Featured Post

Khalid001

09 June 2019

Khalid055


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  55
خدام نے قہقہے میں ایک راز چھپا لیا تھا اور زہرہ پر جذبات کا آسیب طاری کر کے یہ راز اس کی آنکھوں کے آگے سے ہٹا لیا تھا۔ زہرہ کو یہ خطرہ نظر آیا تھا کہ خدام غیر معمولی طور پر دلیر،غیرت مند اور جسمانی لحاظ سے طاقتور اورپھرتیلا ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ وہ شمر کو قتل کرانے کیلئے ڈاکوؤں کے گروہ سے جا ملا ہو۔اس زمانے میں صحرائی ڈاکوؤں کے گروہ فوجی دستوں کی طرح اپنی کارروائیاں کرتے تھے۔وہ مسافروں کے قافلوں کو لوٹتے اور اگر فوج کے مقابلے میں آجاتے تو جم کر مقابلہ کرتے اور لڑتے لڑتے یوں غائب ہوجاتے جیسے انہیں صحرا کی ریت اور ریتیلے ٹیلوں نے نگل لیا ہو۔
زہرہ نے کئی بار دیکھا تھا کہ دو تین اجنبی مسافر آئے اور یہ بتا کر کہ وہ بہت دور جا رہے ہیں ،کسی مسلمان کے گھر ٹھہرے اور صبح ہوتے ہی چلے گئے،وہ جب بھی آتے تھے ،خدام اور اس جیسے تین چار نوجوان زیادہ وقت ان کے ساتھ گزارتے اور ان کے جانے کے بعد یہ نوجوان پراسرار سی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے تھے۔
زہرہ نے یہ بھی دیکھا تھا کہ اجنبی مسافروں کے جانے کے بعد مسلمان قبیلوں کے بزرگ سرجوڑ کر بیٹھ جاتے اور سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے۔پھر جب مسلمان کھیتی باڑی،باغبانی اور دیگر کاموں میں مصروف ہوتے تو یہ بزرگ ان کے درمیان گھومتے پھرتے اور ان کے ساتھ ایسی باتیں کرتے جیسے وعظ کر رہے ہوں۔
’’اپنے مذہب کو نہ چھوڑنا۔‘‘بزرگ اس قسم کی باتیں کرتے تھے۔’’جس خدا کے بھیجے ہوئے رسولﷺ کو مانتے ہو اس خدا کی مدد آ رہی ہے …آتش پرست طاقتور ہیں ،بہت طاقتور ہیں لیکن وہ اﷲ سے زیادہ طاقتور نہیں …ثابت قدم رہو …ظالم کا ہاتھ کٹنے والا ہے …اﷲمظلومین کے ساتھ ہے۔‘‘
’’کب؟… آخر کب؟‘‘ایک روز ایک آدمی نے جھنجھلا کر ان بزرگوں سے پوچھا۔’’خدا کی قسم! تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہم ظلم و ستم سہتے چلے جائیں اور چپ رہیں اور تمہارے وعظ سنتے رہیں ۔اگر آج ہم کہہ دیں کہ ہم مسلمان نہیں اور اسلام کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہیں تو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں …خدا کی مدد آرہی ہے۔کب آ رہی ہے؟‘‘
’’اسے بتاؤ۔‘‘ایک بزرگ نے اس آدمی کے ساتھ کام کرنے والے ایک آدمی سے کہا۔’’اسے اچھی طرح سمجھاؤ… اسے بتاؤ کہ اس علاقے میں یہ صدیوں پرانے کھنڈر ہیں، خدا کا ہاتھ ان میں سے اٹھے گا اور ظالم کا ہاتھ کٹ جائے گا۔‘‘
…………bnb…………

ان بزرگوں کے سینے میں وہی راز تھا جو خدام نے زہرہ بنتِ سعود سے چھپا لیا تھا۔
ایرانی کماندار شمر کی چوکی پر جو اتنا زبردست شب خون مارا گیا تھا وہ پہلا شب خون نہیں تھا۔اُبلہ کے علاقے میں یہ پہلا تھا ۔یہ چوکی چونکہ آبادی کے قریب تھی اس لیے ان مسلمانوں کو پتا چل گیا تھا ۔اگر ان کے گھروں کی تلاشی نہ لینی ہوتی تو شاید انہیں پتا ہی نہ چلتا۔عراق کے سرحدی علاقے میں یہ دوسری تیسری رات ایرانیوں کی کسی نہ کسی چوکی پر ایسا ہی شب خون پڑتا اور شب خون مارنے والے چوکی میں قتل و غارت کرکے وہاں سے جو مال اور سامان ہاتھ لگتا، لے کر غائب ہو جاتے۔
دو بار ایرانی فوج نے یہ جوابی کارروائی کی کہ کثیر تعداد گھوڑ سوار دستہ شب خون مارنے والوں کی تلاش میں گیا۔ اس سر سبز اور شاداب علاقے سے نکلتے ہی صحرا شروع ہو جاتا تھا۔ جو ہموار صحرا نہیں تھا۔وہاں ریت کی گول گول اور اونچی اونچی ٹیکریاں تھیں۔ آگے وسیع نشیب تھے جن میں عجیب و غریب شکلوں کے ٹیلے کھڑے تھے۔ ریت کی پہاڑیاں تھیں جن سے شعلے سے نکلتے محسوس ہوتے تھے۔اس خوفناک علاقے میں جو میل ہامیل پھیلا ہوا تھا،صحرا کے بھیدی ہی جا سکتے تھے۔ کسی اجنبی کا وہاں جانا ہی محال تھا اور وہاں جاکر زندہ نکل آنا تو ناممکن تھا۔
دونوں بار ایرانی فوج کے گھوڑ سوار دستے کا یہ انجام ہوا کہ اسے گھوڑوں اورانسانوں کے نقوش ِ پا ملتے رہے جو صاف بتاتے تھے کہ یہ ایک گروہ ہے اور شب خون مارنے والا یہی گروہ ہو سکتا ہے۔ مگر یہ نقوش انہیں سیدھے موت کے منہ میں لے گئے۔ایرانی جوں ہی پہلے نشیب میں داخل ہوئے اورپورا دستہ نشیب میں اتر گیا تو ان پر تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں۔ پہلی بوچھاڑ میں کئی سوار اور گھوڑے گھائل ہو گئے۔ زخمی گھوڑے بے لگام ہو کر ادھر ادھر بھاگے ۔سارے دستے میں بھگدڑ مچ گئی۔ ان پر تیر برستے رہے مگر بکھر جانے کی وجہ سے تیر خطا ہونے لگے۔
بھول بھلیوں جیسے اس نشیب میں سے چند ایک گھوڑ سوار نکلے۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔ان کے کرتے بڑے لمبے اورسروں پر سیاہ کپڑے اس طرح لپٹے ہوتے تھے کہ ان کے چہرے اور گردنیں بھی ڈھکی ہوئی ہوتی تھیں ۔ان کی صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔ان گھوڑوں کے قدموں میں اور ان کے سواروں کے بازوؤں میں ایسی پھرتی تھی کہ ایرانی سوار جو پہلے ہی ہراساں تھے ،برچھیوں سے زخمی ہوکر گرنے لگے۔ان میں سے کئی بھاگ نکلے۔وہ ٹیلوں اور گھاٹیوں واے نشیب سے تو نکل گئے لیکن ریت کی گول گول ٹیکریوں میں داخل ہوئے تو گھومنے لگے۔ان سینکڑوں ٹیکریوں میں جو ایک دوسری کے ساتھ ساتھ کھڑی تین چار میل کی وسعت میں پھیلی ہوئی تھیں ،یہی خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی اجنبی ان کے اندر چلا جائے تو وہ اندر ہی اندر چلتا رہتاہے ،نکل نہیں سکتا۔آخر تھک کر بیٹھ جاتا ہے ۔پیاس سے حلق میں کانٹے چبھنے لگتے ہیں اور ریگستان کے یہ گول گول بھوت اسے بڑی اذیت ناک موت مارتے ہیں۔
دوسری بار ایرانیوں کے سوار دستے پر کسی اور جگہ سے ایسا ہی حملہ ہواتھا اور سوار بکھر کر ادھر ادھر بھاگ رہے تھے تو انہیں ایک للکار سنائی دینے لگی۔’’زرتشت کے پجاریوں !میں مثنیٰ بن حارثہ ہوں …زرتشت کو ساتھ لاؤ …مثنیٰ بن حارثہ ……ہرمز کو یہ نام بتا دینا …مثنیٰ بن حارثہ۔‘‘ اس ایرانی دستے کے جو سوار زندہ بچ گئے وہ نیم مردہ تھے۔انہوں نے اپنے کمانداروں کو بتایا کہ انہیں صحرا میں یہ للکار سنائی دی تھی۔
اس کے بعد ایرانیوں کی سرحدی چوکیوں پر چھاپے پڑتے رہے لیکن انہوں نے چھاپہ مار وں کے تعاقب کی اور ان کو تلاش کرنے کی جرات نہ کی۔بعض چھاپوں کے بعد بھی یہ للکار سنائی دیتی تھی۔ ’’مثنیٰ بن حارثہ …آتش پرستو …میں مثنیٰ بن حارثہ ہوں۔‘‘
پھر مثنیٰ بن حارثہ دہشت کا،کسی جن بھوت کا،کسی بدروح کا ایک نام بن گیا۔ایرانی فوجی اس نام سے ڈرنے لگے ۔انہوں نے مثنیٰ بن حارثہ یا اس کے گروہ کے کسی ایک آدمی کو پکڑنے کے بہت اہتمام کیے لیکن جب کہیں شب خون پڑتا تھا تو ایرانی فوجی جن کی جرات اور بے جگری مشہور تھی ،دہشت سے دبک جاتے تھے۔
…………bnb…………

یہ تھا وہ مثنیٰ بن حارثہ جو فروری 633ء کے ایک روز مدینہ میں خلیفۃ المسلمین ابو بکرؓ کے سامنے ایک گمنام اجنبی کی حیثیت سے بیٹھا تھا۔وہ جنوبی عراق کارہنے والا اور اپنے قبیلے بنو بکرکا سردار تھا۔تاریخ میں ایسا اشارہ کہیں بھی نہیں ملتا کہ اس نے کب اور کس طرح اسلام قبول کیا تھا ۔یہ اسی کی کاوش کا نتیجہ تھاکہ نہ صرف اس کے اپنے قبیلے نے بلکہ ان علاقوں میں رہنے والے کئی اور قبیلوں نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
جب جنگِ یمامہ ختم ہوئی اورارتداد کے فتنے کا سر کچل دیا گیاتو مثنیٰ بن حارثہ نے عراق کے جنوبی علاقوں میں ایرانیوں کیخلاف جہاد شروع کر دیا۔انہوں نے ان مسلمانوں میں سے جو ایرانی بادشاہی کی رعایا تھے۔ایک گروہ بنالیا اور ایرانی فوج کی سرحدی چوکیوں پر شب خون مارنے شروع کر دیئے۔ان کے شب خون اس قدر اچانک اور تیز ہوتے تھے کہ چوکی والوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھااورمثنیٰ کا گروہ صفایا کرکے غائب ہو جاتا تھا۔
انہوں نے بڑے ہی دشوار گزار صحرامیں اپنا اڈہ بنالیا تھا جسے انہوں نے مالِ غنیمت سے بھر دیا تھا۔پھر انہوں نے ان بستیوں پر بھی شب خون مارنے شروع کردیئے جہاں صرف ایرانی رہتے تھے۔مثنیٰ نے سرحد پر ایرانی فوج کو بے بس اور مجبور کردیا۔ایرانی فوج کے کئی سینئر کماندار مثنیٰ کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
مثنیٰ بن حارثہ نے دوسرا کام یہ کیا کہ عراق کے جنوبی علاقے مین جومسلمان ظلم و ستم میں زندگی گزار رہے تھے انہیں اس نے اپنے زمین دوز اثر میں لے کرمتحد رکھا ہوا تھا۔ان کا ایک گروہ تو شب خون مارنے کاکام کرتا تھا اور ایک گروہ بستیوں میں رہ کر مسلمانوں کو اتحاد کی لڑی میں پروئے رکھتا تھا اور انہیں بتاتا رہتا تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔مسلمان اپنے چھاپہ ماروں کی کامیابیاں دیکھ رہے تھے اور وہ مطمئن تھے۔یہ تھی وہ خدائی مدد جس کے انتظارمیں وہ ایرانیوں کا ظلم و ستم سہہ رہے تھے اور اپنا مذہب نہیں چھوڑ رہے تھے۔ورنہ مظالم سے بچنے کا ان کے سامنے بڑا سہل طریقہ یہ تھاکہ اسلام سے منحرف ہو کر آتش پرست ہو جاتے۔
خدام نے زہرہ سے کہا تھا کہ وہ تین چار دنوں کیلئے غائب ہو جائے گا ۔وہ غائب ہوکر چھاپہ ماروں کے ا ڈے پر چلا گیا تھا اور انہیں ایرانی کماندار شمر کے متعلق بتایا تھا۔ اس کی چوکی تک چھاپہ ماروں کی رہنمائی اسی نے کی تھی ۔چوکی پر حملہ پوری طرح کامیاب رہا ۔اسکے فورا ً بعد خدام اپنے گھر آ گیا تھا۔
…………bnb…………

مثنیٰ بن حارثۃنے امیر المومنین ابو بکر ؓ کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے خلیج فارس کے ساحل کے ساتھ ساتھ اور عراق کے جنوبی علاقے میں کس طرح عربی مسلمانوں کے قبیلوں کو اپنے اثر میں لیا اورانہیں اسلام پر قائم رکھ کر انہیں زمین دوز محاذپر جمع کیا۔
’’تجھ پر اﷲ کی رحمت ہو ابن ِحارثہ!‘‘ خلیفہؓ نے کہا۔ ’’تو اگر یہ مشورہ دینے آیا ہے کہ میں ایرانیوں پر فوج کشی کروں تو مجھے سوچنا پڑے گا۔کیا تو نے دیکھا نہیں کہ ایرانیوں کی فوج کی تعداد کتنی زیادہ ہے اور ان کے وسائل اور ذرائع کتنے وسیع اور لا محدود ہیں ؟ہم اپنے مستقر سے اتنی دور قلیل تعداد اور بغیر وسائل، کثیر تعداد اور طاقتور فوج کے مقابلے کے قابل نہیں ہوتے لیکن میں نے سلطنت فارس کونظر انداز بھی نہیں کیا۔‘‘
’’امیر المومنین!‘‘ مثنیٰ نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کرکہا۔’’اگرایک آدمی اتنی بڑے ملک کی فوج کے ساتھ ٹکر لے سکتا ہے اور ان پرمسلمانوں کے عسکری جذبے کی دھاک بٹھا سکتا ہے تو میں اپنے اﷲ کے بھروسے پہ کہتا ہوں کہ ایک منظم فوج بہت کچھ کر سکتی ہے ۔میں اس آتش پرست سلطنت کی اندرونی کیفیت دیکھ آیا ہوں۔شاہی خاندان تخت وتاج کی خاطر آپس میں دست و گریباں ہو رہا ہے۔آپ جانتے ہیں کہ شہنشاہ ہرقل فارسیوں کو نینوا اور دستجرد میں بہت بری شکست دے چکا ہے۔اس کی فوجیں آتش پرست فارسیوں کے دارالحکومت مدائن کے دروازوں تک پہنچ گئی تھیں۔اس کے بعد فارسی (ایرانی) سنبھل نہیں سکے۔اگر ان میں عیش پرستی کو دیکھاجائے تو وہ سنبھلے ہوئے لگتے ہیں لیکن اب ان میں بادشاہی کے تاج پر رسہ کشی ہو رہی ہے۔یمن ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور وہاں کے حاکم بازان نے اسلام قبول کرلیا ہے،ان کی رعایا ان کی زنجیریں توڑنا چاہتی ہے۔ ان کی محکومی میں ان کے جنوبی علاقوں کے مسلمان میرے اشارے اورمدینہ کی فوج کے منتظر ہیں۔‘‘
’’تجھ پر رحمت ہی رحمت ہو مثنیٰ!‘‘ امیر المومنینؓ نے کہا۔ ’’لارَیب تیری باتیں میرے دل میں اتر رہی ہیں ۔میرا اگلا قدم وہیں پڑے گا جہاں تو کہتا ہے۔کیا یہ بہتر نہیں ہو گاکہ میں سالاروں کی مجلس سے بات کر لوں؟‘‘
’’یا امیرالمومنین!‘‘مثنیٰ نے کہا۔’’فیصلہ وہی بہتر ہوتا ہے جو صلح و مشورے کے بعد کیا جاتا ہے لیکن میں امیر المومنین سے اجاز ت چاہوں گا کہ جو کہنا چاہتا ہوں وہ کہہ لوں اور آپ میری باتیں سالاروں کے سامنے ضرور رکھیں …دجلہ اور فرات جہاں ملتے ہیں ،وہاں کے بڑے وسیع علاقے میں عربی قبیلے آباد ہیں جو سب کے سب مسلمان ہیں۔چونکہ وہ مسلمان ہیں اس لئے وہ آگ کے پجاری بادشاہوں کے جورو ستم کا نشانہ بنے ہوتے ہیں۔مسجدوں پر بھی ان کا حق تسلیم نہیں کیا جاتا۔فارسیوں کے ہاتھوں ان کی جان محفوظ نہیں۔ان کی عزت محفوظ نہیں…‘‘
’’وہ مسلمان فصل اگاتے ہیں جو پک جاتی ہے تو آتش پرست زمیندار اور فوجی اٹھا کر لے جاتے ہیں ،وہاں مسلمان مزارعے ہیں اور انہیں دھتکاری ہوئی مخلوق سمجھا جاتا ہے ۔وہ مسلسل خوف و ہراس میں رہتے ہیں۔ان کیخلاف الزام صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور کفر کے طوفانوں میں بھی وہ اسلام کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں۔وہ مدینہ کو روشنی کا مینار سمجھتے ہیں…‘‘
’’امیر المومنین! اگر آپ بیٹھے یہ سوچتے رہیں کہ دشمن بہت طاقتور ہے تو وہ روز بروز طاقتور ہوتا جائے گا اور مسلمان مایوس ہو کراپنی بھلائی کا کوئی ایسا طریقہ سوچ لیں گے جو اسلام کے منافی ہو گا۔میرے چھاپہ ماروں نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اور آپ کی فوج کیلئے جو زمین ہموار کی ہے وہ دشمن کے حق میں چلی جائے گی …کیارسول اﷲﷺمظلوم مسلمانوں کی مدد کو نہیں پہنچا کرتے تھے؟‘‘
’’خدا کی قسم! میں ان کی مدد کو پہنچوں گا۔‘‘خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا اور اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک سالار سے پوچھا۔’’ولید کا بیٹا خالد کہاں ہے؟‘‘
’’یمامہ میں آپ کے اگلے حکم کا انتظار کررہا ہے امیر المومنین!‘‘ انہیں جواب ملا۔
’’کوئی تیز رفتار قاصد بھیجو اور اسے پیغام بھیجو کے جلدی مدینہ پہنچے۔‘‘ خلیفہ ابو بکرؓ نے کہا۔ ’’فارس کی بادشاہی سے ہم اﷲ کی تلوار کے بغیر نہیں لڑ سکتے۔‘‘ خلیفہؓ مثنیٰ سے مخاطب ہوئے۔’’اور تم مثنیٰ!واپس جاؤ اور عرب قبیلوں کے جس قدرآدمی اکھٹا کر سکتے ہو کرلو۔اب تمہیں کھلی جنگ لڑنی پڑے گی۔جو تم شب خون اور چھاپوں کے انداز سے بھی لڑ سکتے ہو۔ لیکن اپنے فیصلوں میں تم آزاد نہیں ہو گے۔ خالد سالارِاعلیٰ ہوگا ۔تم اس کے فیصلوں کے پابندہو گے۔‘‘
’’تسلیم امیر المومنین!‘‘ مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔’’ایک اور عرض ہے …اس علاقے میں جو عرب قبیلے ہیں وہ سب کے سب مسلمان نہیں۔ان میں عیسائی بھی ہیں اور دوسرے عقیدوں کے لوگ بھی۔وہ سب آتش پرستوں کے خلاف ہیں ۔فارس کے آتش پرست ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کرتے ہیں جو مسلمانوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔اگر اﷲ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی تو غیر مسلم عربوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے جیسا وہاں کے عرب مسلمانوں کے ساتھ ہو گا۔‘‘
’’ایسے ہی ہو گا!‘‘امیر المومنین ابو بکرؓ نے کہا۔’’جنہوں نے اسلام کے خلاف کچھ نہیں کیا ،اسلام ان کی پریشانی کا باعث نہیں بنے گا …تم آج ہی روانہ ہو جاؤ۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

2 comments:

  1. Great information shared. Thank you for sharing.
    Visit my articles at: www.myvisionofhealth.com

    ReplyDelete
  2. Great information shared. Thank you for sharing.

    ReplyDelete

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages