Featured Post

Khalid001

29 May 2019

Khalid034


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  34
وہ تو اچانک ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ مجاہدین میں بھگدڑ مچ گئی تھی، ورنہ وہ ہمیشہ اپنے سے کئی گنا زیادہ دشمن سے لڑے اور فاتح اور کامران رہے تھے۔ انہوں نے دیکھاکہ عباسؓ کی پکار پر مسلمان رسولِ اکرمﷺ کے حضور اکھٹے ہو رہے ہیں اور دشمن مسلمانوں کے چھوٹے سے گروہ کے جوابی حملے کو بھی برداشت نہیں کر سکا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ ہوازن اور ثقیف ان کے تعاقب میں نہیں آ رہے تو کئی ہزار مجاہدین واپس آ گئے۔ رسول اکرمﷺ نے انہیں فوراً منظم کیا اور دشمن پر حملے کا حکم دے دیا۔
خالدؓ بن ولید لا پتا تھے۔ کسی کو ہوش نہیں تھا کہ دیکھتا کہ کون لاپتا ہے اور کون کہاں ہے۔
وہی تنگ گھاٹی جہاں مجاہدین پر قہر ٹوٹا تھا، اب متحدہ قبائل کیلئے موت کی گھاٹی بن گئی تھی۔ قبیلہ ہوازن چونکہ سب سے زیادہ لڑاکا قبیلہ تھا اس لیے اسی کے آدمیوں کو آگے رکھا گیا تھا۔ یہ لوگ بلا شک و شبہ ماہر لڑاکے تھے لیکن مسلمانوں نے جس قہر سے حملہ کیا تھا اس کے آگے ہوازن ٹھہر نہ سکے۔ مسلمان اس خفت کو بھی مٹانا چاہتے تھے جو انہیں غلطی سے اٹھانی پڑی تھی۔
یہ دست بدست لڑائی تھی ۔مجاہدین نے تیغ زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ ہوازن گر رہے تھے یا معرکے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ رسولِ اکرمﷺ معرکے کے قریب ایک بلند جگہ کھڑے تھے۔ آپﷺ نے للکار للکارکر کہا۔
’’یہ جھوٹ نہیں کہ میں نبی ہوں … میں ابنِ عبدا لمطلب ہوں۔‘‘
ہوازن پیچھے ہٹتے چلے جا رہے تھے۔وہ اب وار کرتے کم اور وار روکتے زیادہ تھے۔ان کا دم خم ٹوٹ رہا تھا۔ان کے پیچھے قبیلہ ٔ ثقیف کے دستے تیار کھڑے تھے۔ مالک بن عوف نے چلا چلا کر ہوازن کو پیچھے ہٹا لیا۔ قبیلۂ ثقیف کے تازہ دم لڑاکوں نے ہوازن کی جگہ لے لی۔ مسلمان تھک چکے تھے اور ثقیف تازہ دم تھے لیکن مسلمانوں کو اپنے قریب اپنے رسولﷺ کی موجودگی اور للکار نیا حوصلہ دے رہی تھی۔
مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں کی ضربوں میں جو قہر اور غضب تھا اور ان کے نعروں اور للکار میں جو گرج اور کڑک تھی اس نے ثقیف پر دہشت طاری کردی۔ ثقیف کے لڑاکے جو عرب میں خاصے مشہور تھے تیزی سے پیچھے ہٹنے لگے اور پھر ان کے اونٹوں اور گھوڑوں نے بھگدڑ بپا کر دی۔ اس سے دشمن میں وہی کیفیت پیدا ہو گئی جو گھاٹی میں صبح کے وقت مسلمانوں میں پیدا ہو گئی تھی۔ ہوازن بڑی بری حالت میں پیچھے کو بھاگے تھے۔ اب ثقیف بھی پسپا ہوئے تو ان کے اتحادی قبائل کے حوصلے لڑے بغیر ہی ٹوٹ پھوٹ گئے۔وہ افراتفری میں بھاگ اٹھے۔
…………bnb…………

مالک بن عوف تنگ راستے سے دور پیچھے ہوازن کے بھاگے ہوئے دستوں کو یکجا کر رہا تھا۔ اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ جارحانہ کارروائی سے منہ موڑ چکا ہے اور اپنے دستوں کو دفاعی دیوار کے طور پر ترتیب دے رہا ہے۔
رسول اﷲﷺ نے یہ ترتیب دیکھی تو آپﷺ اپنے لشکر کی طرف پلٹے۔ آپﷺ نے دیکھا کہ جو مجاہدین صبح کے وقت بھاگ گئے تھے وہ سب واپس آ گئے ہیں۔ حضورﷺ نے حکم دیا کہ’’ گھوڑ سواروں کو آگے لاؤ۔‘‘ ذرا سی دیر میں سوار پیادوں سے الگ ہو گئے۔ آپﷺ نے سواروں کو ایک خاص ترتیب میں کرکے حکم دیا کہ ’’ہوازن کو سنبھلنے اور منظم ہونے کا موقع نہ دواور برق رفتار حملہ کرو۔‘‘
ان سواروں میں بنو سلیم کے وہ سوار بھی شامل تھے جن پر سب سے پہلے تیروں کی بوچھاڑیں آئی تھیں اور مسلمانوں کی جمعیت پارہ پارہ ہو گئی تھی۔ لیکن بنو سلیم کا کمانڈر ان کے ساتھ نہیں تھا اور وہ تھے خالدؓبن ولید جو ابھی تک کہیں بے ہوش پڑے تھے۔
رسولِ اکرمﷺ نے اس سوار دستے کی قیادت زبیر ؓبن العوام کے سپرد کی اور انہیں حکم دیا کہ آگے جو درّہ ہے اس پر مالک بن عوف قبضہ کیے بیٹھا ہے، اسے درّے سے بے دخل کر دو۔
رسولِ کریمﷺ نے جنگ کی کمان اپنے دستِ مبارک میں لے لی تھی۔ آپﷺ کے اشارے پر زبیرؓ بن العوام نے ایسا برق رفتار اور جچا تلا ہلّہ بولا کہ ہوازن جو ابھی تک بوکھلائے ہوئے تھے مقابلے میں جم نہ سکے ا ور درّے سے نکل گئے ۔درّہ خاصہ لمبا تھا۔ رسولِ اکرمﷺ نے زبیر ؓکے دستے کو درّے میں ہی رہنے دیا اور حکم دیا کہ اب درّہ جنگی اڈا ہوگا۔
آپﷺ نے دوسرا سوار دستہ آگے کیا جس کے کمانڈر ابو عامرؓ تھے۔حضورﷺ نے ابو عامر ؓ کے سپرد کام کیا کہ اوطاس کے قریب متحدہ قبائل کا جو کیمپ ہے اس پر حملہ کرو۔ ’’خالد … خالدیہاں ہے …‘‘ کسی نے بڑی دور سے للکار کر کہا۔’’یہ پڑا ہے۔‘‘
رسولِ اکرمﷺ دوڑے گئے اور خالدؓ تک پہنچے ۔خالد ؓابھی تک بے ہوش پڑے تھے ۔آپﷺ خالدؓ کے پاس بیٹھ گئے اورانتہائی شفقت سے ان کے سر سے پاؤں تک پھونک ماری۔ خالد ؓنے آنکھیں کھول دیں ۔رسول اﷲﷺ کے قلب اطہر سے نکلی دُعا کا اعجاز تھا کہ خالدؓ اُٹھ کھڑے ہوئے۔انہیں جو تیر لگے تھے وہ گہرے نہیں اترے تھے۔ تیر نکال لیے گئے اور بڑی تیزی سے مرہم پٹی کر دی گئی۔
’’یا رسول اﷲﷺ!‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’میں لڑوں گا۔میں لڑنے کے قابل ہوں۔‘‘
آ پﷺ نے خالد ؓ سے کہا کہ’’ زبیر کے سوار دستے میں شامل ہو جاؤ۔ تم ابھی کمان نہیں لے سکو گے۔‘‘
خالدؓ ایک گھوڑے پر سوار ہو گئے۔ان کے کپڑے خون سے لال تھے۔انہوں نے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور زبیرؓ کے سوار دستے میں شامل ہو گئے۔ انہوں نے زبیرؓسے پوچھا۔ ’’کیا حکم ہے؟‘‘ زبیرؓ نے انہیں بتایا کہ ہوازن کی خیمہ گاہ پر حملہ کرنا ہے جو اوطاس کے قریب ہے لیکن یہ حملہ ابو عامرؓ کریں گے۔
اوطاس وہاں سے کچھ دور تھا ۔مالک بن عوف نے ہوازن دستے کو وہاں تک ہٹا لیااور اپنی خیمہ گاہ کے اردگرد پھیلا دیا تھا۔ یہ دفاعی حصار تھا، جس کی ہوازن کے کیمپ کے گرد ضرورت اس لیے تھی کہ وہاں وہ ہزاروں عورتیں بچے اور مویشی تھے جنہیں قبیلۂ ہوازن کے سپاہی اپنے ساتھ لائے تھے۔ مالک بن عوف نے تو یہ سوچا تھا کہ ہوازن اپنی عورتوں اور بچوں کو اپنے ساتھ دیکھ کر زیادہ غیرت مندی اور بے جگری سے لڑیں گے مگر اب یہ صورت پیدا ہو گئی کہ دُرید بن الصّمہ، مالک بن عوف کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ اس کے منع کرنے کے باوجود مالک عورتوں کو ساتھ لے آیا تھا۔ ان کیلئے اب اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو مسلمانوں سے بچانا محال دکھائی دے رہا تھا۔
ابو عامرؓ کا سوار دستہ اوطا س کی طرف بڑھا۔ قریب گئے تو ہوازن نے جم کر مقابلہ کیااب وہ جنگ جیتنے کیلئے یا مسلمانوں کو تہس نہس کرکے مکہ پر قبضہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ مسلمانوں سے اپنے اہل و عیال اور مویشیوں کو بچانے کیلئے لڑ رہے تھے۔ یہ بھی دست بدست معرکہ تھا ،جس میں جنگی چالوں کے نہیں ذاتی شجاعت کے مظاہرے ہو رہے تھے،سوار اور پیادے لڑتے ہوئے وادی میں پھیلتے جا رہے تھے۔
ابو عامرؓ نے دشمن کے نو سواروں کو ہلاک کر دیا مگر دسویں ہوازن کو للکارا تو اس کے ہاتھوں خود شہید ہو گئے۔ رسولِ اکرمﷺ نے پہلے ہی ان کا جانشین مقررکر دیا تھا۔ وہ تھے ان کے چچا زاد بھائی ابو موسیٰؓ۔ انہوں نے فوراً کمان سنبھال لی اور اپنے سواروں کو للکارنے لگے۔
ہوازن زخمی ہو ہو کر گر رہے تھے،صاف نظر آ رہا تھا کہ ان کے پاؤں اکھڑ رہے ہیں۔ رسولِ اکرمﷺ نے زبیرؓ بن العوام کو جنہیں آپﷺ نے درّے میں روک لیا تھا۔ حکم دیا کہ اپنے دستے کو ابو موسیٰؓ کی مدد کیلئے لے جائیں۔ حضورﷺ نے یہ اس لیے ضروری سمجھا تھاکہ دونوں دستے مل کر ہوازن کا کام جلدی تمام کر سکیں گے۔
زبیرؓ نے اپنے سواروں کو حملے کا حکم دیا۔ جب گھوڑے دوڑے اس وقت خالدؓ بن ولید کا گھوڑا دستے کے آگے تھا۔
ہوازن پہلے ہی ہمت ہار چکے تھے۔ مسلمانوں کے دوسرے سوار دستے کے حملے کی وہ تاب نہ لاسکے ان کے زخمیوں کی تعداد معمولی نہیں تھی۔ وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ مسلمانوں نے کیمپ کو گھیرے میں لے لیا۔
چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے لڑاکوں نے جب ہوازن اور ثقیف جیسے طاقتور قبیلوں کو بھاگتے دیکھا تو وہ وہاں سے بالکل غائب ہو گئے اور اپنی اپنی بستیوں میں جا پہنچے۔ مالک بن عوف میدانِ جنگ میں کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ نظر آ ہی نہیں سکتا تھا۔ اسے اپنے شہر طائف کی فکر پیدا ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے قبیلے کے سرداروں سے کہا کہ ’’مسلمان جس رفتار اور جس جذبے سے آ رہے ہیں، اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ وہ طائف تک پہنچیں گے اور اس بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔‘‘ خطرے کے پیشِ نظر اس نے قبیلہ ثقیف کے تمام دستوں کو لڑائی سے نکالا اور طائف جا دم لیا۔
پیچھے حنین کی وادی میں کیفیت یہ تھی کہ ہوازن کی عورتیں اور بچے چیخ و پکار کر رہے تھے ۔تمام وسیع و عریض وادی مجاہدینِ اسلام کی تحویل میں تھی۔ مکہ کے جو غیر فوجی مجاہدین کے ساتھ آئے تھے وہ زخمی مجاہدین کو اٹھارہے تھے، دشمن کے زخمی کرّاہ رہے تھے، مر رہے تھے۔ مرنے والوں میں بوڑھا دُرید بن الصّمہ بھی تھا۔وہ لڑتا ہوا مارا گیا تھا۔
مسلمانوںکو دشمن کے زخمیوں اور قیدیوں سے جو ہتھیار اور گھوڑے ملے ان کے علاوہ چھ ہزار عورتیں اور بچے، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار بکریاں اور بے شمارچاندی ہاتھ لگی۔
مسلمانوں نے جنگ جیت لی تھی لیکن رسول اﷲﷺ نے فیصلہ کیا کہ مالک بن عوف کو مہلت نہیں دی جائے گی کہ وہ سستا سکے اور اپنی فوج کو منظم کر سکے۔آپﷺ نے دراصل سانپ کا سر کچلنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آپﷺ کے حکم سے مالِ غنیمت آئی ہوئی عورتیں ،بچوں ،مویشیوں اور دیگر مال کو ایک دستے کے ساتھ جعرانہ بھیج دیا گیا۔ اگلے حکم تک انہیں جعرانہ میں ہی رہنا تھا۔ دوسرے دن رسولِ اکرمﷺ کے حکم سے اسلامی فوج طائف کی طرف پیش قدمی کر گئی جہاں بڑی خونریز جنگ کی توقع تھی۔
معرکۂ حنین کا ذکر قرآن حکیم میں سورۂ توبہ میں آیا ہے ۔بعض صحابہ کرامؓ نے معرکہ شروع ہونے سے پہلے کہا تھا کہ ہمیں کون شکست دے سکتا ہے ۔اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کون کر سکتا ہے ؟سورۂ توبہ میں آیا ہے:
’’اﷲ نے بہت سے موقعوں پر تمہاری مددکی اور حنین کے دن بھی جب تم کو اپنی کثرت پر ناز تھا حالانکہ وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین باوجود اپنی وسعت کے تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگے پھر اﷲ نے اپنے رسول اور مسلمانوں پر تسلی نازل کی اور وہ فوجیں اتاریں جن کو تم نے نہیں دیکھا اور کافروں کو سزا دی اور کافروں کا بدلہ یہی ہے۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages