Featured Post

Khalid001

25 May 2019

Khalid027


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  27
مکہ کے گردونواح میں خزاعہ اور بنو بکر دو قبیلے آباد تھے۔ان کی آپس میں بڑی پرانی عداوت تھی۔ حدیبیہ میں جب مسلمانوں اور قریش میں صلح ہو گئی اور دس سال تک عدمِ جارحیت کا معاہدہ ہو گیا تو یہ دونوں قبیلے اس طرح اس معاہدے کے فریق بن گئے کہ قبیلۂ خزاعہ نے مسلمانوں کا اور قبیلہ بنو بکر نے قریش کا اتحادی بننے کا اعلان کر دیا تھا۔ معاہدہ جو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہوا، خزاعہ اور بنو بکر کے لئے یوں فائدہ مند ثابت ہوا کہ دونوں قبیلوں کی آئے دن کی لڑائیاں بند ہو گئیں۔
اچانک یوں ہوا کہ بنو بکر نے ایک رات خزاعہ کی ایک بستی پر حملہ کر دیا۔ یہ کوئی بھی نہ جان سکا کہ بنو بکر نے معاہدہ کیوں توڑ دیا ہے۔ ایک روایت ہے کہ اس کے پیچھے ہند کا ہاتھ تھا۔ خزاعہ چونکہ مسلمانوں کے اتحادی تھے، اس لیے ہند نے اس توقع پر خزاعہ پر بنو بکر سے حملہ کرایا تھا کہ خزاعہ مسلمانوں سے مدد مانگیں گے اور مسلمان ان کی مدد کو ضرور آئیں گے اور وہ جب بنو بکر پر حملہ کریں گے تو قریش مسلمانوں پر حملہ کردیں گے۔
ایک روایت یہ ہے کہ یہ غسانی عیسائیوں اور یہودیوں کی سازش تھی۔ انہوں نے سوچا تھا کہ قریش اور مسلمانوں کے اتحادیوں کو آپس میں لڑا دیا جائے تو قریش اور مسلمانوں کے درمیان لڑائی ہو جائے گی۔ بنو بکر خزاعہ کے مقابلے میں طاقتور قبیلہ تھا۔ غسّانیوں اور یہودیوں نے بنو بکر کی ایک لڑکی اغواکرکے قبیلہ خزاعہ کی ایک بستی میں پہنچا دی اور بنو بکر کے سرداروں سے کہا کہ خزاعہ نے ان کی لڑکی کو اغواء کر لائے ہیں، بنو بکر نے جاسوسی کی اور پتا چلا کہ ان کی لڑکی واقعی خزاعہ کی ایک بستی میں ہے۔
ہند نے اپنے خاوند ابوسفیان کو بتائے بغیر قریش کے کچھ آدمی بنو بکر کو دے دیئے۔ان میں قریش کے مشہور سالار عکرمہ اور صفوان بھی تھے۔ چونکہ حملہ رات کو کیا گیا تھا، اس لیے خزاعہ کے بیس آدمی مارے گئے۔ یہ راز ہر کسی کو معلوم ہو گیاکہ بنو بکر کے حملے میں قریش کے آدمی مدد کیلئے گئے تھے۔
خزاعہ کا سردار اپنے ساتھ دو تین آدمی لے کر مدینہ چلا گیا۔خزاعہ غیر مسلم قبیلہ تھا۔ خزاعہ کے یہ آدمی حضورﷺ کے پاس پہنچے اور آپﷺ کو بتایا کہ بنو بکر نے قریش کی پشت پناہی سے حملہ کیا اور قریش کے کچھ جنگجو بھی اس حملے میں شریک تھے۔ خزاعہ کے ایلچی نے حضورﷺ کو بتایا کہ عکرمہ اور صفوان بھی اس حملے میں شامل تھے۔ رسولِ اکرمﷺ غصے میں آگئے۔ یہ معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ آپﷺ نے مجاہدین کو تیاری کا حکم دے دیا۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کارد ِ عمل بڑا ہی شدید تھا۔ اگر معاملہ صرف بنو بکراور خزاعہ کی آپس میں لڑائی کا ہوتا تو حضورﷺ شاید کچھ اور فیصلہ کرتے لیکن بنوبکر کے حملے میں قریش کے نامی گرامی سالار عکرمہ اور صفوان بھی شامل تھے۔ اس لیے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’معاہدے کی خلاف ورزی کی ذمہ داری اہلِ قریش پر عائد ہوتی ہے۔‘‘
’’ابو سفیان نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی ہے۔‘‘ مدینہ کی گلیوں اور گھروں میں آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ’’رسول اﷲﷺ کے حکم پر ہم مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ اب قریش کو ہم اپنے قدموں میں بٹھا کر دم لیں گے۔‘‘
رسول اﷲﷺ نے مکہ پر حملے کی تیاری کا حکم دے دیا۔
…………bnb…………

ابو سفیان کو اتنا ہی پتا چلا تھاکہ بنو بکر نے خزاعہ پر شب خون کی طرز کا حملہ کیا ہے اور خزاعہ کے کچھ آدمی مارے گئے ہیں۔ اسے یاد آیا کہ عکرمہ اور صفوان صبح سویرے گھوڑوں پر سوار کہیں سے آ رہے تھے، اس نے ان سے پوچھا تھا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں ؟تو انہو ں نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ گھڑ دوڑ کیلئے گئے تھے۔ دوپہر کے وقت جب اسے پتا چلا کہ بنو بکر نے خزاعہ پر حملہ کیاہے تو اس نے عکرمہ اور صفوان کو بلایا۔
’’تم دونوں مجھے کس طرح یقین دلا سکتے ہو کہ خزاعہ کی بستی پر بنوبکر کے حملے میں تم شریک نہیں تھے؟‘‘ ابوسفیان نے ان سے پوچھا۔
’’کیا تم بھول گئے ہو کہ بنو بکر ہمارے دوست ہیں؟‘‘ صفوان نے کہا ۔’’اگر دوست مدد کیلئے پکاریں تو کیا تم دوستوں کو پیٹھ دکھاؤ گے؟‘‘
’’میں کچھ بھی نہیں بھولا۔‘‘ ابوسفیان نے کہا۔ ’’خدا کی قسم! تم بھول گئے ہو کہ قبیلۂ قریش کا سردار کون ہے… میں ہوں تمہارا سردار… میری اجازت کے بغیر تم کسی اور کا ساتھ نہیں دے سکتے۔‘‘
’’ابو سفیان! ‘‘عکرمہ نے کہا۔’’میں تمہیں اپنے قبیلے کا سردار مانتا ہوں ۔تمہاری کمان میں لڑائیاں لڑی ہیں۔تمہارا ہر حکم ماناہے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ تم قبیلے کے وقار کو مجروح کرتے چلے جا رہے ہو۔ تم نے اپنے دل پر مدینہ والوں کا خوف طاری کر لیا ہے۔‘‘
’’اگر میں قبیلے کا سردار ہوں تو میں کسی کو ایساجرم بخشوں گا نہیں جو تم نے کیا ہے۔‘‘ابو سفیان نے کہا۔
’’ابو سفیان!‘‘ عکرمہ نے کہا۔ ’’وہ وقت تمہیں یاد ہو گا جب خالد مدینہ کو رخصت ہوا تھا۔تم نے اسے بھی دھمکی دی تھی اور میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اُس عقیدے کا پیروکار ہو جائے جسے وہ اچھا سمجھتا ہے اور میں نے تمہیں یہ بھی کہا تھاکہ تم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو میں بھی تمہارا ساتھ چھوڑنے اور محمد (ﷺ) کی اطاعت قبول کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔‘‘
’’کیا تم نہیں سمجھتے کہ باوقار لوگ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کیا کرتے؟‘‘ ابو سفیان نے کہا۔ ’’تم نے بنو بکر کاساتھ دے کر اور مسلمانوں کے اتحادی قبیلے پر حملہ کرکے اپنے قبیلے کا وقار تباہ کر دیاہے۔ اگر تم یہ سوچ رہے ہو کہ محمد (ﷺ) نے مکہ پر حملہ کر دیا تو تم حملہ پسپا کردو گے۔ تو تم خوش فہمی میں مبتلا ہو۔ کون سے میدان میں تم نے مسلمانوں کو شکست دی ہے؟ کتنا لشکر لے کر تم نے مدینہ کو محاصرے میں لیا تھا؟‘‘
’’وہاں سے پسپائی کا حکم تم نے دیا تھا۔‘‘صفوان نے کہا۔’’تم نے ہار مان لی تھی۔‘‘
’’میں تم جیسے ضدی ا ور کوتاہ بیں آدمیوں کے پیچھے پورے قبیلے کو ذلیل و خوار نہیں کرواؤں گا۔‘‘ ابو سفیان نے کہا۔ ’’میں مسلمانوں کے ساتھ ابھی چھیڑ خانی نہیں کر سکتا۔ میں محمد (ﷺ) کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ایک دوست قبیلے نے مسلمانوں کے ایک دوست قبیلے پر حملہ کیا ہے اور اس میں قریش کے چند ایک آدمی شامل ہو گئے تھے، تو اس سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں نے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے۔میں محمد (ﷺ) کو بتاؤں گا کہ قبیلۂ قریش حدیبیہ کے معاہدے پر قائم ہے۔‘‘
وہ عکرمہ اور صفوان کو وہیں کھڑا چھوڑ کروہاں سے چلا گیا۔
…………bnb…………

ابو سفیان اسی روز مدینہ کو روانہ ہو گیا۔ اہلِ مکہ حیران تھے کہ ابو سفیان اپنے دشمن کے پاس چلا گیا ہے۔ اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ اس کی بیوی ہند جو بڑے موٹے جسم اور اونچے قد کی عورت تھی‘ پھنکارتی پھر رہی تھی۔
مدینہ پہنچ کر ابو سفیان نے جس دروازے پردستک دی وہ اس کی اپنی بیٹی اُمِّ حبیبہؓ کاگھر تھا۔دروازہ کھلا۔بیٹی نے اپنے باپ کو دیکھا تو بیٹی کے چہرے پر مسرت کے بجائے بے رُخی کا تاثر آگیا۔ بیٹی اسلام قبول کر چکی تھی اور باپ اسلام کا دشمن تھا۔
’’کیا باپ اپنی بیٹی کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا؟‘‘ابو سفیان نے اُمّ ِ حبیبہؓ سے پوچھا۔
’’اگر باپ وہ سچا مذہب قبول کرلے جو اس کی بیٹی نے قبول کیا ہے تو بیٹی باپ کی راہ میں آنکھیں بچھائے گی۔‘‘اُمّ ِ حبیبہؓ نے کہا۔
’’بیٹی!‘‘ابو سفیان نے کہا۔’’میں پریشانی کے عالم میں آیا ہوں ۔میں دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں ۔‘‘
’’بیٹی کیاکر سکتی ہے؟‘‘ اُمّ ِ حبیبہ ؓ نے کہا۔’’آپ رسول ِ خداﷺ کے پاس جائیں۔‘‘
بیٹی کی اس بے رخی پر ابو سفیان سٹپٹا اٹھا۔ وہ رسولِ کریمﷺ کے گھر کی طرف چل پڑا۔ راستے میں اس نے وہ شناسا چہرے دیکھے جو کبھی اہلِ قریش کہلاتے اور اسے اپنا سردار مانتے تھے۔ اب اس سے بیگانے ہو گئے تھے۔ وہ اسے چپ چاپ دیکھ رہے تھے۔ وہ ان کا دشمن تھا۔ اس نے ان کے خلاف لڑائیاں لڑی تھیں۔اُحد کی جنگ میں ابوسفیان کی بیوی ہند نے مسلمانوں کی لاشوں کے پیٹ چاک کیے اور ان کے کان اور ناکیں کاٹ کر ان کاہار بنایا اور اپنے گلے میں ڈالا تھا۔
ابو سفیان اہل ِمدینہ کی گھورتی ہوئی نظروں سے گزرتا رسولِ کریمﷺ کے ہاں جا پہنچا۔ اس نے ہاتھ بڑھایا۔ رسولِ کریمﷺنے مصافحہ کیا لیکن آپﷺ کی بے رخی نمایاں تھی۔ رسولِ کریمﷺ کو اطلاع مل چکی تھی کہ بنو بکر نے اہلِ قریش کی مدد سے خزاعہ پر حملہ کیا ہے۔ آپﷺ اہلِ قریش کو فریب کار سمجھ رہے تھے۔ ایسے دشمن کا آپﷺ کے پاس ایک ہی علاج تھا کہ فوج کشی کرو تاکہ وہ یہ نہ سمجھے کہ ہم کمزور ہیں۔
’’اے محمد!‘‘ ابو سفیان نے کہا۔ ’’میں یہ غلط فہمی رفع کرنے آیا ہوں کہ میں نے حدیبیہ کے صلح نامے کی خلاف ورزی نہیں کی۔ اگر بنو بکر کی مدد کو قبیلۂ قریش کے چند آدمی میری اجازت کے بغیرچلے گئے تو یہ میرا قصور نہیں۔ میں نے معاہدہ نہیں توڑا۔ اگر تم چاہتے ہو تومیں معاہدے کی تجدید کیلئے تیار ہوں۔‘‘
مؤرخین ابنِ ہشام اور مغازی کی تحریروں سے پتہ ملتا ہے کہ رسولِ اکرمﷺ نے نہ اس کی طرف دیکھا نہ اس کے ساتھ کوئی بات کی۔
رسولِ کریمﷺ کی خاموشی نے ابو سفیان پر خوف طاری کر دیا۔وہ وہاں سے اٹھ آیا اور ابو بکرؓ سے جا ملا۔
’’محمد میری کوئی بات سننے پر آمادہ نہیں۔‘‘ابو سفیان نے ابو بکر ؓسے کہا۔ ’’تم ہم میں سے ہو ابو بکر! خدا کی قسم، ہم گھر آئے مہمان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا کرتے کہ اس کی بات بھی نہ سنیں۔ میں دوستی کا پیغام لے کر آیا ہوں۔ میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کرنے آیا ہوں۔‘‘
’’اگر محمد نے جو اﷲ کے رسولﷺ ہیں،تمہاری بات نہیں سنی تو ہم تمہاری کسی بات کا جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ ابو بکرؓ نے کہا۔ ’’ہم اس مہمان کی بات سنا کرتے ہیں جو ہماری بات سنتا ہے۔ ابو سفیان! کیا تم نے محمد ﷺ کی بات سنی ہے کہ وہ اﷲ کا بھیجا ہوا رسولﷺ ہے؟ کیا تم نے اﷲ کے رسولﷺ کی یہ بات نہیں سنی تھی کہ اﷲ ایک ہے اورا سکے سوا کوئی معبود نہیں۔ سنی تھی تو تم رسولﷺ کے دشمن کیوں ہو گئے تھے؟‘‘
’’کیا تم میری کوئی مدد نہیں کرو گے ابو بکر؟‘‘ابو سفیان نے التجا کی۔
’’نہیں ۔‘‘ابو بکر ؓنے کہا۔’’ہم اپنے رسول کے حکم کے پابند ہیں۔‘‘
ابو سفیان مایوسی کے عالم میں سرجھکائے ہوئے چلا گیااورکسی سے حضرت عمرؓ کا گھر پوچھ کر ان کے سامنے جا بیٹھا۔
’’اسلام کے سب سے بڑے دشمن کو مدینہ میں دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی ہے۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’خداکی قسم! تم اسلام قبول کرنے والوں میں سے نہیں۔‘‘
ابوسفیان نے عمرؓ کو مدینہ میں آنے کا مقصد بتایا اور یہ بھی کہ رسولِ کریمﷺ نے اس کے ساتھ بات تک نہیں کی اور ابو بکرؓ نے بھی اس کی مدد نہیں کی۔
’’ میرے پاس اگر چیونٹیوں جیسی کمزور فوج بھی ہو تو بھی تمہارے خلاف لڑوں گا۔‘‘عمرؓ نے کہا۔’’تم میرے نہیں،میرے رسولﷺ اور میرے مذہب کے دشمن ہو۔میرا رویہ وہی ہو گا جو اﷲ کے رسولﷺ کا ہے۔‘‘
ابو سفیان فاطمہؓ سے ملا۔حضرت علیؓ سے ملا لیکن کسی نے بھی اس کی بات نہ سنی۔وہ مایوس اور نامراد مدینہ سے نکلا۔ اس کے گھوڑے کی چال اب وہ نہیں تھی جو مدینہ کی طرف آتے وقت تھی۔ گھوڑے کابھی جیسے سر جھکا ہوا تھا،وہ مکہ کو جا رہا تھا۔
رسولِ خداﷺ نے اس کے جانے کے بعد ان الفاظ میں حکم دیا کہ مکہ پر حملہ کیلئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں فوج تیار کی جائے ۔آپﷺ کے حکم میں خاص طور پرشامل تھاکہ جنگی تیاری اتنے بڑے پیمانے کی ہو کہ مکہ والوں کو فیصلہ کن شکست دے کر قریش کو ہمیشہ کیلئے تہہ و تیغ کر لیاجائے۔اس کے علاوہ حضورﷺ نے فرمایا کہ کوچ بہت تیز ہو گا اور اسے ایسا خفیہ رکھا جائے گا کہ مکہ والوں کو بے خبری میں دبوچ لیا جائے یا مکہ کے قریب اتنی تیزی سے پہنچا جائے کہ قریش کو مہلت نہ مل سکے کہ وہ اپنے اتحادی قبائل کو مدد کیلئے بلا سکیں۔
…………bnb…………

مدینہ میں مسلمانوں نے راتوں کوبھی سونا چھوڑ دیا۔جدھر دیکھو تیر تیار ہو رہے تھے ۔تیروں سے بھری ہوئی ترکشوں کے انبار لگتے جا رہے تھے۔ برچھیاں بن رہی تھیں۔ گھوڑے اور اونٹ تیار ہو رہے تھے۔تلواریں تیز ہو رہی تھیں۔ عورتیں اور بچے بھی جنگی تیاریوں میں مصروف تھے۔ رسولِ اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ بھاگتے دوڑتے نظر آتے تھے۔
مدینہ میں ایک گھر تھا جس کے اندر کوئی اور ہی سرگرمی تھی۔ وہ غیر مسلم گھرانہ تھا۔ وہاں ایک اجنبی آیا بیٹھا تھا۔ گھر میں ایک بوڑھا تھا، ایک ادھیڑ عمر آدمی، ایک جوان لڑکی، ایک ادھیڑ عمر عورت اور دو تین بچے تھے۔
’’میں مسلمانوں کے ارادے دیکھ آیا ہوں۔‘‘ اجنبی نے کہا۔ ’’ان کا ارادہ ہے کہ مکہ والوں کو بے خبری میں جا لیں۔بلا شک و شبہ محمد (ﷺ) جنگی چالوں کا ماہر ہے۔ اس نے جو کہا ہے وہ کر کے دکھا دے گا۔‘‘
’’ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘
بوڑھے نے پوچھا۔ ’’میرے بزرگ!‘‘ اجنبی نے کہا۔’’ہم اور کچھ نہیں کر سکتے لیکن ہم مکہ والوں کو خبر دار کر سکتے ہیں کہ تیار رہو اور اِدھراُدھر کے قبیلوں کو اپنے ساتھ ملا لواور مکہ کے راستے میں کہیں گھات لگا کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑو۔مکہ پہنچنے تک ان پر شب خون مارتے رہو۔مسلمان جب مکہ پہنچیں گے تو ان کا دم خم ٹوٹ چکا ہو گا۔‘‘
’’قسم اس کی جسے میں پوجتا ہوں۔‘‘بوڑھے نے جوشیلی آواز میں کہا۔’’تم عقل والے ہو۔تم خدائے یہودہ کے سچے پجاری ہو۔خدائے یہودہ نے تمہیں عقل و دانش عطا کی ہے۔کیا تم مکہ نہیں جا سکتے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اجنبی نے کہا۔ ’’مسلمان ہر غیر مسلم کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔یہ جانتے ہیں کہ میں یہودی ہوں، وہ مجھ پر شک کریں گے۔میں اپنی جان پر کھیل جاؤں گا۔ مجھے ان یہودیوں کے خون کا انتقام لینا ہے جنہیں مسلمانوں نے قتل کیا تھا۔میری رگوں میں بنو قریظہ کا خون دوڑ رہا ہے۔ یہ میرا فرض ہے کہ میں مسلمانوں کو ضربیں لگاتا رہوں اور میں اپنا یہ فرض ادا نہ کروں تو خدائے یہودہ مجھے اس کتے کی موت مارے جس کے جسم پر خارش اور پھوڑے ہوتے ہیں اور وہ تڑپ تڑپ کر مرتا ہے ۔لیکن میں نہیں چاہتا کہ میں پکڑا جاؤں۔ میں مسلمانوں کو ڈنک مارنے کیلئے زندہ رہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’میں بوڑھا ہوں۔‘‘ بوڑھے نے کہا۔ ’’مکہ دور ہے ،گھوڑے یا اونٹ پراتنا تیز سفر نہیں کر سکوں گا کہ مسلمانوں سے پہلے مکہ پہنچ جاؤں ۔یہ کام بچوں اور عورتوں کا بھی نہیں ۔میرا بیٹا ہے مگر بیمار ہے۔‘‘
’’اس انعام کو دیکھو جو ہم تمہیں دے رہے ہیں ۔‘‘اجنبی یہودی نے کہا ۔’’یہ کام کر دو ۔انعام کے علاوہ ہم تمہیں اپنے مذہب میں شامل کرکے اپنی حفاظت میں لے لیں گے۔‘‘
’’کیا یہ کام میں کر سکتی ہوں؟‘‘ ادھیڑ عمر عورت نے کہا۔’’تم نے میری اونٹنی نہیں دیکھی ،تم نے مجھے اونٹنی کی پیٹھ پر کبھی نہیں دیکھا ۔اتنی تیز اونٹنی مدینہ میں کسی کے پاس نہیں۔‘‘
’’ہاں! ‘‘یہودی نے کہا۔’’تم یہ کام کر سکتی ہو۔ اونٹوں اور بکریوں کو باہر لے جاؤ۔تمہاری طرف کوئی دھیان نہیں دے گا۔تم انہیں چرانے کیلئے ہر روز لے جاتی ہو، آج بھی لے جاؤ اورمدینہ سے کچھ دور جاکر اپنی اونٹنی پر سوار ہو جاؤ ۔اس نے ایک کاغذ ایک عورت کو دیتے ہوئے کہا اسے اپنے سر کے بالوں میں چھپا لو۔اونٹنی کو دوڑاتی لے جاؤ اور مکہ میں ابو سفیان کے گھر جاؤ اور بالوں میں سے یہ کاغذ نکال کر اسے دے دو۔‘‘
’’لاؤ۔‘‘عورت نے کاغذ لیتے ہوئے کہا۔’’میرا انعام میرے دوسرے ہاتھ پر رکھ دو اور اس یقین کے ساتھ میرے گھر سے جاؤ کہ مسلمان مکہ سے واپس آئیں گے تو ان کی تعداد آدھی بھی نہیں ہو گی۔ اور ان کے سر جھکے ہوئے ہوں گے اور شکست ان کے چہروں پر لکھی ہوئی ہو گی۔‘‘
یہودی نے سونے کے تین ٹکڑے عورت کو دیئے اور بولا۔’’یہ اس انعام کا نصف حصہ ہے جو ہم تمہیں اس وقت دیں گے جب تم یہ پیغام ابو سفیان کے ہاتھ میں دے کر واپس آ جاؤ گی۔‘‘
’’اگر میں نے کام کر دیا اور زندہ واپس نہ آسکی تو؟‘‘
’’باقی انعام تمہارے بیمار خاوند کو ملے گا۔‘‘یہودی نے کہا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages