Featured Post

Khalid001

09 August 2019

Khalid075


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  75
حیرہ پر مسلمانوں کے قبضےکی تکمیل ہو گئی۔ معاہدے کے بعد تمام قلعہ داروں اور امراء نے خالدؓ کی اطاعت قبول کر لی۔ یہ دراصل خلیفۃ المسلمین حضرت ابو بکرؓ کی اطاعت تھی۔ خالدؓ نمائندگی کر رہے تھے۔ اس کے بعد خالدؓ نے اپنی تمام تر فوج کے ساتھ آٹھ رکعت نفل شکرانے کے پڑھے۔ فارغ ہونے کے بعد خالدؓ نے اپنی فوج سے مختصر سا خطاب کیا:
’’مُوتہ کی لڑائی میں میرے ہاتھ میں نَو تلواریں ٹوٹی تھیں لیکن آتش پرستوں نے جس جوانمردی سے مقابلہ کیا ہے اسے میں ہمیشہ یادرکھوں گا۔ انہوں نے الیّس میں ہم سے جو لڑائی لڑی ہے ایسی لڑائی میں نے پہلے نہیں دیکھی … اسلام کے پاسبانو! فتح و شکست اﷲکے اختیارمیں ہے۔ اس کے نام کو اس کی نعمتوں کو اور اس کے رسولﷺ کو ہر وقت دل میں رکھو۔ حیرہ بہت بڑی نعمت ہے جو اﷲتعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہے۔ یہ بھی دل میں رکھو کہ ہمارا جہاد ابھی ختم نہیں ہوا۔ جب تک کفر کا فتنہ باقی ہے جہاد ختم نہیں ہوگا۔‘‘
خالدؓ نے شہیدوں کیلئے دعائے مغفرت کی، پھرزخمیوں کی عیادت کو گئے۔ شہیدوں کی نمازِ جنازہ بڑا ہی رقت آمیز منظر تھا۔ وطن سے اتنی دور جاکر شہید ہونے والوں کیلئے ہر آنکھ میں آنسو تھے۔ شہیدوں کو قبروں میں اتارا گیا تو یہ قبریں تاریخ کے سنگ ہائے میل بن گئیں۔
خالدؓ جب حیرہ کا نظم و نسق سنبھالنے کیلئے اس محل نما مکان میں گئے جو ازادبہ کا رہائشی مکان تھا تو بے شمار رؤسا ء اور امراء تحفے لئے کھڑے تھے جو انہوں نے خالدؓکو پیش کیے۔ان میں بیش قیمت اشیاء تھیں ہیرے اور جواہرات بھی تھے۔مدینہ کے مجاہدین حیران ہو رہے تھے کہ کوئی قوم اتنی دولت مند بھی ہو سکتی ہے۔
خالدؓنے یہ تحفے قبول تو کر لیے لیکن بوریا نشینوں کی قوم کے اس سالارِ اعلیٰ نے اپنے لیے ایک بھی تحفہ نہ رکھا۔ تمام تحفے مالِ غنیمت کے ساتھ امیر المومنینؓ کی خدمت میں پیش کرنے کیلئے مدینہ بھیج دیئے۔ مالِ غنیمت زیادہ نہیں تھا کیونکہ حیرہ والوں نے جزیہ تسلیم کرلیا اور اطاعت بھی قبول کرلی تھی۔
…………bnb…………

ایک دلچسپ او رعجیب واقعہ ہو گیا۔کچھ برس پہلے کی بات ہے۔رسولِ کریمﷺ صحابہ کرامؓ میں بیٹھے تھے اور اِدھر اُدھر کی باتیں ہو رہی تھیں۔باتوں کا رخ کفار کے علاقوں کی طرف مڑ گیااور ذکر فارس کی شہنشاہی کا چل نکلا۔ حیرہ اس شہنشاہی کا بڑا ہی اہم مقام تھا۔ کسی صحابیؓ نے کہا کہ حیرہ ہاتھ آجائے تو اسے فوجی اڈا بنا کر کسریٰ پر کاری ضربیں لگائی جا سکتی ہیں۔
دو مؤرخوں بلاذری اور طبری نے لکھا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا کہ تھوڑے عرصے بعد حیرہ ہمارے قبضے میں ہوگا۔ یہ دونوں مؤرخ لکھتے ہیں کہ اس محفل میں حیرہ کی اہمیت اور اس علاقے کی خوبصورتی کی باتیں ہونے لگیں۔ عبدالمسیح مشہور آدمی تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی جس کا نام کرامہ تھا۔ اس کے حسن کے چرچے تاجروں وغیرہ کی زبانی دور دور تک پہنچے ہوئے تھے۔ اس کے اپنے ملک میں اس کا حسن و جمال ضرب المثل بن گیا تھا۔
بلا ذری اور طبری نے لکھاہے کہ رسولِ کریمﷺ کی اس محفل میں سیدھا سادہ اور عام سا ایک آدمی شویل بھی موجود تھا۔
’’یا رسول اﷲ!‘‘ شویل نے عرض کی۔ ’’اگر حیرہ فتح ہوگیا تو عبدالمسیح کی بیٹی کرامہ مجھے دے دی جائے۔‘‘
رسولِ کریم ﷺ مسکرائے اور ازراہِ مزاح فرمایا: ’’حیرہ فتح ہو گیا تو کرامہ بنتِ عبدالمسیح تیری ہوگی۔‘‘
ان مؤرخوں نے یہ نہیں لکھا کہ حیرہ کی فتح سے کتنا عرصہ پہلے یہ بات ہوئی تھی۔اب حیرہ فتح ہوگیا۔ خالدؓ کی فوج کا ایک ادھیڑ عمر سپاہی اس وقت ان کے سامنے جا کھڑا ہوا جب کچھ شرائط عبدالمسیح اور خالدؓ کے درمیان طے ہو رہی تھیں۔
’’کیا نام ہے تیرا؟‘‘ … خالدؓ نے اپنے اس سپاہی سے پوچھا۔ … ’’اورمیرےپاس کیوں آئے ہو؟‘‘
’’سالارِاعلیٰ!‘‘ … سپاہی نے کہا۔ … ’’میرا نام شویل ہے۔ خدا کی قسم!رسول اﷲﷺنے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ عبدالمسیح کی بیٹی کرامہ تجھے دے دی جائے گی۔ آج حیرہ فتح ہوگیا ہے۔ شہزادی کرامہ مجھے دی جائے۔‘‘
’’کیا تو کوئی گواہ پیش کر سکتا ہے؟‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’خدا کی قسم! میں رسول اﷲ ﷺ کے وعدے کی خلاف ورزی کی جرأت نہیں کر سکتا لیکن گواہ نہ ہوئے تو میں تیری بات کو سچ نہیں مان سکتا۔‘‘
شویل کو دو گواہ مل گئے۔ وہ حیرہ کی فاتح فوج میں موجود تھے۔انہوں نے تصدیق کی کہ رسول اﷲ ﷺنے ان کی موجودگی میں شویل سے یہ وعدہ فرمایا تھا۔
’’رسول اﷲﷺ کا وعدہ میرے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔‘‘ … خالدؓ نے عبدالمسیح سے کہا۔ … ’’تجھے اپنی بیٹی اس شخص کے حوالے کرنی ہو گی۔‘‘
’’یہ بھی شرائط میں لکھ لو۔‘‘ … عبدالمسیح نے کہا۔ … ’’کہ میری بیٹی کرامہ اس سپاہی کو دے دی جائے۔‘‘
یہ حکم عبدالمسیح کے گھر پہنچا کہ کرامہ مسلمانو ں کے سالارِ اعلیٰ کے پاس آجائے۔ کرامہ نے پوچھاکہ اسے کیوں بلایا جا رہا ہے؟ اسے بتایاگیا کہ ایک مسلمان سپاہی نے اس کی خواہش کی ہے اور اسے اس سپاہی کے حوالے کیا جائے گا۔
’’ایسا نہ ہونے دو۔‘‘ … گھر میں جو ایک محل کی مانند تھا ،دوسری عورتوں کا شور اٹھا۔ … ’’ایسا نہ ہونے دو۔شاہی خاندان کی ایک عورت کو حوالے نہ ہونے دو جو عرب کا وحشی بدو ہے۔‘‘
’’مجھے اس کے پاس لے چلو۔‘‘ … کرامہ نے کہا۔ … ’’اس مسلمان سپاہی نے میری جوانی کے حسن کی باتیں سنی ہوں گی۔وہ کوئی جاہل اور احمق لگتا ہے۔ اس نے کسی سے یہ نہیں پوچھا ہوگا کہ یہ کب کی بات ہے کہ جب میں جوان ہوا کرتی تھی۔‘‘
بلاذری کی تحریر کے مطابق کرامہ کو خالدؓ کے سامنے لے جایا گیا۔ شویل موجود تھا۔ اس نے ایک ایسی بڑھیا دیکھی جس کے چہرے پر جھریاں تھیں اور بال سفید ہو چکے تھے۔ مؤرخ طبری نے کرامہ کی عمر اسّی سال لکھی ہے۔ اس کے باپ عبدالمسیح نے خالدؓ کو اپنی عمر دو سو سال بتائی تھی۔ بعض مؤرخ ان عمروں کو تسلیم نہیں کرتے۔ عبدالمسیح کی عمر ایک سو سال سے ذرا ہی زیادہ تھی اور کرامہ کی عمر ساٹھ ستر سال کے درمیان تھی۔بہرحال کرامہ ضعیف العمر تھی۔
شویل نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر جو خوشی کے آثار تھے وہ اڑ گئے اور وہ مایوس ہو گیا۔اچانک اسے ایک خیال آگیا۔
’’امیرِ لشکر!‘‘ … شویل نے کہا۔ … ’’یہ شرط لکھ لی گئی ہے کہ کرامہ بنتِ عبدالمسیح میری لونڈی ہے۔ اگر یہ مجھ سے آزادی چاہتی ہے تو مجھے رقم ادا کرے۔‘‘
’’کتنی رقم؟‘‘ … کرامہ نے پوچھا۔
’’ایک ہزار درہم!‘‘ … شویل نے کہا۔ … ’’میں اپنی ماں کا بیٹا نہیں ہوں گا کہ ایک درہم بھی بخش دوں۔‘‘
کرامہ کے بوڑھے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے اس خادمہ کو جو اس کے ساتھ آئی تھی ،اشارہ کیا۔خادمہ دوڑی گئی اور ایک ہزار درہم لے آئی۔ کرامہ نے یہ درہم شویل کے حوالے کردیئے اور آزاد ہو گئی۔
شویل کا یہ عالم تھا کہ ایک ہزار درہم دیکھ کر حیران ہو رہا تھا جیسے اس کے ہوش گم ہو گئے ہوں۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو جاکر فاتحانہ لہجے میں بتایا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا تھا کہ اس نے ایک ضعیف العمر عورت کو جوان سمجھ لیا تھا لیکن اس نے اس سے ایک ہزار درہم کما لیے۔
’’صرف ایک ہزار درہم؟‘‘ … اس کے ساتھی نے اسے کہا۔ … ’’تو ساری عمر احمق ہی رہا۔ کرامہ شاہی خاندان کی عورت ہے۔ اس سے تو کئی ہزار درہم لے سکتا تھا۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ … شویل نے مایوس ہو کر کہا۔ … ’’میں تو سمجھتا تھا کہ ایک ہزار درہم سے زیادہ رقم ہوتی ہی نہیں۔‘‘
اس کے ساتھیوں کے ایک زور دار قہقہے نے اسے اور زیادہ مایوس کر دیا۔
خالدؓنے مالِ غنیمت کے ساتھ تمام تحفے مدینہ بھیج دیئے۔ مدینہ سے خالدؓ کیلئے امیر المومنینؓ نے پیغام بھیجاکہ یہ تحفے اگر مالِ غنیمت میں شامل ہیں یا جزیئے میں تو قابلِ قبول ہو سکتے ہیں، اگر نہیں تو جنہوں نے یہ تحفے دیئے ہیں ان سے ان کی قیمت معلوم کرکے جزیئے میں شامل کر لو۔ اگر تم جزیہ وصول کر چکے ہو تو تحفوں کی رقم ان لوگوں کو واپس کردو۔
خالدؓ نے ان سب کو بلا کر انہیں تحفوں کی قیمت ادا کر دی۔
…………bnb…………

حیرہ کی فتح کے بعد چند دنوں میں خالد نے وہاں کا نظم ونسق رواں کر دیا اور حیرہ کے امراء کو ہی انتظامیہ کا ذمہ دار بنا دیا۔
’’میرے بھائیو! … خالد نے اپنے سالاروں سے کہا … ’’میرے پاس وقت نہیں کہ میں یہاں بیٹھا رہوں لیکن نظم ونسق کی بحالی بہت ضروری ہے۔ اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نظم ونسق کو اس بنیاد پر رواں کیا جائے کہ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ وہ سکون اور اطمینان محسوس کریں کہ ان کے جان ومال اور ان کی عزت وآبرو کو تحفظ حاصل ہے۔ خدا کی قسم‘ میں ان لوگوں پر‘ ان عیسائیوں اور ان آتش پرستوں پر ثابت کر دوں گا کہ اسلام وہ مذہب ہے جو ظلم کو بہت بڑا گناہ سمجھتا ہے۔ رعایا کو اپنی اولاد سمجھو۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ میں نے نظم ونسق انہی لوگوں کے سپرد کر دیا ہے؟ رب کعبہ کی قسم! میں ان پر اپنا حکم نہیں ٹھونسوں گا۔‘‘
اپنا حکم نہ ٹھونسنے کے نتائج چند دنوں میں سامنے آکئے۔ اسلام کا بنیادی اصول یہی تھا کہ لوگوں کے دل جیتوں مگر دل جیت کر انہیں دھوکہ نہ دو۔ انہیں ان کے ۔حقوق دو۔ خالد اسلام کے پہلے سالار تھے جنہوں نے مدینہ سے نکل کر کسی دوسری قوم کے علاقے فتح کیے اور انہیں اسلام کے اس بنیادی اصول پر عمل کرنے کا موقع ملا۔ مصر کے محمد ح سین ہیکل نے بہت سے مؤروں کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ خالد نے دشمنوں کے سر اڑانے شروع کیے تو فرات کو لال کر دیا اور ایسے کسی آدمی کو زندہ نہ چھوڑا جس کی طرف سے دین اسلام کو ذرا سا بھی خطرہ تھا۔ خالد ذاتی دشمنی کے قائل نہ تھے۔ متعصب تاریخ دانوں نے خالد کو ظالم سالار کہا ہے لیکن خالد نے جو بھی ع لاقہ فتح کیا وہاں کا انتظام مفتوحہ امراء ورؤسا کے سپرد کر دیا۔ البتہ ان کے نگران یعنی بالائی حکام مسلمان مقرر کیے جاتے تھے۔
حیرہ کو فتح کر کے خالد نے سارے فارس کو فتح نہیں کر لیا تھا بلکہ خالد خطروں میں گھر گئے تھے۔ آتش پرست ان پر چاروں طرف سے حملہ کر سکتے تھے۔ اگر بڑے پیمانے پر حملہ نہ کرتے تو شب خون مار مار کر مسلمانوں کی فوج کو نقصان پہنچا سکتے تھے لیکن آتش پرستوں نے ایسی کوئی کارروائی نہ کی۔ اس کی کئی اور وجوہات تھیں جن میں ایک یہ تھی کہ مفتوحہ ع لاقوں کے لوگ مسلمانوں کے سلوک سے متاثر ہو کر ان کے حامی اور معاون بن جاتے تھے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages