Featured Post

Khalid001

09 June 2019

Khalid054


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  54
خدام کچھ اور کہنے ہی لگا تھا کہ باغ میں کام کرتے ہوئےلوگوں میں ہڑبونگ سی مچ گئی۔تین چار آدمیوں نے خدام کو پکارا۔زہرہ اٹھی اور وہیں سے پودوں میں غائب ہو گئی۔خدام نے اٹھ کر دیکھا۔کچھ دور پرے ایرانی کماندار شِمر اپنے گھوڑے پر سوار آ رہا تھا۔اس نے دور ہی سے کہا تھا کہ خدام کو اس کے پاس بھیجا جائے ۔خدام آہستہ آہستہ چلتا شمر کی طرف گیا۔
’’تیز چلو!‘‘شمر نے گھوڑا روک کر دور سے کہا۔
خدام نے اپنی چال نہ بدلی۔شمر نے ایک بار پھر گرج کر اسے تیز چلنے کو کہا۔خدا م اپنی ہی رفتار سے چلتا رہا۔شمر گھوڑے سے کود کر اترا اور کولہوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔باغ میں کام کرنے والے مسلمان دم بخود دیکھتے رہے۔انہیں معلوم تھا کہ شمر خدام کی ہڈی پسلی ایک کردے گا۔لیکن خدام جب اس کے سامنے جا رکا تو شمر نے ہاتھ بھی نہ اٹھایا۔
’’دیکھ کمینے انسان!‘‘ شمر نے خدام سے حقارت آمیز لہجے میں کہا۔’’ میں تمہارے باپ اور تمہاری جوانی پر رحم کرتا ہوں۔آج کے بعد میں تمہیں اس لڑکی کے ساتھ نہ دیکھوں۔‘‘
’’اگر تم نے مجھے اس لڑکی کے ساتھ دیکھ لیا تو پھر کیا ہو گا؟‘‘ خدام نے پوچھا۔
’’پھر میں تمہارے منہ پر ایک دو تھپڑ نہیں ماروں گا۔‘‘شمر نے کہا۔’’تمہیں درخت کے ساتھ الٹا لٹکا دوں گا ۔جاؤ میری نظروں سے دور ہو جاؤ۔‘‘
شمر گھوڑے پر سوار ہوا اور چلاگیا۔خدام وہیں کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
’’خدام!‘‘ اسے کسی نے بلایااور کہا۔’’ادھر آ جاؤ۔‘‘پھر اسے تین چار آدمیوں کی آوازیں سنائی دیں۔’’آجاؤ خدام …آجاؤ۔‘‘
وہ پیچھے مڑا اور لوگوں کے پاس جا رکا۔سب اس سے پوچھنے لگے کہ شمر نے کیا کہا تھا۔خدام نے انہیں بتایا۔سب جانتے تھے کہ خدام کاجرم کیا ہے۔اگر یہ مسلمان آزاد ہوتے ان کی اپنی حکومت ہوتی اور یہ معاشرہ ان کا اپنا ہوتا تو وہ خدام کو برا بھلا کہتے کہ وہ کسی کی نوجوان بیٹی کو اپنے پاس بٹھائے ہوئے تھا۔لیکن وہاں صورت مختلف تھی۔انہیں یہ بھی معلوم تھاکہ خدام برے چال چلن کا نوجوان نہیں۔اس مظلومیت میں بھی مسلمان متحد تھے۔لیکن باغ میں کام کرنے والوں میں سے ایک نے کہا کہ یہ آتش پرست ادھر کیا لینے آیا تھا۔
’’اسے ادھر لایا گیا تھا۔‘‘ایک نے کہا۔ ’’اور لانے والا ہم میں سے کوئی ایک ہی تھا۔‘‘
’’معلوم کرو وہ کون ہو سکتا ہے۔‘‘ اک بوڑھے نے کہا۔ ’’یہاں سوال ایک لڑکے اور لڑکی کا نہیں۔یہ ظالم اور مظلوم کا معاملہ ہے۔یہ ہماری آزادی اور خودداری کامعاملہ ہے۔آج اگر اس شخص نے اس ذرا سی بات پر مخبری کی ہے تو کل وہ بہت بڑی غداری کر سکتا ہے۔‘‘
سب پر خاموشی طاری ہو گئی ۔ایک ادھیڑ عمر عورت نے جو ان آدمیوں کے پیچھے کھڑی تھی بول پڑی۔
’’میں بتاتی ہوں وہ کون ہے؟‘‘اس عورت نے کہااور ان آدمیوں میں بیٹھے ہوئے ایک آدمی کی طرف دیکھنے لگی۔عورت نے ہاتھ لمبا کرکے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا اور پوچھا۔’’ابو نصر! تم وہاں اس ٹیکری کے پیچھے کھڑے کیاکر رہے تھے؟‘‘
ابو نصر کے ہونٹ ہلے لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکا۔اسی سے سب سمجھ گئے کہ یہ شخص آتش پرستوں کامخبر ہے ۔اس نے آخر اس الزام کو تسلیم نہ کیا۔
’’میں تمہیں دیکھ رہی تھی۔‘‘اس عورت نے کہا۔’’تم ٹیکری کے پیچھے غائب ہو گئے اور وہاں سے شمر نکلا۔‘‘
’’دیکھ ابو نصر! ‘‘ایک بوڑھے نے کہا۔’’ہمیں کوئی ڈر نہیں کہ اب تم شمرکو یہ بھی جا کر بتا دو گے کہ ہم نے تمہیں مخبر اور غدار کہا ہے ۔یہ سوچ لو کہ آتش پرست تمہیں گلے نہیں لگائیں گے۔وہ کہتے ہوں گے کہ تم ان کے غلام ہو اور اپنی قوم کے خلاف مخبری اور غداری تمہارا فرض ہے۔‘‘
ابو نصر نے سر جھکا لیا۔اس پر طعنوں اور گالیوں کے تیر برسنے لگے جس کے منہ میں جو آیا اس نے کہا۔آخر ابو نصر نے سر اٹھایا ۔اس کا چہرہ آنسوؤں سے دھلا ہوا تھا اور آنسو بہے چلے جا رہے تھے۔ندامت کے یہ آنسو دیکھ کر سب خاموش ہو گئے۔
’’تمہیں آخر کتنا انعام ملتا ہو گا؟‘‘ ان کے ایک بزرگ نے پوچھا۔
’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ابو نصر نے سسکی لینے کے انداز میں کہا۔’’میں نے یہ پہلی مخبری کی ہے ۔اگر تم لوگ مجھے موت کی سزا دینا چاہو تو مجھے قبول ہے۔‘‘
’’ہم پوچھتے ہیں، کیوں؟‘‘ ایک نے کہا۔ ’’آخر تم نے یہ حرکت کیوں کی؟‘‘
’’میری مجبوری۔‘‘ ابونصر نے جواب دیا۔ ’’پرسوں کی بات ہے ،اس کماندار نے مجھے راستے میں روک کر کہا تھاکہ میں زہرہ کے گھر پر نظر رکھوں۔ اس کامطلب یہ تھا کہ میں یہ نظررکھوں کہ زہرہ گھر سے بھاگ نہ جائے اور اسے کسی جوان آدمی کے ساتھ الگ تھلگ کھڑا دیکھو ں تو اسے اطلاع دوں … میں نے اسے کہا کہ میں اس لڑکی پر نظر رکھوں گا۔ لیکن میری دو بیٹیوں پر کون نظر رکھے گا۔ میں نے کہا کہ شاہی فوج کے کماندار اور سپاہی ہماری بیٹیوں کو بری نظر سے دیکھتے رہتے ہیں…‘‘
’’شمر میری بات سمجھ گیا،اس نے کہا کہ تمہاری بیٹیوں کو کوئی شاہی فوجی آنکھ اٹھاکربھی نہیں دیکھے گا۔اس نے میرے ساتھ پکا وعدہ کیا کہ وہ میری بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کا پکا انتظام کرے گا … یہ میرے لیے بہت بڑا انعام تھا۔‘‘
’’خدا کی قسم!‘‘ بوڑھے نے کہا۔’’تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں مسلمان کہا جائے۔تم نے اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کیلئے اپنے بھائی کی بیٹی کی عزت کا خیال نہ کیا۔‘‘
’’تجھ پر خدا کی لعنت ہو ابو نصر!‘‘ ایک اور بولا۔’’تو جانتا ہے کہ ان آتش پرستوں کے وعدے کتنے جھوٹے ہوتے ہیں۔ان میں تمہیں کوئی ایک بھی نہیں ملے گا جو کسی مسلمان سے وفا کرے۔‘‘
’’اپنی بیٹیوں کی عزت کی حفاظت کیلئے ہم خود موجود ہیں۔‘‘ایک اور نے کہا۔’’تمہاری بیٹیاں ہماری بیٹیاں ہیں۔‘‘
’’میں اسے معاف کرتا ہوں۔‘‘زہرہ کے باپ سعود نے کہا۔
’’اور میں بھی اسے معاف کرتا ہوں۔‘‘خدام بولا۔’’خدا کی قسم! میں شمر سے انتقام لوں گا۔‘‘
’’جوش میں مت آ لڑکے!‘‘بزرگ عرب نے کہا۔’’کچھ کرنا ہے تو کرکے دکھا۔اور یہ بھی یاد رکھ کہ جوش میں آکہ مت بول، دماغ کو ٹھنڈا کرکے سوچ۔‘‘
دوسری صبح جب یہ مسلمان کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے کیلئے گئے تو ان میں خدام نہیں تھا۔ہر کسی نے خدام کے باپ سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟باپ پریشان تھا۔اسے صبح پتا چلا تھا کہ خدام غائب ہے۔
’’زرتشت کے یہ پجاری میرے بیٹے کو کھا گئے ہیں۔‘‘خدام کے باپ نے روتے ہوئے کہا۔’’اسے انہوں نے کسی طرح دھوکے سے باہر بلایا ہو گا اور قتل کرکے لاش دریا میں بہا دی ہو گی۔‘‘
سب کا یہی خیال تھا۔صرف زہرہ تھی جسے امید تھی کہ خدام خود کہیں چلا گیا ہو گا۔اس نے زہرہ کو بتایا تھا کہ کہ وہ کچھ دنوں کیلئے کہیں غائب ہو جائے گا۔زہرہ نے یہ بات کسی کو نہ بتائی بلکہ اس نے بھی یہی کہاکہ خدام کو ایرانیوں نے غائب کردیا ہے۔زہرہ نے اپنی سہیلیوں سے کہا کہ وہ دو تین روز ہی خدام کا انتظار کرے گی ۔وہ نہ آیا تو دریا میں ڈوب مرے گی۔
…………bnb…………

تین چار روز بعد رات کو شمر فوج کی ایک چوکی میں بیٹھا دو نو عمر لڑکوں کا رقص دیکھ رہا تھا۔ایران کے شاہی درباروں میں ایسے لڑکوں کا رقص مقبول تھا جن کے جسم لڑکیوں کی طرح دل کش ،گداز اور لچکدار ہوتے تھے۔انہیں ایسا لباس پہنایا جاتا تھا جس میں وہ نیم عریاں رہتے تھے۔
شِمر شاہی خاندان کا فرد تھا ۔اس رات یہ دولڑکے اس نے اپنے سپاہیوں کیلئے بلائے تھے ۔شراب کا دور چل رہا تھا۔سپاہی چیخ چیخ کا داد دے رہے تھے ۔شراب میں بدمست ہوکر دو تین سپاہیوں نے بھی لڑکوں کے سات ہی ناچنا شروع کر دیا۔شمر کے حکم پر ان سپاہیوں کو دوسرے سپاہی اٹھاکر چوکی سے باہر پھینک آئے۔
یہ چوکی چھوٹا سا ایک قلعہ تھا۔لیکن اس کے دروازے رات کو بھی کھلے رہتے تھے۔ایرانیوں کو کسی دشمن کے حملے کا خطرہ نہیں تھا۔وہ اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔رقص جب اپنے عروج کو پہنچا اور شراب کا نشہ شمر اور اس کے سپاہیوں کے دماغ کو ماؤف کرنے لگا تو سنسناتا ہوا ایک تیر آیا جو شمر کی گردن میں ایک طرف سے لگا اور اس کی نوک دوسری طرف سے باہر نکل گئی۔شمر دونوں ہاتھ اپنی گردن پر رکھ کر اٹھا۔سپاہیوں میں ہڑبونگ مچ گئی ۔وہ سب شمر کے گرد اکھٹے ہو گئے ۔تین چار اور تیر آئے۔ تین چار چیخیں سنائی دیں۔ پھر ان ایرانیوں پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی۔انہیں سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملااور وہ کٹنے لگے۔ان میں سے جو بھاگ کر دروازوں کی طرف گئے وہ دروازوں میں کٹ گئے۔
چوکی والوں کو کہیں سے بھی مدد نہیں مل سکتی تھی۔کسی بھی دروازے سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا تھا۔انہیں ہتھیار اٹھانے کی تو مہلت ہی نہیں ملی تھی۔اس حملے میں جو بچ گئے وہ زمین پر لیٹ گئے۔
یہ ایک طوفان تھا یا بگولہ جو غیر متوقع طورپر آیا اور جب گزر گیا تو اپنے ساتھ وہ تمام مال و دولت جو اس چوکی میں تھا لے گیا ۔پیچھے لاشیں رہ گئیں یا تڑپتے ہوئے زخمی یا وہ اچھے بھلے ایرانی سپاہی جو جان بچانے کیلئے لاشوں اور زخمیوں میں لیٹ گئے تھے۔
…………bnb…………

صبح ہوئی ۔مسلمان کھیتوں اور باغوں میں کام کرنے کیلئے گھروں سے نکل رہے تھے کہ گھوڑ سوار ایرانی فوج نے ان کی بستی کو گھیرے میں لے لیا۔دوسری چوکی کو اس وقت اس چوکی پر حملے کی اطلاع ملی تھی جب حملہ آور اپناکام کرکے بہت دور نکل گئے تھے۔مسلمانوں کو کام پرجانے سے روک لیا گیا ۔ایرانی فوجیوں نے مردوں کو الگ اکھٹا کرکے کھڑا کر دیا اور ان کے گھروں سے عورتوں کو باہر نکال کر مردوں سے دور کھڑا رہنے کا حکم دیا۔فوجی ان کے گھروں میں گھس گئے اور اس طرح تلاشی لی جیسے ان کے مکانوں کے فرش بھی کھودکر دیکھے ہوں۔
انہیں کسی گھر سے ایسی کوئی چیز نہ ملی جو شک پیدا کرتی البتہ سپاہیوں کو اپنے کام کی جو چیزیں نظر آئیں وہ انہوں نے اٹھالیں۔پھر انہوں نے عورتوں اور مردوں کو اکھٹا کھڑا کرکے انہیں دھمکیاں دیں۔مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک ان کیلئے نیانہیں تھا۔کسی نہ کسی بہانے ان کے گھروں کی تلاشی ہوتی ہی رہتی تھی۔اس کے بعد انہیں اسی طرح کی دھمکیاں ملتی تھیں لیکن اب ایرانیوں کو معقول بہانہ ملا تھا۔
’’رات اُبلہ کی ایک مضافاتی چوکی پر بہت سے آدمیوں نے شبخون مارا ہے۔‘‘ایک ایرانی کماندار نے مسلمانوں سے کہا۔’’ہمارا ایک کماندار اور ساٹھ سپاہی مارے گئے اور بہت سے زخمی ہوئے ہیں اگر تم میں کوئی مرد یا عورت اس گروہ کے کسی ایک آدمی کو بھی پکڑ وائے گا اسے انعام ملے گا۔نقد انعام کے علاوہ اسے اس فصل کا آدھا حصہ ملے گا۔‘‘اس نے سب پر نگاہ دوڑائی اور پوچھا۔’’ایک دوسرے کو دیکھ کر بتاؤ کہ تم میں کون غیر حاضر ہے۔‘‘
سب نے ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ کون غیر حاضر ہے۔ان کی نگاہیں خدام کو ڈھونڈ رہی تھیں۔وہ تین چار دنوں سے بستی سے غائب تھا۔ سب نے دیکھا کہ خدام وہاں موجود تھا۔سب نے سکون کی سانس لی۔پھر بہت سی آوازیں اٹھیں کہ کوئی بھی غیر حاضر نہیں۔
ایرانی فوجیوں کے جانے کے بعد جنہیں معلوم تھا کہ خدام تین چار روز غائب رہاہے وہ باری باری اس سے پوچھنے لگے کہ وہ کہاں چلا گیا تھا۔
’’میں شمر کے ڈر سے بھاگ گیا تھا۔‘‘خدام نے ہر کسی کو یہی جواب دیا۔
اس کے باپ نے سب کو بتایا تھا کہ خدام گزشتہ رات کے پچھلے پہر آیا تھا۔
اس روز باغ میں کام کرتے ہوئے زہرہ اور خدام کام سے کھسک گئے اور اس جگہ جا بیٹھے جہاں انہیں کوئی دیکھ نہیں سکتا تھا۔زہرہ خوشی سے پاگل ہوئی جا رہی تھی اوروہ رہ رہ کر خدام کی بلائیں لیتی تھی۔
’’یہ کیسے ہوا خدام؟‘‘اس نے خوشی سے لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے پوچھا۔’’یہ ہوا کیسے؟‘‘
’’اسے اﷲ کی مدد کہتے ہیں زہرہ!‘‘خدام نے کہا۔’’اب نہ کہنا کہ خدا مدد نہیں کرتا۔‘‘
’’خدام!‘‘زہرہ سنجیدہ ہو گئی جیسے اس کے ہونٹوں پر کبھی مسکراہٹ آئی ہی نہ ہو۔خدام کے چہرے پر نظریں گاڑھ کر قدرے پریشان سے لہجے میں بولی۔’’سچ کہوخدام!شمر کے قاتل تم ہی تو نہیں؟ … کہتے ہیں رات صحرائی ڈاکو ؤں کے بہت بڑے گروہ نے شمر کی چوکی پر اس وقت شب خون مارا جب وہ شراب اور رقص میں بد مست تھے۔ ایسا تو نہیں کہ تم ان ڈاکوؤں سے جا …‘‘
خدام کے اچانک قہقہے نے بنتِ سعود کی بات پوری نہ ہونے دی۔ وہ ہنستا ہی رہا اور اس نے اپنا بازو زہرہ کی کمر میں ڈال کر اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ زہرہ پر جذبات کا ایسا آسیب طاری ہوا کہ وہ بھول ہی گئی کہ وہ خدام سے کیا کہہ رہی تھی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

  1. Great information shared. Thank you for sharing.
    Visit my articles at: https://www.myvisionofhealth.com/
    Thank you .

    ReplyDelete

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages