Featured Post

Khalid001

14 June 2019

Khalid068


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  68
آتش پرستوں کا سالار بہمن جاذویہ اردشیر سے نیا حکم لینے مدائن پہنچ چکا تھا ۔لیکن شاہی طبیب نے اسے روک لیا۔
’’اگر کوئی اچھی خبر لائے ہو تو اندر چلے جاؤ۔‘‘ … طبیب نے کہا۔ … ’’اگر خبر اچھی نہیں تو میں تمہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘
’’خبر اچھی نہیں۔‘‘ … جاذویہ نے کہا۔ … ’’ہماری فوج تیسری بار شکست کھا چکی ہے۔ اندرزغر ایسا بھاگا ہے کہ لاپتا ہو گیا ہے۔‘‘
’’جاذویہ!‘‘ … طبیب نے کہا۔ … ’’اردشیر کیلئے اس سے زیادہ بری خبر اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اندرزغر کو تو کسریٰ اردشیر اپنی جنگی طاقت کا سب سے زیادہ مضبوط ستون سمجھتا تھا۔ جب سے یہ سالار گیا ہے، شہنشاہ دن میں کئی بار پوچھتا رہا کہ اندرزغر مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکال کر واپس آیا ہے یا نہیں؟ تھوڑی دیر پہلے بھی اس نے پوچھا تھا۔‘‘
’’محترم طبیب!‘‘ … جاذویہ نے کہا۔ … ’’کیا ہم ایک حقیقت کو چھپا کر غلطی نہیں کر رہے؟کسریٰ کو کسی نہ کسی دن تو پتا چل ہی جائے گا۔‘‘
’’جاذویہ!‘‘ … طبیب نے کہا۔ … ’’میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ اگر تم نے یہ خبر شہنشاہ کو سنائی تو اس کا خون تمہاری گردن پر ہوگا۔‘‘
جاذویہ وہیں سے لوٹ گیا لیکن اپنے لشکر کے پاس جانے کی بجائے اس خیال سے مدائن میں رُکا رہا کہ اردشیر کی صحت ذرا بہترہوگی تو وہ اسے خود شکست کی خبر سنائے گا۔ اور اس کے ساتھ وعدہ کرے گا کہ وہ مسلمانوں سے تینوں شکستوں کا انتقام لے گا۔
اس روز یا ایک دو روز بعد عیسائیوں کا ایک وفد اردشیر کے پاس پہنچ گیا۔ اس کا طبیب اور شاہی خاندان کا کوئی بھی فرد قبل از وقت نہ جان سکا کہ یہ وفد کس مقصد کیلئے آیا ہے۔ اردشیر کوچونکہ معلوم تھا کہ عیسائیوں نے اس لشکر میں شامل ہو کر مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی ہے اس لیے اس نے بڑی خوشی سے ان عیسائیوں کو ملاقات کی اجازت دے دی۔ اس وفد نے اردشیر کو پہلی خبر یہ سنائی کہ سالار اندرزغر شکست کھا گیا ہے۔
’’اندرزغر شکست نہیں کھا سکتا۔‘‘ … اردشیر نے ایک جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔ … ’’کیا تم لوگ مجھے یہ جھوٹی خبر سنانے آئے ہو؟ … کہاں ہے اندرزغر؟ اگر اس کی شکست کی خبر صحیح ہے تو یہ بھی صحیح ہے کہ جس روز وہ مدائن میں قدم رکھے گا وہ اس کی زندگی کا آخری روز ہو گا۔‘‘
’’ہم جھوٹی خبر سنانے نہیں آئے۔‘‘ وفد کے سربراہ نے کہا۔ ’’ہم آپ کی اس تیسری شکست کو فتح میں بدلنے کا عہد لے کر آئے ہیں لیکن آپ کی مدد کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘‘
اردشیر کچھ دیر چپ چاپ خلا ء میں گھورتا رہا، اس کی بیماری بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ بہت کمزور ہو چکا تھا۔ دواؤں کا اس پر الٹا اثر ہو رہا تھا۔ اب تیسری شکست کی خبر نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔اس کا طبیب اس کے پاس کھڑا تھا۔
’’کسریٰ کو اس وقت آرام کی ضرورت ہے۔‘‘ … طبیب نے کہا۔ … ’’معزز مہمان اس وقت چلے جائیں تو کسریٰ کیلئے بہتر ہوگا۔‘‘
عیسائیوںکا وفد اٹھ کھڑا ہوا۔
’’ٹھہرو!‘‘ … اردشیر نے نحیف آواز میں کہا۔ … ’’تم لوگوں نے شکست کو فتح میں بدلنے کی بات کی تھی۔ تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’اپنے کچھ دستے جن میں سوار زیاد ہ ہوں ہمیں دے دیں۔‘‘ … وفد کے سردارنے کہا۔ … ’’ہمارا پورا قبیلہ الیس پہنچ چکا ہوگا۔‘‘
’’جو مانگو گے دوں گا۔‘‘ … اردشیر نے کہا۔ … ’’بہمن جاذویہ کے پاس چلے جاؤاور اس کا لشکر اپنے ساتھ لے لو۔ جاذویہ ولجہ کے قریب کہیں ہوگا۔‘‘
’’بہمن جاذویہ مدائن میں ہے۔‘‘ … کسی نے اردشیر کو بتایا۔ … ’’وہ شہنشاہ کے پاس آیا تھا لیکن طبیب نے اسے آپ تک آنے نہیں دیا۔‘‘
’’اسے بلاؤ!‘‘ … اردشیر نے حکم دیا۔ … ’’مجھ سے کچھ نہ چھپاؤ۔‘‘
…………bnb…………

جب جاذویہ اردشیر کو بتا رہا تھا کہ اسے میدانِ جنگ تک پہنچنے کاموقع ہی نہیں ملا۔ اس وقت الیس میں صورتِ حال کچھ اور ہو چکی تھی۔ جاذویہ اپنے دوسرے سالار جابان کو لشکر دے آیا تھا اور اس نے جابان سے کہا تھا کہ وہ اس کی واپسی تک مسلمانوں سے لڑائی سے گریز کرے۔
جابان الیس کے کہیں قریب تھا۔ اسے ایک اطلاع یہ ملی کہ عیسائیوں کا ایک لشکر الیس کے گردونواح میں جمع ہے اور دوسری اطلاع یہ ملی کہ مسلمانوں کا لشکر الیس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جابان کیلئے حکم تو کچھ اور تھا لیکن اس اطلاع پر کہ مسلمان پیش قدمی کررہے ہیں، وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ اس نے اپنے لشکر کو کوچ کاحکم دیا اور الیس کا رخ کر لیا۔
ابھی جاذویہ واپس نہیں آیا تھا،جابان تک اردشیر کا بھی کوئی حکم نہیں پہنچا تھا۔چونکہ وہ وہاں موجود تھا ا س لئے یہ اس کی ذمہ دار ی تھی کہ مسلمانوں کو روکے، تاریخ میں بکر بن وائل کے ان عیسائیوں کی تعداد کا کوئی اشارہ نہیں ملتاجو الیس میں لڑنے کیلئے پہنچے تھے۔ ان کا سردار اور سالارِ اعلیٰ عبدالاسود عجلی تھا۔ وہ مدائن سے اپنے وفدکی واپسی کا انتظار کر رہے تھے۔
خالدؓ انتظار کرنے والے سالار نہیں تھے۔ انہوں نے اپنی فوج کو تھوڑا سا آرام دینا ضروری سمجھا تھا پھر انہوں نے الیس کی طرف پیش قدمی کا حکم دیا۔ رفتار معمول سے کہیں زیادہ تیز رکھی۔ مثنیٰ بن حارثہ اپنے جانبازوں کادستہ لیے باقی لشکر سے الگ تھلگ جا رہا تھا۔
’’اﷲکے سپاہیو!‘‘ … مثنیٰ نے راستے میں اپنے دستے سے کہا۔ … ’’یہ لڑائی تم اس طرح لڑو گے جس طرح ہم کسریٰ کی سرحدی چوکیاں تباہ کرنے کیلئے لڑتے رہے ہیں … چھاپہ مار لڑائی … شب خون … تم ان لوگوں سے لڑنے جا رہے ہو جو تمہاری طرح لڑنا نہیں جانتے۔ انہیں تم جانتے ہو۔ وہ تمہارے ہی قبیلے کے لوگ ہیں۔ ہم انہیں بھگا بھگا کر لڑائیں گے۔ اسی لیے میں نے تمہیں لشکر سے الگ کر لیا ہے۔ لیکن یہ خیال رکھنا کہ ہم اسی لشکر کے سالار کے ماتحت ہیں اور یہ بھی خیال رکھنا کہ یہ مذاہب کی جنگ ہے، دو باطل عقیدے تمہارے مقابلے میں ہیں۔ تمہیں ثابت کرنا ہے کہ خدا تمہارے ساتھ ہے … خدا کی قسم! یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف ہمیشہ مخبری کی اورآتش پرستوں کے ہاتھوں ہمارے گھروں کو نذرِ آتش کرایا ہے۔‘‘
سواروں کا یہ دستہ پر جوش نعرے لگانے لگالیکن مثنیٰ نے روک دیا او رکہا کہ ’’خاموشی برقرار رکھنی ہے دشمن کو اس وقت پتا چلے کہ ہم آ گئے ہیں جب ہماری تلواریں انہیں کاٹ رہی ہوں۔‘‘
…………bnb…………

عیسائیوں کا لشکر الیس کے مقام پر پڑاؤ ڈالے ہوئے مدائن سے اپنے وفد کی واپسی کا انتظار کر رہا تھا۔
’’ہوشیار!دشمن آ رہاہے۔‘‘ … عیسائی لشکر کے سنتریوں نے واویلا بپا کر دیا۔ … ’’خبر دار … ہوشیار … تیار ہو جاؤ۔‘‘
ہڑبونگ مچ گئی۔ان کے سرداروں نے درختوں پر چڑھ کر دیکھا ایک لشکر چلا آ رہا تھا۔ سرداروں نے درختوں کے اوپر سے ہی حکم دیا کہ تیر انداز اگلی صف میں آجائیں۔ یہ لوگ چونکہ باقاعدہ فوجی نہیں تھے اس لئے ان میں نظم و ضبط اور صبر و تحمل کی کمی تھی۔ وہ لوگ ہجوم کی صورت میں لڑنا جانتے تھے۔ پھر بھی انہوں نے صف بندی کر لی۔
آنے والا لشکر قریب آ رہا تھا‘ جب یہ لشکر اور قریب آیا تو سرداروں کو کچھ شک ہونے لگا تب ایک سالار نے کہا کہ یہ لشکر مسلمانوں کا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ اس طرف سے آرہا ہے جس طرف بہمن جاذویہ کالشکر ہونا چاہیے تھا۔ سالار نے دو گھوڑسواروں کو یہ کہہ کر دوڑا دیا کہ جا کر دیکھو کہ یہ کس کا لشکر ہے۔
’’یہ دوست ہیں۔‘‘ … ایک سوار نے پیچھے مڑ کر بلند آواز سے کہا۔ … ’’یہ فارس کی فوج ہے۔‘‘
’’یسوع مسیح کے پجاریو!‘‘ … درخت سے سالارِ اعلیٰ نے چلا کر کہا۔ … ’’تمہاری مدد کیلئے مدائن سے فوج آ گئی ہے۔‘‘ … عیسائی نعرے لگانے لگے اور تھوڑی دیر بعد جابان کا لشکر عیسائیوں کے پڑاؤ میں آگیا۔ جابان نے اس تمام لشکر کی کمان لے لی اور عیسائی سرداروں سے کہا کہ اب وہ اس کے حکم اور ہدایات کے پابند ہوں گے۔ جابان نے عیسائیوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے پرجوش تقریر کی جس میں اس نے انہیں بتایا کہ اب انہیں پہلی تینوں شکستوں کا انتقام لینا ہے۔
’’اور تم اپنی جوان عورتوں کو بھی ساتھ لائے ہو۔‘‘ … جابان نے کہا۔ … ’’اگر تم ہار گئے تو یہ عورتیں مسلمانوں کا مالِ غنیمت ہوں گی۔ انہیں وہ لونڈیاں بنا کر لے جائیں گے انہی کی خاطر اپنی جانیں لڑا دو۔‘‘
عیسائیوں کی صفوں میں جوش و خروش بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ تو پہلے ہی انتقام کی آگ میں جل رہے تھے اب اپنے ساتھ فارس کاایک منظم لشکر دیکھ کر وہ اور زیادہ دلیر ہو گئے۔
مدینہ کی فوج کی پیش قدمی خاصی تیز تھی۔ مثنیٰ اپنے دستے کے ساتھ دائیں طرف کہیں آگے نکل گیا تھا۔ وہ سرسبز و شاداب علاقہ تھا۔ درختوں کی بہتات تھی ‘ہری جھاڑیاں اور ا ونچی گھاس بھی تھی۔ تھوڑی دور جاکر آدمی نظروں سے اوجھل ہوجاتا تھا‘ یہ وہ علاقہ تھا جہاں فارس کے بڑے بڑے افسر سیر و تفریح اور شکار وغیرہ کیلئے آیا کرتے تھے۔ الیس سے آگے حیرہ ایک شہر تھا جس کی اہمیت تجارتی اور فوجی لحاظ سے خاصی زیادہ تھی۔ آبادی کے لحاظ سے یہ عیسائیوں کا شہرتھا جو ہر لحاظ سے خوبصورت شہر تھا۔
’’اور یہ بھی ذہن میں رکھو۔‘‘ … جابان لشکر کے سالاروں سے کہہ رہا تھا۔ … ’’آگے حیرہ ہے ۔تم جانتے ہو کہ حیرہ ہماری بادشاہی کا ایک ہیرہ ہے۔ اگرمسلمان اس شہر تک پہنچ گئے تو نا صرف یہ کہ کسریٰ کا دل ٹوٹ جائے گا بلکہ فارس کے پورے لشکر کے حوصلے ٹوٹ جائیں گے، حیرہ مدائن سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘
…………bnb…………

سبزہ زار میں ایک گھوڑ سوار جیسے تیرتا چلا آرہا ہو۔ خالد ؓاپنے لشکر کے وسط میں تھے کسی اور کو اس سوارکی طرف بھیجنے کے بجائے انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑھ لگائی اور اس سوار کو راستے میں جا لیا۔ وہ مثنیٰ بن حارثہ کے دستے کا ایک سوار تھا۔
’’ابنِ حارثہ کا پیغام لایا ہوں۔‘‘ … سوار نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’الیس کے میدان میں آتش پرستوں کی فوج بھی آ گئی ہے۔ ابنِ حارثہ نے کہا ہے کہ سنبھل کر آگے آئیں۔‘‘
’’فوراً واپس جاؤ!‘‘ … خالدؓ نے سوار سے کہا۔ … ’’اور مثنیٰ سے کہو کے اڑ کر مجھ تک پہنچے۔‘‘
مثنیٰ کا قاصد یوں غائب ہو گیا جیسے اسے زمین نے نگل لیا ہو۔ اس کے گھوڑے کے ٹاپ کچھ دیر تک سنائی دیتے رہے جو درختوں میں سے گزرتی ہوا کی شاں شاں میں تحلیل ہو گئے۔ خالدؓ واپس اپنے لشکر میں آئے اور اپنے سالاروں کو بلا کر انہیں بتایا کہ آگے صرف بکر بن وائل کے لوگ ہی نہیں بلکہ مدائن کا لشکر بھی ان کے ساتھ آ ملا ہے۔ انہوں نے اپنے سالاروں کو یہ بھی بتایا کہ مثنیٰ بن حارثہ آرہا ہے۔ انہوں نے پہلے کی طرح سالار عاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو دائیں اور بائیں پہلو میں رکھا۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ مثنیٰ یوں آن پہنچا جیسے وہ واقعی اڑ کر آیا ہو۔
’’ابنِ حارثہ!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کیا تم نے اپنی آنکھوں سے فارس کے لشکر کوعیسائیوں کے ساتھ دیکھا ہے؟‘‘
مثنیٰ بن حارثہ نے صرف دیکھا ہی نہیں تھا بلکہ اس نے جانبازی کا مظاہرہ کرکے بہت کچھ معلوم کر لیا تھا۔ اس نے اپنے جاسوس آگے بھیج رکھے تھے انہوں نے اسے اطلاع دی تھی کہ مدائن کی فوج عیسائیوں سے آملی ہے۔ مثنیٰ نے پوری معلومات حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا۔ رات کو اس نے اپنے ساتھ تین سوار لیے اور دشمن کے پڑاؤ کے قریب جا کر گھوڑوں سے اترے اور انہیں ایک درخت کے ساتھ باندھ دیااور وہاں سے وہ چھپ چھپ کر اور جہاں ضرورت پڑی وہاں پیٹ کے بل رینگ کر پڑاؤ کے نزدیک چلے گئے۔ آتش پرستوں کے سنتری پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر رہے تھے یہ صفر 12 ہجری کے وسط کی راتیں تھیں۔ آدھے چاند کی چاندنی تھی جو فائدہ بھی دے سکتی تھی نقصان بھی۔
دو سنتری ان کے سامنے سے گزر گئے، انہیں پیچھے سے جا کر پکڑا جا سکتا تھا لیکن ان کے پیچھے پیچھے ایک گھوڑ سوار آرہا تھا۔ اس نے اپنے سنتریوں کو آواز دے کر روک لیا اور ان کے پاس آ کر انہیں بیدار اور ہوشیار رہنے کو کہنے لگا۔ وہ کوئی کماندار معلوم ہوتا تھا ۔
’’مسلمان رات کو تو حملہ نہیں کر سکتے۔‘‘ … ایک سنتری نے کہا۔ … ’’پھر بھی ہم بیدار اور ہوشیار ہیں۔‘‘
’’تم سپاہی ہو۔‘‘ … گھوڑ سوار نے حکم کے لہجے میں کہا۔ … ’’جو ہم کماندار جانتے ہیں وہ تم نہیں جانتے۔مسلمانوں کا کچھ پتا نہیں وہ کس وقت کیاکر گزریں۔انہیں عام قسم کا دشمن نہ سمجھوا ورتم نے مثنیٰ بن حارثہ کا نام نہیں سنا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ کسریٰ نے مثنیٰ کے سر کی کتنی قیمت مقررکر رکھی ہے؟ تم اگراسے زندہ یامردہ پکڑ لاؤ یا اس کا صرف سر پیش کر دو تو تم مالامال ہو جاؤ گے۔لیکن تم اسے پکڑ نہیں سکو گے۔ وہ جن ہے کسی کو نظر نہیں آتا … چلو آگے چلو۔ اپنے علاقے کا گشت کرو۔‘‘
سنتری آگے نکل گئے اور گھوڑ سوار وہیں کھڑا رہا۔ مثنیٰ بن حارثہ اپنے تین جانبازوں کے ساتھ ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ گھوڑ سوار اس طرف جانے کے بجائے جس طرف سنتری چلے گئے تھے دوسری طرف چلا گیا۔ گھوڑے پر اسے پکڑناخطرے سے خالی نہیں تھا۔ مثنیٰ نے اپنے ایک جانباز کے کان میں کچھ کہااور گھوڑ سوار کماندار کو دیکھا۔ وہ آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا۔
مثنیٰ قریب کے ایک درخت پر چڑھ گیا۔ اس کے جانباز نے ذرا اونچی آواز میں کچھ کہا۔ کماندار نے گھوڑا روک لیا۔ جانباز نے اسے واپس آنے کو کہا۔ وہ اس آواز پر واپس آرہا تھا اچانک درخت سے مثنیٰ کودا اور گھوڑ سوار کے اوپر گرااور اسے گھوڑے سے گرا دیا۔ مثنیٰ کے ایک آدمی نے دوڑ کر گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور دو نے کماندار کو دبوچ لیااور اس کا منہ باندھ دیا۔ اسے اور اس کے گھوڑے کو وہاں سے دور لے گئے۔ انہوں نے اپنے گھوڑے کھولے اور وہاں سے اتنے دور نکل گئے جہاں وہ چیختا چلاتا تو بھی اس کی آواز اس کے پڑاؤ تک نہ پہنچتی۔
’’زندہ رہنا چاہتے ہو تو بتاؤ کہ تمہاری فوج کہاں سے آئی ہے؟‘‘ … مثنیٰ نے تلوار کی نوک اس کی شہہ رگ پر رکھ کر پوچھا۔
وہ بہمن جاذویہ کے لشکر کا کماندار تھا۔ اس نے جان بچانے کی خاطر سب کچھ بتا دیا‘ یہ بھی کہ جاذویہ مدائن چلا گیا ہے اور اس کی جگہ جابان سالار ہے اور بکر بن وائل کا لشکرا نہیں اتفاق سے مل گیا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس قبیلے کے کچھ سردار مدائن سے فوج اپنے ساتھ لائیں گے۔
’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ مدینے کی فوج کہاں ہے؟‘‘ مثنیٰ نے ا س سے پوچھا۔
’’وہ بہت دور ہے۔‘‘ … کماندار نے جواب دیا۔ … ’’ہم اس پر حملہ کرنے جا رہے ہیں‘ … شاید دو روز بعد۔‘‘
جب اس سے ہر ایک بات معلوم ہو گئی تو اسے ہلاک کر کے لاش وہیں دفن کر دی گئی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages