Featured Post

Khalid001

01 June 2019

Khalid051


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  51
مجاعہ بن مرارہ خالدؓ کے ساتھ خیمہ سے نکلا تو اس کے پاؤں میں بیڑیاں نہیں تھیں ۔باہر خالدؓ کے دو محافظ کھڑے تھے۔ خالدؓ اکیلے ادھر آئے تھے۔ ان کے محافظ دستے کو پتا چلا کہ سپہ سالارکسی اور طرف نکل گئے ہیں تو دو محافظ ان کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم پھر کر ان کی خیمہ تک جا پہنچے۔ وہ انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔
مجاعہ نے اپنی آنکھوں سے میدانِ جنگ کی حالت دیکھی۔ اسے اپنے قبیلے کی لاشوں کی سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔
’’مجھے یقین نہیں آرہا۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’دیکھ کر بھی یقین نہیں آ رہا۔کیا اتنے تھوڑے مسلمان اتنے بڑے لشکرکو شکست دے سکتے ہیں۔‘‘
’’یہ فتح انسانوں نے نہیں پائی۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’یہ سچے عقیدے اور اﷲ کے سچے رسولﷺ کی فتح ہے۔ بنو حنیفہ باطل عقیدے کیلئے میدان میں اترے تھے، ہماری تلواروں نے اس عقیدے کو کاٹ دیا ہے اور اتنا بڑا لشکر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔‘‘
وہ لاشوں اورتڑپتے زخمیوں میں سے گزرتے باغ تک چلے گئے۔اندر گئے تووہاں لاشوں پر لاشیں پڑی تھیں۔ مسلمان لاشوں کے ہتھیار اکھٹے کر رہے تھے ۔بنو حنیفہ میں سے جوزندہ تھے، وہ ادھر ادھر بھاگ گئے تھے۔
خالدؓ نے وحشی بن حرب کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ ’’اس شخص کی لاش کہاں ہے جسے اس نے مسیلمہ سمجھ کر ہلاک کیا ہے؟‘‘ وحشی خالدؓ کو وہاں لے گیا جہاں مسیلمہ کی لاش پڑی تھی۔ اس نے لاش کی طرف اشارہ کیا۔
’’نہیں!‘‘خالدؓنے کہا۔’’یہ ٹھگنا اور بدصورت آدمی مسیلمہ نہیں ہو سکتا۔ اس کے چہرے پر کراہیت ہے۔‘‘
’’یہی ہے۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’یہ مسیلمہ کی لاش ہے۔‘‘
’’یہ اس شخص کی لاش ہے جس نے ہزاروں لوگوں کو گمراہ کیاتھا۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’یہ شخص اِک فتنہ تھا۔‘‘
’’ابن ِولید!‘‘ مجاعہ نے خالدؓ سے کہا۔ ’’فتح پر خوش نہ ہو۔تیرے لیے اصل مقابلہ تو ابھی باقی ہے۔‘‘
’’کس کے ساتھ؟‘‘
’’بنو حنیفہ کے ساتھ۔‘‘ مجاعہ نے جواب دیا۔ ’’یہ تو وہ لشکر تھا جو میدان میں آکر لڑا تھا۔ یہ تو چھوٹا سا ایک حصہ تھا، اس سے بھی بڑا لشکر یمامہ میں قلعے کے اندر تیار کھڑا ہے۔ اپنی جانی نقصان کو دیکھ اور سوچ کہ تیری یہ سپاہ جو بہت کم ہو گئی ہے اتنے بڑے تازہ دم لشکر کا مقابلہ کرسکے گی؟ تیرے سپاہی تھک کر چور ہو چکے ہیں۔‘‘
خالدؓ نے لاشوں سے اَٹے ہوئے باغ میں نگاہ دوڑائی۔ ان کا لشکر واقعی لڑنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ جانی نقصان برداشت کے قابل نہیں تھا۔ زخمیوں کی تعدا دبھی زیادہ تھی۔ باقی لشکر کی جسمانی کیفیت یہ ہو چکی تھی کہ اﷲ کے سپاہی اتنے تھک گئے تھے کہ جہاں جگہ دیکھتے وہاں لیٹ جاتے اور سو جاتے تھے۔ وہ اپنے سے تین گنا زیادہ لشکر سے لڑے تھے۔ انہیں آرام کی ضرورت تھی۔
’’اگر تو میری ایک تجویز مان لے تو میں قلعے میں جاکر صلح کی بات کرتا ہوں۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’میرا قبیلہ میری بات مان لے گا۔‘‘
خالدؓ بڑے قابل سپہ سالار تھے۔ جنگی قیادت میں اپنی مثال آپ تھے۔ رسول اﷲﷺ کے سچے عاشق تھے لیکن خود سر تھے اور زندہ دل بھی۔ وہ دشمن کو صرف شکست دے کراسے فتح نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنی فتح کو اس وقت مکمل سمجھتے تھے جب بھاگتے ہوئے دشمن کا تعاقب کرکے اس کی بستیوں کو اپنے قبضے میں لے لیتے تھے۔ ان کا اصول تھا کہ دشمن کو سانپ سمجھو اور اس کا سر کچل کربھی دیکھو کہ اس میں ذرا سی بھی حرکت باقی نہ رہ جائے۔
خود سری کو خالدؓ خوبی سمجھتے تھے ۔ان میں ڈسپلن بڑا ہی سخت تھا اس کے باوجود جہاں صورتِ حال پیچیدہ ہو جاتی خالدؓ اپنے نائب سالاروں سے مشورے اور تجاویز لیتے تھے۔ اب مجاعہ بن مرارہ نے صلح کی بات کی تو خالدؓ نے یہ جانتے ہوئے کہ دشمن پسپا ہو چکا ہے اس حقیقت کو بھی سامنے رکھا کہ ان کے مجاہدین لڑنے کے قابل نہیں رہے۔ خالدؓ نے اپنے نائب سالاروں کو بلایا اورانہیں بتایا کہ بنو حنیفہ کا ایک سردار مجاعہ بن مرارہ صلح کی پیش کش کر رہا ہے۔
’’اصل فتنہ تو ختم ہو چکاہے۔‘‘ عبداﷲؓ بن عمرؓ نے کہا۔ ’’مسیلمہ کذاب کے مر جانے سے بنو حنیفہ کا دم خم ٹوٹ چکا ہے۔ میں تو یہ بہتر سمجھتا ہوں کہ یمامہ کا محاصرہ فوراً کر لیا جائے اور دشمن کو سستانے کی مہلت نہ دی جائے۔‘‘
’’صرف یمامہ نہیں۔‘‘ عبدالرحمٰنؓ بن ابی بکر ؓنے کہا۔ ’’بنو حنیفہ میدانِ جنگ سے بھاگ کر ایسی جگہوں میں چھپ گئے ہیں جو چھوٹے چھوٹے قلعے ہیں ۔پہلے انہیں پکڑنا ضروری ہے۔ اس کے بعد صلح کی بات ہو سکتی ہے۔‘‘
’’صلح کی شرائط ہماری ہوں گی۔‘‘ عبداﷲؓ بن عمرؓ نے کہا۔
’’کیا تمہاری نظر اپنے لشکر کی جسمانی حالت پر بھی ہے؟‘‘خالدؓ نے کہا۔’’ابھی شہیدوں اور زخمیوں کی گنتی ہو رہی ہے ۔خدا کی قسم! کسی جنگ نے ہمارا اتنا خون نہیں پیا، جتنا یہ جنگ پی گئی ہے اور شاید ہمیں ابھی اور خون دینا پڑے گا۔کیا تم بہتر سمجھو گے کہ دشمن کے جو آدمی اِدھر اُدھر چھپ گئے ہیں انہیں پکڑا جائے تاکہ یہ یمامہ کے قلعے میں جاکر ہمارے مقابلے میں نہ آسکیں؟‘‘
’’ہم یقیناً اسی کو بہتر سمجھتے ہیں۔‘‘ عبدالرحمٰنؓ نے کہا۔ ’’اگر ہم انہیں پکڑ لیں تو صلح کی کیا ضرورت رہ جائے گی۔‘‘
’’مجاعہ نے بتایا ہے کہ ان کے جس لشکر سے ہم لڑ چکے ہیں اس سے کچھ زیادہ لشکر یمامہ کے اندر موجود ہے۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’تم میری اس رائے کو صحیح مانو گے کہ ہماری سپاہ لڑنے کے قابل نہیں رہی، تم دیکھ رہے ہو کہ ہمارے مجاہدین تھکن سے بے حال ہوکر جہاں بیٹھتے ہیں وہاں سو جاتے ہیں۔ ہمارے لیے کمک بھی نہیں رہی۔ اگر کمک منگوائی بھی جائے تو بہت دن لگ جائیں گے۔ اتنے دنوں میں دشمن منظم ہو جائے گااور اس پر ہماری جو دہشت غالب آئی ہوئی ہے وہ اتر جائے گی۔‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ عبداﷲؓ نے کہا۔ ’’تم نے خود بھی تو کچھ سوچا ہو گا؟‘‘
’’ہاں ابنِ عمر!‘‘ خالدؓنے جواب دیا۔ ’’میں نے سوچا ہے کہ اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے دشمن کو پکڑا جائے پھر یمامہ کا محاصرہ کرلیا جائے اور اس دوران مجاعہ یمامہ میں جاکر اپنے سرداروں کے ساتھ صلح کی بات کرے۔ صلح کیلئے ہم یہ شرط ضرور رکھیں گے کہ بنو حنیفہ شکست تسلیم کرکے ہتھیار ڈال دیں۔‘‘
’’یہی بہتر ہے۔‘‘ عبدالرحمٰنؓ نے کہا۔
’’میں بھی اسی کو بہتر سمجھتا ہوں۔‘‘ عبداﷲؓ نے کہا۔
’’پھر یہ کام ابھی شروع کر دو۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’دستوں کو مختلف سمتو ں میں روانہ کردو اور انہیں کہو کہ بنو حنیفہ کا کوئی آدمی عورت یا بچہ کہیں نظر آجائے تو اسے پکڑ کر لے آؤ۔‘‘
…………bnb…………

دستوں کو روانہ کر دیا گیا اور خالدؓ نے مجاعہ کو اپنے پاس بٹھا لیا۔
’’ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓ نے مجاعہ سے کہا۔’’مجھے تجھ پراعتماد ہے اور میں تجھے اس اعتماد کے قابل سمجھتا ہوں۔جا اور اپنے سرداروں سے کہہ کہ ہم صلح کیلئے تیار ہیں لیکن شرط یہ ہو گی کہ تمہارے ہتھیار ہمارے سامنے زمین پر پڑے ہوئے ہوں گے۔‘‘
’’میں اسی شرط پر صلح کرانے کی کوشش کروں گا۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’لیکن ابنِ ولید! اپنی فوج کی حالت دیکھ لے۔‘‘
’’میں مزید خون خرابے سے ہاتھ روکنا چاہتا ہوں۔‘‘ خالدؓ نے کہا۔ ’’کیا تو نہیں چاہے گا کہ تمہارے اور ہمارے جو آدمی زندہ ہیں وہ زندہ ہی رہیں؟ اپنے قبیلے میں جاکر دیکھ۔ آج کتنے ہزار عورتیں بیوہ اور کتنے ہزار بچے یتیم ہو چکے ہیں اور یہ بھی سوچ کہ بنو حنیفہ کی کتنی عورتیں ہماری لونڈیاں بن جائیں گی۔‘‘
اس وقت کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ کی یہ بات سن کر مجاعہ کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ آگئی جس میں تمسخر یا طنز کی جھلک تھی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
’’میں جاتا ہوں۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔’’ابنِ ولید!تیری خواہش پوری کرنے کی میں پوری کوشش کروں گا۔‘‘
خالدؓ اپنے خیمے کی طرف چل پڑے۔وہ لاشوں اور زخمیوں کو دیکھتے چلے جا رہے تھے۔ لیلیٰ نے خالدؓ کو دور سے دیکھا اور دوڑی آئی۔
’’کیا تم نے اسے چھوڑ دیا ہے؟‘‘ لیلیٰ نے خالدؓ سے پوچھا۔
خالدؓ نے اسے بتایا کہ انہوں نے مجاعہ کو کس مقصد کیلئے چھوڑا ہے۔
’’ابنِ ولید! ‘‘لیلیٰ نے کہا۔’’اتنے انسانوں کا خون کس کی گردن پر ہوگا؟میں نے اتنی زیادہ لاشیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔‘‘
’’جب تک انسانوں میں انسانوں کو اپنی خواہشات کا غلام بنانے کی ذہنیت موجود رہے گی ،انسانوں کا خون بہتا رہے گا۔‘‘خالدؓ نے کہا۔’’میں نے بھی اتنی لاشیں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ آنے والا زمانہ اس سے زیادہ لاشیں دیکھے گا۔حق اور باطل آپس میں ٹکراتے رہیں گے … میں اسی لیے صلح کی کوشش کررہاہوں کہ اور خون نہ بہے … اس سے آگے نہ جانا۔ تم جو دیکھو گی اسے تم برداشت نہیں کر سکو گی۔‘‘
آسمان سے گدھ اترنے لگے تھے اور انہوں نے لاشوں کو نوچنا شروع کر دیا تھا۔ کچھ مسلمان لاشوں کے درمیان اپنے زخمی ساتھیوں کو تلاش کرتے پھر رہے تھے۔ انہیں اٹھا اٹھا کر خیمہ گاہ کی طرف لا رہے تھے۔ باقی سپاہ بنو حنیفہ کے چھپے ہوئے آدمیوں کو پکڑنے کیلئے چلی گئی تھی۔
…………bnb…………

رات کو خالدؓ کو اطلاعات ملنے لگیں کہ بنو حنیفہ کے آدمیوں کو لارہے ہیں۔ بعض کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے، خالدؓ نے حکم دیا کہ عورتو ں اور بچوں کو سردی اور بھوک سے بچایا جائے، لیکن خیمہ گاہ لٹ چکی تھی، خوراک کی قلت تھی۔ خالدؓ نے کہا کہ خود بھوکے رہو، قیدی عورتوں اور بچوں کے پیٹ بھرو۔
اس کاحل یہ نکالا گیا کہ مسلمان مجاہدین لاشوں سے کھجوروں وغیرہ کی تھیلیاں کھول کر لے آئے۔ ہر سپاہی اپنے ساتھ کھانے پینے کا کچھ سامان رکھتا تھا۔ یہ عورتوں اوربچوں کو دیا گیا۔
علی الصبح مجاعہ یمامہ سے واپس آیا اور خالدؓ کے خیمے میں گیا۔
’’کیا خبر لائے ہو ابنِ مرارہ؟‘‘ خالدؓ نے پوچھا۔
’’خبر بری نہیں۔‘‘ مجاعہ نے جواب دیا۔ ’’لیکن تم اسے اچھا نہیں سمجھو گے ۔بنو حنیفہ تمہاری شرط پر صلح کرنے کو تیار نہیں۔ وہ تمہاری غلامی قبول نہیں کریں گے۔‘‘
’’خدا کی قسم! میں انہیں اپنا غلام نہیں بنانا چاہتا۔‘‘ خالدؓنے کہا۔ ’’ہم سب اﷲ کے رسول کے غلام ہیں۔میں انہیں اس سچے رسولﷺ کے عقیدے کا غلام بناؤں گا۔‘‘
’’وہ اس شرط کو بھی نہیں مانیں گے۔‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’اور یہ بھی دیکھ کہ تیرے پاس رہ کیا گیا ہے ابن ِ ولید۔ میں نے یمامہ کے اندر جاکر دیکھاہے۔ ایک لشکر ہے جو ذرہ پہنے تیری چھوٹی سی فوج کو لہو لہان کردینے کیلئے تیار ہے۔ کبھی یہ حماقت نہ کر بیٹھنا کہ یمامہ کو آکہ محاصرے میں لے لے۔ تو کچلا جائے گا ابن ِولید۔ جوش کو چھوڑ اور ہوش کی بات کر۔ اپنی شرط کو نرم کر۔ میں نے بنو حنیفہ کو ٹھنڈا کر لیا ہے، اس لشکرکی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے۔‘‘
خالدؓ گہری سوچ میں کھو گئے ۔مجاعہ نے انہیں کوئی نئی بات نہیں بتائی تھی ۔یہ تو خالدؓ دیکھ ہی چکے تھے کہ ان کے پاس جو سپاہ رہ گئی ہے وہ لڑنے کے قابل نہیں رہی۔ اس سپاہ کو آرام کی ضرورت تھی لیکن وہ رات بھر دشمن کے چھپے ہوئے آدمیوں کو تلاش اور گرفتار کرتی رہی تھی۔ اب تو ان مجاہدین کے سر ڈول رہے تھے۔
’’ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓ نے گہری سوچ سے نکل کر کہا۔ ’’تجھے شاید معلوم نہ ہو، اپنے ان سرداروں سے پوچھ لینا جو اس جنگ میں شریک تھے کہ ہمارے پاس بنو حنیفہ کاکتنا مال اور سازوسامان ہے اورکتنے باغ اور کتنے قیدی ہمارے قبضے میں ہیں۔ واپس جا اور اپنے سرداروں سے کہہ کہ مسلمان آدھا مالِ غنیمت، آدھے باغ اور آدھے قیدی واپس کر دیں گے۔ انہیں سمجھا کہ یمامہ اور اس کی آبادی کو تباہی میں نہ ڈالیں۔‘‘
ابنِ مرارہ چلا گیا، اس دوران مزید قیدی لائے گئے۔ مجاعہ شام سے کچھ پہلے واپس آیا اور ا س نے بتایا کہ بنو حنیفہ کا کوئی سردار اس شرط کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ مجاعہ نے یہ بھی کہا کہ بنو حنیفہ اپنی شکست اور اپنے ہزاروں مقتولین کے خون کا انتقام لیں گے۔
’’میری بات کان کھول کر سن ابنِ مرارہ!‘‘ خالدؓنے جھنجھلا کر کہا۔ ’’اگر بنو حنیفہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم قلیل تعداد ہونے کی وجہ سے ڈر جائیں گے تو انہیں جا کر کہہ دے کہ مسلمان کٹ مریں گے۔ تمہیں انتقام کی مہلت نہیں دیں گے۔‘‘
’’غصے میں نہ آ ولید کے بیٹے!‘‘ مجاعہ نے مسکرا کر کہا۔ ’’ہمارا جومالِ غنیمت ،باغ اورقیدی تمہارے پاس ہیں۔ ان کا چوتھائی حصہ اپنے پاس رکھ لے باقی ہمیں دے دے اور آ صلح کر لیں۔ صلح نامہ تحریر ہو گا۔‘‘ خالدؓ ایک بار پھر سوچ میں کھو گئے۔
’’میں تجھے ایک بار پھر خبردار کرتا ہوں ولید کے بیٹے!‘‘ مجاعہ نے کہا۔ ’’یہ میرا کمال ہے کہ میں نے بنو حنیفہ کو صلح پر راضی کر لیا ہے۔ میں نے ان کی لعنت ملامت بردازشت کی ہے۔ انہو ں نے مجھے غدار بھی کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ تم مسلمانوں سے انعام لے کر ہمیں ان کا غلام بنانا چاہتے ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ ہماری تعداد اگر کم بھی ہوتی تو بھی ہم صلح نہ کرتے۔ ہمارے پاس نہ سازوسامان کی کمی ہے نہ خوراک کی۔ ان چیزوں کی کمی ہے تو مسلمانوں کو ہو گی۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی سخت سردی میں مسلمان کب تک محاصرے میں بیٹھے رہیں گے۔ راتو ں کی سردی کو وہ کھلے آسمان تلے برداشت نہیں کر سکیں گے۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ تیری اس چھوٹی سی فوج کے پاس خیمے بھی نہیں رہے۔ سوچ لے ابنِ ولید۔ اچھی طرح سوچ لے۔ اگر تجھے شک ہے تو ذرا آگے جا کر یمامہ کی دیواروں پر ایک نظر ڈال اور دیکھ کہ ایک دیوار تو قلعے کی ہے اور اس کے اوپر ایک دیوار انسانی جسموں کی ہے۔‘‘
خالدؓ بے شک اپنی کمزوریوں سے آگاہ تھے لیکن وہ دشمن کی ہر شرط ماننے کو تیار نہیں ہو سکتے تھے۔ وہ اپنے خیمے سے باہر نکل گئے۔ ان کے نائب سالار باہر کھڑے تھے۔ سالاروں نے بے تابی سے خالدؓ سے پوچھا کہ صلح کی بات کہاں تک پہنچی ہے؟
’’میرے ساتھ آؤ۔‘‘ خالدؓ نے ان سے کہا۔
نائب سالار خالدؓ کے ساتھ چل پڑے۔ خالدؓانہیں بتاتے گئے کہ مجاعہ صلح نامے کی کیا شرط لایا ہے ۔وہ چلتے گئے اور ایسی جگہ جا رکے جہاں سے یمامہ شہر کی دیوار نظر آتی تھی۔ انہوں نے دیکھاکہ دیوار پر آدمی ہی آدمی تھے۔ مجاعہ نے ٹھیک کہاتھا کہ شہر کی دیوار کے اوپر انسانی جسموں کی دیوار کھڑی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ شہر میں بہت بڑا لشکر موجود ہے۔
’’میراخیال ہے کہ ہم نے محاصرہ کیا تو ہم نقصان اٹھائیں گے۔‘‘خالدؓ نے اپنے نائب سالاروں سے کہا۔’’دیوار پر جو مخلوق کھڑی ہے اس کے تیر ہمیں دیوارکے قریب نہیں جانیں دیں گے۔ہمارے پاس مروانے کیلئے اتنے زیادہ آدمی نہیں۔‘‘
’’میں تو صلح کی رائے دوں گا۔‘‘ ایک نائب سالار نے کہا۔
’’جس فتنے کو ہم ختم کرنا چاہتے تھے وہ ختم ہو چکا ہے۔‘‘ ایک اور نائب سالار نے کہا۔ ’’اب ہم صلح کر لیں تو ہم پر کون انگلی اٹھا سکتا ہے؟‘‘
خالدؓ واپس اپنے خیمے میں آئے اور مجاعہ کو بتایا کہ وہ صلح کیلئے تیار ہیں ۔اسی وقت صلح نامہ تحریر ہوا جس پر خالدؓ نے خلافت کی طرف سے مجاعہ بن مرارہ نے بنو حنیفہ کی طرف سے دستخط کیے۔ اس میں ایک شرط یہ تھی کہ مسلمان یمامہ کے کسی آدمی کو جنگی مجرم قرار دے کر قتل نہیں کریں گے۔
مجاعہ واپس چلا گیا ۔اسی روزاس نے یمامہ کے دروازے کھول دیئے اور خالدؓ کو شہر میں مدعو کیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

3 comments:

  1. excellent blog for great knowledge

    ReplyDelete
  2. Great information shared. Thank you for sharing.
    Visit my articles at: myvisionofhealth

    ReplyDelete

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages