Featured Post

Khalid001

14 June 2019

Khalid067


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  67
’’تم میں ایمان کی طاقت ہے۔‘‘خالدؓ اپنے لشکر سے خطاب کر رہے تھے۔ ’’یہ خدائے وحدہٗ لاشریک کا فرمان ہے کہ تم میں صرف بیس ایما ن والے ہوئے تو وہ دو سو کفار پر غالب آ ئیں گے۔‘‘
آتش پرستوں کا لشکر اور ان کے ساتھی عیسائی بھاگ کر دور نکل گئے تھے۔ میدانِ جنگ میں لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور ایک طرف مالِ غنیمت کا انبار لگا ہوا تھا۔ خالدؓ اس انبار کے قریب اپنے گھوڑے پر سوار اپنی فوج سے خطاب کر رہے تھے۔
’’خدا کی قسم!‘‘ … خالدؓ کہہ ر ہے تھے۔ … ’’قرآن کا فرمان تم سب نے عملی صورت میں دیکھ لیا ہے۔ کیا تم آ تش پرستوں کے لشکر کو دیکھ کر گھبرا نہیں گئے تھے؟ آنے والی نسلیں کہیں گی کہ یہ کمال خالد بن ولید کا تھا کہ اس نے اپنے سواروں کو چھپا کر رکھا ہوا تھا اور انہیں اس وقت استعمال کیا جب دشمن مسلمانوں کو کاٹنے اور کچلنے کیلئے آگے بڑھ آیا تھا لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ کرشمہ ایمان کی قوت کا تھا۔ خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو اس کے رسولﷺ کی ذات پر ایمان لاتے ہیں۔ میرے دوستو !ہمیں اور آگے جانا ہے۔ یہ آتش پرستوں کی نہیں اﷲکی سرزمین ہے اور ہمیں زمین کے آخری سرے تک اﷲکا پیغام پہنچانا ہے۔‘‘
میدانِ جنگ فتح و نصرت کے نعروں سے گونج رہا تھا۔
اس کے بعد خالدؓ نے اپنی سپاہ میں مالِ غنیمت تقسیم کیا۔ معلوم ہوا کہ اب کے مالِ غنیمت پہلی دونوں جنگوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ خالدؓ نے حسبِ معمول مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال کیلئے مدینہ بھجوا دیا۔
اس وقت تک آتش پرستوں کے سالار بہمن جاذویہ کو پوری طرح یقین آ گیا تھا کہ اندرزغر کا لشکر مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ گیا ہے اور اندرزغر ایسا بھاگا ہے کہ لاپتا ہو گیا ہے۔ بہمن جاذویہ نے اپنے ایک سالار جابان کو بلایا۔
’’تم اندرزغر کا انجام سن چکے ہو۔‘‘ … جاذویہ نے کہا۔ … ’’ہمارے لیے کسریٰ کا حکم یہ تھا کہ ہم ولجہ میں اندرزغر کے لشکر سے جا ملیں۔ اب وہ صورت ختم ہو گئی ہے۔ کیا تم نے سوچا ہے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘
’’ہم اور جو کچھ بھی کریں۔‘‘ … جابان نے کہا۔ … ’’ہمیں بھاگنا نہیں چاہیے۔‘‘
’’لیکن جابان!‘‘ … جاذویہ نے کہا۔ … ’’ہمیں اب کوئی کارروائی اندھا دھند بھی نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمان ہمیں تیسری بار شکست دے چکے ہیں۔ کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ وہ وقت گزر گیا ہے جب ہم مدینہ کے لشکر کو صحرائی لٹیرے اور بدو کہا کرتے تھے۔ اب ہمیں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہو گا۔‘‘
’’ہماری ان تینوں شکستوں کی وجہ صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ ہمارا جو بھی سالار مدینہ والوں سے ٹکر لینے گیا وہ اس انداز سے گیا جیسے وہ چند ایک صحرائی قزاقو ں کی سرکوبی کیلئے جا رہا ہو۔‘‘ … جابا ن نے کہا۔ … ’’جو بھی گیا وہ دشمن کو حقیر اور کمزور جان کر گیا۔ ہماری آنکھیں پہلی شکست میں ہی کھل جانی چاہیے تھیں لیکن ایسا نہ ہوا۔ آپ نے بھی تو کچھ سوچا ہو گا؟‘‘
’’سب سے پہلی سوچ تو مجھے یہ پریشان کررہی ہے۔‘‘ … جاذویہ نے کہا۔ … ’’کہ کسریٰ اردشیر بیمار پڑا ہے ۔میں جانتا ہوں ا سے پہلی دو شکستوں کے صدمے نے بستر پر ڈال دیا ہے ایک اور شکست کی خبر اسے لے ڈوبے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس شکست کی خبر پہنچانے والے کو وہ قتل ہی کرا دے۔‘‘
’’لیکن جاذویہ!‘‘ … جابان نے کہا۔ … ’’ہم کسریٰ کی خوشنودی کیلئے نہیں لڑ رہے ۔ہمیں زرتشت کی عظمت اور آن کی خاطر لڑنا ہے۔‘‘
’’میں تم سے ایک مشورہ لینا چاہتا ہوں جابان!‘‘ … جاذویہ نے کہا۔ … ’’تم دیکھ رہے ہو کہ کسریٰ نے ہمیں جو حکم دیا تھا وہ بے مقصد ہو چکا ہے۔ میں مدائن چلا جاتا ہوں۔ کسریٰ سے نیا حکم لوں گا۔ میں اس کے ساتھ کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ اسے بھی یہ کہنے کی عادت ہو گئی ہے کہ جاؤ اور مسلمانوں کو کچل ڈالو۔ اسے ابھی تک کسی نے بتایا نہیں کہ جنگی طاقت صرف ہمارے پاس نہیں، میں نے مان لیا ہے کہ لڑنے کی جتنی اہلیت اور جتنا جذبہ مسلمانوں میں ہے وہ ہمارے یہاں نا پید ہے۔ … جابان! طاقت کے گھمنڈ سے کسی کو شکست نہیں دی جا سکتی۔‘‘
’’میں بھی اسی کو بہتر سمجھوں گا۔‘‘ … جابان نے کہا۔ … ’’آپ کوچ کو روک دیں اور مدائن چلے جائیں۔‘‘
’’کوچ روک دو۔‘‘ … جاذویہ نے حکم کے لہجے میں کہا۔ … ’’لشکر کو یہیں خیمہ زن کر دو۔ میری واپسی تک تم لشکر کے سالار ہو گے۔‘‘
’’اگر آپ کی غیر حاضری میں مسلمان یہاں تک پہنچ گئے یا ان سے آمنا سامناہو گیا تو میرے لیے آپ کا کیا حکم ہے؟‘‘ … جابان نے پوچھا۔ … ’’کیا میں ان سے لڑوں یا آپ کے آنے تک جنگ شروع نہ کروں؟‘‘
’’تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ میری واپسی تک تصادم نہ ہو۔‘‘ … جاذویہ نے کہا۔
آتش پرستوں کے لشکر کا کوچ روک کر اسے وہیں خیمہ زن کر دیا گیا اور بہمن جاذویہ اپنے محافظ دستے کے چند ایک گھوڑ سواروں کو ساتھ لے کر مدائن کو روانہ ہو گیا۔
…………bnb…………

بکربن وائل کی بستیوں میں ایک طرف گریہ و زاری تھی اوردوسری طرف جوش و خروش اور جذبہ انتقام کی للکار۔ اس عیسائی قبیلے کے وہ ہزاروں آدمی جو للکارتے اور نعرے لگاتے ہوئے آتش پرست لشکر کے ساتھ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکالنے گئے تھے وہ میدانِ جنگ سے بھاگ کر اپنی بستیوں کو چلے گئے تھے۔ یہ وہ تھے جو زندہ نکل گئے تھے ان کے کئی ساتھی مارے گئے تھے۔ ان میں بعض زخمی تھے جو اپنے آپ کو گھسیٹتے آ رہے تھے مگر راستے میں مر گئے تھے۔ یہ عیسائی جب سر جھکائے ہوئے اپنی بستیوں میں پہنچنے لگے تو گھر گھر سے عورتیں، بچے اور بوڑھے نکل آئے۔ ان شکست خوردہ ٹولیوں میں عورتیں اپنے بیٹوں، بھائیوں اور خاوندوں کو ڈھونڈنے لگیں۔ بچے اپنے باپوں کو دیکھتے پھر رہے تھے۔
انہیں پہلا صدمہ تو یہ ہوا کہ وہ پٹ کر لوٹے تھے۔ پھر صدمہ انہیں ہوا جب کے عزیز واپس نہیں آئے تھے، بستیوں میں عورتوں کی آہ و فغاں سنائی دینے لگی۔ وہ اونچی آواز سے روتی تھیں۔
’’پھر تم زندہ کیوں آ گئے ہو؟‘‘ … ایک عورت نے شکست کھا کر آنے والوں سے چلّاچلّاکر کہا۔ … ’’تم ان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے وہیں کیوں نہیں رہے۔‘‘
یہ آواز کئی عورتوں کی آواز بن گئی۔ پھر عورتوں کی یہی للکار سنائی دینے لگی۔ … ’’تم نے بکر بن وائل کا نام ڈبودیا ہے ۔تم نے ان مسلمانوں سے شکست کھائی ہے جو اسی قبیلے کے ہیں۔ جاؤ اور شکست کا انتقام لو۔ … مثنیٰ بن حارثہ کا سر کاٹ کر لاؤ جس نے ایک ہی قبیلے کو دو دھڑوں میں کاٹ دیا ہے۔‘‘
مثنیٰ بن حارثہ اسی قبیلے کا ایک سردار تھا۔ اس نے کچھ عرصے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اور اس کے زیرِ اثر اس قبیلے کے ہزاروں لوگ مسلمان ہو گئے تھے ۔ان مسلمانوں میں سے کئی خالد ؓکی فوج میں شامل ہو گئے تھے۔ اسی طرح ایک ہی قبیلے کے لوگ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے تھے ۔
طبری اور ابنِ قطیبہ نے لکھا ہے کہ شکست خوردہ عیسائی اپنی عورتوں کے طعنوں اور ان کی للکار سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گئے۔ بیشتر مؤرخین نے لکھا ہے کہ عیسائیوں کو اس لئے بھی طیش آیا تھا کہ ان کے اپنے قبیلے کے کئی ایسے افراد نے اسلام قبول کر لیا تھا جن کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن وہی افراد اسلامی فوج میں جا کر ایسی طاقت بن گئے تھے کہ فارس جیسے طاقتور شہنشاہی کو نا صرف للکار رہے تھے بلکہ اسے تیسری شکست بھی دے چکے تھے۔
’’اب ان لوگوں کو اپنے مذہب میں واپس لانا بہت مشکل ہے۔‘‘ … بکر بن وائل کے ایک سردار عبدالاسود عجلی نے کہا۔ … ’’ان کا ایک ہی علاج ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے۔‘‘
عبدالاسود بنو عجلان کا سردار تھا۔یہ بھی بکر بن وائل کی شاخ تھی۔ اس لیے وہ عجلی کہلاتا تھا۔ مانا ہوا جنگجو عیسائی تھا۔
’’کیا تم مسلمانوں کے قتل کو آسان سمجھتے ہو؟‘‘ … ایک بوڑھے عیسائی نے کہا۔ … ’’میدانِ جنگ میں تم انہیں پیٹھ دکھا آئے ہو۔‘‘
’’میں ایک مشورہ دیتا ہوں۔‘‘ … اس قبیلے کے ایک اور بڑے نے کہا۔ … ’’ہمارے ساتھ جومسلمان رہتے ہیں انہیں ختم کر دیا جائے۔ پہلے انہیں کہا جائے کہ عیسائیت میں واپس آ جائیں اگر انکار کریں تو انہیں خفیہ طریقوں سے قتل کیا جائے۔‘‘
’’نہیں!‘‘ … عبدالاسود نے کہا۔ … ’’کیا تم بھول گئے ہو کہ ہمارے قبیلے کے ان مسلمانوں نے خفیہ کارروائیوں سے فارس کی شہنشاہی میں کیسی تباہی مچائی تھی۔ انہوں نے کتنی دلیری سے فارس کی فوجی چوکیوں پر حملے کیے تھے۔انہوں نے کسریٰ کی رعایا ہو کر کسریٰ کی فوج کے کئی کمانداروں کو قتل کر دیا تھا۔ اگر تم نے یہاں کسی ایک مسلمان کو خفیہ طریقے سے قتل کیا تو مثنیٰ بن حارثہ کا گروہ خفیہ طریقوں سے تمہارے بچوں کو قتل کر جائے گا اور تمہارے گھروں کو آگ لگا دے گا۔ ان میں سے کوئی بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا۔‘‘
’’پھر ہم انتقام کس طرح لیں گے؟‘‘ … ایک نے پوچھا۔ … ’’تمہارے لیے تو انتقام بہت ہی ضروری ہے کیونکہ تمہارے دو جوان بیٹے ولجہ کی لڑائی میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔‘‘
’’شہنشاہِ فارس اور مسلمانوں کی اپنی جنگ ہے۔‘‘ … عبدالاسود نے کہا۔ … ’’ہم اپنی جنگ لڑیں گے لیکن فارس کی فوج کی مدد کے بغیر شاید ہم مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکیں گے۔ اگر تم لوگ مجھے اجازت دو تو میں مدائن جا کر شہنشاہِ فارس سے ملوں گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ وہ ہمیں مدد دے گا۔ اگر اس نے مدد نہ دی تو ہم اپنی فوج بنا کر لڑیں گے۔‘‘ …تم ٹھیک کہتے ہو۔ … ’’مجھے مسلمانوں سے اپنے دو بیٹوں کے خون کا حساب چکانا ہے۔‘‘
عیسائیوں کے سرداروں نے اسی وقت فیصلہ کرلیا کہ جس قدر لوگ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو سکیں وہ دریائے فرات کے کنارے اُلیّس کے مقام پر اکھٹے ہو جائیں اور ان کا سردارِ اعلیٰ عبدالاسود عجلی ہو گا۔ قبیلہ بکر بن وائل اور اس کے ذیلی قبیلوں کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ ان کے زخم تازہ تھے۔ مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے گھروں میں ماتم ہورہا تھا۔ ان حالات اور اس جذباتی کیفیت میں نوجوان بھی اور وہ بوڑھے بھی جو اپنے آپ کو لڑنے کے قابل سمجھتے تھے ‘لڑنے کیلئے نکل آ ئے۔ یہ لوگ اس قد ربھڑکے ہوئے تھے کہ جوان لڑکیاں بھی مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے تیار ہو گئیں۔
…………bnb…………

عراقی عیسائیوں کے عزائم، جنگی تیاریاں اور الیس کے مقام پر ان کاایک فوج کی صورت میں اجتماع خالدؓ سے پوشیدہ نہیں تھا۔ خالدؓکی فوج وہاں سے دور تھی لیکن انہیں دشمن کی ہر نقل و حرکت کی اطلاع مل رہی تھی ان کے جاسوس ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ عیسائیوں کے علاقے میں عرب کے مسلمان بھی رہتے تھے۔ ان کی ہمدردیاں مدینہ کے مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔ مسلمانوں کی فتوحات کو دیکھ کر انہیں آتش پرستوں سے آزادی اور دہشت گردی سے نجات بڑی صاف نظر آنے لگی تھی۔ وہ دل و جان سے مسلمانوں کے ساتھ تھے۔ وہ کسی کے حکم کے بغیر خالدؓ کیلئے جاسوسی کررہے تھے۔
خالدؓ کے لشکر کے حوصلے بلند تھے۔ اتنی بڑی جنگی طاقت پر مسلسل تین فتوحات نے اور بے شمار مالِ غنیمت نے اور اسلامی جذبے نے ان کے حوصلوں کو تروتازہ رکھا ہوا تھا لیکن خالد ؓجانتے تھے کہ ان کے مجاہدین کی جسمانی حالت ٹھیک نہیں۔ مجاہدین کے لشکر کوآرام ملا ہی نہیں تھا۔ وہ کوچ اور پیش قدمی کی حالت میں رہے یا میدانِ جنگ میں لڑتے رہے تھے۔
’’انہیں مکمل آرام کرنے دو۔‘‘ … خالدؓ اپنے سالاروں سے کہہ رہے تھے۔ … ’’ان کی ہڈیاں بھی دکھ رہی ہوں گی۔ جتنے بھی دن ممکن ہوسکا میں انہیں آرام کی حالت میں رکھوں گااور ان دستوں کو بھی یہیں بلا لو جنہیں ہم دجلہ کے کنارے دشمن پر نظر رکھنے کیلئے چھوڑ آئے تھے۔ تم میں مجھے مثنیٰ بن حارثہ نظر نہیں آرہا؟‘‘
’’وہ گذشتہ رات سے نظر نہیں آیا۔‘‘ … ایک سالار نے جواب دیا۔
ایک گھوڑے کے ٹاپ سنائی دیئے جو قریب آرہے تھے۔ گھوڑا خالدؓ کے خیمے کے قریب آکر رکا۔
’’مثنیٰ بن حارثہ آیا ہے۔‘‘ … کسی نے خالد ؓکو بتایا۔
مثنیٰ گھوڑے سے کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خالدؓ کے خیمے میں داخل ہوا۔
’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو ولید کے بیٹے!‘‘ … مثنیٰ نے پر جوش آواز میں کہا اور بیٹھنے کے بجائے خیمے میں ٹہلنے لگا۔
’’خدا کی قسم ابنِ حارثہ!‘‘ … خالدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ … ’’تیری چال ڈھا ل اور تیرا جوش بتا رہا ہے کہ تجھے کہیں سے خزانہ مل گیا ہے۔‘‘
’’خزانے سے زیادہ قیمتی خبر لایا ہوں ابنِ ولید!‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔ … ’’میرے قبیلے کے عیسائیوں کا ایک لشکر تیار ہو کر الیس کے مقام پر جمع ہونے کیلئے چلا گیا ہے۔ ان کے سرداروں نے دروازے بند کر کے ہمارے خلاف جو منصوبہ بنایا ہے وہ مجھ تک پہنچ گیا ہے۔‘‘
 ’’کیا یہی خبر لانے کیلئے تو رات سے کسی کو نظر نہیں آیا؟‘‘ … خالد نے پوچھا۔
’’ہاں!‘‘ … مثنیٰ نے جواب دیا۔ … ’’وہ میرا قبیلہ ہے‘ میں جانتاتھا کہ میرے قبیلے کے لوگ انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ میں اپنا حلیہ بدل کر انکے پیچھے چلا گیا تھا جس مکان میں بیٹھ کر انہوں نے ہمارے خلاف لڑنے کا منصوبہ بنایا ہے‘ میں اس کے ساتھ والے مکان میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں وہاں سے پوری خبر لے کر نکلا ہوں۔ دوسری اطلاع یہ ہے کہ ان کے سردار اس مقصد کیلئے مدائن چلے گئے ہیں اور وہ اردشیر سے فوجی مدد لے کر ہم پر حملہ کریں گے۔‘‘
’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں اپنے لشکر کو آرام کی مہلت نہیں دے سکوں گا۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کیا تم پسند نہیں کرو گے جس طرح ہم نے ولجہ میں آتش پرستوں کو تیاری کی مہلت نہیں دی تھی اسی طرح ہم عیسائیوں اور آتش پرستوں کے اجتماع سے پہلے ہی ان پر حملہ کر دیں۔‘‘
’’خدا تیری عمر دراز کرے ابنِ ولید!‘‘ … مثنیٰ نے کہا۔ … ’’طریقہ یہی بہتر ہے کہ دشمن کا سرا ٹھنے سے پہلے ہی کچل دیا جائے۔‘‘
خالدؓنے اپنے دوسرے سالاروں کی طرف دیکھا جیسے وہ ان سے مشورہ مانگ رہے ہوں ۔
’’ہونا تو ایسا ہی چاہیے۔‘‘ … سالار عاصم بن عمرو نے کہا۔ … ’’لیکن لشکر کی جسمانی حالت دیکھ لیں۔ کیا ہمارے لیے یہ فائدہ مند نہ ہوگا کہکم از کم دو دن لشکر کو آرام کرنے دیں؟‘‘
’’ہاں ابنِ ولید!‘‘ … دوسرے سالار عدی بن حاتم نے کہا۔ … ’’کہیں ایسا نہ ہو کہ پہلی تین فتوحات کے نشے میں ہمیں شکست کا منہ دیکھنا پڑے۔‘‘
’’ابنِ حاتم!‘‘ … خالد ؓنے کہا۔ … ’’میں تیرے اتنے اچھے مشورے کی تعریف کرتا ہوں لیکن یہ بھی سوچ کہ ہم نے دودن عیسائیوں کو دے دیئے تو کیاایسا نہیں ہو گا کہ فارس کا لشکر ان سے آن ملے؟‘‘
’’ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘ … عدی بن حاتم نے کہا۔ … ’’لیکن بہتر یہ ہو گا کہ آتش پرستوں کے لشکر کو آنے دیں۔یوں بھی تو ہو سکتا ہے کہ ہم بکر بن وائل کے عیسائیوں سے الجھے ہوں اور آتش ہرست عقب سے ہم پر آپڑیں۔ جس جس کو ہمارے خلاف لڑنا ہے اسے اس میدان میں آنے دیں جہاں وہ لڑنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔ … ’’کیا تو مجھے اجازت نہیں دے گا کہ عیسائیوں پر حملے کی پہل میں کروں؟‘‘
’’تو نے ایسا کیوں سوچا ہے؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ جتنا انہیں میں جانتا ہوں اتنا کوئی اور نہیں جانتا۔‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔ … ’’اور میں اس لیے بھی سب سے آگے ہو کر ان پر حملہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان کے منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے قبیلے کے جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ہے انہیں قتل کر دیا جائے۔ میں انہیں کہوں گا کہ دیکھو کون کسے قتل کر رہا ہے؟‘‘
’’اس وقت ہماری نفری کتنی ہے؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’اٹھارہ ہزار سے کچھ زیادہ ہی ہوگی۔‘‘ … ایک سالار نے جواب دیا۔
’’جب ہم فارس کی سرحد میں داخل ہوئے تھے تو ہماری نفری اٹھارہ ہزار تھی۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اس علاقے کے مسلمانوں نے میری نفری کم نہیں ہونے دی۔‘‘
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ان تین جنگوں میں بہت سے مسلمان شہید اور شدید زخمی ہوئے تھے ۔بعض نے لکھا ہے کہ نفری تقریباًآدھی رہ گئی تھی لیکن مثنیٰ بن حارثہ کے قبیلے نے نفری کی کمی پوری کر دی تھی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages