Featured Post

Khalid001

25 May 2019

Khalid026


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  26
مجاہدین بڑھتے چلے گئے اور بلقاء پہنچے۔ انہیں اور آگے جانا تھا لیکن غسان کی فوج کے دو دستے جن کی تعداد مجاہدین کی نسبت تین گنا تھی، راستے میں حائل ہو گئے۔ زیدؓ بن حارثہ نے مجاہدین کو دور ہی روک لیااور ایک بلند جگہ کھڑے ہو کر علاقے کا جائزہ لیا۔ انہیں یہ زمین لڑائی کیلئے موزوں نہ لگی۔ دوسرے سالاروں سے مشورہ کرکے زیدؓبن حارثہ مجاہدین کو پیچھے لے آئے۔ غسان کی فوج نے اسے پسپائی سمجھ کر مجاہدین کا تعاقب کیا۔
زیدؓ موتہ کے مقام پر رک گئے اور فوراً اپنے مجاہدین کو لڑائی کی ترتیب میں کر لیا۔ انہوں نے فوج کو تین حصوں میں ترتیب دیا۔دایاں اور بایاں پہلو اور قلب۔دائیں پہلو کی کمان قطبہؓ بن قتاوہ کے پاس اور بائیں پہلو کی عبایہ ؓبن مالک کے ہاتھ تھی۔زیدؓ خود قلب میں رہے۔
’’اﷲ کے سچے نبی کے عاشقو!‘‘ زیدؓ بن حارثہ نے بڑی بلند آواز سے مجاہدین کو للکارا۔ ’’آج ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم حق کے پرستار ہیں۔ آج باطل کے نیچے سے زمین کھینچ لو۔ اپنے سامنے باطل کا لشکر دیکھو اور اس سے مت ڈرو۔یہ لڑائی طاقت کی نہیں ،یہ جرات، جذبے اور دماغ کی جنگ ہے۔میں تمہارا سپہ سالار بھی ہوں اور عَلَم بردار بھی۔ دشمن کا لشکر اتنا زیادہ ہے کہ تم اس میں گم ہو جاؤ گے۔ لیکن اپنے ہوش گم نہ ہونے دینا۔ ہم اکھٹے لڑیں گے اور اکھٹے مریں گے۔‘‘ زید نے عَلَم اٹھا لیا۔
دشمن کی طرف سے تیروں کی پہلی بوچھاڑ آئی۔زیدؓ کے حکم سے مجاہدین کے دائیں اور بائیں پہلو پھیل گئے اور آگے بڑھے ۔یہ آمنے سامنے کا تصادم تھا۔مجاہدین دائیں اور بائیں پھیلتے اور آگے بڑھتے چلے گئے اور زید ؓنے قلب کو آگے بڑھا دیا۔وہ خود آگے تھے۔ یہ معرکہ ایساتھا کہ مجاہدین کا حوصلہ اور جذبہ برقرار رکھنے کیلئے سپہ سالار کا آگے ہونا ضروری تھا۔
چونکہ عَلَم بھی سپہ سالار زیدؓ بن حارثہ کے پاس تھا، اس لیے دشمن انہی پر تیر برساتا اور ہلّے بول رہاتھا ۔زیدؓ کو تیر لگ چکے تھے۔ جسم سے خون بہہ رہا تھا لیکن انہوں نے عَلَم نیچے نہ ہونے دیا اور ان کی للکار خاموش نہ ہوئی۔ عَلَم اٹھاتے ہوئے وہ تلوار بھی چلا رہے تھے۔پھر ان کے جسم میں برچھیاں لگیں۔ آخر وہ گھوڑے سے گر پڑے اور شہید ہو گئے۔عَلَم گرتے ہی مجاہدین کچھ بددل ہوئے لیکن جعفر ؓبن ابی طالب نے بڑھ کر عَلَم اٹھا لیا۔
’’رسول اﷲﷺ کے شیدائیو !‘‘جعفر ؓنے عَلَم اوپر کرکے بڑی ہی اونچی آواز سے کہا۔’’خدا کی قسم! اسلام کا عَلَم گر نہیں سکتا۔‘‘اور انہوں نے زید ؓبن حارثہ شہید کی جگہ سنبھال لی۔
مجاہدین لشکرِ کفار میں گم ہو گئے تھے ۔لیکن ان کا جذبہ قائم تھا۔ ان کی للکار اور ان کے نعرے سنائی دےرہے تھے۔ سالار سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے ۔ان کاعَلَم بلند تھا۔
تھوڑی ہی دیر بعد عَلَم گرنے لگا… عَلَم گرتا تھا اور اٹھتا تھا ۔عبداﷲ ؓبن رواحہ نے دیکھ لیا۔ سمجھ گئے کہ عَلَم بردار زخمی ہے اور اب وہ عَلَم کو سنبھال نہیں سکتا ۔عَلَم بردار سپہ سالار خود تھا۔ یہ جعفرؓ بن ابی طالب تھے۔ عبداﷲؓ بن رواحہ ان کی طرف دوڑے ۔ان تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔
عبداﷲؓ جعفر ؓتک پہنچے ہی تھے کہ جعفرؓ گر پڑے۔ ان کا جسم خون میں نہا گیا تھا ۔جسم پر شاید ہی کوئی ایسی جگہ تھی جہاں تلوار یا برچھی کا کوئی زخم نہ تھا۔جعفر ؓگرتے ہی شہید ہو گئے۔عبداﷲ ؓنے پرچم اٹھا کر بلند کیا اور نعرہ لگا کر مجاہدین کو بتایا کہ انہوں نے عَلَم اور سپہ سالاری سنبھال لی ہے۔
یہ دشمن کی فوج کاایک حصہ تھا جس کی تعدا ددس سے پندرہ ہزار تک تھی۔ یہ تمام تر نفری غسانی عیسائیوں کی تھی جو اس معرکے کو مذہبی جنگ سمجھ کر لڑ رہے تھے۔ اتنی زیادہ تعداد کے خلاف تین ہزار مجاہدین کیا کر سکتے تھے۔ لیکن ان کی قیادت اتنی دانشمند اور عسکری لحاظ سے اتنی قابل تھی کہ اس کے تحت مجاہدین جنگی طریقے اور سلیقے سے لڑ رہے تھے۔ ان کا انداز لٹھ بازوں والا نہیں تھا۔ مگر دشمن کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ مجاہدین بکھرنے لگے یہاں تک کہ بعض اس انتشار اور دشمن کے دباؤ اور زور سے گھبرا کر معرکے سے نکل گئے۔ لیکن وہ بھاگ کر کہیں گئے نہیں۔ قریب ہی کہیں موجود رہے۔باقی مجاہدین انتشار کا شکار ہونے سے یوں بچے کہ وہ چار چار ‘پانچ پانچ اکھٹے ہوکر لڑتے رہے۔
جنگی مبصرین نے لکھا ہے کہ غسانی مسلمانوں کی اس افراتفری کی کیفیت سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جسکی وجہ یہ ہے کہ مسلمان اتنی بے جگری سے اور ایسی مہارت سے لڑ رہے تھے کہ غسانیوں پر ان کارعب طاری ہو گیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کا بکھر جانا بھی ان کی کوئی چال ہے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے سالاروں اور کمانداروں نے اس صورتِ حال کو یوں سنبھالا کہ اپنے آدمیوں کو معرکے سے نکالنے لگے۔ تاکہ انہیں منظم کیا جا سکے۔
اس دوران عَلَم ایک بار پھر گر پڑا۔ تیسرے سپہ سالار عبداﷲ ؓبن رواحہ بھی شہید ہو گئے۔اب کے مجاہدین میں بد دلی نظر آنے لگی۔ رسولِ کریمﷺ نے یہی تین سالار مقرر کیے تھے۔ اب مجاہدین کو سپہ سالار خود مقررکرنا تھا۔
عَلَم گرا ہوا تھا جو شکست کی نشانی تھی۔ ایک سرکردہ مجاہد ثابتؓ بن اَرقم نے عَلَم اٹھاکر بلند کیا اور نعرہ لگانے کے انداز سے کہا۔ ’’اپنا سپہ سالار کسی کو بنا لو، عَلَم کو میں بلند رکھوں گا۔میں …ثابت بن ارقم…‘‘
مؤرخ ابنِ سعد نے لکھا ہے کہ ثابتؓ اپنے آپ کو سپہ سالاری کے قابل نہیں سمجھتے تھے اور وہ مجاہدین کی رائے کے بغیر سپہ سالار بننا بھی نہیں چاہتے تھے، کیونکہ نبی کریمﷺ کا حکم تھا کہ تین سالار اگر شہید ہو جائیں تو چوتھے سپہ سالار کا انتخاب مجاہدین خود کریں۔ ثابتؓ کی نظر خالد ؓبن ولید پر پڑی جو قریب ہی تھے۔ مگر خالدؓ بن ولید کو مسلمان ہوئے ابھی تین ہی مہینے ہوئے تھے۔ اس لیے انہیں اسلامی معاشر ت میں ابھی کوئی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ثابت ؓبن ارقم خالدؓ کے عسکری جوہر اور جذبے سے واقف تھے۔ انہوں نے عَلَم خالدؓ کی طرف بڑھایا۔
’’بے شک! اس رتبے کے قابل تم ہو خالدؓ۔‘‘
’’نہیں‘‘ خالدؓ نے جواب دیا ’’میں ابھی اس کا مستحق نہیں۔‘‘ خالدؓ نے علم لینے سے انکار کر دیا۔
لڑائی کا زور کچھ ٹوٹ گیا تھا۔ ثابتؓ نے للکار کر مجاہدین سے کہا کہ خالدؓ سے کہو کہ علم اور سپہ سالاری لے لے۔ بیشتر مجاہدین خالدؓ کی عسکری قابلیت سے واقف تھے اور قبیلہ قریش میں ان کی حیثیت سے بھی بے خبر نہ تھے۔
’’خالد… خالد… خالد…‘‘ ہر طرف سے آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ’’خالد ہمارا سپہ سالار ہے۔‘‘ خالدؓ نے لپک کر عَلَم ثابتؓ سے لے لیا۔
…………bnb…………

غسانی لڑ تو رہے تھے لیکن ذرا پیچھے ہٹ گئے تھے۔خالدؓ کو پہلی بار آزادی سے قیادت کے جوہر دِکھانے کا موقع ملا ۔انہوں نے چند ایک مجاہدین کو اپنے ساتھ رکھ لیا اور ان سے قاصدوں کا کام لینے لگے۔خود بھی بھاگ دوڑ کر نے لگے۔لڑتے بھی رہے۔اس طرح انہوں نے مجاہدین کو جو لڑنے کے قابل رہ گئے تھے۔یکجا کرکے منظم کرلیااور انہیں پیچھے ہٹالیا۔ غسانی بھی پیچھے ہٹ گئے اور دونوں طرف سے تیروں کی بوچھاڑیں برسنے لگیں۔ فضاء میں ہر طرف تیراُڑ رہے تھے۔
خالدؓ نے صورتِ حال کا جائزہ لیا ۔اپنی نفری اور اس کی کیفیت دیکھی ۔تو ان کے سامنے یہی ایک صورت رہ گئی تھی کہ معرکہ ختم کردیں۔ دشمن کو کمک بھی مل رہی تھی۔ لیکن خالدؓ پسپا نہیں ہونا چاہتے تھے۔ پسپائی بجا تھی ،لیکن خطرہ یہ تھا کہ دشمن تعاقب میں آئے گا۔ جس کانتیجہ مجاہدین کی تباہی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔ خالدؓ نے سوچ سوچ کر ایک دلیرانہ فیصلہ کیا۔ وہ مجاہدین کے آگے ہو گئے اور غسانیوں پر ہلّہ بول دیا۔مجاہدین نے جب اپنے سپہ سالار اور اپنے عَلَم کو آگے دیکھا تو ان کے حوصلے تروتازہ ہو گئے ۔یہ ہلّہ اتنا دلیرانہ اور اتنا تیز تھا کہ کثیر تعداد غسانی عیسائیوں کے قدم اکھڑ گئے۔ مجاہدین کے ہلّے اور ان کی ضربوں میں قہر تھا۔ مؤرخ لکھتے ہیں اور حدیث بھی ہے کہ اس وقت تک خالدؓ کے ہاتھ میں نو تلواریں ٹوٹ چکی تھیں۔
خالدؓ دراصل غسانیوں کو بکھیر کر مجاہدین کو پیچھے ہٹانا چاہتے تھے۔اس میں وہ کامیاب رہے۔انہوں نے اپنے اور مجاہدین کے جذبے اوراسلام کے عشق کے بل بوتے پر یہ دلیرانہ حملہ کیا تھا۔ حملہ اور ہلّہ کی شدت نے تو پورا کام کیا لیکن غسانی مجاہدین کی غیر معمولی دلیری سے مرعوب ہو گئے اور پیچھے ہٹ گئے۔ ان میں انتشار پیدا ہو گیا تھا۔اس کے ساتھ ہی مجاہدین کے دائیں پہلو کے سالار قطبہؓ بن قتاوہ نے غسانیوں کے قلب میں گھس کر ان کے سپہ سالار ’’مالک‘‘ کو قتل کر دیا۔ اس سے غسانیوں کے حوصلے جواب دے گئے اور وہ تعداد کی افراط کے باوجود بہت پیچھے چلے گئے اور منظم نہ رہ سکے۔
خالد ؓنے اسی لیے یہ دلیرانہ حملہ کرایا تھا کہ مجاہدین کو تباہی سے بچایا جا سکے۔ وہ انہوں نے کر لیااور مجاہدین کو واپسی کا حکم دے دیا۔ اس طرح یہ جنگ ہار جیت کے بغیر ہی ختم ہو گئی۔
جب مجاہدین خالدؓ بن ولید کی قیادت میں مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ میں پہلے ہی خبرپہنچ چکی تھی کہ مجاہدین پسپا ہو کر آرہے ہیں۔مدینہ کے لوگوں نے مجاہدین کو طعنے دینے شروع کردیئے کہ وہ بھاگ کر آئے ہیں۔خالدؓ نے رسولِ اکرمﷺ کے حضور معرکے کی تمام تر روئیداد پیش کی۔ لوگوں کے طعنے بلند ہوتے جا رہے تھے۔
’’خاموش ہو جاؤ!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے بلند آواز سے فرمایا۔ ’’یہ میدانِ جنگ کے بھگوڑے نہیں … یہ لڑ کر آئے ہیں اور آئندہ بھی لڑیں گے۔ خالد اﷲ کی تلوار ہے۔‘‘ ابنِ ہشام، واقدی اور مغازی لکھتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ کے یہ الفاظ خالدؓبن ولید کا خطاب بن گئے۔ ’’سیف اﷲ ۔ اﷲکی شمشیر۔‘‘ اس کے بعد یہ شمشیر، اﷲکی راہ میں ہمیشہ بے نیام رہی۔
…………bnb…………

قبیلۂ قریش کا سردارِ اعلیٰ ابو سفیان جو کسی وقت للکار کر بات کیاکرتا تھا اور مسلمانوں کے گروہ کو ’’محمد کا گروہ‘‘ کہہ کر انہیں پلّے ہی نہیں باندھتا تھا، اب بجھ کے رہ گیا تھا۔ خالدؓ بن ولید کے قبولِ اسلام کے بعد تو ابوسفیان صرف سردار رہ گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے جنگ و جدل کے ساتھ اس کا کبھی کوئی تعلق رہا ہی نہیں تھا۔ عثمانؓ بن طلحہ اور عمروؓ بن العاص جیسے ماہر جنگجو بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔اس کے پاس ابھی عکرمہ اور صفوان جیسے سالار موجود تھے لیکن ابو سفیان صاف طور پر محسوس کرنے لگا تھا کہ اس کی یعنی قریش کی جنگی طاقت بہت کمزور ہو گئی ہے۔
’’تم بزدل ہو گئے ہو ابو سفیان!‘‘ اس کی بیوی ہند نے ایک روز اسے کہا۔ ’’تم مدینہ والوں کو مہلت اور موقع دے رہے ہو کہ وہ لشکر اکھٹا کرتے چلے جائیں اور ایک روز آ کر مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔‘‘
’’میرے ساتھ رہ ہی کون گیا ہے ہند؟‘‘ ابو سفیان نے مایوسی کے عالم میں کہا۔
’’مجھے اس شخص کی بیوی کہلاتے شرم آتی ہے جو اپنے خاندان اور اپنے قبیلے کے مقتولین کے خون کا انتقام لینے سے ڈرتا ہے۔‘‘ہند نے کہا۔
’’میں قتل کر سکتا ہوں۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔ ’’میں قتل ہو سکتا ہوں۔میں بزدل نہیں،ڈرپوک بھی نہیں لیکن میں اپنے وعدے سے نہیں پھر سکتا۔کیا تم بھول گئی ہو کہ حدیبیہ میں محمد (ﷺ) کے ساتھ میرا کیا معاہدہ ہوا تھا؟ اہلِ قریش اور مسلمان دس سال تک آپس میں نہیں لڑیں گے۔ اگر میں معاہدہ توڑ دوں اور میدانِ جنگ میں مسلمان ہم پر غالب آ جائیں تو…‘‘
’’تم مت لڑو۔‘‘ ہند نے کہا۔ ’’قریش نہیں لڑیں گے۔ہم کسی اور قبیلے کو مسلمانوں کے خلاف لڑا سکتے ہیں۔ہمارا مقصد مسلمانوں کی تباہی ہے۔ہم مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں کو درپردہ مدد دے سکتے ہیں۔‘‘
’’قریش کے سوا کون ہے جو مسلمانوں کے خلاف لڑنے کی جرات کرے گا؟‘‘ ابو سفیان نے کہا۔ ’’موتہ میں ہرقل اور غسان کے ایک لاکھ کے لشکر نے مسلمانوں کا کیا بگاڑ لیا تھا؟ کیا تم نے سنا نہیں تھا کہ ایک لاکھ کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد صرف تین ہزار تھی؟میں اپنے قبیلے کے کسی آدمی کو مسلمانوں کے خلاف لڑنے والے کسی قبیلے کی مدد کیلئے جانے کی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘
’’مت بھول ابو سفیان!‘‘ ہند نے غضب ناک لہجے میں کہا۔’’میں وہ عورت ہوں جس نے اُحد کی لڑائی میں حمزہ کا پیٹ چاک کر کے اس کا کلیجہ نکالا اور اسے چبایا تھا ۔تم میرے خون کو کس طرح ٹھنڈا کر سکتے ہو؟‘‘
’’تم نے حمزہ کا نہیں اس کی لاش کا پیٹ چاک کیا تھا۔‘‘ ابو سفیان نے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ لا کر کہا۔ ’’مسلمان لاشیں نہیں اور وہ جو کچھ بھی ہیں ،خدا کی قسم! میں معاہدہ نہیں توڑوں گا۔‘‘
’’معاہدہ تو میں بھی نہیں توڑوں گی۔‘‘ ہند نے کہا۔ ’’لیکن مسلمانوں سے انتقام ضرور لوں گی اور یہ انتقام بھیانک ہوگا۔ قبیلۂ قریش میں غیرت والے جنگجو موجود ہیں۔‘‘
’’آخر تم کرنا کیا چاہتی ہو؟‘‘ابو سفیان نے پوچھا۔
’’تمہیں جلدی پتا چل جائے گا۔‘‘ہند نے کہا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages