Featured Post

Khalid001

01 June 2019

Khalid047


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  47
دسمبر 632ء (شوال 11ہجری) کے تیسرے ہفتے میں خالد ؓبن ولید نے تیرہ ہزار مجاہدین سے مُرتدین کے چالیس ہزار سے زیادہ لشکر کے خلاف یمامہ کے مقام پر وہ جنگ لڑی جسے اسلام کی پہلی خونریز جنگ کہا جاتا ہے۔ اس جنگ کا آخری معرکہ ایک وسیع باغ حدیقۃ الرحمٰن میں لڑا گیا تھا۔ وہاں دونوں طرف اس قدر جانی نقصان ہوا تھا کہ حدیقۃ الرحمٰن کو لوگ حدیقۃ الموت(موت کا باغ) کہنے لگے۔ آج تک اسے حدیقۃ الموت کہاجاتا ہے۔
اس وقت خالدؓ مدینہ میں تھے۔انہیں خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓنے عمرؓ کی اس شکایت پر جواب طلبی کیلئے مدینہ بلایا تھا کہ انہوں نے مالک بن نویرہ کو قتل کراکے اس کی بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کرلی تھی۔ابو بکرؓ نے ان حالات کو دیکھتے ہوئے جن میں اسلام گھر گیا تھا۔خالدؓ کے حق میں فیصلہ دیا اور خالد ؓکو واپس بطاح جانے اور یمامہ کے مسیلمہ کذاب کے فتنے کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔
مسیلمہ کذاب کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کر رکھا تھا۔اس کے پیروکاروں کی تعداد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ اس کا لشکرمسلمانوں کیلئے خطرہ بن گیا تھا ، اس وقت تک مسلمان ایک طاقت بن چکے تھے لیکن مسیلمہ کی طاقت بڑھتی جا رہی تھی۔یہ مدینہ کیلئے بھی خطرہ تھااور اسلام کیلئے بھی۔مدینہ سلطنت اسلامیہ کا مرکز تھا۔
خالدؓ کالشکر بطاح میں تھا۔وہیں انہوں نے مالک بن نویرہ کو سزائے موت دی اور اس کی بیوی لیلیٰ کے ساتھ شادی کی تھی۔لیلیٰ وہیں تھی۔خالد بطاح کو روانہ ہو گئے۔انہیں معلوم تھا کہ ان کے پرانے ساتھی سالار عکرمہؓ اسی علاقے میں اپنے لشکر کے ساتھ موجود ہیں اور مسیلمہ کے خلاف مدد کو پہنچیں گے۔
عکرمہؓ بن ابو جہل ان گیارہ سالاروں میں سے تھے جنہیں خلیفۃ المسلمین ؓ نے مختلف علاقوں میں مُرتد اور باغی قبائل کی سرکوبی کیلئے بھیجا تھا۔دوسرے قبیلے اتنے طاقتور نہیں تھے جتنا مسیلمہ کا قبیلہ بنو حنیفہ تھا۔اس لیے اس علاقے میں عکرمہؓ کو بھیجا گیا تھا۔ان کے پیچھے پیچھے ایک اور سالار شرجیلؓ بن حسنہ کو بھیج دیا گیا۔خلیفہ ابو بکرؓ نے شرجیلؓ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ عکرمہؓ کو مدد دیں گے۔
عکرمہؓ یمامہ کی طرف جا رہے تھے۔یہ دو اڑھائی مہینے پہلے کی بات ہے ۔اس وقت خالدؓ طلیحہ سے نبرد آزما تھے۔انہوں نے طلیحہ کو بہت بری شکست دی تھی ۔یہ خبر عکرمہؓ تک پہنچی تو وہ جوش میں آ گئے۔انہوں نے ابھی کسی قبیلے کے خلاف جنگی کارروائی نہیں کی تھی۔کچھ دنوں بعد عکرمہؓ کو خبرملی کہ خالد ؓ نے سلمیٰ کے طاقتور لشکر کو شکست دی ہے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ عکرمہؓ پر انسانی فطرت کی ایک کمزور ی غالب آ گئی۔انہوں نے اپنے ساتھی سالاروں سے کہا کہ خالد فتح پہ فتح حاصل کرتے جا رہے ہیں اور اِنہیں ابھی لڑنے کا موقع بھی نہیں ملا۔خالدؓ اور عکرمہؓ اسلام قبول کرنے سے پہلے کے ساتھی اور ایک جیسے جنگجو اور میدانِ جنگ کے ایک جیسے قائد تھے۔
’’کیوں نہ ہم ایک ایسی فتح حاصل کریں جس کے سامنے خالد کی تمام فتوحات کی اہمیت ختم ہو جائے۔ ‘‘عکرمہؓ نے اپنے ماتحت سالاروں سے کہا۔’’مجھے اطلاع مل چکی ہے کہ شرجیل بن حسنہ ہماری مدد کو آرہا ہے۔معلوم نہیں وہ کب تک پہنچے۔میں زیادہ انتظار نہیں کرسکتا۔ میں مسیلمہ پر حملہ کروں گا۔‘‘
مسیلمہ معمولی عقل و ذہانت کا آدمی نہیں تھا۔اسے معلوم تھا کہ مسلمان اس کی نبوت کو برداشت نہیں کر رہے اورکسی بھی روز اسلامی لشکر اس پر حملہ کردے گا۔اس نے اپنے علاقے کے دفاع کا بندوبست کر رکھا تھا۔جس میں دیکھ بھال اور جاسوسی کا انتظام بھی شامل تھا۔ عکرمہؓ سوچے سمجھے بغیربڑھتے گئے اور یمامہ کے قریب پہنچ گئے ۔وہ چونکہ جذبات سے مغلوب ہو کر جا رہے تھے اس لئے احتیاط نہ کر سکے کہ دشمن دیکھ رہاہو گا،انہیں مسیلمہ کے جاسوسوں نے دیکھ لیا اور مسیلمہ کو اطلاع دی۔
ایک اور علاقے میں جہاں اونچے ٹیلے اور ٹیکریاں تھیں،عکرمہ ؓکو مسیلمہ کے کچھ آدمی دکھائی دیئے۔ عکرمہؓ نے ان پر حملہ کر دیامگر یہ مسیلمہ کا بچھایا ہوا جال تھا۔مسیلمہ نے وہاں خاصا لشکر چھپا رکھا تھا۔جس نے دائیں بائیں سے عکرمہؓ کے لشکرپر حملہ کر دیا۔عکرمہؓ اس غیر متوقع صورتِ حال میں سنبھل نہ سکے ۔مسیلمہ کے لشکر نے انہیں سنبھلنے دیا ہی نہیں۔عکرمہؓکے ساتھ نامی گرامی اور تجربہ کارسالاراور کماندار تھے۔لیکن میدان دشمن کے ہاتھ تھا۔اس نے مسلمانوں کی کوئی چال کامیاب نہ ہونے دی۔عکرمہؓ کو نقصان اٹھاکر پسپا ہونا پڑا۔
…………bnb…………

عکرمہؓ اپنی اس شکست کو چھپا نہیں سکتے تھے۔چھپا لیتے تو لشکر میں سے کوئی مدینہ اطلاع بھیج دیتا۔چنانچہ عکرمہ ؓنے خلیفۃ المسلمین ؓ کو لکھ بھیجاکہ ان پر کیا گزری ہے۔خلیفہ ابو بکرؓ کو سخت غصہ آیا۔انہوں نے عکرمہؓ کو واضح حکم دیا تھا کہ شرجیل ؓکا انتظار کریں اور اکیلے مسیلمہ کے سامنے نہ جائیں۔مگر عکرمہؓ نے جلد بازی سے کام لیا تھا۔ابو بکرؓ نے عکرمہؓ کو جو تحریری پیغام بھیجا تھا اس میں غصے کا اظہار اس طرح سے کیا تھاکہ عکرمہؓ کو ابنِ ابو جہل لکھنے کے بجائے ابنِ امِ عکرمہ (عکرمہ کی ماں کے بیٹے) لکھا،یہ عربوں میں رواج تھا کہ کسی کی توہین مقصود ہوتی تو اس کے باپ کے نام کے بجائے اسے اس کی ماں سے منسوب کرتے تھے۔خلیفہ المسلمین ؓنے لکھا:
’’اے ابنِ اُمِ عکرمہ! میں تمہاری صورت نہیں دیکھنا چاہتا ،میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ مدینہ آؤ۔تم آئے تو یہاں کے لوگوں میں مایوسی پھیلاؤ گے۔مدینہ سے دور رہو۔تم اب یمامہ کا علاقہ چھوڑ دو اور حذیفہ کہ ساتھ جاملو اور اہلِ عمان سے لڑو۔وہاں سے فارغ ہوکر عرفجہ کی مدد کیلئے مہرہ چلے جانا،اس کے بعد یمن جاکر مہاجر بن امیہ سے جا ملنا۔جب تک تم سالاری کے معیار پر پورے نہیں اترتے ،مجھے اپنی صورت نہ دکھانا۔میں تم سے بات تک نہیں کروں گا۔‘‘
خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ نے شرجیل کو پیغام بھیجا کہ ’’وہ جہاں ہیں وہیں رہیں اور جب خالد ؓآئیں تو اپنا لشکر ان کے ساتھ کرکے خود ان کے ماتحت ہو جائیں۔‘‘ خالدؓ کو بتا دیا گیا تھا کہ شرجیل ؓکا لشکر بھی اُنہیں مل رہا ہے ۔وہ خوش ہوئے کہ اب وہ مسیلمہ کا مقابلہ بہتر طریقے سے کر سکیں گے۔اُنہیں توقع تھی کہ شرجیل کا لشکر تازہ دم ہو گا۔مگر یہ لشکر خالد ؓکو ملا تو وہ تازہ دم نہیں تھا۔ اس میں کئی مجاہدین زخمی تھے۔
’’کیا ہوا شرجیل؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔
’’ندامت کے سوا میرے پاس کوئی جواب نہیں۔‘‘شرجیلؓ نے کہا۔’’میں نے خلیفۃ المسلمین کی حکم عدولی کی ہے۔میرے لیے حکم تھا کہ عکرمہ کو مدددوں، مگر میرے پہنچنے سے پہلے عکرمہ ،مسیلمہ کے لشکر سے ٹکر لے کر پسپاہو چکا تھا۔یہ ایک خبط تھا جس نے مجھ پر بھی غلبہ پالیا کہ…‘‘
’’کہ ایک فتح تمہارے حساب میں لکھی جائے۔‘‘باریک بین اور دور اندیش خالدؓ نے طنزیہ لہجے میں شرجیل ؓکا جواب پورا کرتے ہوئے کہا۔ ’’اکیلے پتھر کی کوئی طاقت نہیں ہوتی شرجیل!پتھر مل کرچٹان بنا کرتے ہیں۔پھر اس چٹان سے جو ٹکراتا ہے وہ دوسری بار ٹکرانے کیلئے زندہ نہیں رہتا۔خود غرضی اور ذاتی مفاد کا انجام دیکھ لیا تم نے؟ عکرمہ جیسا تجربہ کار سالار پِٹ کرذلیل ہو چکا ہے۔ میں تم پر کرم کرتا ہوں کہ خلیفہ کو تمہاری حماقت کی خبر نہیں ہونے دوں گا۔‘‘
شرحبیلؓ بن حسنہ نے عکرمہؓ جیسی غلط حرکت کی تھی۔اس نے بھی خالدؓ سے بازی لے جانے کیلئے راستے میں مسیلمہ کے لشکر سے ٹکرلی اور پسپا ہونا پڑا تھا۔
…………bnb…………

مسیلمہ کذاب دربار لگائے بیٹھا تھا۔ ٹھنگنے قد والا یہ بد صورت انسان مکمل نبی بن چکا تھا۔اس کا قبیلہ بنو حنیفہ تو اسے نبی مان ہی چکا تھا۔دوسرے قبیلے کے لوگ جوق در جوق اس کی بیعت کیلئے آتے اور اس کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب رہتے تھے۔لوگوں نے اس کی قوت اور کرامات دیکھ لی تھیں۔اب اس کے پیروکاروں نے دو معجزے اور دیکھ لیے تھے۔انہوں نے مسلمانوں کے دو نامور سالاروں کو ذرا ذرا سی دیر میں میدان سے بھگا دیا تھا۔
مذہبی اور نظریاتی کے لحاظ سے تو مسلمان ریشم کی طرح نرم تھے لیکن میدانِ جنگ میں وہ فولاد سے زیادہ سخت اور بجلیوں کی طرح قہر بن جاتے تھے۔جنگی لحاظ سے مسلمان دہشت بن گئے تھے۔عکرمہؓ اور شرجیلؓ نے اپنی غلطی اور کج فہمی سے شکست کھائی تھی۔لیکن بنو حنیفہ نے انہیں اپنے کذاب نبی کے معجزوں اور کرامات کے کھاتے میں لکھ دیا۔وہ کہتا تھا کہ مسلمانوں کو مسیلمہ کے سوا کون شکست دے سکتا ہے۔
’’نہار الرجال!‘‘مسیلمہنے اپنے پاس بیٹھے ہوئے اپنے دستِ راست نہار الرجال سے کہا۔’’اب ہمیں مدینہ کی طرف کوچ کی تیاری کرنی چاہیے،مسلمانوں میں اب وہ دم خم نہیں رہا۔‘‘
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ نہارالرجال بن عنفوہ وہ شخص تھا جس نے رسولِ کریمﷺ کے سائے تلے بیٹھ کر قرآن پڑھا اور مذہب پر عبور حاصل کیا تھااور اسے مبلغ بنا کر مسیلمہ کے علاقے میں بھیجا گیا تھا۔مگر اس پر مسیلمہ کا جادو چل گیا۔اس نے مسیلمہ کی نبوت کا پرچار شروع کر دیا۔آیاتِ قرآنی کو توڑ موڑ کر اس نے ان لوگوں کو بھی مسیلمہ کا پیروکار بنا دیا جو اسلام قبول کر چکے تھے۔مسیلمہ نے اسے اپنا معتمد ِ خاص بنا لیا تھا۔یہ شراب اور نسوانی حسن کا جادو تھا ۔خود مسیلمہ جس کی شکل و صورت مکروہ سی تھی اور قد مضحکہ خیز حد تک ٹھنگنا تھا۔عورتوں میں زیادہ مقبول تھا۔مؤرخ لکھتے ہیں کہ عورتوں کیلئے اس میں ایک مخصوص کشش تھی۔ سجاح جیسی عورت جو قلوپطرہ کی طرح جنگی قوت لے کر مسیلمہ کو تہہ تیغ کرنے آئی، صرف ایک ملاقات میں اس کی بیوی بن گئی تھی۔
یہ مسیلمہ کی جسمانی طاقت اور مقناطیسیت تھی۔اب تو وہ بہت بڑی جنگی طاقت بن گیا تھا۔عکرمہؓ اور شرجیلؓ کو پسپا کرکے اس کے اپنے اور اس کے لشکر کے حوصلے بڑھ گئے تھے۔وہ اب مدینہ پر چڑھائی کی باتیں کر رہا تھا۔وہ دربار میں بیٹھا نہارالرجال سے کہہ رہا تھا کہ مدینہ کی طرف کوچ کی تیاری کرنی چاہیے۔نہارالرجال کچھ کہنے بھی نہیں پایا تھا کہ مسیلمہ کو اطلاع دی گئی کہ ایک جاسوس آیا ہے۔ مسیلمہ نے اسے فوراً بلا لیا۔
’’مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے۔‘‘ جاسوس نے کہا۔ ’’تعداد دس اور پندرہ ہزار کے درمیان ہے۔‘‘
’’تم نے جب دیکھا،یہ لشکر کہاں تھا؟‘‘ مسیلمہ نے پوچھا۔
’’وادیٔ حنیفہ سے کچھ دور تھا۔‘‘ جاسوس نے کہا۔ ’’اب اور آگے آ چکا ہو گا۔‘‘
’’ان بد بختوں کوموت وادیٔ حنیفہ میں لے آئی ہے۔‘‘مسیلمہ نے رعونت سے کہا۔’’انہیں معلوم نہیں کہ ان کا دس پندرہ ہزار کا لشکر میرے چالیس ہزار شیروں کے ہاتھوں چیرا پھاڑا جائے گا۔‘‘
وہ اٹھ کھڑا ہوا۔تمام درباری احترام کیلئے اٹھے۔وہ نہار الرجال کو ساتھ لے کر دربار سے نکل گیا۔اس نے اپنا گھوڑا تیار کرایا۔نہار الرجال کو ساتھ لیا اور دونوں گھوڑے انہیں یمامہ سے دور لے گئے۔وہ وادیٔ حنیفہ کی طرف جارہے تھے۔
’’اس وادی سے وہ زندہ نہیں نکل سکیں گے۔‘‘ راستے میں مسیلمہ نے نہارالرجال سے کہا۔ ’’میرے اس پھندے سے وہ واقف نہیں۔‘‘
نہارالرجال نے قہقہہ لگایا اور کہا۔ ’’آج محمد (ﷺ) کا اسلام وادیٔ حنیفہ میں دفن ہو جائے گا۔‘‘
وہ آدھا راستہ طے کر چکے تھے کہ آگے سے ایک گھوڑ سوار گھوڑا سر پٹ دوڑاتا آ رہا تھا۔مسیلمہ کو دیکھ کر وہ رک گیا۔
’’یانبی!‘‘گھوڑ سوار نے ہانپتی ہوئی آواز میں کہا۔’’مجاعہ بن مرارہ کو مسلمانوں نے قید کر لیاہے۔‘‘
’’مجاعہ کو؟‘‘ مسیلمہ نے حیرت سے کہا۔
’’مجاعہ کو مسلمانوں نے …۔‘‘نہارالرجال نے ڈری ہوئی سی آواز میں کہا۔
’’مجاعہ کی ٹکر کا ہمارے پاس اور کوئی سالار نہیں ۔‘‘مسیلمہ نے کہا۔’’مجاعہ کا قید ہو جانا ہمارے لئے اچھا شگون نہیں۔‘‘
…………bnb…………

مجاعہ بن مرارہ مسیلمہ کا بڑا ہی قابل اور دلیر سالار تھا۔وہ خالدؓ سے ملتا جلتا تھا۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ کے مقابلے میں لڑنے اور جنگی چالیں چلنے کی اہلیت صرف مجاعہ میں تھی۔ مجاعہ مسلمانوں کے ہاتھ اس طرح چڑھ گیا تھا کہ اس کے کسی قریبی رشتے دار کو بنی عامر اور بنی تمیم کے کچھ لوگوں نے قتل کر دیا تھا۔مجاعہ نے مسیلمہ سے اجازت لی تھی کہ وہ لشکر کے چالیس سوار ساتھ لے جا کر اپنے رشتے دار کے قتل کا انتقام لے لے۔مسیلمہ اپنے اتنے قابل سالار کو مایوس نہیں کر سکتا تھا۔اس نے اسے اجازت دے دی۔
مجاعہ اپنے دشمن کی بستی میں گیا اور انتقام لے کر واپس آ رہا تھا ۔اسے معلوم نہیں تھا کہ جس علاقے کو وہ محفوظ سمجھتا تھا وہ اب محفوظ نہیں۔اس نے اپنے سواروں کو ایک جگہ آرام کیلئے روک لیا۔وہ سب اپنا فرض کامیابی سے پوراکر آئے تھے۔گھوڑوں کی زینیں اتار کر وہ لیٹ گئے اور گہری نیند سو گئے۔
خالدؓ کا لشکر اسی طرف آ رہا تھا۔علی الصبح اس لشکر کا ہراول دستہ وہاں پہنچا جہاں مجاعہ اپنے چالیس سواروں کے ساتھ گہری نیند سویا ہوا تھا۔ان سب کو مجاہدین نے جگایا۔ ان سے ہتھیار اور گھوڑے لے لیے اور انہیں حراست میں لے کر پیچھے خالدؓ کے پاس لے گئے۔خالدؓ کو معلوم نہیں تھاکہ مجاعہ مسیلمہ کا بڑا قیمتی سالار ہے۔خالدؓ اسے بھی محض سوار یا سپاہی سمجھ رہے تھے۔انہوں نے دراصل بڑا موٹا شکار پکڑا تھا۔
انہوں نے یہ تو بتا دیا کہ وہ مسیلمہ کی فوج کے آدمی ہیں لیکن مجاعہ کا رتبہ ظاہرنہ ہونے دیا۔
’’کیا تم ہمارے مقابلے کیلئے آئے تھے؟‘‘ خالدؓ نے ان سے پوچھا۔
’’نہیں۔‘‘ایک نے جواب دیا۔’’ہمیں تو معلوم ہی نہ تھا کہ مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے۔ہم بنی عامر اور بنی تمیم سے اپنے ایک خون کا بدلہ لینے گئے تھے۔‘‘
’’میں نے مان لیا۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔’’میں تمہاری جان بخشی کر سکتا ہوں۔اب میرے اس سوال کا جواب دو کہ تم کسے اﷲکا سچا رسول مانتے ہو اور کس پر ایمان رکھتے ہو؟‘‘
’’بے شک مسیلمہ اﷲ کا سچا رسول ہے۔‘‘ ایک سوار نے جواب دیا۔
’’خدا کی قسم!‘‘خالدؓ نے کہا۔’’تم میری توہین کر دیتے تو میں تمہیں بخش دیتا ،اپنے رسولﷺ کی توہین کو میں کس طرح برداشت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’تم اپنے رسول کو مانو،ہم اپنے نبی کو مانتے ہیں۔‘‘مجاعہ نے کہا۔’’اصل بات بھی یہی ہے کہ مسیلمہ رسالت میں محمد (ﷺ) کا برابر کا حصہ دار ہے۔‘‘
’’ہم سب کا عقیدہ یہی ہے۔‘‘ سواروں نے کہا۔ ’’ایک نبی تم میں سے ہے ۔ایک نبی ہم میں سے ہے۔‘‘
خالدؓ نے تلوار کھینچی اور ایک ہی وار سے ایک سوار کا سر اڑا دیااور حکم دیا کہ سب کو قتل کر ڈالو۔ خالدؓ کے آدمی آگے بڑھے اور مجاعہ کو پکڑ کر اس کا سر کاٹنے کیلئے جھکا دیا۔ اسے قتل کرنے والے کی تلوار ہوا میں بلند ہوئی۔
’’ہاتھ روک لو۔‘‘ قیدی سواروں میں سے ایک جس کا نام ساریہ بن عامر تھا،چلایا۔’’اس آدمی کو زندہ رہنے دو ۔یہ تمہارے کام آ سکتا ہے۔‘‘
تب انکشاف ہوا کہ مجاعہ بنو حنیفہ کے سرداروں میں سے ہے لیکن یہ پھر بھی نہ بتایا گیا کہ یہ سالار بھی ہے۔خالدؓ دور اندیش تھے،کسی قبیلے کا سردار بڑا قیمتی یرغمال ہوتا ہے۔اسے کسی نہ کسی موقع پر استعمال کیا جاسکتا تھا۔خالدؓ مجاعہ کے پاؤں میں بیڑیاں ڈلوا کر اسے اپنے خیمے میں لے گئے اور اسے اپنی بیوی لیلیٰ کے حوالے کردیا۔باقی سب کو قتل کرا دیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages