Featured Post

Khalid001

01 June 2019

Khalid048


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  48
مسیلمہ کے لئے مجاعہ کی گرفتاری کوئی معمولی نقصان نہیں تھا۔لیکن وادیٔ حنیفہ وہ پھندا تھا جو اس نقصان کو پورا کر سکتا تھا۔اس کے علاوہ مسیلمہ کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تھی اور مسلمانوں کی تعداد تیرہ ہزارتھی۔مسیلمہ کے پاس گھوڑ سواراور شتر سوار دستے زیادہ تھے۔بعض مؤرخوں نے مسیلمہ کے لشکر کی تعداد تیس ہزار لکھی ہے ۔بہر حال تعداد چالیس ہزار سے زیادہ تھی ،کم نہ تھی۔خالدؓ کی ایک کمزوری تو یہ تھی کہ لشکر کی تعداد خطرناک حد تک کم تھی ،دوسری کمزوری یہ کہ وہ اپنے مستقر سے بہت دور تھے جہاں کمک اور رسد کا پہنچنا ممکن نہیں تھا۔انہیں صرف ایک سہولت حاصل تھی۔اس علاقے میں پانی اور جانوروں کیلئے ہرے چارے کی کمی نہیں تھی۔وہ زرخیز کھیتوں اور باغوں کا علاقہ تھا۔
مسیلمہ کو ہرے بھرے کھیتوں اور باغوں کا غم کھا رہا تھا۔اس نے نہارالرجال سے کہا کہ وہ ایسے انداز سے لڑنا چاہتا ہے کہ مدینہ کا لشکر بستیوں کو ،کھیتوں کو اور باغوں کو نہ اجاڑ سکے۔تاریخوں میں لکھا ہے کہ مسیلمہ کسی قسم کے تذبذب ،اضطراب یا پریشانی میں مبتلا نہ تھا۔وہ اس طرح سے بات کرتا تھا جیسے اسے اپنی فتح کا یقین ہو۔وہ بڑی موزوں بنیادوں پر کھڑابات کر رہا تھا۔اس کا چالیس ہزار کا لشکر برتر بھی تھا اور یہ سب مسیلمہ کے نام پر جانیں قربان کرنے والے لوگ تھے۔مسیلمہ کی نبوت کا تحفظ ان سب کیلئے جنون بن چکا تھا۔
خالدؓ پھندے میں آنے والے سالار نہیں تھے۔مُوتہ میں وہ پھندے میں آ چکے تھے۔یمامہ کے علاقوں سے وہ واقف نہیں تھے۔انہوں نے دیکھ بھال اور آگے کی زمین کا جائزہ لینے کیلئے ایک پارٹی بھیج دی تھی۔رات کو اس پارٹی نے جو رپورٹ دی ،اس کے مطابق خالدؓ نے اپنا رستہ بدل دیا تاکہ حنیفہ کی وادی کے اندر سے نہ گزرنا پڑے۔ وہ ذرا دور کاچکر کاٹ کر آگے نکل گئے۔
مسیلمہ نے بھی دیکھ بھال کا انتظام کر رکھا تھا۔اسے اطلاع ملی کہ مدینہ والے آگے نکل گئے ہیں تو اس نے اپنا لشکر بڑی تیزی سے عقربا کے میدان میں منتقل کر دیا۔خالدؓ کی نظر اسی میدان پر تھی لیکن دشمن پہلے پہنچ گیا تھا۔خالدؓ نے ایک جگہ دیکھ لی جو میدان سے بلند تھی ،انہوں نے وہیں اپنا لشکر روک لیا۔وہاں سے وہ مسیلمہ کے پڑاؤ کو اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔
مسیلمہ نے اسی میدان کو بہتر اور موزوں سمجھاتھا۔ایک تو اس نے اپنے لشکر کا تمام تر سازوسامان اور مال و اسباب اپنی خیمہ گاہ سے پیچھے رکھا تھا۔دوسرے یہ کہ کھیتیاں اور باغات بھی لشکر کے پیچھے تھے۔ان سب کی وہ بڑی اچھی طرح سے حفاظت کر سکتاتھا۔اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ خالدؓ یہاں سے آگے یمامہ کو بڑھے تو وہ ان پر عقب سے حملہ کر دے گا۔ خالدؓ بھی اس صورت کو بھانپ چکے تھے کہ وہ یہاں سے آگے بڑھے تو مارے جائیں گے۔
مسیلمہ نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔اس نے دائیں حصے کی قیادت نہارالرجال کو دی۔بائیں حصے کا سالار محکم بن طفیل تھا اور درمیان میں یعنی قلب میں وہ خود رہا۔اس نے اپنے بیٹے کو جس نام شرجیل تھا کہا کہ وہ لشکر سے خطاب کرے۔ایک شرجیل بن حسنہ خالدؓ کے لشکر کا سالار تھا۔مسیلمہ کے بیٹے کا نام بھی شرحبیل تھا۔ شرحبیل گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے لشکر کے تینوں حصوں کے سامنے باری باری جاکر کہا۔
’’اے بنو حنیفہ!آج اپنی آن اور اپنی آبرو پر مر مٹنے کا وقت آگیا ہے۔خدا نے تمہارے نبی کو نبوت دی ہے۔آج اپنی نبوت اور آبرو کی خاطر اس طرح لڑو کہ مسلمانوں کو پھر کبھی تمہارے سامنے آنے کی جرات نہ ہو۔اگر تم نے پیٹھ دکھائی تو دشمن تمہاری بیویوں ،تمہاری بہنوں اور تمہاری بیٹیوں کو لونڈیاں بنا لے گااور اس زمین پر ہی جو تمہاری زمین ہے ،ان کی آبرو لوٹے گا۔کیا تم یہ منظر برداشت کرلو گے؟‘‘
مسیلمہ کے لشکرکو جیسے آگ لگ گئی ہو۔وہ مسیلمہ کے نام کے نعرے لگانے لگے ۔گھوڑے کھر مارمارکر ہنہنانے لگے۔خالدؓ اس صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار تھے کہ مسیلمہ کا لشکر ان پر فوراً حملہ کر دے گا۔نفری کی افراط کے زور پر مسیلمہ کو حملہ کر دیناچاہیے تھا لیکن مؤرخ لکھتے ہیں کہ وہ جنگ کے فن میں مہارت رکھتا تھا۔اس نے حملے میں پہل نہ کی۔اس کا خیال تھا کہ پہلے خالدؓ حملہ کرے اور دفاع میں لڑا جائے اور جب مسلمان تھک جائیں تو دائیں بائیں سے حملے کرکے انہیں ختم کر دیا جائے۔
اس دور کی تحریریں بتاتی ہیں کہ خالدؓ مسیلمہ کی چال نہ سمجھ سکے۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ مرتدین سے آمنے سامنے کی جنگ اس طرح لڑی جائے کہ اسے اپنے دستوں کو اِدھر ُادھرکرنے کی مہلت نہ ملے اور وہ دفاعی لڑائی لڑتا رہے۔خالدؓ کو توقع تھی کہ تیرہ ہزار سے چالیس ہزار کو اسی طریقے سے شکست دی جا سکتی ہے کہ اسے کوئی چال چلنے کا موقع نہ دیا جائے۔
اس وقت کے رواج کے مطابق خالدؓ کو بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ اپنے لشکر کا حوصلہ بڑھائیں ۔خلیفۃ المسلمین ؓ نے خالدؓ کی مددکیلئے جو دستے بھیجے تھے ان میں قرآن کے حافظ اور خوش الحان قاری بھی خاصی تعداد میں تھے۔اس دور کے حافظِ قرآن اور قاری ماہر تیغ زن اورلڑنے والے بھی ہوتے تھے۔وہ مسجدوں میں بیٹھے رہنے والے لوگ نہیں تھے۔
 اس کے علاوہ خالدؓ کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ہر میدان میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن کو شکستیں دی تھیں۔خالدؓ کے لشکر میں عمرؓ کے بھائی زیدؓ بن الخطاب اور ان کے بیٹے عبداﷲؓ بھی تھے۔اسکے علاوہ ابو دجانہؓ بھی تھے جو جنگِ احد میں ان تیروں کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے جو رسولِ کریمﷺ پر آ رہے تھے۔انہوں نے اپنے جسم کو آپﷺ کی ڈھال بنا دیا تھا۔خلیفۃ المسلمین ؓ کے بیٹے عبدالرحمٰنؓبھی تھے اور ایک خاتون اُمّ ِ عمارہؓ اپنے بیٹے کے ساتھ گئی تھیں ۔اُمّ ِ عمارہؓ جنگِ احد میں باقاعدہ لڑی تھیں۔
ان کے علاوہ وحشی نام کا حبشیؓ بھی خالدؓ کے ساتھ تھا۔جس کی پھینکی ہوئی برچھی نشانے سے بال برابر ادھر ادھر نہیں ہوتی تھی۔قبولِ اسلام سے پہلے جنگِ احد میں اسی وحشی ؓنے حمزہ ؓ کو برچھی پھینک کر شہید کیا تھا۔
مجاہدین کالشکر تعداد میں تو کم تھا لیکن جوشِ جہاد اور جذبے کے لحاظ سے کمتر نہ تھا۔ خالدؓ نے خود بھی اپنے لشکر کا حوصلہ بڑھایا اور قرآن کے حافظوں اور قاریوں سے کہاکہ وہ مجاہدینِ مدینہ کو آیاتِ قرآنی سناکر بتائیں کہ وہ گھروں سے اتنی دور کس مقصد کیلئے لڑنے آئے ہیں۔
قاری اپنی پر اثر آوازوں میں لشکر کو وہ آیات سنانے لگے جن میں مسلمانوں کیلئے جہاد فرض قرار دیا گیا ہے ۔یہ سلسلہ رات بھر چلتا رہا ۔اﷲکے سوا اور کون تھا جو ان قلیل تعداد مجاہدین،اسلام کی مدد کرتا۔مؤرخین کے مطابق مجاہدین کے اس لشکر نے تمام رات عبادت اور دعاؤں میں گزار دی۔
…………bnb…………

دسمبر 632ء کے تیسرے ہفتے کی ایک صبح طلوع ہوئی تو خالدؓ نے مسیلمہ کے لشکر پر حملے کا حکم دے دیا۔خالدؓ نے بھی اپنے لشکرکو تین حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔قلب کی قیادت انہوں نے اپنے پاس رکھی تھی ،ایک طرف ابو حذیفہؓ اور دوسری طرف زیدؓ بن خطاب تھے۔مسلمان جس قہروغضب سے حملہ آور ہوئے اور جس بے جگری سے لڑے وہ دیکھ کر خالدؓ کو امید بندھ گئی کہ وہ مرتدین کے لشکر کو اکھاڑ پھینکیں گے ۔خود خالدؓ سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے۔لیکن خاصا وقت گزر جانے کے بعد بھی مسیلمہ کا لشکر جہاں تھا وہیں رہا۔ بہت سے مجاہدین پہلے ہلّے میں ہی شہید ہو گئے۔
دن گزرتا جا رہا تھا۔میدانِ جنگ کا قہر بڑھتا جا رہا تھا۔ایک شور تھا،چیخ و پکار تھی ،کربناک آہ و بکا تھی جو زمین و آسمان کوہلا رہی تھی ۔مسیلمہ کا لشکر گھوم پھر کر لڑ رہاتھا۔اس کی کوشش یہ تھی کہ مسلمانوں کو گھیرے میں لے لے اور مسلمانوں کا عزم یہ تھا کہ مرتدین کے اس لشکر کے قدم اکھاڑنے ہیں اور یمامہ پر قبضہ کرنا ہے۔دونوں لشکر اپنی اپنی کوششوں میں ناکام ہو رہے تھے۔اگر کامیاب تھا تو وہ مسیلمہ کالشکر تھا۔
مسیلمہ بہت چالاک اور ہوشیار جنگی قائد تھا۔وہ جائزہ لیتا رہا کہ مسلمان کب تھک کر چور ہوتے ہیں ،آدھا دن گزر گیا۔زمین خون سے لال ہوتی جا رہی تھی ۔زخمی انسان بھاگتے دوڑتے گھوڑوں تلے کچلے جا رہے تھے ۔مسلمان اس قدر بے جگری سے لڑنے کی وجہ سے کچھ جلدی تھک گئے۔مسیلمہ نے بھانپ لیا۔اس نے اپنے لشکر کے ایک تازہ دم حصے کو مسلمانوں پر حملے کا حکم دے دیا۔اس کے لشکر کا یہ حصہ طوفانی موج کی طرح آیا۔مسیلمہ نے سب کو یقین دِلارکھا تھا کہ جو اس کی نبوت کی خاطر لڑتا ہوامرے گا وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔
خالدؓ نے تھوڑی ہی دیر بعد محسوس کرلیا کہ اس کے لشکر پر دباؤ بہت تیز ہو گیا ہے۔خالدؓ کوئی چال سوچ ہی رہے تھے کہ مسلمانوں نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا۔آگے والے دستے تیزی سے پیچھے ہٹے۔پیچھے والے ان سے زیادہ تیزی سے پسپا ہوئے۔سالاروں نے بہت شور مچایا۔ لشکر کو پکارا۔نعرے لگائے لیکن مرتدین کا دباؤ ایسے قہر کی صورت اختیار کر گیا تھاجسے مسلمان برداشت نہ کر سکے اور ان میں بد نظمی پھیل گئی۔دیکھا دیکھی مسلمان ایسی بری طرح پسپا ہوئے کہ اپنی خیمہ گاہ میں بھی نہ رکے اور دور پیچھے چلے گئے۔
مسیلمہ کے لشکر نے ان کا تعاقب کیا۔احد کے میدان میں بھی مسلمانوں نے اپنے لئے ایسی ہی صورتِ حال پیداکر لی تھی اور ہزیمت اٹھائی تھی۔یہ ان کی دوسری پسپائی تھی جو بھگدڑ کی صورت اختیار کر گئی تھی۔
…………bnb…………

مسیلمہ کا لشکر جب مسلمانوں کی خیمہ گاہ تک پہنچا تو اس نے وہاں لوٹ مار شروع کرد ی۔وہاں انہیں روکنے والا کوئی نہ تھا۔خالدؓ اور ان کے سالار دوڑ دوڑ کر اپنے لشکر کو روکنے کیلئے چیخ چلا رہے تھے لیکن مسلمان اپنی خیمہ گاہ سے خاصی دور جا کر رکے۔مسیلمہ کے کچھ آدمیوں کو خالدؓ کا خیمہ مل گیا۔ وہ اس میں جا گھسے۔وہاں انہیں زیادہ مال و دولت ملنے کی توقع تھی لیکن اس خیمے میں انہیں دو اتنے قیمتی انسان مل گئے جن کی انہیں توقع نہیں تھی۔ ایک تو ان کا اپنا سردار اور سالار مجاعہ تھا جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھااور اس کے ساتھ خالدؓ کی نئی بیوی لیلیٰ ام تمیم تھی جس کے حسن کے چرچے انہوں نے سن رکھے تھے لیکن اسے دیکھا کبھی نہیں تھا۔مجاعہ کو تو انہوں نے پہچان لیا۔لیلیٰ کے متعلق انہیں مجاعہ نے بتایا کہ یہ کون ہے۔بیک وقت دو تین آدمی لیلیٰ کی طرف لپکے۔وہ اسے قتل کرنا یا اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔
’’رک جاؤ۔‘‘ ان کے قیدی سردار مجاعہ نے حکم دیا۔’’دشمن کے آدمیوں کے پیچھے جاؤ۔ابھی عورتوں کے پیچھے پڑنے کا وقت نہیں ۔میں اب اس کا نہیں یہ میری قیدی ہے۔‘‘
ان کے سردار کا حکم اتنا سخت تھا کہ وہ بڑی تیزی سے خیمے سے نکل گئے ۔انہیں اتنا بھی ہوش نہ رہا کہ اپنے سردار کی بیڑیاں ہی توڑ جاتے۔
’’تم نے مجھے ان آدمیوں سے کیوں بچایا ہے؟‘‘لیلیٰ نے مجاعہ سے پوچھا۔’’کیا تم مجھے اپنا مالِ غنیمت سمجھتے ہو؟اگر تمہاری نیت یہی ہے تو کیا تمہیں یہ احساس نہیں کہ میں تمہیں قتل کر سکتی ہوں۔‘‘
’’تم نے میرے ساتھ جو اچھا سلوک قید کے دوران کیا ہے میں اس کے صلے میں اپنی جان دے سکتا ہوں۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’خدا کی قسم! میری بیڑیاں ٹوٹ کر تمہارے پاؤں میں پڑ جائیں تو بھی میں تمہیں مالِ غنیمت یا لونڈی نہیں سمجھوں گا۔تم نے مجھے قیدی نہیں مہمان بنا کر رکھا ہے۔‘‘
’’میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’یہ مسلمانوں کی روایت ہے کہ دشمن ان کے گھر چلا جائے تو وہ اسے معزز مہمان سمجھتے ہیں۔اگر تم میرے گھر میں ہوتے تو میں تمہیں اور زیادہ آرام پہنچا سکتی تھی۔‘‘
’’لیلیٰ!‘‘مجاعہ نے کہا۔’’کیا تجھے ابھی احساس نہیں ہوا کہ تمہاراخاوند شکست کھا کر بھاگ گیا ہے اور تم میرے قبضے میں ہو؟‘‘
’’فتح اور شکست کا فیصلہ خدا کرے گا۔‘‘لیلیٰ نے جواب دیا۔’’میرا خاوند اس سے زیادہ سخت چوٹیں برداشت کر سکتا ہے۔‘
’’کم فہم خاتون!‘‘ مجاعہ نے فاتحانہ مسکراہٹ سے کہا۔’’کیا تجھے ابھی تک احساس نہیں ہوا کہخدا مسیلمہ کے ساتھ ہے جو اس کا سچا نبی ہے؟محمد )ﷺ(کی رسالت سچی ہوتی…‘‘
’’مجاعہ!‘‘لیلیٰ نے گرج کر اس کی بات وہیں ختم کر دی اور بولی۔’’اگر تو نے محمدﷺکی رسالت کے خلاف کوئی بات کی تو مجھ پر تیرا قتل فرض ہو جائے گا۔میں دیکھ رہی ہوں کہ میرا لشکرمجھے اس خیمہ گاہ میں اکیلا چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔جہاں میرے دین کے دشمن لوٹ مار کر رہے ہیں۔لیکن میرے دل پر ذرا سا بھی خوف نہیں۔خوف اس لئے نہیں کہ مجھے اﷲ پر پورا بھروسہ ہے۔‘‘
مجاعہ خاموش رہااور وہ کچھ دیر نظریں لیلیٰ کے چہرے پر گاڑے رہا۔باہر فاتح لشکر کا فاتحانہ غل غپاڑہ تھا۔وہ مسلمانوں کے خیموں کو پھاڑ پھاڑ کر ان کے ٹکڑے بکھیر رہے تھے۔مجاعہ اور لیلیٰ کو توقع تھی کہ ابھی مسیلمہ کے آدمی آئیں گے اوردونوں کو ساتھ لے جائیں گے لیکن اچانک غل غپاڑہ ختم ہو گیا اور لوٹ مار کرنے والے لوگ بھاگتے دوڑتے خیمہ گاہ سے نکل گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسیلمہ کی طرف سے حکم آیا تھا کہ فوراً واپس میدانِ عقربا میں پہنچو کیونکہ مسیلمہ نے دیکھ لیا تھا کہ مسلمان بڑی تیزی سے اکھٹے ہو کر منظم ہو رہے تھے۔ مسیلمہ کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا۔وہ مسلمانوں کی شجاعت اور ان کے جذبے سے مرعوب تھا۔
مجاعہ اور لیلیٰ خیمے میں اکیلے رہ گئے۔مجاعہ کے چہرے پہ جو رونق آئی تھی وہ پھر بجھ گئی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages