Featured Post

Khalid001

30 May 2019

Khalid036


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  36
’’ہم جانتے تھے کہ ہمارا جادو تمہیں ایک بار پھر ہمارے پاس لے آئے گا۔‘‘ کاہن اس لڑکی سے کہہ رہا تھا۔ ’’آؤ … دروازے پر کھڑی کیا کر رہی ہو؟‘‘
لڑکی آہستہ آہستہ آگے بڑھی اور کاہن کے قریب جا رکی۔
’’جادو نہیں انتقام کہو۔‘‘لڑکی نے اپنی دھیمی آواز میں کہا۔اس میں قہر او رغضب چھپا ہواتھا۔ ’’مجھے انتقام کاجادو یہاں تک لے آیا ہے۔‘‘
’’کیا کہہ رہی ہو لڑکی؟‘‘ کاہن نے حیرت زدہ مسکراہٹ سے کہا۔ ’’تم مالک بن عوف سے انتقام لینا چاہتی ہو؟ وہ جاچکا ہے۔ وہ مجھے قتل کرنے آیا تھا۔ کیا کوئی انسان اتنی جرات کرسکتا ہے کہ لات کے کاہن کو قتل کر دے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ لڑکی نے کہا۔ ’’ایک انسان ہے جو لات کے کاہن کو قتل کر سکتا ہے۔ وہ لات کا پجاری نہیں، وہ میں ہوں۔ خدائے یہودہ کی پجارن۔‘‘
لڑکی نے پلک جھپکتے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور کاہن کے دل میں اتار دیا۔ اس کے ساتھ ہی لڑکی نے کاہن کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا کہ اس کی اونچی آواز نہ نکل سکے۔ لڑکی نے خنجر نکالا اور کاہن کی شہہ رگ کاٹ دی۔وہ بڑے اطمینان سے کاہن کے کمرے سے نکل آئی اور اس رستے جس رستے سے وہ آئی تھی عبادت گاہ کے احاطے سے نکل گئی۔
مالک بن عوف اپنی خواب گاہ میں سر جھکائے بیٹھا تھا ۔اس کی چہیتی بیوی اس کے پاس بیٹھی تھی۔ غلام نے اطلاع دی کہ ایک اجنبی جوان عورت آئی ہے جس کے کپڑے خون سے لال ہیں اور اس کے ہاتھ میں خون آلود خنجر ہے۔ مالک بن عوف جو نیم مردہ نظر آرہا تھا، اچھل پڑا اوربولا کہ اسے اندر لے آؤ۔ اس کی اور اس کی بیوی کی نظریں دروازے پر جم گئیں۔
وہ جوان عورت دروازے میں آن کھڑی ہوئی اور بولی۔ ’’جوکام تم نہیں کر سکے تھے وہ میں کر آئی ہوں۔ میں نے کاہن کو قتل کر دیا ہے۔‘‘
مالک بن عوف پر سناٹا طاری ہو گیا۔ اس کے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں نظر آنے لگیں۔ اس نے لپک کر تلوار اٹھائی اور نیام پرے پھینک کرلڑکی کی طرف بڑھا۔ اس کی بیوی راستے میں آگئی۔
’’اس لڑکی نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے۔‘‘ بیوی نے اسے کہا۔ ’’تمہیں جھوٹے سہارے اور جھوٹے اشارے دینے والا مر گیا ہے۔ اچھا ہوا ہے۔‘‘
’’تم نہیں جانتیں ہم پرکیا قہر نازل ہونے والا ہے۔‘‘ مالک بن عوف نے کہا۔
’’تم پر کوئی قہر نازل نہیں ہوگا۔‘‘ یہودی لڑکی نے کہا۔ ’’کیا کاہن نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ کاہن کو کوئی قتل نہیں کر سکتا اور کاہن کی جب عمر پوری ہو جاتی ہے تو وہ دیوتا لات کے وجود میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ اگر تم میں جرأت ہے تو لات کے مجاوروں سے کہو کہ اپنے کاہن کی لاش لات کے وجود میں تحلیل کر دیں۔ اس کی لاش کو باہر رکھ دو پھر دیکھو گدھ اور کتے کس طرح کھاتے ہیں ۔‘‘
مالک بن عوف کی بیوی نے مالک کے ہاتھ سے تلوار لے لی اور پلنگ پر پھینک دی۔
’’ہوش میں آ عوف کے بیٹے!‘‘ بیوی نے اسے کہا۔ ’’اپنی قسمت اس شخص کے ہاتھ میں نہ دے جو ایک لڑکی کے خنجر سے قتل ہو گیا ہے۔‘‘ اس نے غلام کو بلایا اور اسے کہا۔ ’’یہ لڑکی ہماری مہمان ہے۔ اس کے غسل اور آرام کا انتظام کرو۔‘‘
مالک بن عوف کے چہرے سے خوف کا تاثر دھلنے لگا، بیوی نے اس کے خیالوں میں انقلاب برپاکر دیا۔
صبح طلوع ہو رہی تھی۔ جب شکست اور غم کے مارے ہوئے مالک بن عوف کو دو اطلاعیں ملیں۔ ایک یہ کہ رات کو کاہن قتل ہو گیا ہے اور مجاوریہ کہہ رہے ہیں کہ رات مالک بن عوف کے سوا کاہن کے کمرے میں اور کوئی نہیں گیا تھا اور نہ رات کے وقت کسی کو وہاں تک جانے کی جرأت ہو سکتی ہے۔ مجاوروں نے یہ مشہورکر دیا تھا کہ کاہن کو مالک بن عوف نے خود قتل کیا ہے یا قتل کروایا ہے۔
مالک بن عوف کو دوسری خبر یہ ملی کہ مسلمان جو طائف کی طرف بڑھے چلے آرہے تھے ،معلوم نہیں کدھرچلے گئے ہیں۔ یہ خبر ایسی تھی جس نے مالک بن عوف کے حوصلے میں کچھ جان پیدا کر دی۔ اس نے تیز رفتار گھوڑوں پر دو تین قاصد اس راستے کی طر ف دوڑادیئے جو حنین سے طائف کی طرف آتا تھا۔ اس کے بعد وہ عبادت گاہ کی طرف چلا گیا۔ اس نے لوگوں کو بڑی مشکل سے یقین دلایاکہ وہ مقدس کاہن کو قتل کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ لوگ پوچھتے تھے کہ پھرقاتل کون ہے؟ مالک بن عوف نے کہا کہ وہ قاتل کا سراغ جلد ہی لگا لے گا۔ وہ یہودی لڑکی کو سامنے نہیں لانا چاہتا تھا۔ اس نے لوگوں کی توجہ ادھر سے ہٹا کر مسلمانوں کی طرف کر دی۔ جو طائف کو محاصرے میں لینے کیلئے بڑھے آ رہے تھے۔ وہ عبادت گاہ کے اندر چلا گیا۔ اس نے مجاوروں کے ساتھ کسی طرح معاملہ طے کر لیا۔
’’لات کے پجاریو!‘‘ ایک بوڑھے مجاور نے باہرآکر لوگوں کے ہراساں ہجوم سے کہا۔ ’’ہمارے مقدس کاہن کو کسی نے قتل نہیں کیا۔ وہ دیوتا لات کے وجود میں گھل مل گیا ہے۔ دیوتا لات کے حکم سے اب میں کاہن ہوں۔ جاؤ اپنی بستی کو اس دشمن سے بچاؤ جو بڑھا چلا آ رہا ہے۔‘‘
مالک بن عوف جب اپنے گھر پہنچا تو کچھ دیر بعد اس کے بھیجے ہوئے قاصد واپس آ گئے۔ انہوں نے اسے بتایا کہ ’’اس راستے پر جو طائف کی طرف آتا ہے اس پہ مسلمانوں کا نام و نشان بھی نہیں۔‘‘
مالک بن عوف نے اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھا اس نے اپنے قبیلے کے سرداروں سے کہا کہ ’’محمد (ﷺ) اپنے دشمن کو بخشنے والا نہیں ۔وہ کسی نہ کسی طرف سے جوابی وار ضرور کرے گا۔‘‘ اس نے اعلان کیا کہ شہر کے دفاعی انتظامات میں کوئی کمی نہ رہنے دی جائے۔
…………bnb…………

قاصدوں نے مالک بن عوف کو بالکل صحیح اطلاع دی تھی کہ طائف کے راستے پر مسلمانوں کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ لیکن مسلمان سیلاب کی طرح طائف کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے۔ انہوں نے رسولِ اکرمﷺ کے حکم سے راستہ بدل لیا تھا۔ بدلا ہوا راستہ بہت لمبا تھا لیکن رسولِ کریمﷺ نے اتنا لمبا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تھا کہ چھوٹا راستہ پہاڑیوں اور چٹانوں میں سے گزرتا تھا۔ کھڈ نالے بھی تھے۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنے سالاروں سے کہا تھا کہ حنین کے پہلے تجربے کو نہ بھولو، مالک بن عوف بڑا جنگجو ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ طائف تک کا تمام علاقہ گھات کیلئے موزوں ہے۔ مالک بن عوف ایسی ہی گھات لگا سکتا ہے جیسی گھات میں اس نے خالدؓ بن ولید کو تیروں سے چھلنی کر دیا تھا۔
رسولِ اکرمﷺ نے جو راستہ طائف تک پہنچنے کیلئے اختیار کیا تھا وہ وادی الملیح سے گزرتا تھااور وادی القرن میں داخل ہو جاتا تھا۔ آپﷺ اپنے لشکر کو وادی القرن میں سے گزارنے کی بجائے طائف کے شمال مغرب میں سات میل دور نکل گئے اور نخِب اور صاویرا کے علاقے میں داخل ہو گئے۔ یہ علاقہ نشیب و فراز کا تھا۔ اس میں پہاڑیاں اور چٹانیں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مجاہدین کا یہ لشکر 5 فروری 630ء (15 شوال 8 ہجری)کے روز طائف کے گردونواح میں اس سمت سے پہنچا جو طائف والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ مجاہدینِ اسلام کا کوچ بڑا ہی تیز تھا۔ ہراول میں بنو سلیم تھے جن کے کماندار خالدؓ بن ولید تھے۔ توقعات کے عین مطابق طائف تک دشمن کہیں بھی نظر نہ آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ (جیساکہ مؤرخین نے لکھا ہے)کہ مالک بن عوف اب کھلے میدان میں لڑنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔
حنین کے معرکے میں زیادہ تر نقصان بنو ہوازن کا ہوا تھا۔ قبیلہ ثقیف لڑا تھا لیکن جو ٹکر بنو ہوازن نے لی تھی وہ بنو ثقیف کو لینے کا موقع نہیں ملا تھا۔ پھر بھی ثقیف پسپا ہو آئے تھے۔ رسولِ کریمﷺ اس خطرے سے بے خبر نہیں تھے کہ اہلِ ثقیف تازہ دم ہیں اور وہ اپنے شہر کے دفاع میں لمبے عرصے تک لڑیں گے۔
معلوم نہیں یہ کس کی غلطی تھی کہ مسلمان شہر کی دیوار کے خطرناک حد تک قریب جا رکے۔ وہاں وہ پڑاؤ کرنا چاہتے تھے۔ اچانک اہلِ ثقیف دیواروں پر نمودار ہوئے اور انہوں نے مسلمانوں پر تیروں کا مینہ برسا دیا۔ بہت سے مسلمان زخمی اور بہت سے شہید ہو گئے۔ مسلمان پیچھے ہٹ آئے۔ رسولِ کریمﷺ نے ابو بکر صدیقؓ کو محاصرے کا کمانڈر مقرر کیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بڑی تیزی سے شہر کا محاصرہ مکمل کر لیا۔ انہوں نے ان راستوں پر زیادہ نفری کے دستے رکھے جن راستوں سے دشمن کا فرار ممکن تھا۔
شہر کا دفاع بڑا مضبوط تھا۔ قبیلۂ ثقیف پوری طرح تیار تھا۔ مسلمان تیر اندازی کے سوا اور کوئی کارروائی نہیں کر سکتے تھے۔ مجاہدین نے یہاں تک بے خوفی کے مظاہرے کیے کہ شہر کی دیوار کے قریب جا کر اہلِ ثقیف کے ان تیر اندازوں پر تیر پھینکے جو دیواروں پر تھے۔چونکہ وہ دیواروں پر تھے اور انہیں اوٹ بھی میسر تھی۔ اس لیے ان کے تیر مسلمانوں کا زیادہ نقصان کرتے تھے۔ مسلمان تیر اندازوں کے جَیش آگے بڑھتے اور پیچھے ہٹ آتے تھے۔ مسلمانوں کے زخمیوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ محاصرے کے کمانڈرابو بکر صدیقؓ کے اپنے بیٹے عبداﷲ ؓ بنو ثقیف کے تیروں سے شہید ہو گئے۔
پانچ دن اسی طرح گزر گئے ۔تاریخ ِ اسلام کی مشہور و معروف شخصیت سلمان فارسیؓ لشکر کے ساتھ تھے۔ جنگِ خندق میں مدینہ کے دفاع کیلئے جو خندق کھودی گئی تھی وہ سلمان فارسیؓ کی جنگی دانش کا کمال تھا۔ اس سے پہلے عرب خندق کے طریقۂ دفاع سے ناواقف تھے۔ اب سلمان فارسیؓ نے دیکھا کہ محاصرہ کامیاب نہیں ہو رہا تو انہوں نے شہر پر پتھر پھینکنے کیلئے ایک منجنیق تیار کروائی لیکن یہ کامیاب نہ ہو سکی۔
سلمان فارسیؓ نے ایک دبابہ تیار کروائی۔ یہ لکڑی یا چمڑے کی بہت بڑی ڈھال ہوتی تھی جسے چند آدمی پکڑ کر آگے آگے چلتے تھے۔ خود اس کی اوٹ میں رہتے تھے اور اس کی اوٹ میں بہت سے آدمی قلعے کے اندر چلے جاتے تھے۔ سلمان فارسیؓ نے جو دبابہ تیار کروائی وہ گائے کی کھال کی بنی ہوئی تھی۔ ایک جَیش اس دبابہ کی اوٹ میں شہر کے بڑے دروازے تک پہنچا، اوپر سے آنے والے تیروں کی تمام بوچھاڑیں دبابہ میں لگتی رہیں لیکن دبابہ جب اپنی اوٹ میں جَیش کو لے کر دروازے کے قریب پہنچی تو دشمن نے اوپر سے دہکتے ہوئے انگارے اور لوہے کے لال سرخ ٹکڑے دبابہ پر اتنے پھینکے کہ کھال کی دبابہ تیر روکنے کے قابل نہ رہی، کیونکہ یہ کئی جگہوں سے جل گئی تھی۔دبابہ چونکہ عربوں کیلئے ایک نئی چیز تھی جو پہلے ہی استعمال میں بے کار ہو گئی تھی۔ اس لیے وہ اسے وہیں پھینک کر پیچھے دوڑے۔اہلِ ثقیف نے ان کے اوپر تیر برسائے جس سے کئی ایک مجاہدین زخمی ہو گئے۔
دس دن اور گزر گئے۔ محاصرے اور دفاع کی صورت یہی رہی کہ مسلمان تیر برساتے ہوئے آگے بڑھتے تھے اور تیر کھا کر پیچھے ہٹ آتے تھے۔ بنو ثقیف پر ا س کا اثر یہ ہو اکہ ان پر مسلمانوں کی بے جگری اور بے خوفی کی دہشت طاری ہو گئی۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے کسی طرف سے باہر آکر مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کوشش نہ کی۔ آخر ایک روز رسول اﷲﷺ نے اپنے سالاروں کو اکھٹا کیااور بتایا کہ محاصرے کی کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ آپﷺ نے سالاروں سے مشورہ طلب کیا کہ کیا کیا جائے؟ حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت عمرؓنے کہا کہ محاصرہ اٹھالیا جائے اور مکہ کو کوچ کاحکم دیا جائے۔ خود رسولِ کریمﷺ محاصرہ اٹھانے کے حق میں تھے، جس کی وجہ یہ تھی کہ مکہ کے انتظامات آپﷺ کی توجہ کے محتاج تھے۔ مکہ چند ہی دن پہلے فتح کیاگیا تھا۔ خطرہ تھا کہ طائف کامحاصرہ طول پکڑ گیا تو مکہ میں دشمن کو سر اٹھا نے کا موقع مل جائے گا۔
23 فروری 630ء (4ذیقعد 8 ہجری) کے روز محاصرہ اٹھا لیا گیا۔ محاصرہ اٹھانے کا اثر اہلِ ثقیف پر کچھ اور ہونا چاہیے تھا لیکن ان پر اس قسم کا خوف طاری ہو گیاکہ مسلمان جو‘ اب جا رہے ہیں ،معلوم نہیں کہ کس وقت لوٹ آئیں اور شہر پر یلغار کرکے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔ خود مالک بن عوف کی سوچ میں انقلاب آ چکا تھا۔کاہن کی جھوٹی پیش گوئی اور معرکۂ حنین میں مسلمانوں کی ضرب کاری نے اسے اپنے عقیدوں پر نظر ثانی کیلئے مجبور کر دیا تھا۔
مسلمان 26 فروری کے روز جعرانہ کے مقام پر پہنچے جہاں رسول ِکریمﷺ نے مالِ غنیمت اکھٹا کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس مالِ غنیمت میں چھ ہزار عورتیں اور بچے تھے، اور ہزار ہا اونٹ اور بھیڑ بکریاں بھی تھیں۔ فوجی سازوسامان کا انبار تھا۔رسولِ کریمﷺ نے دشمن کی عورتوں، بچوں اور جانوروں کو اپنے لشکر میں تقسیم کر دیا۔
مجاہدین کا لشکر جُعرانہ سے ابھی چلا نہ تھا کہ قبیلہ ہوازن کے چند ایک سردار رسولِ کریمﷺ کے حضور پہنچے اور یہ اعلان کیا کہ ہوازن کے تمام تر قبیلے نے اسلام قبول کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان سرداروں نے رسولِ کریمﷺ سے درخواست کی کہ ان کا مالِ غنیمت انہیں واپس کر دیا جائے۔ رسولِ کریمﷺ نے ان سے پوچھا کہ انہیں مالِ غنیمت میں سے کون سی چیز سب سے زیادہ عزیز ہے؟ اہل وعیال یا اموال؟ سرداروں نے کہا کہ ان کی عورتیں اور بچے انہیں واپس کردیئے جائیں اور باقی مالِ غنیمت مسلمان اپنے پاس رکھ لیں۔
رسولِ کریمﷺ نے مجاہدین کے لشکر سے کہاکہ بنو ہوازن کو ان کی عورتیں اور بچے واپس کر دیئے جائیں۔ تمام لشکر نے عورتیں اور بچے واپس کر دیئے۔
بنو ہوازن کو توقع نہیں تھی کہ رسولِ کریمﷺ اس قدر فیاضی کا مظاہرہ کریں گے یا مجاہدین کا لشکر اپنے حصے میں آیا ہوا مالِ غنیمت واپس کر دیں گے۔مسلمانوں کی اس فیاضی کا اثر یہ ہواکہ قبیلۂ ہوازن نے اسلام کو دل و جان سے قبول کر لیا۔ ہوازن کے سردار اپنے اہل و عیال کواپنے ساتھ لے کر چلے گئے۔ مسلمانوں کی فیاضی کے اثرات طائف تک پہنچ گئے۔ مسلمان ابھی جُعرانہ میں ہی تھے کہ ایک روز مالک بن عوف مسلمانوں کی خیمہ گاہ میں آیا اور رسولِ کریمﷺ کے حضور پہنچ کر اسلام قبو ل کر لیا۔
دیوتا لات کی خدائی ہمیشہ کیلئے ختم ہو گئی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages