Featured Post

Khalid001

22 May 2019

Khalid011



شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  11
دوسرے ہی دن مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ مسلمان مدینہ سے بدر کی طرف کوچ کر گئے ہیں ۔اب ابو سفیان کے کیلئے اس کے سوا اورکوئی راستہ نہیں رہ گیا تھا کہ وہ کوچ کاحکم دے ۔قریش کی جوتعداد بدر کو کوچ کیلئے تیار ہوئی وہ دو ہزار تھی اور ایک سو گھڑ سوار اس کے علاوہ تھے۔قیادت ابو سفیان کی تھی اور اس کے ماتحت خالد ،عکرمہ اور صفوان نائب سالار تھے۔ حسبِ معمول ابو سفیان کی بیوی ہند اور اس کی چند ایک کنیزیں اور گانے بجانے والی عورتیں بھی ساتھ تھیں۔
مسلمان رسولِ اکرمﷺ کی قیادت میں 4 اپریل 626ء بمطابق یکم ذ ی القعد 4 ہجری کے روز بدر کے میدان میں پہنچ گئے۔
قریش ابھی عسفان کے مقام تک پہنچے تھے ۔انہوں نے وہیں رات بھر کیلئے پڑاؤ کیا ۔علی الصبح ان کی روانگی تھی لیکن صبح طلوع ہوتے ہی ابو سفیان نے اپنے لشکر کو کوچ کا حکم دینے کے بجائے اکھٹا کیا اور لشکر سے یوں مخاطب ہوا:
’’قریش کے بہادرو! مسلمان تمہارے نام سے ڈرتے ہیں۔ اب ان کے ساتھ ہماری جنگ فیصلہ کن ہو گی۔ ان مٹھی بھر مسلمانوں کا ہم نام و نشان مٹا دیں گے۔ نہ محمد اس دنیا میں رہے گا نہ کوئی اس کانام لینے والا۔ لیکن ہم ایسے حالات میں لڑنے جا رہے ہیں جو ہمارے خلاف جا سکتے ہیں اور ہماری شکست کا باعث بن سکتے ہیں ۔تم دیکھ رہے ہو کہ ہم اپنے ساتھ پورا اناج نہیں لا سکے ۔مزید اناج ملنے کی امید بھی نہیں کیونکہ خشک سالی نے قحط کی صورت پیدا کردی ہے پھر اس گرمی کو دیکھو۔ میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے بہادروں کو بھوکا اور پیاسا مروا دوں۔ میں فیصلہ کن جنگ کیلئے موزوں حالات کا انتظار کروں گا۔ ہم آگے نہیں جائیں گے۔ مکہ کو کوچ کرو۔‘‘
خالد کو یاد آ رہا تھا کہ قریش کے لشکر نے دو طرح کے نعرے بلند کیے۔ ایک ان کے نعرے تھے جو انہی حالات میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ دوسرے نعرے ابو سفیان کے فیصلے کی تائید میں تھے لیکن حکم سب کو ماننا تھا۔ خالد، عکرمہ اورصفوان نے ابو سفیان کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ لیکن ابو سفیان پر ان کے احتجاج کا کچھ اثر نہ ہوا۔ ان تینوں نائب سالاروں نے یہ جائزہ بھی لیا کہ کتنے آدمی انکے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ جائزہ ان کے خلاف ثابت ہوا۔ لشکر کی اکثریت ابو سفیان کے حکم پر مکہ کی طرف کوچ کر گئی۔ خالد اور اس کے دوسرے ساتھیوں کو مجبوراً لشکر کے پیچھے پیچھے آنا پڑا۔
خالد کو وہ لمحہ یاد آ رہاتھا جب وہ اہلِ قریش کے لشکر کے پیچھے پیچھے عکرمہ اور صفوان کے ساتھ مکہ کو چلا جا رہا تھا۔ا س کا سر جھکا ہوا تھا ۔یہ تینوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ بھی نہیں رہے تھے جیسے ایک دوسرے سے شرمسار ہوں ۔خالد کو بار بار یہ خیال آتا تھا کہ لڑائی میں اس کی ایک ٹانگ کٹ جاتی۔ بازو کٹ جاتے ۔اس کی دونوں آنکھیں ضائع ہوجاتیں تو اسے یہ دکھ نہ ہوتا جو بغیر لڑے واپس جانے سے ہو رہا تھا۔اس وقت وہ اس طرح محسوس کر رہا تھا جیسے اس کی ذات مٹ چکی ہو اور گھوڑے پر اس کی لاش مکہ کو واپس جا رہی ہو۔ نبی کریمﷺ کا قتل اس کا عزم اور عہد تھا جو وہ پورا کیے بغیر واپس آ رہا تھا۔ یہ عزم بچھو بن کر اسے ڈس رہا تھا۔
اسے بہت کچھ یاد آ رہا تھا۔ یادوں کا ایک ریلاتھا جو ختم نہیں ہو رہا تھا۔ اسے یہودیوں کے تینوں قبیلے بنو نضیر، بنو قریظہ اور بنو قینقاع یادآئے ۔انہوں نے جب دیکھا کہ قریش مسلمانوں کے خلاف لڑنے سے منہ موڑ گئے ہیں تو وہ سرگرم ہو گئے۔ یہودیوں نے مسلمانوں کے خلاف زمین دوز کارروائیاں شروع کیں۔ مکہ گئے اور قریش کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا۔ مگر قریش کا سردار ابو سفیان ٹس سے مس نہ ہوا۔ خالد کو معلوم نہ ہو سکا کہ ابو سفیان کے دل میں کیا ہے اور وہ مسلمانوں سے لڑنے سے کیوں گھبرا تا ہے۔
اسی سال کے موسم ِ سرما کے اوائل میں خیبر کے چند ایک سرکردہ یہودی مکہ گئے۔ ان کا سردار حیّی بن اخطب تھا ۔یہ شخص یہودیوں کے قبیلے بنو نضیر کا سردار بھی تھا۔ یہودیوں کے پاس زروجواہرات کے خزانے تھے۔ وہ چند ایک یہودی ابو سفیان اور قریش کے دیگر سرداروں کیلئے بیش قیمت تحفے لے کر گئے ۔ان کے ساتھ حسین و جمیل لڑکیوں کا طائفہ بھی تھا۔
مکہ میں یہ یہودی ابو سفیان سے ملے۔ اسے تحفے پیش کیے اور رات کو اپنے طائفہ کا رقص بھی دکھایا۔ اس کے بعد حیّی بن اخطب نے ابو سفیان سے خالد ،عکرمہ اور صفوان کی موجوگی میں کہا کہ’’ انہوں نے مسلمانوں کو ختم نہ کیا اور ان کے بڑھتے ہوئے قدم نہ روکے تو وہ یمامہ تک پہنچ جائیں گے۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو گئے تو قریش کیلئے وہ تجارتی راستہ ہمیشہ کیلئے بند ہو جائے گا۔ جو بحرین اور عراق کی طرف جاتا ہے۔‘‘ قریش کیلئے یہ راستہ شہ رگ کی حیثیت رکھتا تھا۔
’’اگر آپ ہمارا ساتھ دیں۔‘‘ حیّی بن اخطب نے کہا۔’’ تو ہم مسلمانوں کے خلاف خفیہ کارروائیاں شروع کر دیں گے۔‘‘
’’ہم مسلمانوں سے دگنے تھے تو بھی انہیں شکست نہ دے سکے۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ ان سے تین گنا تعداد میں ان سے لڑے تو بھی انہیں شکست نہ دے سکے اگر چند اور قبیلے ہمارے ساتھ مل جائیں تو ہم مسلمانوں کو ہمیشہ کیلئے ختم کر سکتے ہیں۔‘‘
’’ہم نے یہ انتظام پہلے ہی کر دیاہے ۔‘‘حیّی بن اخطب نے کہا ۔’’قبیلہ غطفان اور بنو اسد آپ کے ساتھ ہوں گے۔ چند اور قبیلے ہماری کوششوں سے آپ کے ساتھ آجائیں گے۔‘‘
خالد کو کیا کچھ یاد نہ آ رہا تھا تین چار سال پہلے کے واقعات، اسے ایک روز پہلے کی طرح یاد تھے۔ اسے ابو سفیان کا گھبرایا گھبرایا چہرہ اچھی طرح یاد تھا۔ خالد جانتا تھاکہ یہودی ا ہلِ قریش کو مسلمانوں کے خلاف صرف اس لیے بھڑکا رہے ہیں کہ یہودیوں کا اپنا مذہب اسلام کے مقابلے میں خطرے میں آ گیا تھا ۔لیکن انہوں نے ابو سفیان کو ایسی تصویر دکھائی تھی جس میں اسے مسلمانوں کے ہاتھوں تباہی نظر آ رہی تھی۔ دوسری طرف خالد، عکرمہ اور صفوان بن امیہ نے ابو سفیان کو سر اٹھا نے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
’’ہم آپ کو اپنا سردار تسلیم کرتے ہیں ۔لیکن آپ یہ تسلیم کریں کہ آپ بزدل ہیں۔‘‘
’’اگر مسلمان موسم کی خرابی اور قحط میں لڑنے کیلئے آ گئے تھے تو ہم بھی لڑ سکتے تھے۔‘‘
’’آ پ نے جھوٹ بو ل کر ہمیں دھوکا دیا ہے۔‘‘
’’ابو سفیان بزدل ہے۔ ابو سفیان نے پورے قبیلے کو بزدل بنا دیا ہے۔ اب محمد (ﷺ) کے چیلے ہمارے سر پر کودیں گے۔‘‘
اور ایسی بہت سی طنز اور غصے میں بھری ہوئی آوازیں مکہ کے گلی کوچوں میں گشت کرتی رہتی تھیں۔ ان آوازوں کے پیچھے یہودیوں کا دماغ بھی کام کر رہا تھا لیکن اہلِ قریش کی غیرت اور ان کا جذبہ انتقام انہیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا۔ ابو سفیان اس حال تک پہنچ گیا کہ اس نے باہر نکلنا ہی چھوڑ دیا۔
خالد کو وہ دن یاد آیا جب اسے ابوسفیان نے اپنے گھر بلایا تھا۔ خالدکے دل میں ابو سفیان کا وہ احترام نہیں رہ گیا تھا جو کبھی ہوا کرتا تھا ۔وہ بادل نخواستہ صرف اس لیے چلا گیا کہ ابی سفیان اس کے قبیلے کا سردار ہے۔ وہ ابو سفیان کے گھر گیا تو وہاں عکرمہ اور صفوان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔
’’خالد!‘‘ ابوسفیان نے کہا ۔’’میں نے مدینہ پر حملہ کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘‘
خالد کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس نے غلط سنا ہو۔ اس نے عکرمہ اور صفوان کی طرف دیکھا ۔ان دونوں کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ آگئی۔
’’ہاں خالد!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’جس قدر جلدی ہو سکے لوگوں کو مدینہ پر حملہ کیلئے تیار کر لو۔‘‘
…………bnb…………

یہودیوں نے جن قبائل کو قریش کا ساتھ دینے کیلئے تیار کیا تھا ۔ان سب کی طرف پیغام بھیج دیئے گئے ۔یہ فروری 627ء کے آغاز کے دن تھے ۔مختلف قبائل کے لڑاکا دستے مکہ میں جمع ہونے لگے۔ ان قبائل میں سب سے زیادہ فوج غطفان کی تھی ۔اس کی تعداد تین ہزار تھی۔ منیّہ اس کا سالار تھا ۔سات سو آدمی بنو سلیم نے بھیجے۔ بنو اسد نے بھی خاصی فوج بھیجی جس کا سالار طلیحہ بن خویلد تھا۔ (اس کی تعداد تاریخ میں نہیں ملتی) قریش کی اپنے فوج کی تعداد چار ہزار پیادہ اور تین سو گھڑ سوار اور ڈیڑھ ہزار شتر سوار تھے۔ اس پورے لشکر کی تعداد جو مدینہ پر فوج کشی کے لیے جا رہی تھی کل دس ہزار تھی۔ اس کی کمان ابو سفیان کے ہاتھ میں تھی۔ ابو سفیان نے اس متحدہ فوج کو جمعیۃ القبائل کہا تھا۔
ان میں سے کچھ قبائل مکہ میں نہیں آئے تھے۔ انہوں نے اطلاع دی تھی کہ جب لشکر مکہ سے روانہ ہو گا تو وہ اپنی اپنی بستی سے کوچ کر جائیں گے اور راستہ میں لشکر سے مل جائیں گے۔ خالد کو آج وہ وقت یاد آ رہا تھا جب اس نے مکہ سے کوچ کیا تھا۔ لشکر کا تیسرا حصہ ان کی کمان میں تھا۔ اس نے ایک ٹیکری پر گھوڑا چڑھا کر وہاں سے اس تمام لشکر کو دیکھا تھا۔ اسے لشکر کے دونوں سرے نظر نہیں آ رہے تھے۔ دف اور نفریاں اور شہنائیاں اور لشکر کی مترنم آواز جو ایک ہی آواز لگتی تھی۔ خالد کے خون کو گرما رہی تھی۔ اس نے گردن تان کر اپنے آپ سے کہا تھا کہ ’’مسلمان پس کے رہ جائیں گے۔ اسلام کے ذرے عرب کی ریت میں مل کر ہمیشہ کیلئے فنا ہو جائیں گے۔ یہ اس کا عزم تھا۔
یہ لشکر 24فروری 627ء بمطابق یکم شوال ہجری مدینہ کے قریب پہنچ گیا۔ قریش نے اپنا پڑاؤ اس جگہ ڈالا جہاں احد کی لڑائی کیلئے خیمہ زن ہوئے تھے۔ وہاں دوند یاں آکر ملتی تھیں۔ دوسرے تمام قبائل احد کی پہاڑی کے مشرق کی طرف خیمہ زن ہوئے۔



قریش نے یہ معلوم کر نے کیلئے کہ مدینہ کے لوگوں کو قریش کی لشکر کی آمد کی اطلاع ملی ہے یا نہیں ۔دو جاسوس تاجروں کے بھیس میں مدینہ بھیجے ۔ابو سفیان اور ا سکے تمام نائب سالاروں کی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ مدینہ والوں پر بے خبری میں حملہ کیا جائے لیکن دوسرے ہی دن قریش کاایک جاسوس جو یہودی تھا مدینہ سے آیا۔ا س نے ابو سفیان کو بتایا کہ مسلمانوں کو حملہ آور لشکر کی آمد کی اطلاع مل چکی ہے۔
مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا۔ اس یہودی جاسوس نے بتایا ۔’’سارے شہر پر خوف طاری ہو گیا تھا لیکن محمد (ﷺ) اور اس کے قریبی حلقے کے آدمیوں کی للکار پر مسلمانوں کے دل مضبوط ہو گئے ۔گلی کوچوں میں ایسے اعلان ہونے لگے جن سے تمام شہر کا جذبہ اور حوصلہ عود کر آیا اور مسلمان لڑائی کیلئے ایک جگہ اکھٹے ہونے لگے۔ میرے خیال میں ان کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہیں ہو گی۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ انہیں اطلاع مل چکی تھی کہ مدینہ پر حملہ کیلئے جو لشکر آیا ہے اس کی تعداد دس ہزار ہے جس میں سینکڑوں گھڑ سوار اور شتر سوار بھی ہیں ۔اس وقت تک عرب کی سرزمین میں کسی لڑائی میں اتنا بڑا لشکر نہیں دیکھا تھا۔
تعداد کو دیکھا جاتا اور فن ِ حرب و ضرب کے پیمانے سے دونوں اطراف کو ناپا تولا جاتا تو مسلمانوں کو لڑے بغیر ہتھیار ڈال دینے چاہیے تھے یا وہ رات کی تاریکی میں مدینہ سے نکل جاتے اور کسی اور بستی میں اپنا ٹھکانا بناتے ۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تین ہزار مسلمان دس ہزار کے لشکر کامقابلہ ذرا سی دیر کیلئے بھی کر سکیں گے۔ دس ہزار لشکر نہایت آسانی سے مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا سکتا تھا لیکن یہ حق اور باطل کی ٹکر تھی ۔یہ اﷲ کے آگے سجدے کر نے والوں اور بت پرستوں کا تصادم تھا۔ خدا کو حق کا ساتھ دینا تھا۔ خدا کو اپنے اس عظیم پیغام کی لاج رکھنی تھی جو اس کی ذاتِ باری نے غارِ حرا میں عرب کے سپوت کو دیا تھا اور اسے رسالت عطا کی تھی۔
ــ’’خدا ان کا ساتھ دیتا ہے جن کے دلوں میں حق اور صدق ہوتا ہے۔‘‘ یہ نبی کریمﷺ کی للکار تھی جو مدینہ کے گلی کوچوں میں سنائی دے رہی تھی۔ ’’لیکن اے اﷲ کی عبادت کرنے والو! خدا تمہارا ساتھ اسی صورت میں دے گا جب تم دلوں سے خوف و ہراس نکال کر ایک دوسرے کا ساتھ دو گے اور اپنی جانیں اﷲ کی راہ میں قربان کر دینے کا عزم کرو گے۔ جو ہمارے اﷲ کو نہیں مانتا اور جو ہمارے دین کو نہیں مانتا وہ ہمارا دشمن ہے اور اس کا قتل ہم پر فرض ہے۔ یاد رکھو قتل کرنے کیلئے قتل ہونا بھی پڑتا ہے۔ ایمان سے بڑھ کر اور کوئی طاقت نہیں جو تمہیں دشمن سے بچا سکے گی۔ تمہیں دفاع مدینہ کا نہیں اپنے عقیدے کا کرنا ہے۔ اگر اس عزم سے آگے بڑھو گے تو دس ہزار پر غالب آ جاؤ گے۔ خدا سوئے ہوئے یا خوف زدہ انسان کو معجزے نہیں دکھایا کرتا ۔اپنے عقیدے اور اپنی بستی کے دفاع کا معجزہ تمہیں خود دکھانا ہے ۔‘‘
نبی کریمﷺ نے مدینہ والوں کا حوصلہ اس قدر مضبوط کر دیا تھا کہ وہ اس سے بڑے لشکر کے مقابلے کیلئے بھی تیار ہو گئے۔ لیکن رسولِ خداﷺ اس سوچ میں ڈوب گئے تھے کہ اتنے بڑے لشکر سے مدینہ کو بچانا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ کو یہ تو پورا یقین تھا کہ خدا حق پرستوں کے ساتھ ہے لیکن حق پرستوں کو خود بھی کچھ کر کے دکھانا تھا۔ بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages