Featured Post

Khalid001

24 May 2019

Khalid024


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  24
سارے شہر میں بھگدڑ بپا ہو گئی تھی۔ لڑنے والے لوگ برچھیاں تلواریں اور تیر کمان اٹھائے مکہ کے دفاع کو نکل آئے۔ عورتوں اور بچوں کو ایسے بڑے مکانوں میں منتقل کیا جانے لگاجو قلعوں جیسے تھے۔ جوان عورتیں بھی لڑنے کیلئے تیار ہو گئیں۔ یہ ان کے شہر اور جان و مال کا ہی نہیں ان کے مذہب کا بھی مسئلہ تھا۔ یہ دو نظریوں کی ٹکر تھی۔ لیکن خالد اسے اپنے ذاتی وقار کا اوراپنے خاندانی وقار کا بھی مسئلہ سمجھتا تھا۔ اس کا خاندان جنگ و جدل کیلئے مشہور تھا۔ اس کے باپ کو لوگ عسکری قائد کہا کرتے تھے۔ خالد اپنے خاندان کے نام اور خاندانی روایات کو زندہ رکھنے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔
اس نے ابو سفیان کو نظر انداز کر دیا۔ عکرمہ اور صفوان کو ساتھ لیااور ایسی چالیں سوچ لیں جن سے وہ مسلمانوں کو شہر سے دور رکھ سکتا تھا۔ اس نے سواروں کی کچھ تعداد اس کام کیلئے منتخب کر لی کہ یہ سوار شہر سے دور چلے جائیں اور مسلمان اگر محاصرہ کر لیں تو یہ گھوڑ سوار عقب سے محاصرے پر حملہ کر دیں مگر وہاں جم کر لڑیں نہیں۔ بلکہ محاصرے میں کہیں شگاف ڈال کر بھاگ جائیں۔
شہر میں افراتفری اور لڑنے والوں کی بھاگ دوڑ اور للکار میں چند ایک عورتوں کی مترنم آوازیں سنائی دینے لگیں۔ان کی آوازیں ایک آواز بن گئی تھی۔وہ رزمیہ گیت گا رہی تھیں۔ جس میں رسول اﷲﷺ کے قتل کا ذکر تھا۔بڑا جوشیلا اور بھڑکا دینے والا گیت تھا۔یہ عورتیں گلیوں میں یہ گیت گاتی پھر رہی تھیں۔
چند ایک مسلّح شتر سواروں کی مدینہ کی طرف سے آنے والے رستے پر اور دو تین اورسمتوں کو دوڑا دیا گیاکہ وہ مسلمانوں کی پیشقدمی کی خبریں پیچھے پہنچاتے رہیں۔عورتیں اونچے مکانوں کی چھتوں پر چڑھ کر مدینہ کی طرف دیکھ رہی تھیں۔سورج افق میں اترتا جا رہا تھا۔صحرا کی شفق بڑی دلفریب ہوا کرتی ہے مگر اس شام مکہ والوں کو شفق میں لہو کے رنگ دِکھائی دے رہے تھے۔
کہیں سے،کسی بھی طرف سے گرد اٹھتی نظر نہیں آ رہی تھی۔
’’انہیں اب تک آ جانا چاہیے تھا۔‘‘ خالد نے عکرمہ اور صفوان سے کہا۔ ’’ہم اتنی جلدی خندق نہیں کھود سکتے۔‘‘
’’ہم خندق کا سہارا لے کر نہیں لڑیں گے۔‘‘ عکرمہ نے کہا۔
’’ہم ان کے محاصرے پر حملے کریں گے۔‘‘صفوان نے کہا ۔’’ان کے پاؤں جمنے نہیں دیں گے۔‘‘
سورج غروب ہو گیا۔رات گہری ہونے لگی۔کچھ بھی نہ ہوا۔
مکہ میں زندگی بیدار اور سرگرم رہی۔جیسے وہاں رات آئی ہی نہ ہو۔عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قلعوں جیسے مکانوں میں منتقل کر دیا گیا تھا اور جو لڑنے کے قابل تھے وہ اپنے سالاروں کی ہدایات پر شہر کے اردگرد اپنے مورچے مضبوط کررہے تھے۔
رات آدھی گزر گئی۔مدینہ والوں کی آمد کے کوئی آثا ر نہ آئے۔
پھر رات گزر گئی۔
…………bnb…………

’’خالد!‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔ ’’کہاں ہیں وہ؟‘‘
’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ نہیں آئیں گے تو یہ بہت خطرناک فریب ہے جو تم اپنے آپ کو دے رہے ہو۔‘‘ خالد نے کہا۔ ’’محمد (ﷺ) کی عقل تک تم نہیں پہنچ سکتے، جو وہ سوچ سکتا ہے وہ تم نہیں سوچ سکتے۔ وہ آئیں گے۔‘‘
اس وقت تک مسلمان چند ایک معرکے دوسرے قبیلوں کے خلاف لڑکر اپنی دھاک بِٹھا رہے تھے۔ ان میں غزوۂ خیبر ایک بڑا معرکہ تھا انہیں جنگ کا تجربہ ہو چکا تھا۔
’’ابو سفیان !‘‘خالد نے کہا۔’’ میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ مسلمان اب وہ نہیں رہے جو تم نے اُحد میں دیکھے تھے۔ اب وہ لڑنے کے ماہر بن چکے ہیں ان کا ابھی تک سامنے نہ آنا بھی ایک چال ہے۔‘‘
ابو سفیان کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ ایک شتر سوار نظر آیا۔ جس کا اونٹ بہت تیز رفتار سے دوڑتا آیا تھا۔ ابو سفیان اور خالدکے قریب آکر اس نے اونٹ روکا اور کود کر نیچے آیا۔
’’میری آنکھوں نے جو دیکھا ہے وہ تم نہیں مانو گے۔‘‘ شتر سوار نے کہا۔’’میں نے مسلمانوں کو حدیبیہ میں خیمہ زن دیکھا ہے۔‘‘
’’وہ محمد (ﷺ) اور ا س کا لشکر نہیں ہو سکتا ۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔
’’خدا کی قسم! میں محمد )ﷺ(کو اس طرح پہچانتا ہوں جس طرح تم دونوں مجھے پہچانتے ہو۔‘‘شتر سوار نے کہا۔’’اور میں نے ایسے اور آدمیوں کو بھی پہچانا ہے جو ہم میں سے تھے لیکن ان کے ساتھ جا ملے تھے۔‘‘
حدیبیہ مکہ سے تیرہ میل دور مغرب میں ایک مقام تھا ۔رسولِ کریمﷺ خونریزی سے بچنا چاہتے تھے اس لیے آپﷺ مکہ سے دور حدیبیہ میں جا خیمہ زن ہوئے تھے۔
’’ہم ان پر شب خون ماریں گے۔‘‘ خالدنے کہا۔’’ انہیں سستانے نہیں دیں گے۔وہ جس راستہ سے حدیبیہ پہنچے ہیں اس راستے نے انہیں تھکا دیا ہو گا۔ ان کی ہڈیاں ٹوٹ رہی ہوں گی۔ وہ تازہ دم ہو کر مکہ پر حملہ کریں گے۔ ہم انہیں آرام نہیں کرنے دیں گے۔‘‘
’’ہم انہیں وہاں سے بھگا سکتے ہیں۔‘‘ ابو سفیان نے کہا ۔’’چھاپہ مار جَیش تیار کرو۔‘‘
…………bnb…………

رسولِ اکرمﷺ نے اپنی خیمہ گاہ کی حفاظت کا انتظام کر رکھاتھا۔ گھڑ سوار جیش رات کو خیمہ گاہ کے اردگرد گشتی پہرہ دیتے تھے ۔دن کو بھی پہرے کا انتظام تھا۔
ایک اور گھوڑ سوار جیش نے اپنے جیسا ایک گھڑ سوار جیش دیکھا جو خیمہ گاہ سے دور آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا۔ مسلمان سوار ان سواروں کی طرف چلے گئے ۔وہ قریش کے سوار تھے جو وہاں نہ رکے اور دور چلے گئے کچھ دیر بعد وہ ایک اور طرف سے آتے نظر آئے اور مسلمانوں کی خیمہ گاہ سے تھوڑی دور رک کر چلے گئے۔
دوسرے روز وہ سوار خیمہ گاہ کے قریب آ گئے ۔اب کے مسلمان سواروں کا ایک جیش جو خیمہ گاہ سے دور نکل گیا تھا واپس آ گیا۔ اس جیش نے ان سواروں کو گھیر لیا، انہوں نے گھیرے سے نکلنے کیلئے ہتھیار نکال لیے۔ ان میں جھڑپ ہو گئی لیکن مسلمان سواروں کے کماندار نے اپنے سواروں کو روک لیا۔
’’انہیں نکل جانے دو۔‘‘جیش کے کماندار نے کہا۔’’ہم لڑنے آئے ہوتے تو ان میں سے ایک کو بھی زندہ نہ جانے دیتے۔‘‘
وہ مکہ کے لڑاکا سوار تھے۔ انہوں نے واپس جا کرابو سفیان کو بتایا۔
’’چند اور سواروں کو بھیجو۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔’’ایک شب خون مارو۔‘‘
’’میرے قبیلے کے سردار!‘‘ ایک سوار نے کہا۔’’ہم نے شب خون مارنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن ان کی خیمہ گاہ کے اردگرد دن رات گھڑ سوار گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔
قریش کے چند اور سواروں کو بھیجا گیا۔انہوں نے شام کے ذرا بعد شب خون مارنے کی کوشش کی لیکن مسلمان سواروں نے ان کے کچھ سواروں کو زخمی کرکے وہاں سے بھگا دیا ۔
مکہ والوں پر تذبذب کی کیفیت طاری تھی۔وہ راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے ۔محاصرہ کے ڈر سے وہ ہر وقت بیدار اور چو کس رہتے تھے اور دن گزرتے جا رہے تھے۔ آخر ایک روز مکہ میں ایک مسلمان سوار داخل ہوا۔ یہ حضرت عثمانؓ تھے۔ انہوں نے ابوسفیان کے متعلق پوچھا۔ ابو سفیان نے دور سے دیکھا اور دوڑا آیا۔ خالد بھی آ گیا ۔
’’میں محمد رسول اﷲﷺ کاپیغام لے کر آیا ہوں۔‘‘ حضرت عثمانؓ نے کہا۔ ’’ہم لڑنے نہیں آئے۔ ہم عمرہ کرنے آئے ہیں۔ عمرہ کر کے چلے جائیں گے۔‘‘
’’اگر ہم اجازت نہ دیں تو…‘‘ ابو سفیان نے پوچھا۔
’’ہم مکہ والوں کا نہیں خدا کا حکم ماننے والے ہیں۔‘‘ حضرت عثمانؓ نے جواب دیا ۔’’ہم اپنے اور اپنی عبادت گاہ کے درمیان کسی کو حائل نہیں ہونے دیا کرتے۔ اگر مکہ کے مکان ہمارے لیے رکاوٹ بنیں گے تو خدا کی قسم! مکہ ملبے اور کھنڈر وں کی بستی بن جائے گی۔اگر یہاں کے لوگ ہمیں روکیں گے تومکہ کی گلیوں میں خون بہے گا۔ ابو سفیان ہم امن کا پیغام لے کر آئے ہیں اور یہاں کے لوگوں سے امن کا تحفہ لے کر جائیں گے۔‘‘
خالدکو وہ لمحے یاد تھے جب یہ مسلمان سوار پروقار لہجے میں دھمکی دے رہا تھا ۔خالد کا خون کھول اٹھنا چاہیے تھا لیکن اسے یہ آدمی بڑا اچھا لگا تھا۔ اسے ابوسفیان کا جواب بھی جو اس نے رسول کریمﷺ کو بھیجا تھا‘ اچھا لگا تھا۔ ابوسفیان نے کہا تھا کہ دونوں طرف کے ذمہ دار آدمی صلح سمجھوتے کی شرائط طے کریں۔
…………bnb…………

پھر ایک صلح نامہ تحریر ہوا تھا جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا تھا۔ مسلمانوں کی طرف سے اس پر رسول اکرمﷺ نے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو نے دستخط کیے تھے۔ اس صلح نامے میں طے پایا تھا کہ مسلمان اور اہل قریش دس سال تک نہیں لڑیں گے اور مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے آئیں گے اور مکہ میں تین دن ٹھہر سکیں گے۔
رسول کریمﷺ قریش میں سے تھے۔ خالد آپﷺ کو بہت اچھی طرح جانتا تھا لیکن اب اس نے آپﷺ کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ ’’یہ کوئی اور محمد‘‘ ہے۔ وہ ایسا متاثر ہوا کہ اس کے ذہن سے اتر گیا کہ یہ وہی محمد ہے جسے وہ اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔
خالد نبی کریمﷺ کو ایک سالار کی حیثیت سے زیادہ دیکھ رہا تھا۔ وہ آپﷺ کی عسکری اہلیت کا قائل ہو گیا تھا۔ صلحد حدیبیہ تک مسلمان رسول اکرمﷺ کی قیادت میں چھوٹے بڑے اٹھائیس معرکے لڑ چکے اور فتح ونصرت کی دھاک بٹھا چکے تھے۔
مسلمان عمرہ کر کے چلے گئے۔ دو مہینے گذر گئے۔ ان دو مہینوں میں خالد پر خاموشی طاری رہی لیکن اس خاموشی میں ایک طوفان اور ایک انقلاب پرورش پا رہا تھا۔ خالد نے مذہب میں کبھی دلچسپی نہیں لی تھی۔ اسے نہ کبھی اپنے بتوں کا خیال آیا تھا نہ کبھی اس نے رسول کریمﷺ کی رسالت کو سمجھنے کی کوشش کی تھی‘ مگر اب از خود اس کا دھیان مذہب کی طرف چلا گیا اور وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ مذہب کون سا سچا ہے اور انسان کی زندگی میں مذہب کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے۔
’’عکرمہ!‘‘ … ایک روز خالد نے اپنے ساتھی سالار عکرمہ سے جو اس کا بھتیجا بھی تھا‘ کہا … ’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ میں سمجھ گیا ہوں۔‘‘
’’کیا سمجھ گئے ہو خالد؟‘‘ … عکرمہ نے پوچھا۔
’’محمد جادوگر نہیں‘‘ … خالد نے کہا … ’’اور محمد شاعر بھی نہیں۔ میں نے محمد کو اپنا دشمن سمجھنا چھوڑ دیا ہے اور میں نے محمد کو خدا کا رسول تسلیم کر لیا ہے۔‘‘
’’ہبل اور عزیٰ کی قسم! تم مذاق کر رہے ہو۔‘‘ … عکرمہ نے کہا … ’’کوئی نہیں مانے گا کہ ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ چکا ہے۔‘‘
’’ولید کا بیٹا اپنا مذہب چھوڑ چکا ہے۔‘‘ خالد نے کہا۔
’’کیا تم بھول گئے ہو کہ محمد (ﷺ) ہمارے کتنے آدمیوں کو قتل کرا چکا ہے؟‘‘ عکرمہ نے کہا۔ ’’تم ان کے مذہب کو قبول کر رہے ہو جن کے خون کے ہم پیاسے ہیں؟‘‘
’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے عکرمہ!‘‘ خالد نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ ’’میں نے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔‘‘
اسی شام ابو سفیان نے خالد کو اپنے ہاں بلایا۔ عکرمہ بھی وہاں موجود تھا۔
’’کیا تم بھی محمد (ﷺ) کی باتو ں میں آگئے ہو؟‘‘ ابو سفیان نے اس سے پوچھا۔
’’تم نے ٹھیک سنا ہے ابو سفیان!‘‘ … خالد نے کہا۔ … ’’محمد (ﷺ) کی باتیں ہی کچھ ایسی ہیں۔‘‘
مشہور مؤرخ واقدی نے لکھا ہے کہ ابو سفیان قبیلے کا سردار تھا۔ اس نے خالدکا فیصلہ بدلنے کیلئے اسے قتل کی دھمکی دی۔ خالد اس دھمکی پر مسکرا دیا مگر عکرمہ برداشت نہ کر سکا۔ حالانکہ وہ خود خالد کے اس فیصلے کیخلاف تھا۔
’’ابو سفیان!‘‘ …عکرمہ نے کہا۔ … ’’میں تمہیں اپنے قبیلے کا سردار مانتا ہوں لیکن خالد کو جو تم نے دھمکی دی ہے وہ میں برداشت نہیں کر سکتا ۔تم خالد کو اپنا مذہب بدلنے سے نہیں روک سکتے۔ اگر تم خالد کے خلاف کوئی کارروائی کرو گے تو ہوسکتا ہے کہ میں بھی خالد کے ساتھ مدینہ چلا جاؤں۔‘‘
…………bnb…………

اگلے ہی روز مکہ میں ہر کسی کی زبان پر یہ الفاظ تھے۔ ’’خالد بن ولید محمد (ﷺ) کے پاس چلا گیا ہے …‘‘ خالد یادوں کے ریلے میں بہتا مدینہ کو چلا جا رہا تھا۔ اسے اپنا ماضی اس طرح یاد آیا تھا جیسے وہ گھوڑے پر سوار مدینہ کو نہیں بلکہ پیادہ اپنی ماضی میں چلا جا رہا تھا۔ اسے مدینہ کے اونچے مکانوں کی منڈیریں نظر آنے لگی تھیں۔ ’’خالد!‘‘ اسے کسی نے پکارا لیکن اسے گزرے ہوئے وقت کی آواز سمجھ کر اس نے نظر انداز کر دیا۔ اسے گھوڑوں کے ٹاپ سنائی دیئے، تب اس نے دیکھا۔ اسے دو گھوڑے اپنی طرف آتے دِکھائی دیئے۔ وہ رک گیا۔ گھوڑے اس کے قریب آ کر رک گئے۔ ایک سوار اس کے قبیلے کے مشہور جنگجو ’’عمرو بن العاص‘‘ تھے اور دوسرے عثمان بن طلحہ۔ دونوں نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
’’کیا تم دونوں مجھے واپس مکہ لے جانے کیلئے آئے ہو ؟‘‘خالد نے ان سے پوچھا۔
’’تم جا کہاں رہے ہو؟‘‘عمرو بن العاص نے پوچھا۔
’’اور تم دونوں کہاں جا رہے ہو؟‘‘خالد نے پوچھا۔
’’خدا کی قسم! ہم تمہیں بتائیں گے تو تم خوش نہیں ہو گے۔‘‘ عثمان بن طلحہ نے کہا۔’’ہم مدینہ جا رہے ہیں۔‘‘
’’بات پوری کرو عثمان ۔‘‘ …عمرو بن العاص نے کہا۔ …’’خالد! ہم محمد (ﷺ) کا مذہب قبول کرنے جا رہے ہیں۔ ہم نے محمد ﷺکو خدا کا سچا نبی مان لیا ہے۔‘‘
’’پھر ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔‘‘ …خالدنے کہا۔ …’’آؤ اکھٹے چلیں۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages