Featured Post

Khalid001

01 June 2019

Khalid050


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  50
مسیلمہ کذاب کے قتل کا سہرا بلا شک و شبہہ وحشی ؓبن حرب کے سر ہے۔ وحشی ؓکی زندگی عجیب گزری ہے۔ بتایا جا چکا ہے کہ اس نے بالکل اسی طرح جس طرح اس نے مسیلمہ کو برچھی کھینچ کر قتل کیا تھا، حمزہؓ کو جنگِ احد میں شہید کیا تھا۔ جب مسلمانوں نے مکہ فتح کرلیا تو رسول اﷲﷺ نے مکہ کے چند لوگوں کو جنگی مجرم قرار دیا تھاان میں وحشی کا نام بھی تھا۔ اسے کسی طرح پتا چل گیا تھا کہ اسے مسلمان زندہ نہیں رہنے دیں گے وہ مکہ سے نکل گیا اور طائف میں قبیلہ ثقیف کے ہاں جا پناہ لی۔ قبیلہ ثقیف کو مسلمانوں نے جس طرح شکست دی تھی وہ بیان ہو چکا ہے، اس قبیلے نے اسلام قبول کیا اور وحشی ؓ نے بھی اسلام قبول کر لیااور بیعت کیلئے اور اپنی جان بخشی کیلئے رسولِ کریمﷺ کے حضور گیا۔ آپﷺ نے اسے کئی بر س پہلے دیکھا تھا۔ شاید حضورﷺ اسے اچھی طرح پہچان نہ سکے۔
’’کیا تم وہ وحشی ہو؟‘‘ رسولِ کریمﷺ نے اس سے پوچھا۔
’’وہی وحشی ہوں۔‘‘وحشی نے جواب دیا ۔’’اور اب آپﷺ کو اﷲکا رسول مانتا ہوں۔‘‘
’’او وحشی!‘‘ حضور نے پوچھا ’’بتا تو نے حمزہؓ کو کس طرح قتل کیا تھا؟‘‘
مورخ لکھتے ہیں کہ وحشی نے ایسے لب ولہجے میں سارا واقعہ سنایا جیسے وہ سننے والوں پر اپنی بہادری اور عسکری مہارت کا رعب گانٹھ رہا ہو۔ رسول کریمﷺ نے اس کی جاں بخشی کر دی لیکن (ابن ہشام کے مطابق) آپﷺ نے اسے کہا کہ وہ آپﷺ کے سامنے نہ آیا کرے۔ حمزہؓ رسول اللہﷺ کے صرف چچا ہی نہ تھے بلکہ امت محمدیہ میں ان کا مقام بہت بلند تھا اور اس وقت کے اسلامی معاشرے میں انہیں خصوصی حیثیت حاصل تھی۔ یہ رسول کریمﷺ کی عظمت تھی کہ آپﷺ نے حمزہؓ جیسی شخصیت کا قتل ایک سیاہ فام غلام کو بخش دیا تھا لیکن آپﷺ کے دل میں قلق موجود رہا۔
آنحضورﷺ نے وحشی بن حرب کے لیے جس ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا تھا ویسی ہی ناپسندیدگی کا اظہار انہوں نے ہند کے لیے بھی کیا تھا جس کے ایماء پر وحشی نے حضرت حمزہؓ کو شہید کیا تھا۔ اس کے بعد سید الشہداء کی لاش کی جس طرح بے حرمتی کی گئی اس کا بیان پہلے ہو چکا ہے۔ آنحضورﷺ نے ان دونوں سے اس لیے اظہار ناپسندیدگی نہیں کیا کہ انہوں نے آپﷺ کے چچا کو شہید کیا تھا بلکہ اس لیے کہ انہوں نے ایک جلیل القدر مسلمان کی لاش کی بے حرمتی کی تھی ورنہ ذاتی دشمنی کو دل میں رکھنا آپﷺ کی شان کے شایاں نہیں تھا۔آپﷺ نے ہندہ اور وحشی سے کہا تھا کہ جب تم میری نظروں کے سامنے آتے ہو تو مجھے حمزہؓ کی لاش یاد آجاتی ہے۔ بہرحال آپﷺ نے وحشی اور ہندہ کو معارف فرما دیا تھا۔
وحشی بن حرب رسول کریمﷺ کا گرویدہ ہو چکا تھا مگر حضور اکرمﷺ نے اسے اچھا نہیں سمجھا تھا جس کا وحشی کو بہت دکھ تھا۔ وہ مکہ سے چلا گیا اور اس نے دو سال طائف کے علاقے میں کبھی یہاں کبھی وہاں گزارے۔ اس پر خاموشی طاری رہتی اور وہ سوچوں میں گم رہتا تھا۔ اس نے اسلام کو دل سے قبول کر لیا تھا وہ سچا مسلمان رہا۔
دو سال بعد اپنے بے چین ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے وہ اسلامی لشکر میں شامل ہو گیا اور اس نے خالدؓ کے دستوں میں رہنا پسند کیا۔ یمامہ کی جنگ میں اسے پتا چل گیا تھا کہ خالدؓ مسیلمہ کو ہلاک کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ فرض اس نے اپنے ذمہ لیا اور فرض پوراکر دیا۔
اس کے بعد وحشی خالدؓ کے دستوں میں رہااور کئی لڑائیوں میں اس نے بہادری کے جوہر دکھائے۔ شام کی فتح کے بعد وہ اسلامی لشکر سے الگ ہوکر حمص میں گوشہ نشین ہو گیا۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے حمزہؓ کا قتل بہت بڑا گناہ بن کر اس کے ضمیر پر سوار ہو گیا ہو۔ اس نے شراب نوشی شروع کر دی جو عیاشی نہیں تھی بلکہ وہ اپنے آپ کو فراموش کرکے الگ پڑ ارہتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے شراب نوشی کے جر م میں اسّی کوڑوں کی سزا دی تھی جس کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا، وہ شراب پیتا رہا۔
زندگی کے آخری دنوں میں اسے ایسی شہرت ملی کہ لوگ اسے عقیدت سے ملتے تھے مگر وہ ہوش میں کم ہی ہوتا ۔جب کبھی ہوش میں ہوتا تو لوگوں کو حمزہؓ اور مسیلمہ کے قتل کے واقعات سناتا۔ لوگ اس سے یہی واقعات سننے کیلئے جاتے تھے۔اس نے کئی بار اپنی برچھی ہاتھ میں لے کر کہا۔ ’’میں جب مسلمان نہیں تھا تو اس برچھی سے میں نے ایک بہت ہی اچھے آدمی کو قتل کیا تھا اور میں مسلمان ہوا تو اس برچھی سے ایک بہت ہی برے آدمی کو قتل کیا۔‘‘
…………bnb…………

اُم عمارہ ؓایک عظیم خاتون تھیں ۔جنگِ احد میں ان مسلمان عورتوں کے ساتھ تھیں جو زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کیلئے اپنے لشکر کے ساتھ گئی تھیں۔اس لڑائی میں ایسی صورت پیدا ہو گئی کہ میدان پر قریش چھا گئے انہوں نے رسول ِکریمﷺ پر ہلّے بولنے شروع کر دیئے ۔صحابہ کرامؓ نے رسول اﷲﷺکے گرد گھیرا ڈال رکھاتھا۔مگر دشمن کے ہلّے اتنے شدید تھے کہ آپﷺ کے محافظوں کا گھیرا ٹوٹ گیا۔ قریش کا ایک آدمی ابنِ قمہ رسول کریمﷺ تک پہنچ گیا۔
رسولِ کریمﷺ کے دائیں مصعب ؓبن عمیر تھے اور اس وقت اُم عمارہؓ بھی قریب ہی تھیں ۔انہوں نے جب رسول ِ کریم ﷺ کو خطرے میں دیکھا تو زخمیوں کو پانی پلانے اور انہیں اٹھانے کا کام چھوڑ کر رسولِ اکرمﷺ کی طرف دوڑیں،انہوں نے ایک لاش یا شدید زخمی کی تلوار لے لی۔
ابنِ قمہ حضورﷺ پر حملہ کرنے کے بجائے آپﷺ کے محافظ مصعبؓ کی طرف گیا۔ مصعبؓ نے اس کے ساتھ مقابلہ کیا ۔اُم عمارہؓ نے ابنِ قمہ پر تلوارکا وار کیا جو اس کے کندھے پر پڑا مگر ابنِ قمہ نے ذرہ بکتر پہن رکھی تھی۔ اس لئے تلوار اس کا کچھ نہ بگاڑ سکی ۔ابن قمہ نے گھوم کر اُم عمارہ ؓپر جوابی وار کیا جو اس خاتون کے کندھے پر پڑا اور اتنا گہرا زخم آیا کہ وہ گر پڑیں۔ ابنِ قمہ نے دوسرا وار نہ کیا کیونکہ وہ رسول ِ اکرمﷺپرحملہ کرنا چاہتا تھا۔
اب جنگِ یمامہ میں ام عمارہؓ اپنے بیٹے کے ساتھ آئی تھیں، یہاں ان کی دلیری کا یہ عالم کہ مسیلمہ کو قتل کرنے کا خطرہ مول لے لیامگر ان کاایک ہاتھ کٹ گیا۔
…………bnb…………

وہ دسمبر 632ء کے آخری دنوں میں سے ایک دن تھا۔ حدیقۃ الرحمٰن سر سبز اور ہرا بھرا باغ ہوا کرتا تھا۔جو لوگوں کو پھل دیا کرتا تھا۔ وہاں تھکے ماندے مسافر آ کر سستایا کرتے تھے ۔وہاں پھولوں کی مہک تھی مگر اب وہ حدیقۃ الموت بن چکا تھا۔اس کا حسن خون میں ڈوب گیا تھا۔ اس کی رعنائیاں لاشوں تلے دب گئی تھیں۔جہاں پرندے چہچہاتے تھے وہاں زخمیوں کی چیخ و پکار تھی ۔زخمی گھوڑے بے لگام بھاگ دوڑ رہے تھے ۔ان کے ٹاپ یوں سنائی دے رہے تھے جیسے موت بے ہنگم قہقہے لگا رہی ہو۔
جب شور اٹھا کہ مسیلمہ مارا گیا ہے تو مرتدین نکل بھاگنے کا راستہ دیکھنے لگے وہ تو پہلے ہی بھاگے ہوئے اس باغ میں آئے تھے ۔ان پر پہلے ہی مسلمان دہشت بن کر طاری ہو چکے تھے۔ باغ میں وہ ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے تھے۔ وہ ایسی جنگ لڑ رہے تھے جو وہ پہلے ہی ہار چکے تھے۔ اب ان کے کانوں میں یہ صدائیں پڑیں کہ ان کا نبی مارا گیا ہے تو ان کی رہی سہی سکت بھی ختم ہو گئی۔ ان میں جو ابھی تک لڑ رہے تھے وہ باغ سے نکل بھاگنے کی کوشش تھی ۔شکست ان کے ذہنوں پر مسلط ہو چکی تھی۔
وہاں سے کچھ دور مسلمانوں کی لٹی ہوئی تباہ حال خیمہ گاہ میں صرف ایک خیمہ صحیح سلامت کھڑا تھا، یہ خالدؓکا خیمہ تھا ۔بنو حنیفہ باقی تمام خیمے پھاڑ کر پرزے پرزے کر گئے تھے۔ وہ خالدؓ کے خیمے میں بھی گئے تھے لیکن وہاں ان کااپنا سردار مجاعہ بن مرارہ زنجیروں میں جکڑا بیٹھا تھا۔ وہ لیلیٰ کو قتل کرنا یا اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن مجاعہ نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ پہلے مردوں کی طرف جاؤ ابھی عورتوں کو پکڑنے کا وقت نہیں۔وہ سب اپنے سردار کے حکم سے چلے گئے تھے۔اس طرح خالدؓ کا خیمہ محفوظ رہا تھا۔
خالدؓ کی بیوی لیلیٰ خیمے کے باہر ایک اونٹ پر بیٹھی تھی۔ اسے کہیں جانا نہیں تھا ۔وہ اونچی ہوکر میدانِ جنگ کو دیکھ رہی تھی ۔ میدان خالی ہو چکا تھا ۔اسے باغ کی دیوار اور درختوں کے بالائی حصے نظر آ رہے تھے لیکن یہ نظر نہیں آ رہا تھا کہ اندر کیا ہو رہا ہے ۔وہ اونٹ سے کود آئی اورخیمہ میں چلی گئی۔
’’ابنِ مرارہ!‘‘لیلیٰ نے مجاعہ سے کہا۔’’تمہارا نبی میدان خالی کر گیا ہے۔خدا کی قسم !بنو حنیفہ بھاگ گئے ہیں۔‘‘
’’میں نے کبھی نہیں سنا کہ تیرہ ہزار نے چالیس ہزار کو شکست دی ہے۔‘‘ مجاعہ نے کہا ۔’’میدان چھوڑ جانا مسیلمہ کی چال ہو سکتی ہے پسپائی نہیں۔‘‘
’’سب باغ کے اندر ہیں۔‘‘ لیلیٰ نے کہا۔
’’اگر سب باغ میں ہیں تو وہاں سے زندہ صرف بنو حنیفہ نکلیں گے ۔‘‘مجاعہ بن مرارہ نے کہا۔’’اگر مسلمان باغ میں میرے قبیلے کے پیچھے چلے گئے ہیں تو سمجھ لو کہ انہیں موت باغ میں لے گئی ہے۔ بنو حنیفہ ناقابلِ تسخیر ہیں۔‘‘
’’آج فیصلہ ہو جائے گا ۔‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’ٹھہرو…… مجھے گھوڑے کے ٹاپ سنائی دے رہے ہیں ،میرے خاوند کا قاصد ہو گا۔‘‘ وہ خیمے سے نکل کے کھڑی ہو گئی اور بولی۔ ’’وہ فتح کی خبرلایا ہو گا۔وہ آ رہاہے۔‘‘
…………bnb…………

گھوڑا جو سر پٹ دوڑا آ رہا تھا لیلیٰ کے قریب آ رکا اورسوار گھوڑے سے کود آیا۔ وہ خالدؓ تھے، لیلیٰ انہیں اکیلا دیکھ کر گھبرائی۔ سالار کے اکیلے آنے کا مطلب یہی ہو سکتاتھا کہ اس کی سپاہ تتر بتر ہو گئی ہے۔
 ’’میدانِ جنگ کی کیا خبر ہے ؟‘‘لیلیٰ نے پوچھا۔’’آپ اکیلے کیوں آئے ہیں؟‘‘
’’خدا کی قسم! میں نے بنو حنیفہ کو کاٹ دیا ہے۔‘‘ خالدؓ نے جوشیلی آواز میں کہا۔ ’’مسیلمہ کذاب مارا گیا ہے اور وہ قیدی کہاں ہے؟‘‘
لیلیٰ نے دونوں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا اور سکون کی آہ بھر کر بولی۔ ’’مجاعہ کہتا ہے کہ بنو حنیفہ ناقابلِ تسخیر ہیں۔‘‘
’’میں پوچھتا ہوں وہ کہاں ہے؟‘‘ خالدؓ نے ہانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔ ’’کیا وہ اسے چھڑا کر لے گئے ہیں؟‘‘
’’میں یہیں ہوں ولید کے بیٹے!‘‘ خیمے کے اندر سے مجاعہ کی آواز آئی۔ ’’میں تیری اس بات کو سچ نہیں مانوں گا کہ مسیلمہ مارا گیا ہے۔‘‘
’’میرے ساتھ چل مجاعہ۔‘‘ خالدؓ نے خیمے کے اندر جاکر کہا۔ ’’ہو سکتا ہے تیری بات سچ ہو۔میں مسیلمہ کو نہیں پہچانتا۔ تیرا قبیلہ یہ شور مچاتا بھاگ گیا ہے کہ مسیلمہ مارا گیا ہے۔ میرے ساتھ آ اور لاشوں میں اس کی لاش دیکھ کر بتا کہ یہ ہے اس کی لاش۔‘‘
’’پھر کیا ہو گا؟‘‘ مجاعہ نے پوچھا۔ ’’مجھے آزاد کر دو گے؟‘‘
’’خدا کی قسم!‘‘ خالدؓنے کہا۔ ’’میں اس قبیلے کے ایک سردار کو آزاد نہیں کروں گا جو میرے دین کا دشمن ہے۔رسالت میں شرکت کا دعویٰ کرنے والے اور اس دعویٰ کو ماننے والوں کو میں کیسے بخش دوں؟ اﷲکے سوا تجھے کوئی نہیں بخش سکتا۔‘‘
’’او ولید کے بیٹے!‘‘ مجاعہ بن مرارہ نے کہا۔ ’’میں نے اسے کب نبی مانا تھا؟ وہ چرب زبانی اور شعبدہ بازیوں سے نبی بن گیا تھااور تو نے دیکھ لیا ہے کہ کتنا بڑا لشکر اس کا مرید ہو گیا تھا۔ اگر میں اسے نبی نہ مانتا تو وہ میرے سارے خاندان کو زندہ جلا دیتا اور یہ وجہ بھی تھی کہ میں اپنے قبیلے سے اپنے آپ کو کاٹ نہیں سکتا تھا۔ اگر تو میرے قتل کا حکم دے گا تو یہ ایک بے گناہ کا قتل ہو گا۔‘‘
’’اِس نے مجھے اپنے اُن لوگوں سے بچایا ہے جو ہماری خیمہ گاہ کو لوٹنے اور تباہ بربادکرنے آئے تھے۔‘‘ لیلیٰ نے خالدؓ سے کہا۔ ’’اِس نے اُنہیں کہا تھا کہ عورتوں کے پیچھے مت پڑو۔ پہلے آدمیوں کے پیچھے جاؤ۔وہ چلے گئے۔ اس نے انہیں یہ بھی نہ کہا کہ وہ اس کی بیڑیاں کھول دیں۔‘‘
’’تو نے اس عورت پر رحم کیوں کیا ہے مجاعہ؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔
’’کیونکہ ا س نے مجھے قید میں بھی وہی عزت دی ہے جومجھے اپنے قبیلے میں ملا کرتی ہے۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’میں نے اسے اس سلوک کا صلہ دیاہے جو اس نے میرے ساتھ کیا۔ کیامیں ایسا نہیں کر سکتا تھا کہ اپنے آدمیوں سے کہتا کہ میری بیڑیاں کاٹ دیں پھر میں تیری اتنی حسین بیوی کو اپنی لونڈی بنا لیتا۔‘‘
’’بے شک! تو عزت کے لائق ہے مجاعہ۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’میں تیری بیڑیاں اپنے ہاتھوں سے کاٹتا ہوں۔ پھر میرے ساتھ چلنا اور بتاناکہ مسیلمہ کی لاش کون سی ہے۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages