Featured Post

Khalid001

09 August 2019

Khalid074


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  74
قلعوں کے اندر یہ عالم تھا کہ دیواروں سے زخمی تیر اندازوں کو اتار رہے تھے۔ زیادہ کو تیر چہروں‘ آنکھوں اور گردنوں میں لگے تھے۔ ان کی چیخ وپکار سے ان کے ساتھیوں کے حوصلے ٹوٹنے شروع ہو گئے تھے۔ مسلمانوں کی للکار اور ان کے نعرے قلعوں کے اندر بھی سنائی دے رہے تھے۔ ان سے قلعہ بند لوکوں پر خوف طاری ہو رہا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ قلعوں کو بہت بڑے لشکر نے محاصرے میں لے رکھا ہے۔
مؤرخوں کے حوالوں سے محمد حسین ہیکل نے لکھا ہے کہ چاروں قلعوں میں پادری اور دیگر مذہبی پیشوا تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ دیواروں سے اتنے زیادہ زخمی اتارے جا رہے ہیں تو وہ قلعہ داروں کے پاس گئے۔ تاریخ میں صرف ایک قلعے کی اندرونی کیفیت ذرا تفصیل سے ملتی ہے۔ یہ قلعہ قصر ابن بقیلہ تھا جس کا قلعہ دار عبدالمسیح بن عمرو بن بقیلہ تھا۔
عبدالمسیح کے متعلق یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ کوئی معمولی سا قلعہ دار نہ تھا۔ اسے عراق کا شہزادہ بھی کہا گیا ہے۔ عراق پر آتش پرست قابض ہو گئے تھے مگر عبدالمسیح کے باپ دادا نے یہ قلعہ اپنے پاس رکھا تھا۔ شہنشاہ فارس کی طرف سے اسے کوئی اختیار حاصل نہ تھا لیکن وہ خود مختار بنا ہوا تھا۔ اس نے باقی قلعہ داروں کو بھی اپنے زیر اثر رکھا ہوا تھا۔ وہ غیر معمولی طور پر دانشمند تھا اور جرأت میں بھی بے مثال تھا۔ اس کی سب سے بڑی خوبی حاضر دماغی اور حاضر جوابی تھی۔ وہ ضعیف العمر ہو چکا تہا لیکن جذبے اور حوصلے کے لحاظ سے وہ جوان تھا۔
اس نے نوشیرواں عادل کا زمانہ بھی دیکھا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی عمر خاصی زیادہ تھی۔ خوش گفتاری اور ظرافت کی وجہ سے نوشیرواں (کسریٰ ارد شیر کا دادا) عبدالمسیح کو بہت پسند کرتا تھا۔
’’نوشیرواں!‘‘ … اس نے نوشیرواں عادل سے کہا … ’’میں اور میرے کچھ سردار تمہاری اطاعت قبول نہیں کریں گے۔ ہم اپنے قلعوں میں رہیں گے۔ اس سے شاید تمہیں بھی کچھ فائدہ ہو۔‘‘
’’میں تمہیں اور تمہاری پسند کے سرداروں کو چار قلعے دے دیتا ہوں۔‘‘ … نوشیرواں عادل نے کہا تھا … ’’لیکن میرے مرنے کے بعد تمہارے ساتھ فارس میں کیا سلوک ہو گا‘ میں بتا نہیں سکتا۔‘‘
’’تمہارے مرنے کے بعد فارس کی شہنشاہی کا زوال ہو گا۔‘‘ … عبدالمسیح نے کہا تھا۔
’’اتنی اچھی باتیں کرنے والی زبان سے میں ایسی بات سن نہیں سکتا ابن بقیلہ!‘‘ … نوشیرواں نے کہا تھا … ’’کیا تو مجھے بد دعا دے رہا ہے؟ یا فارس کے زوال کا باعث تو خود بنے گا؟‘‘
’’دونوں باتیں نہیں‘‘ … عبدالمسیح نے کہا تھا … ’’تو عادل ہے۔ تیرے بعد عدل بھی مر جائے گا اور پیچھے شہنشاہی رہ جائے گی۔ تیسری یا چوتھی نسل تیرا نام ڈبو دے گی‘ پھر فارس کی سرحدیں سکڑنے لگیں گی اور یہاں کوئی اور قوم آکر حکمران بنے گی۔‘‘
’’ماننے کو جی نہیں چاہتا‘‘ … نوشیرواں عادل نے کہا تھا … ’’فارس ایک طاقت کا نام ہے۔‘‘
’’غور سے سن عادل بادشاہ!‘‘ … عبدالمسیح نے کہا تھا … ’’جس دماغ میں شہنشاہی گھر کر لیتی ہے اس دماغ سے عدل وانصاف نکل جاتا ہے۔ تخت پر بیٹھ کر رعایا کی محبت دل سے نکل جاتی ہے۔ تیرے بعد آنے والے اگر فوج پر بھروسہ کر کے رعایا کا خیال نہیں کریں گے تو وہ اپنے زوال کو تیز کریں گآ۔ ان سے تنگ آئی ہوئی رعایا ان کا ساتھ دے گی جو باہر کے حملہ آور ہوں گآ۔ میری عمر ابھی اتنی زیادہ نہیں کہ تجربے کی بنا پر بات کروں لیکن میں محسوس کر رہا ہوں کہ آنے والا وقت فارس کے لیے اپنے ساتھ کیا لا رہا ہے۔‘‘
اب عبدالمسیح کی عمر اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ کمر جھک گئی تھی۔ کندھے سکڑ گئے تھے۔ رعشہ ایسا کہ اس کا سر ہلتا اور ہاتھ کانپتے تھے۔ نوشیرواں عادل کی دوسری نسل کا شہنشاہ شکست کے صدمے سے مر چکا تھا اور فارس کا زوال شروع ہو چکا تھا۔
…………bnb…………

خالدؓ کے لشکر نے آج عبدالمسیح اور اس کے سرداروں کے قلعوں کو محاصرے میں لے رکھا تھااور اس کی قلعہ بند فوج کا حوصلہ کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ اس میں اتنی طاقت نہیں رہی تھی کہ دیوار پر جا کر دیکھتا کہ محاصرے کی اور مسلمانوں کی کیفیت کیا ہے اور مسلمانوں کی نفری کتنی ہے۔اسے شاید مسلمانوں کی نفری کا اندازہ نہیں تھا۔مسلمان صرف اٹھارہ ہزار تھے اور انہوں نے چار قلعوں کو محاصرے میں لیا ہوا تھا بلکہ بڑھ بڑھ کر حملے کررہے تھے۔عبدالمسیح اپنے محل میں گیا تو دو پادری اس کے انتطار میں کھڑے تھے۔
’’کیا گرجے میں اپنی فتح اور دشمن کی تباہی کی دعائیں ہو رہی ہیں؟‘‘ … عبدالمسیح نے پادریوں سے پوچھا۔
’’ہورہی ہیں۔‘‘ … بڑے پادری نے جواب دیا۔
’’اور تم یہاں کیوں آگئے ہو؟‘‘ … عبدالمسیح نے کہا۔ … ’’جاؤاور گرجے کے گھنٹوں کو خاموش نہ ہونے دو۔‘‘
’’ہم اپنی فوج اور لوگوں کو قتلِ عام سے اور ان کے گھروں کو لٹ جانے سے بچانے آئے ہیں۔‘‘ … بڑے پادری نے کہا۔ ’’کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہمارے کتنے سپاہی زخمی اور ہلاک ہو چکے ہیں؟ کیا آپ دشمن کی للکار اور اس کے نعرے نہیں سن رہے ہیں؟‘‘
’’کیا تم مجھے یہ کہنے آئے ہو کہ میں ہتھیار ڈال دوں؟‘‘
’’آپ کی جگہ کوئی اور قلعہ دار ہوتا تو ہم ایسا مشورہ کبھی نہیں دیتے۔‘‘ … دوسرے پادری نے کہا۔ … ’’لیکن آپ دانشمند اور تجربہ کار ہیں۔ جو آپ سمجھ سکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ حقیقت کو دیکھیں۔ اس سے پہلے کہ مسلمان قلعہ سر کر لیں اور قلعے میں داخل ہوکر قتلِ عام اور لوٹ مار کریں اور ہماری عورتوں کو اپنے ساتھ لے جائیں، آپ قلعہ کچھ شرائط پیش کرکے ان کے حوالے کر دیں۔ یہ بہت بڑی نیکی ہوگی۔‘‘
’’مجھے سوچنے دیں۔‘‘ … عبدالمسیح نے کہا۔
’’سوچنے کا وقت کہاں ہے!‘‘ … پادری نے کہا۔ … ’’اوپر دیکھیں۔ مسلمانوں کے تیر دیواروں کے اوپر سے اندر آرہے ہیں‘‘ … ’’اور وہ دیکھیں۔ زخمیوں کو کندھوں پر اٹھا کر اوپر سے نیچے لا رہے ہیں۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ دیوار پر اور برجوں میں ہمارے تیر اندازوں کی تعداد کس تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے؟ ناحق خون نہ ہونے دیں۔‘‘
قلعے کے باہر مسلمانوں کے ہلّے اور تیروں کی بوچھاڑیں تیز ہو گئی تھیں۔ حالانکہ ان کے زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد بڑھتی جارہی تھی۔ عبدالمسیح نے پادریوں کی موجودگی میں قاصد کو بھیجا کہ وہ قلعے کے دفاع کی صورتِ حال معلوم کرکے فوراً آئے۔
قاصد نے واپس آکر جو صورتِ حال بتائی وہ امید افزا نہیں تھی، دوسرے قلعوں کی کیفیت بھی ایسی ہی تھی جو عیسائیوں کے حق میں نہیں جاتی تھی۔
…………bnb…………

قلعے کا دروازہ کھل گیا۔ ایک ضعیف العمر آدمی گھوڑے پر سوار باہر نکلا۔ اس کے ساتھ دو تین سردار تھے۔ان میں سے ایک سردار نے بلند آواز سے کہا کہ وہ دوستی کا پیغام لے کر باہر نکلے ہیں۔ ان کے پیچھے قلعے کا دروازہ بند ہو گیا۔
’’ہم تمہارے سالار سے ملنا چاہتے ہیں۔‘‘ … عبدالمسیح کے اس سردار نے بلند آوازسے کہا۔
دیوار سے تیر آنے بند ہو گئے تھے۔ مسلمانوں نے بھی تیر اندازی روک لی۔ خالدؓ کو کسی نے بتایا کہ دشمن باہر آگیا ہے۔
’’کون ہیں وہ؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’قلعہ دار عبدالمسیح خود آیا ہے۔‘‘ … خالدؓ کو جواب ملا۔
’’اسے کہو مجھے اس سے ملنے کی کوئی خواہش نہیں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’میں جانتا ہوں وہ ان سب کا سردار ہے۔اسے کہو کہ شام تک باقی تینوں قلعہ داروں نے بھی ہتھیار نہ ڈالے تو ہم انہیں اس حال تک پہنچا دیں گے جس میں وہ ہماری ہرشرط قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ کسی ایک کو بھی زندہ نہیں چھوڑا جائے گا۔‘‘
جب عبدالمسیح کوخالدؓ کایہ پیغام ملا تو وہ جان گیا کہ فتح آخر مسلمانوں کی ہی ہوگی۔ اس نے اسی وقت اپنے سرداروں کو دوسرے قلعوں کی طرف دوڑایا، دوسرے قلعوں کے اندر بھی یہی کیفیت تھی جو عبدالمسیح کے قلعے کے اندر تھی۔ فوجوں کا حوصلہ کمزور پڑ گیا تھا اور لوگوں پر خوف و ہراس طاری تھا۔ ان قلعوں کے سردار ہتھیار ڈالنے کیلئے تیار تھے لیکن کوئی قلعہ دار یہ نہیں چاہتا تھا کہ ہتھیار ڈالنے میں وہ پہل کرے اور یہ تہمت اس پر لگے کہ ہتھیار سب سے پہلے اس نے ڈالے تھے ورنہ کوئی بھی ہتھیار نہ ڈالتا۔ عبدالمسیح کا پیغام ملتے ہی انہوں نے تیر اندازی بند کر دی اور تینوں قلعہ دار باہر آگئے۔ انہیں خالدؓ کے سامنے لے گئے۔ اس وقت خالدؓ ایک گھنے درخت کے نیچے کھڑے تھے۔
’’کیا تم نے ہمیں کمزور سمجھ کر ہمارا مقابلہ کیا تھا؟‘‘ … خالدؓ نے ان قلعہ داروں سے کہا۔ …’’کیا تم بھول گئے تھے کہ تم عربی ہو؟ کیا تمہیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ہم بھی عربی ہیں؟ اگر تم عجمی ہوتے تو بھی تمہیں یہ امید نہیں رکھنی چاہیے تھی کہ تم اس قوم کو شکست دے سکو گے جو عدل و انصاف میں یکتا ہے اور جس کی تلوار کی دھاک بیٹھی ہوئی ہے۔‘‘
’’تو جو کچھ بھی کہنا چاہتا ہے کہہ سکتا ہے۔‘‘ … ضعیف العمر عبدالمسیح نے کہا۔ … ’’تو فاتح ہے۔ہمیں کچھ کہنے کا حق حاصل نہیں کیونکہ ہم نے تیرے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔‘‘
مشہور مؤرخ ابو یوسف نے خالدؓ اور عبدالمسیح کے مکالمے لکھتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ عبدالمسیح اس قدر بوڑھا ہوچکا تھا کہ اس کی بھنویں دودھ کی مانند سفید ہو چکی تھیں اور اتنی نیچے آگئی تھیں کہ ان سے اس کی آنکھیں ڈھک گئی تھیں۔ اسی مؤرخ کے مطابق خالدؓ عبدالمسیح سے متاثر ہوئے۔
’’تمہاری عمر کتنی ہے؟‘‘ … خالدؓ نے عبدالمسیح سے پوچھا۔
’’دوسوسال۔‘‘ … عبدالمسیح نے جواب دیا۔
خالدؓ یہ جواب سن کر بہت حیران ہوئے۔انہوں نے اس بوڑھے قلعہ دار کو اور زیادہ غور سے دیکھا جیسے انہیں یقین نہ آرہا ہو کہ یہ شخص دوسوسال سے زندہ ہے۔ کسی بھی مؤرخ نے عبدالمسیح کی صحیح عمر نہیں لکھی۔ واقعات سے پتا چلتا ہے کہ اس کی عمر ایک سو سال سے کچھ اوپر تھی۔
’’تونے بڑی لمبی عمر پائی ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’یہ بتا کہ اتنی لمبی زندگی میں تم نے سب سے زیادہ عجیب چیز کیا دیکھی ہے؟‘‘
’نوشیرواں کا عدل و انصاف۔‘‘ … عبدالمسیح نے جواب دیا۔ … ’’اس دور میں حکومت اس کی ہوتی ہے جس کے بازو میں طاقت اور ہاتھ میں تلوار ہوتی ہے ،لیکن نوشیرواں نے عدل و انصاف کے ذریعے لوگوں کے دلوں پر فتح پائی۔ تم کہتے ہو کہ مسلمان عدل و انصاف میں یکتا ہیں … نہیں۔ میں نوشیرواں کو عادل مانتا ہوں۔‘‘
’’تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ … خالدؓ نے عبدالمسیح سے پوچھا۔ … ’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘
’’ایک گاؤں ہے۔‘‘ … عبدالمسیح نے جواب دیا۔ … ’’جہاں تک کوئی عورت بھی سفر کرے تو اس کیلئے ایک روٹی کا ایک ٹکڑہ بھی کافی ہوتا ہے۔‘‘
’’کیا تم احمق نہیں ہو؟‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’میں پوچھ کیا رہا ہو ں اور تم جواب کیا دے رہے ہو؟‘‘ … ’’میں نے پوچھا تھا کہاں سے آئے ہو؟‘‘
’’اپنے با پ کی ریڑھ کی ہڈی سے۔‘‘ … عبدالمسیح نے جواب دیا۔
’’تم قلعہ دار بننے کے قابل کب ہوئے تھے؟‘‘ … خالدؓ نے جھنجھلا کر کہا۔ … ’’میں نے پوچھا ہے تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘
’’اپنی ماں کے رحم سے۔‘‘ … عبدالمسیح نے جواب دیا۔
خالدؓ نے جب دیکھا کہ اس بوڑھے کا بولنے کا سوچنے کا اور جواب دینے کا انداز مضحکہ خیز سا ہے تو انہوں نے تفریح طبع کے لیے اس سے ویسے ہی سوال کرنے شروع کر دیئے۔ یہ سوال و جواب تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھے ہیں:
’’تم کہاں جاؤ گے؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’آگے کو۔‘‘ … عبدالمسیح نے جواب دیا۔
’’تمہارے آگے کیا ہے؟‘‘
’’آخرت۔‘‘ … عبدالمسیح نے جواب دیا۔
’’تم جانتے ہو کہاں کھڑے ہو؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’زمین پر۔‘‘ … عبدالمسیح نے جواب دیا۔
خالدؓ اس کی بے رخی اور لا پرواہی دیکھ کر اسے یہ احساس دلانا چاہتے تھے کہ وہ فاتح سالارِاعلیٰ کے سامنے کھڑا ہے۔خالدؓ نے معلوم نہیں کیا سوچ کر اس سے پوچھا۔ … ’’تم کس چیز کے اندر ہو؟‘‘
’’اپنے کپڑوں کے اندر۔‘‘ … عبدالمسیح نے کہا۔
اب خالدؓ کو غصہ آنے لگا۔ انہوں نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ … ’’دنیا کم عقلوں کو تباہ کرتی ہے۔ لیکن دانالوگ دنیا کو تباہ کرتے ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ تم کم عقل ہو یا دانا۔ مجھے صحیح جواب تمہارے لوگ ہی دے سکتے ہیں۔‘‘
’’اے فاتح سالار!‘‘ … عبدالمسیح نے کہا۔ … ’’چیونٹی بہتر جانتی ہے کہ اس کے بل کے اندر کیا کچھ رکھا ہے۔ اونٹ نہیں بتا سکتا۔‘‘
خالدؓ نے چونک کر عبدالمسیح کی طرف دیکھا۔ ان کا غصہ ختم ہو گیا۔ انہوں نے محسوس کر لیا کہ یہ شخص احمق یا کم عقل نہیں۔خالدؓ نے اسے اپنے برابر میں بٹھا لیا۔اب خالدؓ کے انداز میں احترام تھا۔
’’اے بزرگ!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کوئی ایسی بات بتا جو تو ہمیشہ یاد رکھناچاہتا ہے۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ عبدالمسیح گہری سوچ میں کھو گیا۔ اس کے چہرے پر اداسی آگئی۔ اس نے قلعے کی طرف دیکھا۔
’’میں اس وقت کو یاد کیا کرتا ہوں۔‘‘ … عبدالمسیح نے کہا۔ … ’’جب ان قلعوں کے عقب میں بہتے ہوئے فرات میں چین کے بحری جہاز بادبان پھیلائے آیا کرتے تھے، پھر مجھے جووقت یاد ہے وہ نوشیرواں کا عہد حکومت ہے۔ رعایا خوشحال اور مطمئن تھی۔ کوئی جھونپڑی میں رہتا تھا یا محل میں، نوشیرواں کا انصاف سب کیلئے ایک تھا۔‘‘
’’محترم بزرگ!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’خدا کی قسم!تو مسلمانوں کے عدل و انصاف کو بھی یاد رکھے گا … اگر تو اپنے لوگوں کے ساتھ اسلام قبول کرلے تو تیری اور تیرے لوگوں کی حفاظت ہمارے ذمے ہوگی۔ تم سب کو وہی حقوق ملیں گے جو دوسرے مسلمانوں کو ملتے ہیں۔ اگر اسلام قبول کرنے کیلئے تو اپنے آپ کوآمادہ نہیں کرسکتا تو تجھے اور ان تما م قلعہ داروں کو وہ جزیہ ادا کرناہوگا جو میں مقررکروں گا۔ اگرتجھے یہ بھی قبول نہیں تو پھر تم نے دیکھ ہی لیا ہے کہ مسلمان قلعوں کو کس طرح سرکرتے ہیں اور ان کی تلوار کی کاٹ کیسی ہے۔‘‘
’’ہم سے کچھ اور مانگ ہم دیں گے۔‘‘ … عبدالمسیح نے کہا۔ … ’’اپنا مذہب نہیں چھوڑیں گے، بتا جزیہ کتنا ہوگا۔‘‘
’’تجھ جیسے داناسے مجھے اس جواب کی توقع نہیں تھی۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کفر نے تجھے شکست تک پہنچایا ہے۔ اس عربی کو میں کم عقل سمجھتا ہوں جو عربی راستے سے ہٹ کرعجمی راستہ اختیار کرلے۔‘‘
خالدؓ کے ان الفاظ نے نہ عبدالمسیح کو متاثر کیا نہ دوسرے کسی قلعہ دار یاسردار کو۔وہ اپنے انکار پر قائم رہے جب خالدؓ نے انہیں جزیہ کی رقم بتائی تو انہوں نے اسے فوراً قبول کر لیا۔ یہ رقم ایک لاکھ نوے ہزار درہم تھی۔جو عہد نامہ تحریر کیا گیا اس کے الفاظ یہ تھے:
بسم اﷲالرحمٰن الرحیم
’’یہ عہد نامہ خالد بن ولیدنے حیرہ کے سرداروں عدی بن عدی، عمرو بن عدی، عمرو بن عبدالمسیح، ایاس بن قبصیہ الطانی اور حیری بن اکال سے کیا ہے۔ اس عہد نامے کو حیرہ کے لوگوں نے قبول کر لیا ہے اور اپنے سرداروں کو اس کی تکمیل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ اس عہد نامے کے مطابق اہلِ حیرہ خلافتِ مدینہ کو ایک لاکھ نوے ہزار درہم سالانہ ادا کیا کریں گے۔ یہ جزیہ حیرہ کے پادریوں اور راہبوں سے بھی وصول کیا جائے گا۔ صرف اپاہجوں، نادار افراد اور تارک الدنیا راہبوں کویہ جزیہ معاف ہوگا۔
اگر یہ جزیہ باقاعدگی سے ادا کیا جاتا رہا تو اہلِ حیرہ کے تحفظ کے ذمہ دار مسلمان ہوں گے۔ اگر مسلمانوں نے اس ذمہ داری میں کوتاہی کی تو جزیہ نہیں لیا جائے گااور اگر اہلِ حیرہ نے اس عہد نامے کی خلا ف ورزی کی تو مسلمان اپنی ذمہ داری سے بری سمجھے جائیں گے۔ یہ معاہدہ ربیع الاول ۱۲ ہجری میں تحریر ہوا۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages