Featured Post

Khalid001

29 May 2019

Khalid033


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  33
’’نہیں! ایسانہیں ہو سکتا۔‘‘مالک بن عوف اپنے خیمے میں غصے سے بار بار زمین پر پاؤں مارتا اور کہتا تھا۔’’وہ اتنی جلدی کس طرح یہاں تک پہنچ سکتے ہیں؟کیا ہم اپنے ساتھ غداروں کو بھی لائے تھے جنہوں نے محمد (ﷺ) کو بہت دن پہلے خبردار کر دیا تھا کہ ہم آ رہے ہیں؟‘‘
’’خود جا کر دیکھ لے مالک!‘‘ بوڑھے دُرید بن الصّمہ نے کہا۔ ’’اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔اگر میں جھوٹ بول رہاہوں تو اپنے دیوتا لات کو دھوکا دے رہا ہوں۔ اس آدمی نے کہا جو دیکھ کہ آیا تھا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر جس کی تعداد کم و بیش دس ہزار تھی، حنین کے قریب آ کر پڑاؤ کیے ہوئے تھا۔ اس نے کہا۔انہوں نے خیمے نہیں گاڑے، وہ تیاری کی حالت میں ہیں … اور یہ بھی جھوٹ نہیں کہ اس لشکر کا سپہ سالار خود محمد (ﷺ) ہے۔‘‘
مالک بن عوف غصے سے باؤلا ہوا چلا جا رہاتھا۔وہ مسلمانوں پر اچانک ٹوٹ پڑنے چلا تھا۔ اس نے اوطاس سے مکہ کی طرف پیش قدمی کا حکم دے دیا تھا مگر اسے اطلاع ملی کہ مسلمان اپنے رسولﷺ کی قیادت میں اس کی جمعیت سے تھوڑی ہی دور حنین کے گردونواح میں آ گئے ہیں اور مقابلے کیلئے تیار ہیں۔
’’غصہ تیری عقل کو کمزور کر رہا ہے مالک!‘‘ دُرید نے اسے کہا۔ ’’اب محاصرے اور یلغار کو دماغ سے نکال اور اس زمین سے فائدہ اٹھا جس پر مسلمانوں سے تیرا مقابلہ ہو گا۔ تو اچھی چالیں سوچ سکتا ہے۔تو دشمن کو دھوکا دے سکتا ہے۔ تجھ میں جرات ہے پھر تو کیوں پریشان ہو رہا ہے؟میں تیرے ساتھ ہوں … میں تجھے ایک بار پھر کہتا ہوں کہ ہوازن کے لوگوں نے اپنی عورتوں اور بچوں اور اپنے مویشیوں کو ساتھ لا کہ اچھا نہیں کیا … آ میرے ساتھ حنین کی وادی کو دیکھیں۔‘‘
وہ دونوں اس علاقے کو دیکھنے چل پڑے جہاں لڑائی متوقع تھی۔
…………bnb…………

رسولِ کریمﷺ کے ساتھ مجاہدین کی جو فوج تھی اس کی تعداد بارہ ہزار تھی۔اس نفری میں مکہ کے دو ہزار ایسے افراد تھے جنہیں اسلام قبول کیے ابھی چند ہو د ن ہوئے تھے۔ بعض صحابہ کرامؓ ان نو مسلموں پر بھروسہ کرنے پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن اﷲ کے رسولﷺ کو اپنے اﷲ پر بھروسہ تھا۔ ابو سفیانؓ، عکرمہ ؓاور صفوانؓ بھی نو مسلم تھے۔ یہ تینوں سرداری اور سالاری کے رتبوں کے افراد تھے جن کا نو مسلم قریش پر اثرورسوخ بھی تھا۔ لیکن دیکھا یہ گیا کہ یہ سب اپنے مرضی سے اس لشکر میں شامل ہوئے تھے۔ ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ ان تینوں نے مجاہدین کیلئے کم و بیش ایک سو زِرہ بکتر دیئے تھے۔
یہ لشکر 27 جنوری 630ء (6شوال 8ھ)کی صبح مکہ سے روانہ ہوااور 31 جنوری کی شام حنین کے گردونواح میں پہنچ گیا تھا۔ کوچ برق رفتار تھا۔رسولِ کریمﷺ کو معلوم تھا کہ قبیلہ ہوازن اور قبیلہ ثقیف لڑنے والے قبیلے ہیں اور ان کے قائد دُرید اور مالک جنگی فہم و فراست اور چالوں سے بخوبی واقف ہیں۔اس لیے آپﷺ نے ہراول میں جن سات سو مجاہدین کو رکھا وہ بنو سلیم کے تھے اور ان کے کمانڈر خالدؓ بن ولید تھے۔
حنین ایک وادی ہے جو مکہ سے گیارہ میل دور ہے۔بعض جگہوں پر یہ وادی سات میل چوڑی ہے، کہیں اس کی چوڑائی اس سے بھی کم ہے اور حنین کے قریب جاکر وادی کی چوڑائی کم ہوتے ہوتے بمشکل دو فرلانگ رہ جاتی ہے۔ یہاں سے وادی کی سطح اوپر کو اٹھتی ہے یعنی یہ چڑھائی ہے۔آگے ایک درّہ نما راستہ ہے جو دائیں بائیں مڑتا ایک اور وادی میں داخل ہوتا ہے ۔اس وادی کا نام نخلۃ الیمانیہ ہے ۔راستہ خاصا تنگ ہے۔
مسلمانوں نے اپنے جاسوسوں کی آنکھوں سے دیکھا کہ قبیلوں کی متحدہ فوج ابھی اوطاس کے قریب خیمہ زن ہے مگر جاسوس رات کی تاریکی میں نہ جھانک سکے یا انہوں نے ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ رات کو بھی دیکھ لیتے کہ دشمن کو ئی نقل و حرکت تو نہیں کر رہا۔ دن کے دوران متحدہ قبیلوں کے کیمپ میں کوچ کاپیش قدمی کی تیاری کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ کیمپ پر مردنی سی چھائی ہوئی تھی۔ کوئی سرگرمی نہیں تھی۔
یکم فروری 630ء (11شوال 8ھ) کی سحر مجاہدین نے اوطاس کی طرف پیش قدمی کی۔ اسکیم یہ تھی کہ دشمن کے کیمپ پر یلغار کی جائے گی۔ امید یہی تھی کہ دشمن کو بے خبری میں جالیں گے۔ پیش قدمی مکمل طور پرمنظم تھی۔ ہراول میں بنو سلیم کے مجاہدین تھے جن کے قائد خالدؓ بن ولید تھے۔ اس حیثیت میں خالد ؓ سب سے آگے تھے۔
اسلامی فوج کی نفری تو بارہ ہزار تھی۔لیکن اس باقاعدہ فوج کے ساتھ ایک بے قاعدہ فوج بھی تھی جس کی نفری بیس ہزار تھی۔یہ مکہ اور گردونواح کے لوگ تھے جو فوج کی مدد کیلئے ساتھ آئے تھے۔
ایک واقعہ قابلِ ذکر ہے ۔اتنا زیادہ لشکر دیکھ کر بعض صحابہ کرامؓ نے بڑے فخر سے کہا۔’’کون ہے جو ہمیں شکست دے سکتا ہے؟‘‘ دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس فخرمیں تکبر کی جھلک بھی تھی۔
خالدؓ اسلامی لشکر کے آگے تھے۔وہ وادی حنین کے تنگ راستے میں داخل ہوئے تو صبح طلوع ہو رہی تھی ،خالدؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور رفتار تیز کردی۔خالدؓ جوشیلے جنگجو تھے اور جارحانہ قیادت میں یقین رکھتے تھے۔وہ جب مسلمان نہیں ہوئے تھے تو قبیلۂ قریش کے سردارِ اعلیٰ ابو سفیانؓسے انہیں سب سے بڑی شکایت یہ تھی کہ وہ انہیں کھُل کر لڑنے نہیں دیتے تھے۔ ان کے قبولِ اسلام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے رسولِ کریمﷺ کی عسکری قیادت میں وہ جذبہ دیکھا تھا جو انہیں پسند تھا۔ خالدؓنے قبولِ اسلام سے پہلے عکرمہ سے کہابھی تھا کہ میرے عسکری جذبے اور میدانِ جنگ میں جارحانہ انداز کی قدر صرف مسلمان ہی کر سکتے ہیں۔
رسول اﷲﷺ کی خالدؓ کی عسکری اہلیت اور قابلیت کی جو قد رکی تھی اس کا ثبوت یہ تھا کہ وہ اتنے بڑے لشکر کے ہراول کے کمانڈر تھے۔
…………bnb…………

صبح طلوع ہو رہی تھی جب خالدؓ بن ولید کا ہراول کا دستہ گھاٹی والے تنگ رستے میں داخل ہوا۔اچانک زمین و آسمان جیسے پھٹ پڑے ہوں ۔ہوازن ،ثقیف اور دیگر قبیلوں کی متحدہ فوج کے نعرے گھٹاؤں کی گرج اور بجلیوں کی کڑک کی طرح بلند ہوئے اور موسلا دھار بارش کی طرح تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔ یہ تیر دائیں بائیں کی چٹانوں اور ٹیکریوں سے آ رہے تھے۔
یہ دشمن کی گھات تھی۔مالک بن عوف اور دُرید بن الصّمہ نے دن کے وقت اپنے کیمپ میں کوئی سرگرمی ظاہر نہیں ہونے دی تھی۔ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے یہ جنگی کیمپ نہیں کسی قافلے کا پڑاؤ ہے۔ شام کے بعد مالک بن عوف اپنی فوج کو حنین کے تنگ راستے پر لے گیا اور تیر اندازوں کو دونوں طرف چھپا کر بِٹھا دیا تھا۔
تیروں کی بوچھاڑیں اچانک بھی تھیں اور بہت زیادہ بھی۔مجاہدین کے گھوڑے تیر کھاکے بے لگام ہو کر بھاگے۔جو سوار تیروں سے محفوظ رہے ،و ہ بھی پیچھے کو بھاگ اٹھے۔ تیروں کی بوچھاڑیں اور تندوتیز ہو گئیں۔ گھوڑے بھی بے قابو اور سوار بھی بے قابو ہو گئے۔ بھگدڑ مچ گئی۔
…………bnb…………

’’مت بھاگو! ‘‘خالدؓ بن ولید تیروں کی بوچھاڑوں میں کھڑے چلّا رہے تھے۔’’پیٹھ نہ دکھاؤ … مقابلہ کرو … ہم دشمن کو …‘‘ گھوڑوں اور سواروں کی بھگدڑ ایسی تھی کہ خالدؓ بن ولید کی پکار کسی کے کانوں تک پہنچتی ہی نہیں تھی۔ کوئی یہ دیکھنے کیلئے بھی نہیں رُکتا تھا کہ خالدؓ کے جسم میں کتنے تیر اُتر گئے ہیں اور وہ پیچھے ہٹنے کے بجائے وہیں کھڑے اپنے دستے کو مقابلے کیلئے للکار رہے ہیں۔ وہ آخر بھگدڑ کے ریلے کی زد میں آ گئے اور ان کے دھکوں سے یوں دور پیچھے آ گئے جیسے سیلاب میں بہہ گئے ہوں۔
جب بھگدڑ کا ریلا گزر گیا تو خالدؓ اتنے زخمی ہو چکے تھے کہ گھوڑے سے گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے۔
ہراول کے پیچھے اسلامی فوج آ رہی تھی ۔اس کے رضا کاروں کا بے قاعدہ لشکر بھی تھا،ہراول کا دستہ بھاگتا دوڑتا پیچھے کو آیا تو فوج میں بھی بھگدڑ مچ گئی، ہراول کے بہت سے آدمیوں کے جسموں میں تیر پیوست تھے،اور انکے کپڑے خون سے لال تھے۔گھوڑوں کو بھی تیر لگے ہوئے تھے ۔مالک بن عوف کی فوج کے نعرے جو پہلے سے زیادہ بلند ہو گئے تھے، سنائی دے رہے تھے۔ یہ حال دیکھ کر اسلامی فوج بکھر کر پیچھے کو بھاگی۔
بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ قریش جو بے دلی سے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی فوج کے ساتھ آ گئے تھے انہوں نے اس بھگدڑ کو یوں بڑھایا جیسے جلتی پر تیل ڈالا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف بھاگے بلکہ انہوں نے خوف وہراس پھیلایا۔ اُنہیں ایک خوشی تو یہ تھی کہ لڑائی سے بچے اور دوسری یہ کہ مسلمان بھاگ نکلے ہیں اور انہیں شکست ہوئی ہے۔
مسلمانوں کی کچھ نفری وہیں جا پہنچی جہاں سے چلی تھی،اس جگہ کو فوجی اڈا (بیس) بنایا گیا تھا۔زیادہ تعداد ان مسلمانوں کی تھی جنہوں نے پیچھے ہٹ کر ایسی جگہوں پر پناہ لے لی جہاں چھپا جا سکتا تھا لیکن وہ چھپنے کیلئے بلکہ چھپ کر یہ دیکھنے کیلئے وہاں رُکے تھے کہ ہوا کیا ہے؟ اور وہ دشمن کہاں ہے جس سے ڈر کر پوری فوج بھاگ اٹھی ہے۔ وہاں تو حالت یہ ہو گئی تھی کہ بھاگتے ہوئے اونٹ اور گھوڑے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے اور پیادے ان کے درمیان آ کر کچلے جانے سے بچنے کیلئے ہر طرف بھاگ رہے تھے۔
…………bnb…………

رسولِ کریمﷺ نے اپنی فوج کی یہ حالت دیکھی تو آپﷺ سن ہو کے رہ گئے۔ آپﷺ بھاگنے والوں کے رستے میں کھڑے ہو گئے۔ آپﷺ کے ساتھ نو صحابہ کرامؓتھے۔ ان میں چار قابلِ ذکر ہیں: حضرت عمرؓ، حضرت عباسؓ، حضرت علیؓ اور حضرت ابو بکرؓ۔
’’مسلمانو!‘‘ رسولِ کریمﷺ نے بلند آواز سے للکارنا شروع کر دیا۔ ’’کہاں جا رہے ہو؟ میں اِدھر کھڑا ہوں۔ میں جو اﷲکا رسول ہوں۔ مجھے دیکھو میں محمد بنِ عبداﷲ یہاں کھڑا ہوں۔‘‘
مسلمان ہجوم کے قریب سے بھاگتے ہوئے گزرتے جا رہے تھے۔ آپﷺ کی کوئی نہیں سن رہا تھا۔ خالدؓ بن ولید کہیں نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہ آگے کہیں بے ہوش پڑے تھے۔ اتنے میں قبیلہ ہوازن کے کئی آدمی اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار بھاگتے ہوئے مسلمانوں کے تعاقب میں آئے۔ ان کے آگے ایک شتر سوار تھا جس نے جھنڈا اٹھا رکھا تھا۔ حضرت علیؓ نے ایک مسلمان کو ساتھ لیا اور اس شتر سوار علمبردار کے پیچھے دوڑ پڑے۔ قریب جا کر حضرت علیؓ نے اس کے اونٹ کی پچھلی ٹانگ پر تلوار کا وار کر کے ٹانگ کاٹ دی۔
اونٹ گرا تو سوار بھی گر پڑا۔ حضرت علیؓ نے اس کے اٹھتے اٹھتے اس کی گردن صاف کاٹ دی۔ حضورﷺ ایک ٹیکری پر جا کھڑے ہوئے ۔دشمن کے کسی آدمی کی للکار سنائی دی۔ ’’وہ رہا محمد (ﷺ) … قتل کر دو۔‘‘ تاریخ میں ان آدمیوں کو قبیلۂ ثقیف کے لکھا گیا ہے۔ جو اپنے آدمی کی للکار پر اس ٹیکری پر چڑھنے لگے جس پر رسول اﷲﷺ کھڑے تھے۔ صحابہ کرامؓ جو آپﷺ کے ساتھ تھے، ان آدمیوں پر ٹوٹ پڑے۔ مختصر سے معرکے میں وہ سب بھاگ نکلے۔ ان میں سے کوئی بھی رسول اکرمﷺ تک نہ پہنچ سکا۔
’’میں مالک بن عوف سے شکست نہیں کھاؤں گا۔‘‘ رسول اﷲﷺ نے کہا۔ ’’وہ اتنی آسانی سے کیسے فتح حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
حضورﷺ نے اپنی فوج کو بکھرتے اور بھاگتے تو دیکھ ہی لیا تھا ۔آپﷺ دشمن کو بھی دیکھ رہے تھے بلکہ دشمن کو زیادہ دیکھ رہے تھے۔ آپﷺ کی عسکری حس نے محسوس کر لیا کہ مالک بن عوف اپنے پہلے بھرپور اور کامیاب وار پر اس قدر خوش ہو گیا ہے کہ اسے اگلی چال کا خیال ہی نہیں رہا۔ وہ اسلامی فوج کی بھگدڑ اور افراتفری کی پسپائی سے فائدہ نہیں اٹھا رہا تھا۔ حضورﷺ کو توقع تھی کہ مالک بن عوف کی متحدہ فوج مسلمانوں کے تعاقب میں آئے گی لیکن تعاقب میں دشمن کے جو آدمی آئے تھے وہ تعداد میں تھوڑے اور غیر منظم تھے۔
اس کے علاوہ حضورﷺ نے اپنے ہراول دستے کو پیچھے آتے بھی دیکھ تھا اور آپﷺ نے معلوم بھی کیا تھا کہ ہراول کے کتنے آدمی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔ آپﷺ کو بتایا گیا کہ کئی ایک مجاہدین کے گھوڑے اور اونٹ زخمی ہوئے ہیں شہید ایک بھی نہیں ہوا۔ اس سے رسول ﷺ نے یہ رائے قائم کی کہ یہ دشمن تیر اندازی میں اناڑی ہے اور جلد باز بھی ہے۔ اتنی زیادہ تیر اندازی کسی کو زندہ نہ رہنے دیتی۔
حضورﷺ نے اپنے پاس کھڑے صحابہ کرامؓ پر نظر ڈالی۔ آپﷺ کی نظریں حضرت عباسؓ پرٹھہر گئیں۔ حضرت عباس ؓ کی آواز غیر معمولی طورپر بلند تھی۔جو بہت دور تک سنائی دیتی تھی۔جسم کے لحاظ سے بھی حضرت عباسؓ قوی ہیکل تھے۔
’’عباس!‘‘حضورﷺ نے کہا۔’’تم پر اﷲکی رحمت ہو۔مسلمانوں کو پکارو …انہیں یہاں آنے کیلئے کہو۔‘‘
’’اے انصار!‘‘ حضرت عباس ؓنے انتہائی بلند آواز میں پکارنا شروع کیا۔ ’’اے اہلِ مدینہ … اے اہلِ … مکہ آؤ۔اپنے رسول کے پاس آؤ۔‘‘ حضرت عباسؓ قبیلوں کے اور آدمیوں کے نام لے لے کر پکارتے رہے اور کہتے رہے کہ اپنے رسول ﷺ کے پاس اپنے اﷲ کے رسول کے پاس آؤ۔
سب سے پہلے انصار آئے۔ ان کی تعداد معمولی تھی لیکن ایک کو دیکھ کردوسرا آتا چلا گیا۔ مکہ کے کچھ دوسرے قبیلوں کے لوگ بھی آ گئے۔ ان کی تعداد ایک سو ہو گئی۔ رسولِ کریمﷺ نے دیکھا کہ قبیلہ ہوازن کے بہت سے آدمی پسپا ہوئے مسلمانوں کی طرف دوڑے آ رہے تھے۔ آپﷺ نے ان ایک سو مجاہدین کو دشمن کے ان آدمیوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔
مجاہدین ان کے عقب سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ ہوازن کے آدمی بوکھلا گئے اور مقابلے کیلئے سنبھلنے لگے لیکن مجاہدین نے انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی۔ ان میں سے بہت سے بھاگ نکلے۔ ان کے زخمی اور ہلاک ہونے والے پیچھے رہ گئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages