Featured Post

Khalid001

30 May 2019

Khalid037


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  37
اسلام اب اُس دور میں داخل ہو چکا تھا جب عرب کے ارد گرد کے ممالک اور ان سے بھی دور کے ممالک میں اسلام کے دشمن پیدا ہو گئے تھے۔ اسلام جس تیزی سے پھیل رہا تھا اس سے عالم کفر پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ مسلمان ایک عظیم جنگی طاقت بن گئے تھے لیکن اسلام کا فروغ اس جنگی طاقت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ اسلام میں ایسی کشش تھی کہ جو کوئی بھی اﷲ کا یہ پیغام سنتا تھا وہ اسلام قبول کرلیتا تھا۔
مسلمانوں نے اپنے جاسوس دوردور تک پھیلا رکھے تھے۔ 630ء میں جاسوسوں نے مدینہ آ کر رسولِ اکرمﷺ کو اطلاع دی کہ رومی شام میں فوج کا بہت بڑا اجتماع کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لینا چاہ رہے ہیں۔ اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ رومیوں نے اپنی فوج کے کچھ دستے اردن بھیج دیئے ہیں۔
اکتوبر 630ء بڑا ہی گرم مہینہ تھا۔ جھلسا دینے والی لُو ہر وقت چلتی رہتی تھی اور دن کے وقت دھوپ میں ذرا سی دیر ٹھہرنا بھی محال تھا۔ اس موسم میں رسولِ کریمﷺ نے حکم دیا کہ پیش تر اس کے کہ رومی ہم پر یلغار کریں ہم ان کے کوچ سے پہلے ہی ان کاراستہ روک لیں۔
رسولِ کریمﷺ کے اس حکم پر مدینہ کے اسلام دشمن عناصر حرکت میں آگئے۔ ان میں وہ مسلمان بھی شامل تھے جنہوں نے اسلام تو قبول کر لیا تھا لیکن اندر سے وہ کافر تھے۔ ان منافقین نے درپردہ ان مسلمانوں کو جو جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے تھے ورغلانہ اور ڈرانا شروع کر دیا کہ اس موسم میں انہوں نے کوچ کیا تو گرمی کی شدت اور پانی کی قلت سے وہ راستے میں ہی مر جائیں گے، ان مخالفانہ سرگرمیوں میں یہودی پیش پیش تھے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت نے رسولِ اکرمﷺ کے حکم پر لبیک کہی۔ رسولِ خدا ﷺ نے تیاریوں میں زیادہ وقت ضائع نہ کیا۔ اکتوبر کے آخر میں جو فوج رسولِ خداﷺ کی قیادت مین کوچ کیلئے تیار ہوئی اس کی تعداد تیس ہزار تھی۔ جس میں دس ہزار سوار شامل تھے۔ مجاہدین کے اس لشکر میں مدینہ کے علاوہ مکہ کے اور ان قبائل کے افراد بھی شامل تھے جنہوں نے سچے دل سے اسلام قبول کیا تھا۔ مجاہدین کا مقابلہ اس زمانے کے مشہور جنگجو بازنطینی شہنشاہ ہرقل کے ساتھ تھا۔
مجاہدین اسلام کا یہ عظیم لشکر اکتوبر 630ء کے آخری ہفتے میں رسولِ کریمﷺ کی قیادت میں شام کی طرف کوچ کر گیا۔ تمازتِ آفتاب کا یہ عالم جیسے زمین شعلے اگل رہی ہو۔ ریت اتنی گرم کہ گھوڑے اور اونٹوں کے پاؤں جلتے تھے۔ اس سال قحط کی کیفیت بھی پیدا ہو گئی تھی۔ اس لیے مجاہدین کے پاس خوراک کی کمی تھی۔ مجاہدین اس جھلسا دینے والی گرمی میں پانی نہیں پیتے تھے کہ معلوم نہیں آگے کتنی دور جا کر پانی ملے، تھوڑی ہی دور جا کر مجاہدین کے ہونٹ خشک ہو گئے اور ان کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔ لیکن ان کی زبان پر اﷲ کا نام تھا اور وہ ایسے عزم سے سرشار تھے جس کا اجر خدا کے سوا اور کوئی نہیں دے سکتا تھا۔ ایک لگن تھی ایک جذبہ تھا کہ مجاہدین زمین و آسمان کے اگلے ہوئے شعلوں کا منہ چڑاتے چلے جارہے تھے۔
تقریباً چودہ روز بعد یہ لشکر شام کی سرحدکے ساتھ تبوک کے مقام پر پہنچ گیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اچھے اور خوش گوار موسم میں مدینہ سے تبوک کا سفر چودہ دنوں کا تھا جسے اس وقت کے مسافروں کی زبان میں چودہ منزل کہا جاتا تھا۔ بعض مؤرخین نے چودہ منزل کو چودہ دن کہا ہے۔ تبوک میں ایک جاسوس نے اطلاع دی کہ رومیوں کے جو دستے اردن میں آئے تھے وہ اس وقت دمشق میں ہیں۔
…………bnb…………

رسولِ کریمﷺ نے لشکر کو تبوک میں خیمہ زن ہونے کا حکم دیا اور تمام سالاروں کو صلاح و مشورے کیلئے طلب کیا ۔سب کو یہی توقع تھی کہ تبوک سے کوچ کا حکم ملے گا اور دمشق میں یا دمشق سے کچھ ادھررومیوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ ہو گا۔ رسولِ کریمﷺ نے اپنے اصول کے مطابق سب سے مشورے طلب کیے۔ ہر سالار نے یہ ذہن میں رکھ کے کہ رومیوں سے جنگ ہو گی مشورے دیئے لیکن رسول ِکریمﷺ نے یہ کہہ کر سب کو حیرت میں ڈال دیا کہ تبوک سے آگے کوچ نہیں ہو گا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ رسولِ خداﷺ کے اس فیصلے میں کہ آگے نہیں بڑھا جائے گا بہت بڑی جنگی دانش تھی۔ آپﷺ نے مدینہ میں ہی کہہ دیا تھا کہ رومیوں کا راستہ روکا جائے گا۔ آپﷺ مستقر سے اتنی دور اور اتنی شدید گرمی میں لڑنا نہیں چاہتے تھے، اس کی بجائے آپﷺ ہرقل کو اشتعال دلا رہے تھے کہ وہ اپنی مستقر سے دور تبوک میں آ کر لڑے۔ مجاہدین لڑنے کیلئے گئے تھے ان کے دلوں میں کوئی وہم اور کوئی خوف نہیں تھا لیکن جنگ میں ایک خاص قسم کی عقل و دانش کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسولِ کریمﷺ نے عقل و دانش کو استعمال کیا اور مدینہ کی طرف رومیوں کا راستہ روکنے کا یہ اہتمام کیا کہ اس علاقے میں جو قبائل رومیوں کے زیرِ اثر تھے انہیں اپنے اثر میں لانے کی مہمات تیار کیں۔ ان میں چار مقامات خصوصی اہمیت کے حامل ہیں جہاں ان مہمات کو بھیجا جانا تھا ان میں ایک تو عقبہ تھا۔ جو اس دور میں ایلہ کہلاتا تھا۔ دوسرا مقام مقننہ تیسرا ازرُح اور چوتھا جربہ تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے ان تمام قبائل کے ساتھ جنگ کرنے کے بجائے دوستی کے معاہدے کی شرائط بھیجیں جن میں ایک یہ تھیں کہ ان قبائل کے جو لوگ اسلام قبول نہیں کریں گے انہیں ان کی مرضی کے خلاف جنگ میں نہیں لے جایا جائے گا۔ دوسری شرط یہ تھی کہ ان پر کوئی بھی حملہ کرے گا تو مسلمان ان کے دفاع کو اپنی ذمہ داری سمجھیں گے۔ اس کے بدلے میں اسلا می حکومت ان سے جذیہ وصول کرے گی۔
سب سے پہلے ایلہ کے فرمانرواں یوحنّا نے خود آ کر رسولِ کریمﷺ کی دوستی کی پیش کش قبول کی اور جزیہ کی باقاعدہ ادائیگی کی شرط بھی قبول کرلی۔ اس کے فوراً بعد دو اور طاقتور قبیلوں نے بھی مسلمانوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کر لیا۔ اور جزیہ کی شرط بھی مان لی۔
الجوف ایک مقام ہے جو اس دور میں دومۃ الجندل کہلاتا تھا۔ یہ بڑے ہی خوفناک صحرا میں واقع تھا، اس زمانے کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ اس مقام کے اردگرد ایسے ریتیلے ٹیلے اور نشیب تھے کہ انہیں ناقابلِ تسخیر سمجھا جاتا تھا۔ دومۃ الجندل کا حکمران اُکیدر بن مالک تھا۔ چونکہ اس کی بادشاہی انتہائی دشوار گزار علاقے میں تھی اس لیے وہ اپنے علاقے کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا۔ رسولِ کریمﷺ نے جو وفد اُکیدر بن مالک کے پاس بھیجا تھا وہ یہ جواب لے کر آیاکہ اُکیدر نے نہ دوستی قبو ل کی ہے نہ وہ جزیہ دینے پا آمادہ ہوا ہے۔ بلکہ اس نے اعلانیہ کہا ہے کہ مسلمانوں کو وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے اور وہ اسلام کی بیخ کنی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گا۔
رسولِ کریمﷺ نے خالد ؓ بن ولید کو بلایا اور انہیں کہاکہ وہ چار سو سوار اپنے ساتھ لیں اور اُکیدر بن مالک کو زندہ پکڑ لائیں۔
…………bnb…………

اُکیدر بن مالک اپنے دربار میں اونچی مسند پر بیٹھا تھا ۔اس کے پیچھے دو نیم برہنہ لڑکیاں کھڑی مور چھل ہلا رہی تھیں۔ اُکیدر بن مالک کے چہرے پر وہی رعونت تھی جو روایتی بادشاہوں کے چہروں پر ہوا کرتی ہیں۔ ’’اے ابنِ مالک!‘‘ اس کے بوڑھے وزیر نے جو اس کی فوج کاسالار بھی تھا اٹھ کر کہا۔ ’’تیری بادشاہی کو کبھی زوال نہ آئے۔ کیا تجھے پتا نہیں چلا کہ ایلہ، جربہ ازرُح اور مقننہ کے قبیلوں نے مدینہ کے مسلمانوں کی دوستی قبول کرلی ہے، آج دوستی قبول کی ہے تو کل قبیلۂ قریش کے محمد (ﷺ) کے مذہب کو بھی قبول کر لیں گے۔‘‘
’’کیا ہمارا بزرگ وزیر ہمیں یہ مشورہ دینا چاہتا ہے کہ ہم بھی مسلمانوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیں ؟‘‘اُکیدر بن مالک نے کہا۔’’ہم ایساکوئی مشورہ قبول نہیں کریں گے۔‘‘
’’نہیں ابن ِمالک!‘‘ بوڑھے وزیر نے کہا۔ ’’میری عمر نے جو مجھے دکھایا ہے وہ تو نے ابھی نہیں دیکھا ہے۔ میں مانتاہوں کہ تو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تو اپنے دشمن کو اتنا حقیر سمجھ رہا ہے کہ تو یہ بھی نہیں سوچ رہا کہ مسلمانوں نے حملہ کر دیا تو ہم تمہاری بادشاہی کو کس طرح بچائیں گے؟‘‘
’’ صلیبِ مقدس کی قسم!‘‘ اُکیدر بن مالک نے کہا ۔’’ہمارے اردگرد کا جو علاقہ ہے وہ ہماری بادشاہی کو بچائے گا ۔میرے اس خوفناک صحرا کی ریت مسلمانوں کا خون چوس لے گی۔ ریت اور مٹی کے جو ٹیلے دومۃ الجندل کے اردگرد کھڑے ہیں یہ خدا نے میرے سنتری کھڑے کررکھے ہیں۔ ہم پر کوئی فتح نہیں پا سکتا ۔‘‘
اس وقت خالدؓ بن ولید اپنے چارسو سواروں کے ساتھ آدھا راستہ طے کر چکے تھے۔ اگلے روز وہ اس صحرا میں داخل ہو گئے جسے مؤرخوں نے بھی ناقابلِ تسخیر لکھا ہے۔ مجاہدین کے چہرے ریت کی مانند خشک ہو گئے تھے۔ گھوڑوں کی چال بتا رہی تھی کہ یہ مسافت اور پیاس ان کی برداشت سے باہر ہوئی جا رہی ہے۔ لیکن خالدؓ بن ولید کی قیادت مجاہدین کے دلوں میں نئی روح پھونک رہی تھی۔ دومۃ الجندل اچھا خاصہ شہر تھا۔ اس کے ارد گرد دیوار تھی۔ خالد ؓ بن ولید اس کے قریب پہنچ گئے اور اپنے سواروں کو ایک وسیع نشیب میں چھپا دیا، مجاہدین کی جسمانی کیفیت ایسی تھی کہ انہیں کم از کم ایک دن اور ایک رات آرام کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن خالدؓ نے اپنے سواروں کو تیاری کی حالت میں رکھا۔
سورج غروب ہو گیا پھر رات گہری ہونے لگی۔ چاند پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ صحرا کی چاندنی بڑی شفاف ہو گئی۔ خالدؓ بن ولید اپنے ایک آدمی کو ساتھ لے کر شہر کی دیوار کی طرف چل پڑے۔ وہ جائزہ لینا چاہتے تھے کہ شہر کا محاصرہ کیا جائے جس کیلئے چار سو سوار کافی نہیں تھے۔زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا تھا کہ شہر کی ناکہ بندی کر دی جائے۔ دوسری صورت یلغار کی تھی۔
خالدؓ دیوار کے دروازے سے خاصہ پیچھے ایک اوٹ میں بیٹھ گئے ۔چاندنی اتنی صاف تھی کہ دیوار کے اوپر سے خالد ؓ نظر آ سکتے تھے۔
شہرکابڑا دروازہ کھلا۔ خالدؓ سمجھے کہ اُکیدر فوج لے کر باہرآ رہا ہے اور وہ ان پر حملہ کرے گا لیکن اکیدر کے پیچھے پیچھے چند سوار باہر نکلے اور دروازہ بند ہو گیا۔ خالد کو یاد آیا کہ تبوک سے روانگی کے وقت رسولِ کریمﷺ نے انہیں کہا تھا اکیدر تمہیں شاید شکار کھیلتا ہوا ملے گا۔
اُکیدر بن مالک کے متعلق مشہور تھا کہ وہ جیسے شکار کھیلنے کیلئے ہی پیدا ہوا تھا۔ صحرا میں شکار رات کو ملتا تھا کیونکہ دن کے وقت جانور دبکے چھپے رہتے تھے۔ پورے چاند کی رات بڑے شکار کیلئے موزوں سمجھی جاتی تھی۔ یہ رسولِ اکرمﷺ کی انٹیلی جنس کا کمال تھا کہ آپﷺ نے دشمن کی عادات کو اورخصلتوں کابھی پتا چلا لیا تھا اور آپﷺ نے خالدؓ کو اکیدر کے متعلق پوری معلومات دے دی تھیں ۔
خالدؓ نے جب دیکھا کہ اکیدر بن مالک چند ایک سواروں کے ساتھ باہر آیا ہے تو انہوں نے اس کے انداز کا پوری طرح جائزہ لیا۔ خالد ؓسمجھ گئے کہ اکیدر کو معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ چار سو مسلمان سوار اس کے شہر کے قریب پہنچ گئے ہیں اور وہ شکار کھیلنے جا رہا ہے۔ خالدؓ اپنے آدمی کے ساتھ رینگتے سرکتے پیچھے آئے۔ جب اکیدر اپنے سواروں کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہو گیا تو خالدؓ دوڑ کر اپنے سواروں تک پہنچ گئے۔ انہوں نے کچھ سوار منتخب کیے اپنے تمام سواروں کو انہوں نے تیاری کی حالت میں رکھا ہوا تھا۔ وہ سواروں کے ایک جیش کو اپنی قیادت میں اس طرف لے گئے جدھر اکیدر گیا تھا۔ خالد ؓنے یہ خیال رکھا کہ اکیدر شہر سے اتنا آگے چلا جائے کہ جب اس پر حملہ ہوتو شہر تک اس کی آواز بھی نہ پہنچ سکے۔
رات کے سنّاٹے میں اتنے زیادہ گھوڑوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا تھا۔ اکیدر اور اس کے ساتھیوں کو پتا چل گیا تھا کہ ان کے پیچھے گھوڑ سوار آ رہے ہیں ۔اکیدر کا بھائی حسان بھی اس کے ساتھ تھا۔اس نے کہا کہ وہ جا کہ دیکھتا ہے کہ یہ کون ہیں ۔اس نے اپنا گھوڑا پیچھے کو موڑا ہی تھا کہ خالد ؓنے اپنے سواروں کو ہلّہ بولنے کا حکم دے دیا۔ اکیدر کو خالدؓ اور ان کے سواروں کی للکار سے پتا چلا کہ یہ مسلمان ہیں ۔حسان نے برچھی سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن مارا گیا۔
اُکیدر اپنے سواروں سے ذر االگ تھا۔ خالدؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اوررخ اکیدر کی طرف کر لیا۔ اکیدر ایسابوکھلایا کہ خالدؓ پر وار کرنے کے بجائے اس نے راستے سے ہٹنے کی کوشش کی۔ خالدؓ نے اس پر کسی ہتھیار سے وار نہ کیانہ گھوڑے کی رفتار کم کی۔ انہوں نے گھوڑا اکیدر کے گھوڑے کے قریب سے گزارااور بازو اکیدر کی کمر میں ڈال کر اسے اس کے گھوڑے سے اٹھا کر اپنے ساتھ ہی لے گئے۔
اکیدر بن مالک کے شکاری ساتھیوں اور محافظوں نے دیکھا کہ ان کا فرمانرواں پکڑا گیا اور اس کا بھائی مارا گیا ہے تو انہوں نے خالد ؓکے سواروں کا مقابلہ کرنے کے بجائے بھاگ نکلنے کا راستہ دیکھا۔وہ زمین ایسی تھی کہ چھپ کرنکل جانے کیلئے نشیب کھڈ اور ٹیلے بہت تھے۔ان میں سے کچھ زخمی ہوئے لیکن نکل گئے۔شہر میں داخل ہو کر انہوں نے دروازہ بند کر لیا۔
…………bnb…………

خالدؓ بن ولید نے اکیدر کو پکڑے رکھا اور کچھ دور جا کر گھوڑا روکا ۔اکیدر سے کہا کہ اس کے بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نہیں۔انہوں نے اسے گھوڑے سے اتارا اور خود بھی اترے۔
’’کیا تم اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے؟‘‘ خالدؓنے پوچھا۔
’’ہاں!میںاپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا۔‘‘ اکیدر بن مالک نے کہا۔ ’’لیکن تو نے مجھے اپنا نام نہیں بتایا۔‘‘
’’خالد۔‘‘ خالد نے جواب دیا۔ ’’خالد بن ولید!‘‘
’’ہاں!‘‘ اکیدر نے کہا  ۔’’میں نے یہ نام سنا ہے … یہاں تک خالد ہی پہنچ سکتا تھا۔‘‘
’’نہیں اکیدر!‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’یہاں تک ہر وہ انسان پہنچ سکتا ہے جس کے دل میں اﷲ کا نام ہے اوروہ محمدﷺ کو اﷲ کا رسول مانتا ہے۔‘‘
’’میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟‘‘ اکیدر نے پوچھا۔
’’تیرے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو گا جو تو نے ہمارے رسولﷺ کے ایلچی کے ساتھ کیا تھا۔‘‘ خالد ؓنے کہا۔ ’’ہم سے اچھے سلوک کی توقع رکھ ابنِ مالک! اگر ہم رومی ہوتے اور ہرقل کے بھیجے ہوئے ہوتے تو ہم کہتے کہ اپنا خزانہ اور اپنے شہر کی بہت ہی خوبصورت لڑکیاں اور شراب کے مٹکے ہمارے حوالے کر دے۔ پہلے ہم عیش و عشرت کرتے پھر ہرقل کے حکم کی تعمیل کرتے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ اکیدر نے کہا۔ ’’رومی ہوتے تو ایسا ہی کرتے اور وہ ایسا کر رہے ہیں۔ وہ کون سا تحفہ ہے جو میں ہرقل کو نہیں بھیجتا۔ ولید کے بیٹے! مجھ پر لازم ہے کہ رومیوں کو خوش رکھوں۔‘‘
’’کہاں ہیں رومی؟‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’کیا تو انہیں مدد کیلئے بلا سکتا ہے؟ ہم تیری مدد کو آئیں گے۔ میں تجھے قیدی بنا کر نہیں معزز مہمان بنا کر اﷲ کے رسولﷺ کے پاس لے جا رہا ہوں۔ تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ جبر نہیں ہوگا۔ ہم دشمنی کا نہیں دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔ ہمارے رسولﷺ کے سامنے جاکر تجھے تاسف ہو گا کہ جس کا تو دشمن رہا ہے وہ تو دوستی کے قابل ہے۔‘‘
اکیدر بن مالک کی جیسے زبان گنگ ہو گئی ہو۔ اس نے کچھ بھی نہ کہا۔ اس کا گھوڑا وہیں کہیں آوارہ پھر رہا تھا۔ خالدؓ نے اپنے سواروں سے کہا کہ اکیدر کے گھوڑے کو پکڑ لائیں۔ سوار گھوڑے کو پکڑ لائے۔ خالدؓ نے اکیدر کو گھوڑے پر سوار کیا اور تبوک واپسی کا حکم دے دیا۔
تبوک پہنچ کر خالدؓ نے اکیدر بن مالک کو رسولِ خداﷺ کے حضورپیش کیا۔ آپﷺ نے اس کے آگے اپنی شرطیں رکھیں لیکن ایسی شرط کا اشارہ تک نہ کیا کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ اس کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کیا گیا۔ اس پر کوئی خوف طاری نہ کیا گیا۔ اسے یہی ایک شرط بہت اچھی لگی کہ مسلمان اس کی حفاظت کریں گے۔ اس نے جزیہ دینے کی شرط مان لی اور دوستی کا معاہدہ کر لیا۔
’’بے شک صرف مسلمان ہیں جو میری مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ معاہدہ کر کے اس نے کہا تھا۔
جب اکیدر بن مالک نے بھی دوستی کا معاہدہ کرکے مسلمانوں کو جزیہ دینا قبول کر لیا تو کئی اور چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے سردار تبوک میں رسولِ کریمﷺکے پاس آگئے اور اطاعت قبول کرلی۔ اس طرح دور دور تک کے علاقے مسلمانوں کے زیرِ اثر آ گئے۔ اور تمام قبائلی مسلمانوں کے اتحادی بن گئے۔ ان میں متعددقبائل نے اسلام قبول کر لیا۔
اب رومیوں سے جنگ کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ ان کی پیش قدمی کا رستہ رک گیا تھا بلکہ ہرقل کیلئے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ وہ مسلمانوں سے ٹکر لینے کو آگے بڑھا تو راستے کے تمام قبائل اسے اپنے علاقے میں ہی ختم کردیں گے۔
رسولِ اکرمﷺ نے مجاہدین کے لشکر کو مدینہ کو واپسی کا حکم دے دیا۔
یہ لشکر دسمبر 630ء میں مدینہ پہنچ گیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages