Featured Post

Khalid001

20 June 2019

Khalid070


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  70
شہنشاہِ فارس اردشیرجونوشیرواں عادل کا پرپوتا تھا،ایسے مرض میں مبتلا ہو گیا تھا جو شاہی طبیبوں کے قابو میں نہیں آ رہا تھا۔ اتنا تو وہ جانتے تھے کہ پے در پے تین شکستوں کا صدمہ ہے لیکن صدمہ آخر جسمانی مرض کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ اس کا علاج دوائیوں سے ہونا چاہیے تھا لیکن یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ دوائیوں کونہیں بلکہ دوائیاں اسے کھا رہی ہوں۔
اردشیر پر خاموشی طاری ہو گئی تھی۔ وہ جو اپنے وقت کا فرعون تھا ،سحر کے دیئے کی طرح ٹمٹما رہا تھا۔ طبیب اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ اردشیر تک جنگ کی کوئی بری خبر نہ پہنچے لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ وہ جب بولتا تھاتو یہی بولتا تھاکہ آگے کی کیاخبر ہے؟
’’خبریں اچھی آرہی ہیں۔‘‘ طبیب جو ہر وقت حاضر رہتا تھا اسے جواب دیتا اور اسے صدمے سے بچانے کیلئے کبھی کہتا۔ ’’مسلمان پچھتا رہے ہیں کہ وہ کس دیو کو چھیڑ بیٹھے ہیں۔‘‘ کبھی کہتا۔ ’’فارس کی شہنشاہی ایک چٹان ہے۔ اس سے جو بھی ٹکرایا اس نے اپنا سر پھوڑ لیا۔‘‘ اور کبھی اس کی چہیتی ملکہ یہ کہہ کر اس کا دل مضبوط کرتی۔ ’’عرب کے بدو کسریٰ کے جاہ و جلال کی تاب نہیں لا سکتے۔‘‘
ان تسلیوں اور ان حوصلہ افزاء الفاظ کا کسریٰ اردشیر پر دوائیوں کی طرح الٹا یہی اثر ہو رہا تھا۔ اس کی خاموشی نہ ٹوٹ سکی اور اس کے چہرے پر اداسیوں کی پر چھائیاں کم ہونے کے بجائے گہری ہوتی گئیں۔
اس کی من پسند رقاصہ نے اس کے سامنے حسین ناگن کی طرح اپنے جسم کو بہت بل دیئے۔ اس نے اپنا جسم نیم عریاں کیا۔ اردشیر کے علیل چہرے پر اپنے عطر بیز ریشم جیسے ملائم بالوں کا سایہ کیا۔ پھر عریاں ہو کر رقص کی اداوؤں سے کسریٰ کے روگی وجود کو سہلانے کے جتن کیے مگر ایسے لگتا تھا جیسے مورنی جنگل میں ناچ رہی ہو اور ناچ کا طلسم جنگل کی ہواؤں میں اڑتا جا رہا ہو۔
اس کی پسندیدہ مغنّیہ جو اردشیر کو مسحور کر لیا کرتی تھی، اس کا سحر بھی رائیگاں گیا۔ یہ رقاصہ اور مغنّیہ فارس کے حسن کے شاہکار تھے۔ فارس کا حسن تو کسریٰ کے حرم میں پھولوں کی طرح کھِلا ہوا تھا۔ ان پھولوں میں ادھ کھِلی کلیاں بھی تھیں، اردشیر ان کے مخملیں جسموں کی بو باس سے مدہوش رہا کرتا تھا، مگر اب ایک ایک کو اسکی تنہائی کا ساتھی بنایا گیا تو اردشیر نے کسی کو بھی قبول نہ کیا۔ اس کے سرد جسم میں نوخیز جوانی کی تپش ذرا سی حرارت بھی پیدا نہ کر سکی۔
’’بیکار ہے … سب بیکار ہے۔‘‘ ملکہ نے باہر آ کر اس بوڑھے شاہی طبیب سے کہا جس کے متعلق فارس کے کونے کونے تک مشہور تھا کہ اسے دیکھ کر موت منہ موڑ جاتی ہے۔ ملکہ نے رندھی ہوئی آواز میں اسے کہا۔ ’’کیا آپ کا علم اور تجربہ بھی بیکار ہے؟ کیا یہ محض ڈھونگ ہے؟کیاآپ کسریٰ کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نہیں لا سکتے؟ کون کہتا ہے آپ موت کا منہ موڑ دیا کرتے ہیں؟‘‘
’’زرتشت کی رحمتیں ہوں تجھ پر ملکہ فارس!‘‘ بوڑھے طبیب نے کہا۔ ’’نہ کسی کی موت میرے ہاتھ میں ہے نہ کسی کی زندگی میرے ہاتھ میں ہے۔ میں زندگی اور موت کے درمیان کمزور سی ایک دیوار ہوں۔ موت کے ہاتھ اتنے مضبوط اور توانا ہیں کہ اس دیوار کو دروازے کے کواڑ کی طرح کھول لیتے ہیں اور مریض کو اٹھا لے جاتے ہیں اور میرا علم اور میرا تجربہ منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔‘‘
’’الفاظ… محض الفاظ۔‘‘ ملکہ نے فرش پر بڑی زور سے پاؤں مار کر کہا۔ ’’کھوکھلے الفاظ … کیا الفاظ کسی دکھیارے کا دکھ مٹا سکتے ہیں؟ کسی روگی کو روگ سے نجات دلا سکتے ہیں؟ کیا آپ کے الفاظ میں اتنی طاقت ہے کہ کسریٰ کے روگ کو چوس لیں؟‘‘
’’نہیں ملکہ فارس!‘‘ طبیب نے بڑے تحمل سے کہا اورکانپتے ہوئے ہاتھ سے ملکہ کے بازو کو پکڑا اور اسے بٹھا کر کہا۔ ’’الفاظ کسی کے دکھ اور کس کے روگ کو مٹا نہیں سکتے۔ البتہ دکھ اور روگ کی اذیت کو ذرا کم کر دیا کرتے ہیں۔ حقیقت کے سامنے الفاظ کوئی معنی نہیں رکھتے اور حقیقت اگر تلخ ہو تو عالم کے منہ سے نکلتے ہوئے الفاظ یوں لگتے ہیں جیسے خزاں میں شجر کے زرد پتے گر رہے ہوں۔ سوکھے ہوئے ان پتوں کو پھر ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں۔‘‘
’’ہم کسریٰ کو حقیقت سے بے خبر رکھ رہے ہیں۔‘‘ ملکہ نے کہا۔ ’’میں انہیں رقص و نغمے سے بہلانے کی …‘‘
’’کب تک؟‘‘ بوڑھے طبیب نے کہا۔ ’’ملکہ کسریٰ! تم کسریٰ سے اس حقیقت کو کب تک چھپائے رکھو گی؟ یہ رقص اور یہ نغمے اور یہ مخمل جیسے نرم وملائم اور نو خیز جسم کسریٰ اردشیرکا دل نہیں بہلا سکتے۔ اگر کسریٰ صرف شہنشاہ ہوتے تو وہ اپنے آپ کو بڑے حسین فریب دے سکتے تھے۔ فرار کے بڑے دلکش راستے اختیار کر سکتے تھے لیکن وہ جنگجو بھی ہیں۔ انکے گھوڑے کے سموں نے زمین کے تختے کو ہلا ڈالا تھا فارس کی اتنی عظیم شہنشاہی کسریٰ کے زورِبازو کا حاصل ہے۔‘‘
’’اس شہنشاہی کو انہوں نے رومیوں کی طاقتور فوج سے بچایا ہے کسریٰ نے لڑائیاں لڑی ہیں۔ بڑے خونریز معرکے لڑے ہیں۔ اب وہ جنگجو اردشیر بیدار ہو گیا ہے۔ اب رقص و نغمہ اور یہ طلسماتی جوانیاں ان پر الٹا اثر کر رہی ہیں۔ اب وہ کسی رقاصہ اور کسی مغنّیہ کو نہیں ہرمز کو بلاتے ہیں۔ اندرزغر کی پوچھتے ہیں۔ بہمن جاذویہ اور انوشجان کو پکارتے ہیں۔ کہاں ہیں ان کے یہ سالار ؟تم انہیں کیا دھوکا دو گی؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ ملکہ نے آہ بھر کر کہا۔ ’’کچھ بھی نہیں۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن کچھ تو بتائیں میں کچھ نہیں سمجھ سکتی ،کیا آپ مسلمانوں کو جانتے ہیں؟ یہاں چند عیسائی آئے تھے وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں کوئی پراسرار طاقت ہے جس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتااور میں نے دیکھاہے کہ دجلہ اور فرات کے درمیانی علاقے میں ہم نے جن مسلمانوں کو آباد کرکے انہیں اپنا غلام بنا رکھا تھا اور جنہیں ہم کیڑے مکوڑوں سے بڑھ کر کچھ نہیں سمجھتے تھے وہی مدینہ والوں کا بازو بن گئے ہیں اور ہمارا لشکر ان کے آگے بھاگا بھاگا پھر رہا ہے۔‘‘
’’یہ عقیدے کی طاقت ہے ملکہ فارس!‘‘ طبیب نے کہا۔
’’تو کیا ان کاعقیدہ سچا ہے؟‘‘
’’نہیں ملکہ فارس!‘‘ بوڑھے طبیب نے کہا۔ ’’ایک بات کہوں گا جو شائد تمہیں اچھی نہ لگے۔ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ بادشاہی صرف اﷲکی ہے اور بندے اس کے حکم کے پابند ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اُس اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ کیا تم اس راز کو سمجھی ہو ملکہ کسریٰ؟‘‘
’’نہیں بزرگ طبیب!‘‘ ملکہ نے جواب دیا۔ ’’میں نہیں سمجھ سکی ۔بادشاہی تو ایک خاندان اور اس کے ایک فرد کی ہوتی ہے۔‘‘
’’اس کا انجام تم دیکھ رہی ہو ملکہ کسریٰ!‘‘ طبیب نے کہا۔ ’’آج وہ ایک انسان جو اپنے آپ کوانسانوں کا شہنشاہ سمجھتا ہے‘ بے بس اور مجبور اندر پڑا ہے اوراپنی بادشاہی کو بچانہیں سکتا۔ اس کالشکر پسپا ہوتا چلا آ رہا ہے۔ ان سپاہیوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ ایک خاندان اور ایک انسان کی شہنشاہی کی خاطر اپنی جانیں دیں اور وہ جو ہزاروں کی تعداد میں مر رہے ہیں وہ بھاگتے ہوئے مر رہے ہیں وہ جب دیکھتے ہیں کہ مالِ غنیمت تو ہے ہی نہیں پھر لڑیں کیوں؟ وہ تمہارے خزانے سے ماہانہ وصول کرنے کیلئے زندہ رہنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’اور مسلمان؟‘‘
’’مسلمان!‘‘ طبیب نے کہا۔ ’’مسلمان کسی ایک انسان کے آگے جواب دہ نہیں۔ وہ اﷲکی خوشنودی کیلئے لڑتے ہیں اور اپنے امیر کاحکم مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اتنی کم تعداد میں بھی طوفان کی طرح بڑھے آرہے ہیں۔ ملکہ فارس! عقیدہ اپنا اپنا اور مذہب اپنا اپنا ہوتا ہے۔ میں علم اور تجربے کی بات کرتا ہوں۔ جب ایک خاندان اور ایک انسان اپنے آپ کو شہنشاہ بنا لیتا اور انسانوں کو انسان سمجھنا چھوڑ دیتا ہے تو ایک دن آتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنی فوج کو بھی اور اپنی رعایا کوبھی تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔‘‘
’’میں نہیں سمجھ سکتی۔‘‘ ملکہ نے کہا۔ ’’میں سمجھنا نہیں چاہتی۔میں صر ف یہ چاہتی ہوں کہ کسریٰ صحت یاب ہو جائیں۔ کچھ کرو بزرگ طبیب کچھ کرو۔‘‘
’’کچھ نہیں ہو سکتا ملکہ فارس!‘‘ طبیب نے کہا۔ ’’کچھ نہیں ہو سکتا۔ صرف یہ خبر لے آؤ کہ مسلمانوں کو فارس کی سرحد سے نکال دیا گیا ہے یاخالد بن ولید کو زنجیروں میں باندھ کر کسریٰ کے دربار میں لے آؤ۔ تو کسری اٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘
’’ایسی خبر کہاں سے لاؤں؟‘‘ ملکہ نے رنجیدہ اور شکست خوردہ لہجے میں کہا۔ ’’مدینہ کے اس سالار کو کیسے زنجیروں میں باندھ کر لے آؤں؟ اگر میرے سالار شکست کھا کر زندہ آ جاتے تو میں ان کی ٹانگیں زمین میں گاڑھ کر ان پر کتے چھوڑ دیتی۔‘‘
وہ سر جھکائے ہوئے چل پڑی۔
…………bnb…………

ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آیا اور محل کے باہررکا۔ ملکہ دوڑتی باہر گئی۔ بوڑھا طبیب بھی اس کے پیچھے گیا۔ وہ ایک کماندار تھا گھوڑے سے کود کر وہ ملکہ کے سامنے دو زانو ہو گیا‘ اس کا منہ کھلا ہوا تھاآنکھیں سفید ہو گئی تھیں۔ چہرے پر صرف تھکن ہی نہیں گھبراہٹ بھی تھی۔
’’کوئی اچھی خبر لائے ہو؟‘‘ ملکہ نے پوچھا اور شاہانہ جلال سے بولی۔ ’’اٹھو اور فوراً بتاؤ۔‘‘
’’کوئی اچھی خبر نہیں۔‘‘ کماندار نے ہانپتی ہوئی آواز سے کہا۔ ’’مسلمانوں نے پورا لشکر کاٹ دیا ہے۔ انہوں نے ہمارے ہزاروں آدمیوں کو پکڑ کر دریائے خسیف کے کنارے اس طرح قتل کر دیا ہے کہ دریا میں خون چل پڑا۔ دریا خشک تھا مسلمانوں کے سالار نے اوپر سے دریا کا بند کھلوا دیا تو بادقلی خون کادریا بن گیا۔‘‘
’’تم کیوں زندہ واپس آ گئے ہو؟‘‘ ملکہ نے غضب ناک آواز میں پوچھا۔ ’’کیا تم میرے ہاتھوں کٹنے کیلئے آئے ہو؟‘‘
’’میں اگلی جنگ لڑنے کیلئے زندہ آ گیا ہوں۔‘‘ کماندار نے جواب دیا۔ ’’میں چھپ کر اپنے لشکر کے قیدیوں کے سر جسموں سے الگ ہوتے دیکھتا رہا ہوں۔‘‘
’’خبر دار!‘‘ ملکہ نے حکم دیا۔ ’’یہ خبر یہیں سے واپس لے جاؤ۔ شہنشاہِ فارس کو…‘‘
’’شہنشاہِ فارس یہی خبر سننے کیلئے زندہ ہے۔‘‘ اردشیر کی آواز سنائی دی۔ ملکہ نے اور طبیب نے دیکھا۔ اردشیر ایک ستون کے سہارے کھڑا تھا۔ دوبڑی حسین اورنوجوان لڑکیوں نے اس کے ہاتھ اپنے کندھوں پر رکھے ہوئے تھے۔
’’یہاں آؤ۔‘‘ اس نے کماندا ر کو حکم دیا۔ ’’میں نے محسوس کر لیا تھا کوئی آیا ہے ۔کہو کیا خبر لائے ہو؟‘‘
کماندار نے ملکہ اور طبیب کی طرف دیکھا۔
’’ادھر دیکھو!‘‘ اردشیر نے گرج کر کہا۔ ’’بولو۔‘‘
کماندار نے وہی خبر سنا دی جو وہ ملکہ کو سنا چکا تھا۔ کسریٰ اردشیر آگے کو جھک گیا۔ دونوں لڑکیوں نے اسے سہارا دیا۔ ملکہ نے لپک کر اس کا سر اوپراٹھایا۔ بوڑھے طبیب نے اس کی نبض پر انگلیاں رکھیں۔ ملکہ نے طبیب کی طرف دیکھا۔ طبیب نے مایوسی سے سر ہلایا۔ ’’فارس ‘کسریٰ اُردشیر سے محروم ہو گیا ہے۔‘‘ طبیب نے کہا۔ محل میں ہڑبونگ مچ گئی۔ اردشیرکی لاش اٹھا کر اس کے اس کمرے میں لے گئے جہاں اس نے کئی بار کہاتھا کہ عرب کے ان لٹیرے بدوؤں کو فارس کی سرحد میں قدم رکھنے کی جرات کیسے ہوئی ہے۔ اس نے اسی کمرے میں ولید کے بیٹے خالدؓ اور حارثہ کے بیٹے مثنیٰ کو زندہ یا مردہ لانے کاحکم دیا تھا۔ اپنے حکم کی تعمیل سے پہلے ہی اس کمرے میں اس کی لاش پڑی تھی۔ وہ شکستوں کے صدمے سے ہی مر گیا تھا۔
ملکہ نے حکم دیا کہ لڑنے والے لشکر تک کسریٰ کی موت کی خبر نہ پہنچنے دی جائے۔
…………bnb…………

مسلمانوں کے پڑاؤ میں ایک گھوڑا سرپٹ دوڑتا داخل ہوا۔ اس کاسوار چلّا رہا تھا۔
’’کہاں ہے ولید کا بیٹا؟‘‘ گھوڑ سوار بازو بلند کرکے لہراتا آ رہا تھا۔ ’’باہرآ ابنِ ولید!‘‘
خالدؓ بڑی تیزی سے سامنے آئے۔
’’ابنِ ولید!‘‘ سوار کہتا آ رہا تھا۔ ’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔تیری دہشت نے اردشیر کی جان لے لی ہے۔‘‘
’’کیا تو پاگل ہو گیا ہے ابنِِ حارثہ!‘‘ خالدؓ نے آگے بڑھ کر کہا۔
سوار مثنیٰ بن حارثہ تھا۔وہ گھوڑے سے کودا اور اتنے پرجوش طریقے سے خالدؓ سے بغل گیر ہوا کہ خالدؓ گرتے گرتے بچے۔
’’مدائن کے محل رو رہے ہیں۔‘‘  … مثنیٰ نے خوشی سے بے قابو آواز میں کہا۔ … ’’ارد شیر کو مرے آج چار دن ہو گئے ہیں۔ میرے دو آدمی مدائن کے محل میں موجود تھے۔ وہاں حکم دیا گیا ہے کہ ارد شیر کی موت کی خبر اس کے لشکر کو نہ دی جائے۔‘‘
خالدؓ نے اپنے دونوں اہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے۔
’’میرے اللہ!‘‘ … انہوں نے کہا … ’’میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں؟ مجھے فتح کے تکبر اور غرور سے بچانا خدائے ذوالجلال! سب تعریفیں تیرے لیے اور صرف تیرے لیے ہیں۔‘‘
خالدؓ نے ہاتھ نیچے کر کے ادھر ادھر دیکھا اور بلند آواز سے کہا … ’’اپنے تمام لشکر کو یہ مژدہ سنا دو کہ فارس کی وسیع وعریض شہنشانی کا ستون گر پڑا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے۔ سب سے کہہ دو کہ کسریٰ کو تمہاری دہشت نے مارا ہے۔‘‘
خالدؓ مثنیٰ بن حارثہ کو اپنے خیمے میں لے گئے اور اس سے پوچھا کہ آگے کیا ہے؟
’’تھوڑی ہی دور فارس کا ایک بڑا شہر امنیشیا ہے۔‘‘ … مثنیٰ نے بتایا … ’’یہ شہر اس لیے بڑا ہے کہ وہاں فارس کی فوج رہتی ہے۔ اسے فوج کا بہت بڑا اڈہ سمجھ لو۔ یہ شہر تجارتی مرکز ہے۔ اس کے ارد گرد زمین بہت زرخیز ہے۔ تجارت‘ اناج اور باغوں کے پھلوں کی وجہ سے امنیشیا امیروں کا شہر کہلاتا ہے۔ شہر پناہ بہت مضبوط ہے۔ شہر کے دروازے مضبوط ہیں۔ قریب جاؤ گے تو دیوار کے اوپر سے تیروں کا مینہ برسے گا … ولید کے بیٹے! اس شہر کے لیے جانوں کی قربانی دینی پڑے گی۔ اگر تو نے یہ شہر لے لیا تو سمجھ لے کہ تو نے دشمن کی ایک موٹی رگ اپنے ہاتھ میں لے لی۔‘‘
’’کیا اب بھی وہاں فوج ہے؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا … ’’اگر ہے تو کتنی ہو گی؟‘‘
’’اتنی نہیں ہو گی جتنی پہلے تھی۔‘‘ … مثنیٰ نے جواب دیا … ’’جہاں تک مجھے بتایا گیا ہے‘ الیس کی لڑائی میں کچھ فوج وہاں سے بھی آئی تھی۔‘‘
دریائے فرات میں ایک چھوٹا دریا آکر گرتا تھا۔ اسے دریائے بادقلی کہتے تھے۔ جہاں یہ دریا ملتے تھے وہاں شہر امینیشا آباد تھا۔ خالدؓ بڑی شدت سے محسوس کر رہے تھے کہ ان کا ہر اگلا قدم پچھلے قدم سے زیادہ دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ تا ہم انہوں نے حکم د یا کہ فورا امینیشا کی طرف کوچ کیا جائے۔ فوراً کوچ سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آتش پرستوں کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages