Featured Post

Khalid001

11 July 2019

Khalid071


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  71
وہ مئی 633ء (ربیع الاول 12 ہجری) کے تیسرے ہفتے کا ایک ابتدائی دن تھا جب خالدؓ نے الیس سے کوچ کیا۔ مدینہ کے مجاہدین فتح ونصرت سے سرشار تھے۔ وہ علاقہ سرسبز اور زرخیز تھا۔ گھوڑوں اور انسانوں کے لیے خوراک کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن امینیشا کا دفاع خالدؓ کو پریشان کر رہا تھا۔
جب شہر کی دیوار اور برج نظر آنے لگے تو خالدؓ نے اپنے لشکر کو روک لیا۔ مثنیٰ بن حارثہ ان سے الگ ہو گیا تھا۔ وہ چھاپہ مار جنگ لڑنے کا ماہر تھا وہ اپنے جانباز دستے کو ساتھ لے گیا تھا۔ خالدؓ نے یہ کام اسے سونپا تھا کہ اپنے دو چار آدمیوں کو کسی بھیس میں امینیشا تک بھیج کر معلوم کرے کہ وہاں آتش پرستوں کا کتنا لشکر ہے۔
زیادہ دیر نہیں گذری تھی کہ مثنیٰ آگیا۔
’’ابن ولید!‘‘ … اس نے خالدؓ سے کہا … ’’یہ دھوکہ معلوم ہوتا ہے۔ خدا کی قسم! آتش پرست آمنے سامنے کی لڑائی سے منہ موڑ گئے ہیں اور اب وہ دھوکے اور فریب کی لڑائی لڑنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’کیا تو یہ نہیں بتائے گا کہ تو نے کیا دیکھا ہے؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا … ’’اور یہ کیسا دھوکہ ہے جو آتش پرست ہمیں دے رہے ہیں؟‘‘
’’شہر خالی ہے۔‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے کہا … ’’دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ برجوں میں اور دیواروں پر کوئی بھی نظر نہیں آتا۔‘‘
’’کیا تیرے آدمی شہر کے اندر گئے تھے؟‘‘
’’نہیں ابن ولید!‘‘ … مثنیٰ نے جواب دیا … ’’وہ دروازوں تک گئے تھے۔ وہ تو قبرستان لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دروازوں میں سے انہیں نہ تو کوئی انسان نظر آیا نہ جانور … کیا تو اسے دھوکہ یا جال نہیں سمجھتا ابن ولید؟‘‘
’’ہاں ابن حارثہ!‘‘ … خالدؓ نے کہا … ’’میں تیرے آدمیوں پر شک نہیں کروں گا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ اگر انہوں نے خواب نہیں دیکھا تو ہمیں احتیاط سے آگے جانا ہو گا۔‘‘
’’خدا کی قسم! وہ جھوٹ بولنے والوں میں سے نہیں۔‘‘ … مثنیٰ نے کہا … ’’ان کا ایمان اتنا کمزور ہوتا تو وہ فارسیوں کے  جور وستم سے بچنےک ے لیے کبھی کے اپنا مذہب چھوڑ چکے ہوتے … اور سن ولید کے بیٹے! سب سے پہلے میرے آدمی شہر میں داخل ہوں گے۔ اگر یہ دھوکہ ہے‘ پہندہ ہے‘ جال ہے‘ پہلے اس میں میرے آدمی جائیں گے تا کہ تیرا لشکر محفوظ رہے۔‘‘
خالدؓ نے اپنے سالأں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ امینیشا خالی پڑا ہے اور یہ دھوکہ ہو گا۔
’’دھوکہ یہی ہو گا کہ ہم اپنے لشکر کو شہر میں لے جائیں گے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا … ’’وہاں کوئی نہیں ہو گا۔ اچانک دروازے بند ہو جائیں گے اور ہم محاصرے میں یا پھندے میں آجائیں گے۔ … ہم فورا شہر پر ہلہ بور رہے ہیں … ابن حارثہ!‘‘ … خالدؓ مثنیٰ سے مخاطب ہوئے … ’’تیرا دستہ لشکر سے دور رہے گا اور تیری نظر لشکر پر ہو گی۔ اگر دشمن کہیں سے نکل آیا تو اس پر تیرا دستہ اپنے انداز سے حملہ کرے گا اور چھاپہ مار قسم کے حملے کرتا رہے گا۔ تجھے اور کچھ بتانے کی ضرورتع نہیں۔‘‘
باقی فوج کو انہوں نے تین حصوں میں تقسیم کیا۔ پہلے کی طرح دائیں اور بائیں سالار عاصم بن عمرو اور سالار عدی بن حاتم کو رکھا لیکن اب ان کے کام مختلف تھے۔ دروازے کھلے ہونے کی صورت میں خالدؓ کو شہر کے اندر جانا تھا۔ عاصم بن عمرو کو ان کے پیچھے رہنا تھا تا کہ بوقت ضرورت خالدؓ کی مدد کو پہنچ سکے۔ عدی بن حاتم کو اپنے دستے قلعے کے ارد گرد پھیلانے دینے تھے۔
تمام تر ہدایات اور احکام دے کر خالدؓ نے پیش قدمی کا حکم دیا۔
…………bnb…………

لشکر کے تینوں حصے شہر کے قریب جا کر ایک د وسرے سے الگ ہو گئے۔ آگے مثنیٰ بن حارثہ کے جانباز سوار شہر کے باہر کے علاقے میں گھٔم پھر رہے تھے۔ قریب ایک جنگل تھا۔ کچھ علاقہ چٹانی تھا۔ مثنیٰ نے اپنے چھاپہ مار دستے کو ٹولیوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ان ٹولیوں نے ہر وہ ع لاقہ دیکھ لیا تھا جہاں دشمن کے چھپنے کا امکان تھا لیکن دشمن کا کہیں نام ونشان نہیں ملا تھا‘ پھر یہ ٹولیاں دور دور تک گشت کر رہی تھیں۔
لشکر کے تینوں حصے شہر کی دیوار کے قریب پہنچ گئے تو سالار عدی بن حاتم نے اپںے دستوں کو شہر کے اردگرد پھیلا دیا۔ سیدنا خالدؓ نے بڑے دروازے میں جا کر بلند آواز سے اعلان کرائے کہ ’’شہر کے لوگ گھروں سے باہر آ جائیں۔‘‘
’’اگر لوگ باہر نہ آئے تو شہر کا کوئی مکان کھڑا نہیں رہنے دیا جائے گا۔‘‘
’’آتش پرستو! … زندہ رہنا ہے تو باہر آجاؤ۔‘‘
’’اپنے سالاروں سے کہو بزدل نہ بنیں۔‘‘
اس طرح کے اعلان ہوتے رہے مگر دروازے کے اندر سکوت طاری رہا۔ سیدنا خالدؓ نے نیام سے تلوار نکالی۔ بلند آواز سے کہا … ’’میرے پیچھے آؤ۔‘‘ … اور انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی۔ فوج کے جو دستے ان کے ساتھ تھے‘ وہ ان کے پیچھے شہر کے دروازے میں یوں داخل ہوئے جیسے کسی نہر یا دریا کا بند ٹوٹ جاتا ہے۔ سب سے آگے سوار دستے تھے۔
اندر جا کر گھوڑے پھیل گئے۔ سیدنا خالدؓ نے حکم دیا کہ گھر گھر کی تلاشی لی جائے۔ سیدنا خالدؓ خود ایک اونچی جگہ کھڑے ہو گئے اور احکام دینے لگے۔ انہوں نے قاصد سے کہا کہ سالار عاصم بن عمرو کے پاس جائے اور اسے کہے کہ اپنے دستے اندر لے آؤ اور پیادہ تیر اندازوں کو شہر پناہ کی دیواروں پر پھیلا دو۔
دیکھتے ہی دیکھتے عاصم بن عمرو کے تیر انداز تمام دیوار پر پھیل گئے۔ وہ اندر بھی دیکھ رہے تھے باہر بھی۔ سیدنا خالدؓ دیوار کے اوپر گئے اور سارے شہر کے گرد گھوم آئے۔ شہر میں انہیں اپنے دستوں کے سوا اور کوئی بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ باہر عدی بن حاتم کے دستے تھے۔ سیدنا خالدؓ کی نظر جہاں تک کام کرتی تھی‘ انہیں دشمن کے لشکر کا کوئی کھرا کھوج نہیں مل رہا تھا۔ انہیں گھوڑ سواروں کی دو تین ٹولیاں دکھائی دیں۔ وہ مثنیٰ بن حارثہ کے سوار تھے۔ سیدنا خالدؓ نیچے آگئے۔ انہیں بتایا گیا کہ ایک ضعیف العمر آدمی ایک مکان میں چار پائی پر پڑا اونگھ رہا ہے۔ سیدنا خالدؓ اس مکان میں گئے۔ ایک بوڑھا جس کی آنکھیں اَدھ کھلی تھیں اور منہ بھی کھلا ہوا تھا‘ چارپائی پر پڑا لاش لگ رہا تھا۔ اس کی آواز سرگوشی سے بلند نہیں تھی۔ وہ کچھ کہہ رہا تھا۔ سیدنا خالدؓ نے اپنے ایک محافظ سے کہا کہ وہ اس کے منہ کے ساتھ کان لگا کر سنے۔
’’کیا تم وہی لوگ ہو جن کے ڈر سے شہر خالی ہو گیا ہے؟‘‘ … بوڑھے نے پوچھا۔
’’ہم مسلمان ہیں۔‘‘ … محافظ نے کہا۔
’’مدینہ کے مسلمان؟‘‘ … بوڑھے نے پوچھا اور جواب کا انتظار کیے بغیر کہنے لگا … ’’میں یہاں کا عیسائی ہوں۔ وہ مجھے مرنے کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ سب چلے گئے ہیں۔‘‘
’’کہاں چلے گئے ہیں؟‘‘
’’بھاگ گئے ہیں۔‘‘ … بوڑھے نے کہا … ’’سالار بھاگ جائیں‘ فوج بھاگ جائے تو لوگ کیوں نہیں بھاگیں گے؟ کیا خالد بن ولید تمہارا سالار ہے؟ … یہاں سب اسے جن اور د یو کہتے ہیں … ہاں‘ ہاں … جس نے کسریٰ کی اتنی طاقتور فوج کو بھگا دیا ہے وہ انسان نہیں ہو گا۔‘‘
سیدنا خالدؓ نے اسے نہ بتایا کہ وہ جن اور دیو‘ اس کے سامنے کھڑا ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ بوڑھے کے منہ میں دودھ ڈالا جائے۔
’’فوج گئی کہاں ہے؟‘‘ … بوڑھے سے پوچھا گیا۔
’’آگے شہر حیرہ ہے۔‘‘ … بوڑھے نے جواب دیا … ’’ازادبہ وہاں کا حاکم ہے۔ شاید اس نے حکم دیا تھا کہ سب لوگ حیرہ آجاؤ … ہمارے اس شہر کے جوان آدمی مدینہ والوں کے خلاف لڑنے گئے تھے۔ بہت سارے مارے گئے ہیں۔ جو بچ کر آگئے تھے‘ وہ حیرہ چلے گئے۔ پیچھے بوڑھے‘ عورتیں اور بچے رہ گئے تھے۔ یہاں کے سب لوگ خالد بن ولید سے ڈرتے ہیں۔ ہمارے بھاگ کر آنے والے جوانوں نے لوگوں کو اور زیادہ ڈرا دیا۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان خون کا دریا بہا دیتے ہیں‘ اور وہ ادھر آ رہے ہیں … سب بھاگ گئے ہیں۔ میں نہیں بھاگ سکا۔ میں تو اٹھ بھی نہیں سکتا۔ وہ مجھے مرنے کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔‘‘
اس بوڑھے کو اونٹنی کا دودھ پلا کر اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔
تقریبا تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ امینشیا شہر اس حالت میں خالی تھا کہ لوگوں کے گھروں میں سامان اور قیمتی اشیاء ایسے پڑی تھیں جیسے ان مکانوں کے مکین ابھی ابھی کچھ دیر کے لیے باہر نکل گئے ہوں۔ لوگ اتنی عجلت میں بھاگے تھے کہ رقمیں اور سونا وغیرہ بھی پیچھے چھوڑ گئے۔
سیدنا خالدؓ کے حکم سے تمام فوج کو شہر میں بلا لیا گیا اور انہیں مالِ غنیمت اکٹھا کرنے کی جھٹی دی گئی۔ یہ امیروں کا شہر تھا۔ گھروں میں قیمتی اشیاء اور کپڑوں کی افراط تھی۔ مسلمان بعض چیزوں کو دیکھ کر حیران ہوتے تھے۔ یہ چیزیں وہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔
جب سامان ایک جگہ اکٹھا کیا گیا تو سیدنا خالدؓ نے دیکھا۔
’’آگ لگا دو اس سامان کو۔‘‘ … سیدنا خالدؓ نے حکم دیا … ’’یہ عیش وعشرت کا وہ سامان ہے جس نے اس قوم کو بزدل بنا دیا ہے۔ ان لوگوں کا انجام دیکھ لو۔ ان کے محل اور مکان دیکھ لو۔ خدا کی قسم! خدا جسے تباہ کرنا چاہتا ہے اسے عیش وعشرت میں ڈال دیتا ہے … ہمیں آگے جانا ہے … جلا دو اسے اور سونا ہیرے جواہرات اور رقمیں الگ جمع کر دو۔‘‘
طبری نے خاص طور پر لکھا ہے کہ سیدنا خالدؓ نے اس خیال سے قیمتی ظروف‘ ریشمی کپڑے اور امیر گھروں کا سامان جلا دینے کا حکم دیا تھا کہ مجاہدین جہاد سے منہ موڑ جائیں گے۔ طبری کے علاوہ دوسرے مؤرخوں نے بھی لکھا ہے کہ جو مال غنیمت اس شہر سے ملا اتنا کہیں سے بھی نہیں ملا تھا۔ سیدنا خالدؓ نے دستور کے مطابق اس کے چار حصے فوج میں تقسیم کر دیئے اور پانچواں حصہ مدینہ میں خلیفۃ المسلمین سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو بھیج دیا۔
محمد حسین ہیکل نے مختلف مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ جو مدینہ کو بھیجا گیا اس کا میر کارواں بنی عجل کا ایک شخص جندل تھا۔ فارسیوں کے خلاف پہلی تینوں جنگوں کے جنگی قیدیوں کو اسی قافلے کے ساتھ مدینہ بھیجا گیا۔ خلیفۃ المسلمین سیدنا ابوبکرؓ نے ان قیدیوں میں سے ایک خوبصورت لونڈی جندل کو بطور انعام دی۔
طبری نے لکھا ہے کہ خلیفۃ المسلمین نے مدینہ کے مسلمانوں کو مسجد میں بلایا اور انہیں خالدؓ کی فتوحات کی تفصیلات سنائیں۔ انہوں نے کہا … ’’اے قریش! تمہارا شیر ایک اور شیر پر جھپٹ پڑا اور اسے مار گرایا ہے۔ اب عورتیں خالدؓ جیسا بیٹا پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔
…………bnb…………

’’ولید کے بیٹے!‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے سیدنا خالدؓ سے کہا … ’’آگے فارس کی شہنشاہی کا ایک اور بڑا شہر حیرہ ہے۔ اسے تو فارس کا ہیرا سمجھ لیکن اسے لینا آسان نہیں ہو گا۔‘‘
’’ہاں حارثہ کے بیٹے!‘‘ … سیدنا خالدؓ نے کہا … ’’امینشیا کی تمام فوج اور تمام عیسائی جوان حیرہ پہنچ گئے ہیں۔ وہ سب ہمارے مقابلے میں آئیں گے۔ انہیں مقابلے میں آنا چاہیے۔ … مدائن کی کیا خبر ہے؟‘‘
’’آج ہی میرا ایک جاسوس واپس آیا ہے۔‘‘ … مثنیٰ نے کہا … ’’وہ بتاتا ہے کہ مدائن میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ کسریٰ کے محل میں ماتم ہو رہا ہے … اچھی خبر یہ ہے کہ وہاں سے اب فوج کا کوئی دستہ نہیں آئے گا۔‘‘
’’کیا یہ لوگ اب بھی نہیں سمجھے کہ تخت وتاج اورخ زانے طاقت نہیں ہوتے کہ دشمن سے بچا لیں؟‘‘ … سیدنا خالدؓ نے کہا … ’’کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ ان لوگوں کو اللہ کے سچے رسولؐ کا پیغام دیں کہ طاقت اور ثروت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ ہی عبادت کے لائق ہے جس کا کوئی شریک نہیں؟‘‘
’’ہاں ابن ولید!‘‘ … مثنیٰ نے کہا … ’’یہ ہمارا فرض ہے کہ ان تک اللہ کا پیغام پہنچائیں۔‘‘
’’اس کے ساتھ ہی مجھے ہر اس خطرے کو کچلنا ہے جو اسلام کو نقصان پہنچا سکتا ہے‘‘ … سیدنا خالدؓ نے کہا … ’’کفر کا سر کچلنا ہے۔‘‘
تاریخ اسلام کا یہ ابتدائی دور بڑا ہی نازک تھا۔ اسی دور میں اسلام کی عسکری روایات کی بنیاد رکھنی تھی۔ امت رسولؐ کے لیے جذبے کی شدت اور اہمیت کا تعین کرنا تھا۔ اس روایت کی بنیاد اس اصول پر رکھنی تھی کہ نفری اور طاقت کی کمی شکست کا باعث نہیں بن سکتی۔ جذبہ اور اسلام کی محبت اس کمی کو پورا کر دیا کرتی ہے۔
سیدنا خالدؓ کو احساس تھا کہ وہ اس خیال سے پیچھے ہٹ آئے کہ لشکر مسلسل لڑ لڑ کر تھک گیا ہے اور نفری بھی کم ہوتی جا رہی ہے اور اپنے مستقر یعنی مدینہ سے بھی دور ہٹتے جا رہے ہیں تو آنے والی نسلوں کے لیے یہی روایت بن جائے گی۔ جہاں رکاوٹ یا کوئی دشواری پیش آگئی‘ سالار اپنی فوج کو واپس لے آئیں گے۔ سیدنا خالدؓ ایسی روایت قائم نہیں کرنا چاہتے تھے۔
سیدنا خالدؓ کو خلیفۃ المسلمین کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس وقت کی خلافت کی پالیسی میں کفار کے ساتھ دوستی یا مذاکرات کا ذرا سا بھی دخل نہیں تھا۔ دشمن کو دشمن ہی سمجھا جاتا تھا۔ یہ نہیں دیکھا جاتا تھا کہ دشمن کتنی دور ہے اور کتنا طاقتور ہے۔ اصول یہ تھا کہ دشمن کے سر پر سوار ہو اور اس کے لیے دہشت بن جاؤ۔
فارس کی شہنشاہی کوئی معمولی طاقت نہیں تھی۔ سیدنا خالدؓ نے اتنی بڑی طاقت کے پیٹ میں جا کر بھی پیچھے ہٹنے کی نہ سوچی۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ لشکر کو کچھ آرام دیتے اور اس کی تنظیم میں اگر کچھ خامیاں رہ گئی تھیں تو وہ دور کر لیتے۔ مثنیٰ بن حارثہ نے انہیں بتایا کہ حیرہ میں مقابلہ بڑا سخت ہو گا تو بھی سیدنا خالدؓ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی نہ سوچی۔ انہوں نے اسی وقت اپنے سالاروں کو بلایا۔
’’خدا کی قسم!‘‘ … سیدنا خالؓ نے سالاروں سے کہا … ’’مجھے یقین ہے کہ تم یہ نہیں سوچ رہے کہ ہم جتنے آگے بڑھتے جا رہے ہیں ہمارے لیے خطرے بڑھتے جا رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں ابن ولید!‘‘ … ایک سالار نے کہا … ’’ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں سوچ رہا۔‘‘
’’اور ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں سوچے گا۔‘‘ … دوسرے سالار نے کہا۔
’’اور مجھے یہ بھی یقین ہے‘‘ … سیدنا خالدؓ نے کہا … ’’کہ تم میں سے کوئی بھی نہیں سوچے گا کہ دشمن کتنا طاقتور ہے۔‘‘
’’نہیں ابن ولید!‘‘ … سالار عاصم بن عمرو نے کہا … ’’ہمیں یہ بتا کہ تو آج یہ بات کیوں پوچھ رہا ہے؟‘‘
’’تم پر اللہ کی رحمت ہو!‘‘ … سیدنا خالدؓ نے کہا … ’’ہماری اگلی منزل بہت دشوار ہے۔ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ہم میں سے کون رہتا ہے اور کون دنیا سے اُٹھ جاتا ہے۔ اپنے دلوں پر نقش کر لو کہ اپنے فرض سے منہ موڑ کر اللہ کے سامنے جاؤ گے تو تمہارا ٹھکانہ بہت برا ہو گا اور تم جانتے ہو وہ ٹھکانہ کیسا ہے؟ روایت جو تم آج قائم کرو گے وہ ایک ورثہ ہو گا جو تم آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ جاؤ گے اور یہ روایت اسلام کی بقا کا یا فنا کا باعث بنے گی۔ ہمیں اسلام کی بقا اور سربلندی کے لیے لڑنا ہے۔ قرآن کا حکم یاد کرو کہ لڑو اس وقت تک جب تک کفر کا فتنہ موجود ہے اور دشمن کو معاف اس وقت کرو جب وہ ہتھیال ڈال کر تمہارے آگے جھک جائے‘ پھر اس سے وہ شرطیں منواؤ کہ اس کا ڈنک مارا جائے اور اس کا دل رسولؐ اللہ کے شیدائیوں کے خوف سے کانپتا رہے۔‘‘
اپنے سالاروں کے جذبے میں نئی روح پھونک کر سیدنا خالدؓ نے انہیں بتایا کہ آگے آتش پرستوں کا بڑا مضبوط فوجی اڈہ حیرہ ہے جہاں کے حاکم ازادبہ نے بہت بڑا لشکر جمع کر رکھا ہے۔ آتش پرست پہلی لڑائیوں میں بے شمار کشتیاں لائے تھے۔ وہ اب مسلمانوں کے قبضے میں تھیں۔ سیدنا خالدؓ نے اپنے لشکر کو کشتیوں میں حیرہ تک لے جانے کا فیصلہ کیا۔ دریائی راستہ آسان تھا اور چھوٹا بھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ریگزاروں میں لڑنے والے دریاؤں کے سینے پر سوار ہوئے۔
کشتیوں میں سوار لشکر کی حفاظت کے لیے سیدنا خالدؓ نے یہ انتظام کیا کہ دریا کے دونوں کناروں پر سو ڈیڑھ سو گھوڑ سواروں کو رکھا جنہیں کشتیوں کے ساتھ ساتھ جانا تھا۔ فتح ونصرت سے سرشار لشکر جذبے اور اسلام کی محبت کے جوش سے دریائے فرات کے سینے پر چلا جا رہا تھا۔ جنگی ترانے کی ایک گونج تھی جو فرات کے پانی پر وجد طاری کر رہی تھی۔ پھر یہ جنگی ترانہ کلمہ طیبہ میں بدل گیا۔ اٹھارہ ہزار مسلمانوں کی آواز ایک‘ عزم ایک‘ جذبہ ایک تھا۔ ان کے دلوں میں ایک اللہ اور ایک رسولؐ کا عشق تھا۔
دشمن سویا ہوا نہیں تھا۔ حیرہ کا حاکم ازادبہ راتوں کو بھی نہیں سوتا تھا۔ حیرہ میں یہ خبر نہیں پہنچنے دی گئی تھی کہ شہنشاہ فارس اردشیر مر چکا ہے۔ وہ ابھی تک ہر بات اور ہر حکم میں ارد شیر کا نام لیتا تھا۔
اس روز وہ حیرہ کی شہر پناہ کا معائنہ کر رہا تھا۔ اس نے شہر میں بے پناہ لشکر جمع کر لیا تھا۔ وہ جس دستے کے سامنے جاتا وہاں چلا چلا کر کہتا۔ … ’’زرتشت کی رحمت ہو تم پر! وہ بزدل تھے جو کاظمہ‘ مذار اور الیس میں صحراء کے بدوؤں کے ہاتھوں پٹ گئے تھے۔ ان کے مردہ جسموں کو زرتشت کے شعلے چاٹ رہے ہیں … اے یسوع مسیح کے نام لیواؤ! تم ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر مسلمانوں کے خلاف لڑنے آئے ہو۔ یاد کرو اپنی ان بیٹیوں کو جو لونڈیاں بن کر مدینہ پہنچ گئی ہیں۔ یاد کرو ان جوان بیٹیوں کو جن کے مردہ جسموں کا گوشت بھیڑیئے‘ گیدڑ اور گوشت خور پرندے کھا گئے ہیں اور انہیں بھی جو قیدی ہو کر مدینہ والوں کی غلامی میں جا پڑے ہیں۔ … مسلمان فتح کے نشے میں بے خطر بڑے آ رہے ہیں۔ ان کے لیے ایسا خطرہ بن جاؤ کہ زندہ واپس نہ جا سکیں۔ شہنشاہِ فارس ارد شیر تمہیں خود مبارک دینے آئیں گآ‘ تمہیں انعام واکرام سے مالا مال کر دیں گے۔‘‘
شہر پناہ اور برجوں کے معائنے کے دوران اس نے دیکھا‘ دور ایک گھوڑ سوار گھوڑے کو انتہائی رفتار سے دوڑاتا آ رہا تھا۔
’’دروازہ کھول دو‘‘ … ازادبہ چلایا … ’’یہ سوار امینشیا کی طرف سے آ رہا ہے۔‘‘
کئی آوازیں سنائی دیں … ’’دروازہ کھول دو۔ سوار کو آنے دو۔‘‘
ازادبہ بڑی تیزی سے دیوار سے اتر گیا۔ سوار کے پہنچنے تک دروازہ کھول دیا گیا تھا۔ سوار رفتار کم کیے بغیر اندر آگیا۔ ازادبہ گھوڑے پر سوار تھا۔ اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آنے والے سوار کی طرف گیا۔ دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو رک گئے۔
’’کوئی خبر؟‘‘ … ازادبہ نے پوچھا۔
’’وہ آ رہے ہیں‘‘ … سوار نے ہانپتی ہوئی آواز میں کہا … ’’سارا لشکر کشتیوں میں آ رہا ہے۔‘‘
وہ سیدنا خالدؓ کے لشکر کی پیشقدمی کی خبر دے رہا تھا۔
’’کشتیوں میں؟‘‘ … ازادبہ نے پوچھا … ’’بند سے کتنی دور ہیں؟‘‘
’’بہت دور‘‘ … سوار نے جواب دیا … ’’ابھی بہت دور ہیں۔‘‘
ازادبہ کا بیٹا سالار تھا۔ ازادبہ نے اپنے بیٹے کو بلایا۔ (کسی بھی تاریخ میں اس کے بیٹے کا نام نہیں ملتا۔ اسے ’’ازادبہ کا بیٹا‘‘ ہی لکھا گیا ہے۔)
’’آج تیری آزمائش کا وقت ہے میرے بیٹے!‘‘ … ازادبہ نے کہا … ’’ایک سوار دستہ ساتھ لے اور طوفان سے زیادہ تیز رفتار سے بند تک پہنچ اور فرات کا پانی اس طرح پی لے کہ فرات سوکھ جائے۔ مسلمانوں کا لشکر کشتیوں میں آ رہا ہے۔ دیکھ‘ تو پہلے پہنچتا ہے یا مسلمان!‘‘
اس کا بیٹا ایک سوار دستہ لے کر بہت تیز رفتار سے شہر سے نکل گیا۔
…………bnb…………

سیدنا خالدؓ کا لشکر بڑی اچھی رفتار پر آ رہا تھا۔ چونکہ وہ بارش کا موسم نہیں تھا اس لیے دریا میں پانی کم تھا لیکن کشتیوں کے لیے کافی تھا۔ اچانک پانی کم ہونے لگا‘ پھر پانی ختم ہو گیا اور تمام کشتیاں کیچڑ میں پھنس کر رہ گئیں۔ مدینہ کے مجاہدین پر خوف طاری ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دریا کا خشک ہو جانا خوف والی بات تھی۔ خود سیدنا خالدؓ پریشان ہو گئے۔
’’مت گھبرا ولید کے بیٹے!‘‘ … کنارے سے مثنیٰ بن حارثہ کی للکار سنائی دی …  ’’اور مت ڈرو اہل مدینہ! آگے دریا پر ایک بند ہے۔ ہمارے دشمن نے بند پر پانی روک لیا ہے۔‘‘
بڑی تیزی سے سوار اپنے گھوڑے کشتیوں سے نکال لائے اور یہ دستہ سرپٹ دوڑتا بند تک پہنچا۔ ازادبہ کا بیٹا ابھی اپنے سواروں کے ساتھ وہیں تھا۔ مسلمان سواروں نے ان پر ہلہ بول دیا اور ان میں سے کسی ایک کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ مسلمانوں نے بند کھول د یا۔ کشتیوں تک پانی پہنچا تو کشتیاں اٹھنے لگیں۔ ملاحوں نے چپو تھام لیے اور کشتیاں تیرنے لگیں۔
ازادبہ اچھی خبر کے انتظار میں دیوار پر کھڑا بے تاب ہو رہا تھا۔ اس کا ایک سالار اس کے پاس آن کھڑا ہوا۔
’’بہت بری خبر آئی ہے۔‘‘ …  سالار نے کہا۔
’’کہاں سے؟‘‘ … سالار نے کہا۔
’’کہاں سے؟‘‘ …  ازادبہ نے گھبرا کر پوچھا …  ’’کیا میرا بیٹا … ‘‘
’’مدائن سے!‘‘ …  سالار نے کہا …  ’’شہنشاہ ارد شیر مر گئے ہیں لیکن یہ خبر خفیہ رکھنی ہے۔‘‘
اتنے میں ایک سوار ان کے پاس آیا اور گھوڑے سے اتر کر آداب بجالایا۔
’’اگر یہ میرا فرض نہ ہوتا تو میں ایسی خبر زبان پر نہ لاتا۔‘‘ …  سوار نے کہا۔
’’میں سن چکا ہوں۔‘‘ …  ازادبہ نے کہا … ’’کسریٰ اردشیر … ‘‘
’’نہیں‘‘ …  سوار نے کہا … ’’آپ کا بیٹا بند پر مارا گیا ہے۔ اس کے تمام سواروں کو مسلمانوں نے کاٹ ڈالا ہے۔‘‘
’’میرا بیٹا!‘‘ …  ازادبہ کے منہ سے نکلا اور اس کا رنگ لاش کی طرح سفید ہو گیا۔

کتاب ’’شمشیر بے نیام حصہ اول کا اختتام
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages