Featured Post

Khalid001

22 May 2019

Khalid012


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  12
خدا نے اپنے نام لیواؤں کی مدد کا انتظام کر رکھاتھا ۔وہ ایک انسان تھا جس نے عمر کے آخری حصہ میں اسلام قبول کیا تھا۔ اس انسان کا نام ’’سلمان فارسیؓ‘‘ تھا۔ سلمان فارسیؓ آتش پرستوں کے مذہبی پیشوا تھے۔ لیکن وہ شب و روز حق کی تلاش میں سرکردہ رہتے تھے۔ وہ آگ کو پوجتے تو تھے لیکن آگ کی تپش اور چمک میں اُنہیں وہ راز نظر نہیں آتا تھا جسے وہ پا نے کیلئے بے تاب رہتے تھے۔ عقل و دانش میں ان کی ٹکر کا کوئی نہیں تھا۔ آتش پرست انہیں بھی اسی طرح پوجتے تھے جس طرح آگ کو۔ جب سلمان فارسیؓ کی عمر بڑھاپے کی دہلیز پھلانگ کر خاصی آگے نکل گئی تو ان کے کانوں میں عرب کی سرزمین کی ایک انوکھی آواز پڑی۔’’ خدا ایک ہے۔ محمد (ﷺ) اس کا رسول ہے۔‘‘ یہ آواز سلمان فارسیؓ کے کان میں گھر بیٹھے نہیں پڑی تھی۔ ان کی عمر علم کی تلاش میں سفر کرتے گزر رہی تھی۔ وہ تاجروں کے قافلے کے ساتھ شام میں آئے تھے جہاں قریش کے تاجروں کے قافلے اور کچھ مسلمان تاجر بھی جایا کرتے تھے۔ قریش کے تاجروں نے سلمان فارسیؓ کو طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں بتایا کہ ان کے قبیلے کے ایک آدمی کا دماغ چل گیا ہے اور اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ۔
ایک دو مسلمانوں نے عقیدت مندی سے سلمان فارسی کو نبی کریمﷺ کا عقیدہ اور آپﷺ کی تعلیمات سنائیں ۔سلمان فارسیؓ یہ سب سن کر چونک پڑے۔ انہوں نے ان مسلمانوں سے کچھ اور باتیں پوچھیں۔ انہیں جو معلوم تھا وہ انہوں نے بتایا ۔لیکن سلمان فارسیؓ تشنگی محسوس کر رہے تھے۔ وہ اتنا متاثر ضرور ہو گئے تھے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ تک پہنچنے کا فیصلہ کر لیا ۔کچھ عرصہ بعد سلمان فارسیؓ رسولِ خدا ﷺ کے مقدس سائے میں جا بیٹھے ۔انہیں وہ راز مل گیا جس کی تلاش میں وہ مارے مارے عمر گزار رہے تھے۔ انہوں نے رسول اﷲﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کر لیا اس وقت تک سلمان فارسیؓ بڑھاپے کے آخری حصہ میں پہنچ چکے تھے۔
اپنے ملک میں سلمان فارسیؓ صرف مذہبی پیشوا ہی نہ تھے وہ جنگی علوم کے ماہر تسلیم کیے جاتے تھے۔ اس دور کے مذہبی پیشوا بھی جنگ و جدل اور سپاہ گری کے ماہر ہوتے تھے۔ علم و ادب کے عالم بھی سپاہی ہوتے تھے لیکن سلمان فارسیؓ کو خدا نے جنگ و جدل کے امور میں غیر معمولی ذہانت دی تھی۔ اپنے ملک میں جب کوئی لڑائی ہوتی تھی یا دشمن حملہ آور ہوتا تھا تو سلمان فارسی ؓکو بادشاہ طلب کر کے صورتِ حال ان کے آگے رکھتا اور مشورے لیتا تھا۔ نامور سالار بھی ان کے شاگرد تھے۔
وہ سلمان فارسیؓ اس وقت مدینہ میں رسولِ اکرمﷺ کے صحابہ کرامؓ میں شامل تھے۔ رسولِ اکرمﷺ نے یہ صورتِ حال جو قریش نے آپ ﷺکیلئے پیدا کر دی تھی، سلمان فارسیؓ کے آگے رکھی۔
’’خندق کھودو ،جو سارے شہر کو گھیرے میں لے لے۔‘‘سلمان فارسیؓ نے کہا۔
رسولِ کریمﷺ اور وہاں بیٹھے ہوئے تمام صحابہ کرامؓ اور سالار ایک دوسرے کے منہ کی طرف دیکھنے لگے کہ سلمان فارسی ؓنے یہ کیا کہہ دیا ہے؟عرب خندق سے واقف نہیں تھے۔فارس میں جنگوں میں خندق کا رواج تھا۔ سب کو حیران دیکھ کر سلمان فارسیؓ نے بتایا کہ خندق کیا ہوتی ہے اور اس سے دفاعی کام کس طرح سے لیا جاتا ہے۔ رسولِ کریمﷺ نے جو خود تاریخ کے نامور سالار تھے خندق کی ضرورت اور افادیت کو سمجھ لیا لیکن آپﷺ کے دیگر سالار شش و پنج میں پڑ گئے۔ ان کے لیے اتنے بڑے شہر کے اردگرد اتنی چوڑی اور اتنی بڑی خندق کھودنا ناقابلِ فہم نہیں تھا لیکن انہیں رسولِ خداﷺ کا حکم ماننا تھا۔خندق کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی کا حساب کر لیا گیا۔ رسولِ خداﷺ نے خندق کھودنے والوں کی تعداد کا حساب کیا۔آپﷺ نے کھدائی کا کام اس تعداد پر تقسیم کیا تو ایک سو دس آدمیوں کے حصہ میں چالیس ہاتھ کھدائی آئی تو رسولِ خداﷺ نے دیکھا کہ لوگ خندق کو ابھی تک نہیں سمجھے اور وہ کھدائی سے ہچکچا رہے ہیں تو آپ ﷺنے کدال اٹھائی اور کھدائی شروع کردی۔
یہ دیکھتے ہی مسلمان کدالیں اور بیلچے لے کر نعرے لگاتے ہوئے زمین کا سینہ چیرنے لگے۔ ادھر سے اس وقت کے ایک شاعر حسانؓ بن ثابت آ گئے۔ حسان مشہور نعت گو تھے جنہیں رسولِ اکرمﷺ اکثر اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ اس موقع پر جب مسلمان خندق کھود رہے تھے حسانؓ نے ایسے اشعار ترنم سے سنانےشروع کر دیئے کہ خندق کھودنے والوں پر وجد اور جنون کی کیفیت طاری ہو گئی۔ خندق کی لمبائی چند گز نہیں تھی، اسے میلوں دور تک جانا تھا۔ شیخین کی پہاڑی سے لے کر جبل بن عبید تک یہ خندق کھودنی تھی زمین نرم بھی تھی اور سنگلاخ بھی تھی اوریہ نہایت تیزی سے مکمل کرنی تھی، کیونکہ دشمن سر پر آن بیٹھا تھا۔
قریش کا لشکر اس عجیب و غریب طریقۂ دفاع سے بے خبر احد کی پہاڑی کے دوسری طرف خیمہ زن تھا۔
…………bnb…………

 اس کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ تھا، چلتے چلتے خالد کواپنی آواز سنائی دینے لگی۔
اہلِ قریش تو ٹھنڈے پڑ گئے تھے ۔ان پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔ گھوڑا اپنی مرضی کی چال چلا جا رہا تھا۔ مدینہ ابھی دور تھا، خالد کو جھینپ سی محسوس ہوئی۔ اس کے قبیلہ قریش نے اسے شرمسار کر دیا تھا۔ اسے یہ بات اچھی نہیں لگی تھی کہ یہودیوں کے اُکسانے پر اس کے قبیلے کے سردار اور سالار ابو سفیان نے مدینہ پر حملہ کا فیصلہ کر لیا تھا لیکن وہ خوش تھا کہ حملے کا فیصلہ تو ہوا۔اتنا بڑا لشکر جو سر زمینِ عرب پر پہلی بار دیکھا گیاتھا یہودیوں نے ہی جمع کیا تھا لیکن خالد اس پر بھی مطمئن تھا کہ کسی نے بھی یہ کام کیا ہو، لشکر تو جمع ہو گیا تھا۔
وہ اس روز بہت خوش تھا کہ اتنے بڑے لشکر کو دیکھ کر ہی مسلمان مدینہ سے بھاگ جائیں گے۔اگر مقابلے پر جم بھی گئے تو گھڑی دو گھڑی میں ان کا صفایا ہو جائے گا۔ وہ اس وقت تو بہت ہی خوش تھا جب احد کی پہاڑی کی دوسری طرف یہ سارا لشکر خیمہ زن تھا۔ جس صبح حملہ کرنا تھا اس رات اس پر ایسی ہیجانی کیفیت طاری تھی کہ وہ اچھی طرح سوبھی نہ سکا۔ اسے ہر طرف مسلمانو ں کی لاشیں بکھری ہوئی نظر آ رہی تھیں۔
دوسری صبح جب قریش اور دوسرے اتحادی قبائل کا لشکر جس کی تعداد دس ہزار تھی،خیمہ گاہ سے نکل کر مدینہ پر حملہ کیلئے شہرکے قریب پہنچا تواچانک رک گیا۔شہر کے سامنے ایک بڑی گہری خندق کھدی ہوئی تھی۔ابو سفیان جو لشکر کے قلب میں تھا لشکر کو رکا ہوا دیکھ کر گھوڑا سر پٹ دوڑاتا آگے گیا۔
’’قریش کے جنگجو کیوں رک گئے ہیں ؟‘‘ابوسفیان چلاتا جا رہا تھا۔’’ طوفان کی طرح بڑھو اور محمد (ﷺ) کے مسلمانوں کو کچل ڈالو،شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دو۔‘‘
ابوسفیان کا گھوڑا جب آگے گیا تو اس نے گھوڑے کی لگام کھینچ دی ا ور اس کا گھوڑا اسی طرح رک گیا جس طرح اس کے لشکر کے تمام سوار رکے کھڑے تھے۔اس کے سامنے خندق تھی اس پر خاموشی طاری ہو گئی۔
’’خدا کی قسم! یہ ایک نئی چیز ہے جو میری آنکھیں دیکھ رہی ہیں ۔‘‘ابو سفیان نے غصیلی آواز میں کہا۔ ’’عرب کے جنگجو کھلے میدان میں لڑا کرتے ہیں۔ خالد بن ولید کو بلاؤ، عکرمہ اور صفوان کو بھی بلاؤ۔‘‘
ابو سفیان خندق کے کنارے کنارے گھوڑا دوڑاتا لے گیا۔ اسے کہیں بھی ایسی جگہ نظر نہیں آ رہی تھی جہاں سے اس کا لشکر خندق عبور کر سکتا۔یہ خندق شیخین کی پہاڑی سے لے کر جبلِ بنی عبید کے اوپر سے پیچھے تک چلی گئی تھی۔ مدینہ کے مشرق میں شیخین اور لاوا کی پہاڑیاں تھیں۔ یہ مدینہ کا قدرتی دفاع تھا۔
…………bnb…………

ابو سفیان دور تک چلا گیا۔اس نے دیکھاکہ خندق کے پار مسلمان اس انداز سے گھوم پھر رہے ہیں جیسے پہرہ دے رہے ہوں۔ اس نے گھوڑا پیچھے موڑا اور اپنے لشکر کی طرف چل پڑا۔تین گھوڑے اس کی طرف سر پٹ دوڑے آ رہے تھے جو اس کے قریب آ کر رک گئے۔ وہ خالد، عکرمہ اور صفوان کے گھوڑے تھے۔
’’کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ مسلمان کتنے بزدل ہیں؟‘‘ابو سفیان نے ان تینوں سے کہا ۔’’کیا تم کبھی اپنے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرکے یا رکاوٹ کھود کر اپنے دشمن سے لڑے ہو؟‘‘
خالد پر خاموشی طاری ہو گئی تھی۔ آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اسے یاد آ رہا تھاکہ وہ اس خیال سے چپ نہیں ہو گیا تھا کہ ابو سفیان نے مسلمانوں کو بزدل جو کہا تھا وہ ٹھیک کہا تھا۔ بلکہ خاموش رہ کر وہ اس سوچ میں کھو گیا تھا کہ یہ خندق بزدلی کی نہیں دانشمندی کی علامت تھی۔ جس کسی نے شہر کے دفاع کیلئے یہ طریقہ سوچا تھا وہ کوئی معمولی عقل والا انسان نہیں تھا۔ اس سے پہلے بھی اس نے محسوس کیا تھا کہ مسلمان لڑنے میں اپنے جسم کی طاقت پر ہی بھروسہ نہیں کرتے۔ وہ عقل سے بھی کام لیتے ہیں۔ خالد کا دماغ ایسی ہی جنگی چالیں سوچتا رہتا تھا۔ مسلمانوں نے بدر کے میدان میں نہایت تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے قریش کو بہت بری شکست دی تھی۔ خالد نے اکیلے بیٹھ کر اس لڑائی کا جائزہ لیا تھا۔ مسلمانوں کی اس فتح میں اسے مسلمانوں کی عسکری دانشمندی نظر آئی تھی۔
اُحد کی جنگ میں مسلمانوں کی شکست یقینی تھی لیکن وہ جنگ فتح اور شکست کے فیصلے کے بغیر ختم ہو گئی تھی۔ اس میں بھی مسلمانوں کی عقل نے کام کیا تھا۔
’’کوئی اور بات بھی تھی خالد!‘‘ اسے خیال آیا ۔’’کوئی اور بات بھی تھی۔‘‘
’’کچھ بھی تھا!‘‘ خالد نے اپنے آپ کو جواب دیا۔ ’’جو کچھ بھی تھا ،میں یہ نہیں مانوں گا کہ یہ محمد (ﷺ) کے جادو کا اثر تھایا اس کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے۔ ہماری عقل جس عمل اور جس مظاہرے کو سمجھ نہیں سکتی اسے ہم جادوکہہ دیتے ہیں۔ اہلِ قریش میں ایسا کوئی دانشمند نہیں جو مسلمانوں جیسے جذبے سے اہلِ قریش کو سرشار کر دے اور ایسی جنگی چالیں سوچے جو مسلمانوں کو ایک ہی بار کچل ڈالے۔‘‘
’’خدا کی قسم !ہم اس لیے واپس نہیں چلے جائیں گے کہ مسلمانوں نے ہمارے راستے میں خندق کھود رکھی ہے۔‘‘ ابو سفیان خالد، عکرمہ اور صفوان سے کہہ رہا تھا۔ پھر اس نے ان سے پوچھا: ’’کیا خندق عبور کرنے کا کوئی طریقہ تم سوچ سکتےہو؟‘‘
خالد کوئی طریقہ سوچنے لگا،لیکن اسے خیال آیا کہ اگر ان کے لشکر نے خندق عبور کر بھی لی تو مسلمانوں کو شکست دینا آسان نہ ہو گا۔ خواہ وہ کتنی ہی تھوڑی تعداد میں کیوں نہ ہوں۔ جن انسانوں نے تھوڑے سے وقت میں زمین اور چٹانوں کا سینہ چیر ڈالا ہے ان انسانوں کو بڑے سے بڑا لشکر بھی ذرامشکل سے ہی شکست دے سکے گا۔
’’کیا سوچ رہے ہو ولید کے بیٹے !‘‘ابو سفیان نے خالد کو گہری سوچ میں کھوئے ہوئے دیکھ کر کہا ۔’’ہمارے پاس سوچنے کا بھی وقت نہیں ہے۔ مسلمان یہ نہ سمجھیں کہ ہم بوکھلاگئے ہیں۔‘‘
’’ہمیں تمام تر خندق دیکھ لینا چاہیے ۔‘‘عکرمہ نے کہا۔
’’کہیں نہ کہیں کوئی ایسی جگہ ہوگی جہاں سے ہم خندق عبور کر سکیں گے۔‘‘ صفوان نے کہا۔
’’محاصرہ۔‘‘ خالد نے خود اعتمادی سے کہا۔ ’’مسلمان خندق کھود کر اندر بیٹھ گئے ہیں۔ ہم محاصرہ کرکے باہر بیٹھے رہیں گے ۔وہ بھوک سے تنگ آ کر ایک نہ ایک دن خود ہی خندق کے اس طرف آ جائیں گے جدھر ہم ہیں۔‘‘
’’ہاں!‘‘ ابوسفیان نے کہا۔ ’’مجھے یہی ایک طریقہ نظر آتا ہے جو مسلمانوں کو باہر آ کر لڑنے پر مجبور کر دے گا۔‘‘
ابوسفیان اپنے ان تینوں نائب سالاروں کے ساتھ خندق کے ساتھ ساتھ تمام تر خندق کو دیکھنے کیلئے جبلِ بنی عبید کی طرف چل پڑا۔ سلع کی پہاڑی مدینہ اور جبلِ بنی عبید کے درمیان واقع تھی۔ مسلمان اس کے سامنے مورچہ بند تھے۔ ابو سفیان نے مسلمانوں کی تعداد دیکھی تو اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔ وہ ذرا آگے بڑھا تو ایک گھوڑا جو بڑا تیز دوڑا آ رہا تھا اس کے پہلو میں آ ن رکا۔ سوار کو ابو سفیان بڑی اچھی طرح پہچانتا تھا۔ وہ ایک یہودی تھا جو تاجروں کے بہروپ میں مدینہ کے اندر گیا تھا۔ وہ مدینہ سے شیخین کے سلسلۂ کوہ میں سے ہوتا ہوا قریش کے لشکر میں پہنچا تھا۔
…………bnb…………

’’اندر سے کوئی ایسی خبر لائے ہو جو ہمارے کام آ سکے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا اور کہا۔’’ ہمارے ساتھ ساتھ چلو اور اتنا اونچا بولتے چلو کہ میرے یہ تینوں نائب بھی سن سکیں۔‘‘
’’مسلمانوں نے شہر کے دفاع اور آبادی کے تحفظ کے جو انتظامات کر رکھے ہیں وہ اس طرح ہیں۔‘‘ یہودی نے کہا۔ ’’یہ تو تم کو معلوم ہوگا کہ مدینہ چھوٹے چھوٹے قلعوں اور ایک دوسرے کے ساتھ ملی ہوئی بستیوں کا شہر ہے۔ مسلمانوں نے شہر کی عورتوں، بچوں اور ضعیفوں کو پیچھے کی طرف والے قلعوں میں بھیج دیا ہے۔ خندق پر نظر رکھنے کیلئے مسلمانوں نے گشتی پہرے کا جو انتظا م کیاہے اس میں دو اڑھائی سو افراد شامل ہیں۔ یہ افراد تلواروں کے علاوہ پھینکنے والی برچھیوں اور تیر کمانوں سے مسلح ہیں۔ انہوں نے علاقے تقسیم کر رکھے ہیں جس میں وہ سارا دن اور پوری رات گشت کرتے ہیں۔ جہاں کہیں سے بھی تم خندق عبور کرنے کی کوشش کرو گے وہاں مسلمانوں کی خاصی زیادہ تعداد پہنچ جائے گی اور اس قدر زیادہ تیر اوربرچھیاں برسائے گی کہ تم لوگ پیچھے کو بھاگ آنے کے سوا کچھ نہیں کر سکو گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راتوں کو مسلمانوں کے خویش خندق سے باہر آ کر تم پر شب خون مار کر واپس چلے جائیں۔‘‘
’’عبداﷲ بن ابی کیا کر رہا ہے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔
’’اے قریش کے سردار!‘‘ یہودی جاسوس نے کہا۔’’اتنی عمر گزار کر بھی تم انسانوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہو سکے۔عبداﷲ بن ابی منافق ہے ۔مسلمان اسے جماعتِ منافقین کا سردار کہتے ہیں اور ہم اسے یہودیت کا غدا ر سمجھتے ہیں ۔اس نے مسلمان ہو کر ہم سے غداری کی تھی۔ مسلمانوں میں جاکر اس نے تمہارے حق میں انہیں دھوکے دیئے۔ اگر احد کی جنگ میں تم جیت جاتے تو وہ تمہارے ساتھ ہوتا مگر مسلمانوں کا پلہ بھاری دیکھ کر اس نے تم سے بھی اور یہودیوں سے بھی نظریں پھیر لی ہیں۔تمہیں اس آدمی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے جو کسی مذہب کا پیروکار اور وفادار نہ ہو۔‘‘
’’اور حُیَیّ بن اخطب کہاں ہے؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔
’’وہ کچھ نہ کچھ کر رہا ہو گا۔‘‘ یہودی جاسوس نے جواب دیا۔ ’’مدینہ میں ابھی میرے ساتھی موجود ہیں، وہ مسلمان کو جس قدر نقصان پہنچا سکے پہنچائیں گے۔‘‘
خالد کو آج مدینہ کی طرف جاتے ہوئے اس یاد سے خفت سی محسوس ہو رہی تھی کہ مکہ سے مدینہ کو کوچ کے وقت جب اس نے اپنے ساتھ دس ہزار کا لشکر دیکھا تھا تو اس کی گردن اونچی ہو گئی اور سینہ پھیل گیا تھا لیکن مدینہ کے سامنے آ کر دس ہزار کا لشکر ریت کے ٹیلوں کی طرح بے جان نظر آنے لگا تھا۔ اسے محاصرے کا منظر یاد آنے لگا۔ لشکر کا جو حصہ اس کی زیر کمان تھا، اسے اس نے بڑے اچھے طریقے سے محاصرے کی ترتیب میں کر دیا تھا۔
یہ محاصرہ بائیس روز تک رہا۔ پہلے دس دنوں میں ہی شہر کے اندر مسلمان خوراک کی کمی محسوس کرنے لگے لیکن اس سے قریش کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ وہ اپنے ساتھ خوراک اوررسد بہت کم لائے تھے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ انہیں مسلمان اپنے محاصرے میں لمبے عرصہ کیلئے بٹھا لیں گے۔ خوراک کی جتنی کمی شہر والے محسوس کر رہے تھے اس سے کچھ زیادہ کمی قریش کے لشکر میں اپنا اثر دِکھانے لگی تھی۔ سپاہیوں میں نمایاں طور پر بے چینی نظر آنے لگی تھی۔
مؤرخ ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ اس کیفیت میں کہ شہر میں خوراک کاکوئی ذخیرہ نہ تھا، لوگوں کو روزانہ نصف خوراک دی جا رہی تھی۔ منافقین اور یہودی تخریب کار درپردہ حرکت میں آ گئے تھے۔ کوئی بھی نہ جان سکا کہ یہ آواز کہاں سے اٹھی ہے لیکن یہ آواز سارے شہر میں پھیل گئی۔ ’’محمد ہمیں کیسی بری موت مروانے کا بندوبست کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ کہتا ہے کہ بہت جلد قیصروکسریٰ کے خزانے ہمارے قدموں میں پڑے ہوں گے، دوسری طرف ہم نے اس کی نبوت کا یہ اثر بھی نہ دیکھا کہ آسمان سے ہمارے لیے خوراک اترے۔‘‘
لوگوں نے اسلام تو قبول کرلیا تھا لیکن وہ گوشت پوست کے انسان تھے۔ وہ پیٹ کی آوازوں سے متاثر ہونے لگے۔ آخر ایک آواز نے انہیں پیٹ کے بھوت سے آزادی دلا دی۔
’’کیا تم خدا سے یہ کہو گے کہ ہم نے اپنے پیٹ کو خدا سے زیادہ مقدس جانا تھا؟‘‘ یہ ایک رعد کی کڑک کی طرح آواز تھی جو مدینہ کے گلی کوچوں میں سنائی دینے لگی۔ ’’آج خدا کو وہ لوگ عزیز ہوں گے جو اس کے رسولﷺ کے ساتھ بھوکے اورپیاسے جانیں دے دیں گے۔ خدا کی قسم! اس سے بڑی بزدلی اور بے غیرتی مدینہ والوں کیلئے اور کیا ہو گی کہ ہم اہلِ مکہ کے قدموں میں جا گریں اورکہیں کہ ہم تمہارے غلام ہیں ہمیں کچھ کھانے کو دو۔‘‘
رسول ِاکرمﷺ شہرکے دفاع میں اس قدر سر گرم تھے کہ آپﷺ کیلئے دن اور رات ایک ہو گئے تھے۔ آپﷺ اﷲ کے محبوب نبیﷺ تھے۔ آپ چاہتے تو معجزے بھی رونما ہو سکتے تھے لیکن آپ ﷺ کو احساس تھا کہ ہر آدمی پیغمبر اور رسول نہیں،نہ کوئی انسان آپﷺ کے بعد نبوت اور رسالت کا درجہ حاصل کر سکے گا اس لیے آپﷺ ان انسانوں کیلئے یہ مثا ل قائم کر رہے تھے کہ انسان اپنی ان لازوال جسمانی اور نفسیاتی قوتوں کو جو خداوند تعالیٰ نے انہیں عطا کی ہیں، استقلا ل اور ثابت قدمی سے استعمال کرے تو وہ معجزہ نماکارنامے انجا م دے سکتا ہے۔محاصرے کے دوران آپﷺ کی سرگرمیاں اور آپﷺ کی حالت ایک سالار کے علاوہ ایک سپاہی کی بھی تھی۔ آپﷺ کو اس کیفیت اور اس سرگرمی میں دیکھ کر مسلمان بھوک اور پیاس کو بھول گئے اور ان میں ایساجوش پیدا ہو گیا کہ ان میں بعض خندق کے قریب چلے جاتے او ر قریش کو بزدلی کے طعنے دیتے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages