نے انہیں گھیر لیا۔ تم سن کر حیران ہو گے کہ یہ چھ مسلمان تلواریں نکال کر ایک سو آدمیوں سے مقابلے پر آگئے ۔ہم نے تین کو مار ڈالا اور تین کو پکڑ لیا۔ان کے ہاتھ رسیوں سے باندھ دیئے ۔شارجہ بن مغیث نے حکم دیا تھا کہ مدینہ سے کچھ مسلمان تمہارے دھوکے میں آکر تمہارے ساتھ آ گئے تو ان میں سے دو تین کو مکہ لے جانا اور انتقام لینے والوں کے ہاتھوں فروخت کر دینا۔‘‘
’’ہم تین کو ادھر لا رہے تھے۔ راستے میں ان میں سے ایک نے رسیوں میں سے ہاتھ نکال لیے مگر وہ بھاگا نہیں۔ وہ اتنا پھرتیلا تھا کہ اس نے ہمارے ایک آدمی کی نیام سے تلوار نکال لی کیونکہ اسے ہم نے نہتا کر رکھا تھا۔ اس نے بڑی تیزی سے ہمارے دو آدمیوں کو مار ڈالا۔ اکیلا آدمی اتنے سارے آدمیوں کا مقابلہ کب تک کرتا؟ وہ مارا گیااور ہم نے اس کے جسم کا قیمہ کر دیا ۔یہ دو رہ گئے۔ ہم نے ان کے ہاتھ اور زیادہ مضبوطی سے باندھ دیئے اور یہاں لے آئے ۔‘‘’’اور تم خوش ہو؟‘‘خالد نے اسے طنزیہ کہا۔ ’’محمد (ﷺ) کیا کہے گا اہلِ قریش اور ان کے دوست قبیلے اتنے بزدل ہو گئے ہیں کہ اب دھوکہ دینے اور چھ آدمیوں کو ایک سو سے مروانے پر اتر آئے ہیں؟ کیا تم نے مجھے یہ بات سناتے شرم محسوس نہیں کی؟کیا ان ایک سو آدمیوں نے اپنی ماؤں کو شرمسار نہیں کیا؟جن کا انہوں نے دودھ پیا ہے؟‘‘
’’تم نے میدانِ جنگ میں مسلمانوں کا کیا بگاڑ لیا تھا ولید کے بیٹے!‘‘ اس آدمی نے کہا۔’’ کیا تم محمد (ﷺ) کی طاقت کا مقابلہ کر سکتے ہو؟بدر میں ایک ہزار قریش تین سو تیرہ مسلمانوں سے مار کھا آئے تھے۔احد کی لڑائی میں محمد (ﷺ) کے پیروکار کتنی تعداد میں تھے۔سات سو سے کم ہوں گے زیادہ نہیں۔قریش کتنے تھے؟ہزاروں ۔سن خالد بن ولید۔محمد (ﷺ) کے ہاتھ میں جادو ہے۔ جہاں جادو چلتا ہے وہاں تلوار نہیں چل سکتی۔‘‘
’’پھر تمہاری تلوار کس طرح چل گئی؟‘‘خالد نے پوچھا۔ ’’ اگر محمد کے ہاتھ میں جادو ہے تو وہ تمہارے سردار شارجہ بن مغیث کے دھوکے میں کس طرح آگیا ؟اس کے چار آدمیوں کو کس طرح مار ڈالا؟ان دو کو محمد (ﷺ) کا جادو آزاد کیوں نہیں کرا دیتا؟تم جس چیز کا مقابلہ کرنے کی جرات نہیں رکھتے اسے جادو کہہ دیتے ہو۔‘‘
’’ہم نے جادو کو جادو سے کاٹا ہے۔‘‘ شارجہ بن مغیث کے قبیلے کے آدمی نے کہا۔’’ ہمارے پاس یہودی جادوگر آئے تھے ۔انکے ساتھ تین جادوگرنیاں بھی تھیں۔ ان میں سے ایک کا نام یوحاوہ ہے ۔ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ایک گھنی جھاڑی میں سے ایک برچھی زمین سے سرکتی ہوئی باہر آئی ۔یہ برچھی جھاڑی میں واپس چلی گئی اور سانپ بن کر واپس آئی۔یہ سانپ واپس جھاڑی میں چلا گیا۔‘‘
…………bnb…………

مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اسے یہ واقعہ یاد آ رہا تھا ۔وہ اسے یاد نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن زہریلی بھڑوں کی طرح یہ یاد اس کے اوپر بھنبھناتی رہی۔اسے یوحاوہ یاد آئی۔ وہ جادو گرنی تھی یا نہیں۔ا س کے حسن میں، جسم کی ساخت، مسکراہٹ اور بولنے کے انداز میں جادو تھا۔ اس نے شارجہ بن مغیث کے اس آدمی کے منہ سے یوحاوہ کا نام سنا تو وہ چونکا۔ معرکہ احد کے بعد جب اہلِ قریش کی فوج مکہ واپس آئی تھی تو مکہ کے یہودی ایسے انداز سے ابو سفیان ،خالد اور عکرمہ کے پاس آئے تھے جیسے احد میں یہودیوں کو شکست ہوئی ہو۔ یہودیوں کے سرداروں نے ابو سفیان سے کہا تھا کہ مسلمانوں کو شکست نہیں ہوئی اور لڑائی ہار جیت کے بغیر ختم ہو گئی ہے، تو یہ قریش کی شکست ہے۔ یہ یہودیوں کی ناکامی ہے۔ یہودیوں نے اہلِ قریش کے ساتھ اس طرح ہمدردی کا اظہار کیا تھا جیسے وہ اہلِ قریش کی ناکامی پر غم سے مرے جا رہے ہیں۔
انہی دنوں خالد نے پہلی بار یوحاوہ کو دیکھا تھا۔ وہ اپنے گھوڑے کی ٹہلائی کیلئے آبادی سے باہر نکل گیا تھا۔جب وہ واپس آ رہا تھا تو راستے میں اسے یوحاوہ مل گئی۔ یوحاوہ کی مسکراہٹ نے اسے روک دیا۔
’’میں تسلیم نہیں کر سکتی ،ولید کا بیٹا جنگ سے ناکام لوٹ آیا ہے۔‘‘ یوحاوہ نے کہا اور خالد کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ پھیرنے لگی اور بولی۔’’ مجھے اس گھوڑے سے پیار ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے گیا۔‘‘
خالد یوں گھوڑے سے اتر آیا جیسے یوحاوہ کے جادو نے اسے گھوڑے سے زمین پر کھڑاکردیا ہو۔
’’اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہو گی کہ تم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکے ۔‘‘یوحاہ نے کہا۔’’ تمہاری شکست ہماری شکست ہے۔ اب ہم تمہارا ساتھ دیں گے لیکن تمہارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تم ہمیں اپنے ساتھ نہیں دیکھ سکو گے۔‘‘
خالد نے یوں محسوس کیا جیسے اس کی زبان بند ہو گئی ہو۔ تلواروں برچھیوں اور تیروں کی بوچھاڑوں کا مقابلہ کرنے والا خالد یوحاوہ کی مسکراہٹ کا مقابلہ نہیں کر سکا۔
’’اگر یہودی ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے تو ہمارے کس کام آ سکیں گے؟‘‘ خالد نے پوچھا۔
’’کیا تم سمجھتے ہو کہ صرف تیر ہی انسان کے جسم سے پار ہو جاتا ہے؟‘‘ یوحاوہ نے کہا ۔’’عورت کا تبسم تم جیسے دلیر اور جری مردوں کے ہاتھوں سے تلوار گرا سکتا ہے۔‘‘
خالد اس سے کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن کچھ پوچھ نہ سکا ۔یوحاوہ نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور پھولوں کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر تبسم آ گیا۔ یوحاوہ آگے چل پڑی ۔خالد اسے دیکھتا رہا۔ اس کے گھوڑے نے کھر مارا تو خالد اپنے آپ میں آ گیا۔ وہ بڑی تیزی سے گھوڑے پر سوار ہوا اور چل پڑا۔ کچھ دور آ کر اس نے پیچھے دیکھا۔ یوحاوہ رک کر اسے دیکھ رہی تھی۔ یوحاوہ نے اپنا ہاتھ ذرا اوپر کر کے لہرایا ۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages