Featured Post

Khalid001

15 September 2019

Khalid089


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  79
عین التمر انبار کے جنوب میں فرات کے مشرقی کنارے سے کئی میل دور ہٹ کر انبار کی طرح ایک بڑا تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا۔آج صرف ایک چشمہ اس کی نشانی رہ گئی ہے۔ اس زمانے میں اس شہر کا تجارتی رابطہ دنیا کے چند ایک دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی تھا۔ قلعہ مضبوط اور شاندار تھا۔ وہاں کا حاکم اور قلعہ دار ایک فارسی سالار مہراں بن بہرام چوبین تھا۔
مہراں دیکھ رہا تھا کہ مسلمان فارس کی فوج کو ہر میدان میں شکست دیتے آ رہے ہیں اور جو قلعہ ان کے راستے میں آتا ہے وہ ریت کا گھروندا ثابت ہوتا ہے۔اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ مسلمانوں کو شکست دے کر فارس کی تاریخ میں نام پیدا کرے گا۔ اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ فارس کی فوج مسلمانوں کو روکنے میں نہ صرف ناکام رہی ہے بلکہ سپاہیوں نے اپنے اوپر مسلمانوں کی دہشت طاری کرلی ہے۔اس خطرے کو ختم کرنے اور اپنی نفری بڑھانے کیلئے اس نے عیسائی اور دیگر عقیدوں کے قبیلوں کو عین التمر میں اکٹھا کرلیاتھا۔
ان میں بنی تغلب ،نمر اور ایاد کے قبیلے خاص طور پر قابلِ ذکر تھے ۔یہ سب عرب کے بدو تھے۔ان کے سردار عقہ بن ابی عقہ اور ہذیل تھے۔یہ دونوں اس وقت کے مانے ہوئے جنگجو تھے،یہ قبیلے کسریٰ کی رعایا تھے۔ایک تو وہ خود اپنے آقاؤں کو خوش کرنا چاہتے تھے ،دوسرے یہ کہ مہراں بن بہرام نے انہیں بہت زیادہ مراعات اور انعامات دینے کا وعدہ کیا تھا اور فارس سے وفاداری کی تیسری وجہ یہ تھی کہ ان قبیلوں کے سرداروں اور دیگر بڑوں کو احساس تھا کہ مسلمان صرف ملک فتح کرنے نہیں آئے بلکہ وہ ان کے عقیدوں پر حملہ کرنے آئے ہیں اور ان پر اپنا عقیدہ مسلط کریں گے۔
اس رات عین التمر میں بہت بڑی ضیافت دی گئی، یہ جشن کا سماں تھا، ایران کی بڑی حسین ناچنے اور گانے والیاں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ یہ ضیافت ان بدوی قبیلوں کے سرداروں اور سرکردہ افراد کے اعزاز میں دی گئی تھی۔ شراب پانی کی طرح بہہ رہی تھی۔ ان بدوؤں نے ایسی ضیافت اور ایسی عیاشی کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھی۔ بڑی خوبصورت اور جوان عورتیں انہیں شراب پلا رہی تھیں اور ان کے ساتھ فحش حرکتیں بھی کر رہی تھیں۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس کیفیت میں جب ان پر شراب اور عورت کا نشہ طاری تھا، بدوی قبیلوں کے ایک سردار عقہ بن ابی عقہ نے مہراں بن بہرام سے کہا کہ وہ اپنی فوج کو پیچھے رکھے اور بدوی قبیلے آگے جا کر مسلمانوں کو عین التمر سے دور جا کر روکیں گے۔
’’اگر تم ایسا ہی بہتر سمجھتے ہو تو میں اعتراض نہیں کروں گا۔‘‘ … مہراں بن بہرام نے کہا۔ … ’’لیکن مجھے ڈر ہے کہ تمہارے قبیلے ہماری فوج کے بغیر نہیں لڑ سکیں گے۔‘‘
’’ہم عربی ہیں۔‘‘ … عقہ نے کہا۔ … ’’عربوں سے لڑنا صرف ہم جانتے ہیں۔ عرب کے ان مسلمانوں سے ہمیں لڑنے دو۔فارسیوں نے ان کے مقابلے میں آکر دیکھ لیا ہے۔‘‘
مشہور مؤرخ طبری نے مہراں اور عقہ کی یہ گفتگو ان ہی کے الفاظ میں اپنی تاریخ میں شامل کی ہے۔
’’میں تسلیم کرتا ہوں۔‘‘ … مہراں بن بہرام نے کہا۔ … ’’تمہاری بہادری کو میں تسلیم کرتا ہوں عقہ!جس طرح ہم عجمیوں کے خلاف لڑنے کے ماہر ہیں اسی طرح تم عربوں کے خلاف لڑنے میں مہارت رکھتے ہو۔تم ان عربی مسلمانوں کو کاٹ پھینکنے کیلئے آگے چلے جاؤ۔میری فوج تمہارے قریب ہی کہیں موجود ہوگی۔جوں ہی ضرورت پڑی ہم تمہاری مدد کو پہنچ جائیں گے۔‘‘
رات گزر گئی۔صبح فارس کی فوج کے دو سالار مہراں بن بہرام کے پاس گئے۔
’’رات کو ہم نے آپ کی اور عقہ کی بات چیت میں دخل دینا مناسب نہ سمجھا۔‘‘ … ایک سالار نے کہا۔ … ’’ہم نے بولنے کی ضرورت اس لئے بھی نہ سمجھی کہ رات کی یہ بات چیت نشے کی حالت میں ہو رہی تھی۔‘‘
’’میں پوری طرح ہوش میں تھا۔‘‘ … مہراں نے کہا۔ … ’’کہو،کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’آپ نے جو انبدوی قبیلوں کو اہمیت دی ہے یہ ہمارے لیے اچھی نہیں۔‘‘ … سالار نے کہا۔
’’کیوں اچھی نہیں؟‘‘
’’اس سے ان قبیلوں کو یہ تاثر ملا ہے کہ ہم مسلمانوں سے ڈرتے ہیں۔‘‘ … سالار نے جواب دیا۔ … ’’یا یہ کہ ہم کمزور ہیں۔یہ لوگ اتنی اہمیت کے قابل نہیں۔‘‘
’’اگر بدوی قبیلوں نے مسلمانوں کو شکست دے دی۔‘‘ … دوسرے سالار نے کہا۔ … ’’تو کہا جائے گا کہ یہ فتح ان قبیلوں کی ہے اور اگر یہ نہ ہوتے تو ہم ایک اور شکست سے دوچار ہوتے۔‘‘
’’میں نے انہیں جو اہمیت دی ہے یہ آخر تمہیں ملے گی۔‘‘ … مہراں نے کہا۔ … ’’کیا تم تسلیم نہیں کرتے کہ ہم پر حملہ کرنے وہ شخص آرہا ہے جس نے ہمارے نامور سالاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے،اور اُس (خالدؓ) نے فارس کی شہنشاہی کی بنیادیں ہلاڈالی ہیں؟میں اس اعتراف سے نہیں شرماؤں گا کہ تم خالد کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔میں نے کچھ سوچ کر ان بدوی قبیلوں کو آگے جانے کی اجازت دی ہے۔ اگر انہوں نے مسلمانوں کو شکست دے دی تو یہ تمہاری فتح ہوگی۔یہ بدوی قبیلے ہماری رعایا ہیں،اگر یہ مسلمانوں کو شکست نہ دے سکے اور پسپا ہو گئے تو ہم مسلمانوں پر اس حالت میں حملہ کریں گے کہ وہ تھک کر چور ہو چکے ہوں گے اور ہماری فوج تازہ دم ہوگی۔‘‘
دونوں سالاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ان کے چہروں پر رونق آگئی تھی۔اپنے حاکم کی یہ چال انہیں بہت پسند آئی تھی۔
خالدؓ مجاہدین کے لشکر کو لے کر عین التمر کی طرف جا رہے تھے۔انہوں نے دریائے فرات عبور کیا اور بڑی تیزرفتار سے دریا کے کنارے پیشقدمی جاری رکھی۔انہوں نے دیکھ بھال کیلئے جوآدمی آگے بھیج رکھے تھے ،وہ اپنی اطلاعیں قاصدوں کے ذریعے بھیج رہے تھے۔
انبار میں خالدؓ اپنے ایک نائب سالار زبرقان بن بدر کو چھوڑ آئے تھے۔
عین التمر دس میل دور رہ گیا تھا ۔جب جاسوس اور دیکھ بھال کرنے والے دوسرے آدمی پیچھے آگئے۔انہوں نے خالدؓ کو اطلاع دی کہ ذرا ہی آگے ایک بہت بڑا لشکر پڑاؤڈالے ہوئے ہے اور یہ لشکر فارس کانہیں بلکہ بدوی قبیلوں کا ہے۔اس لشکر کا سالارِ اعلیٰ عقہ بن ابی عقہ اور اس کا نائب ہذیل ہے۔
خالدؓ نے اپنے لشکر کو روک لیااور خود آگے دیکھنے گئے۔انہوں نے چھپ کر دیکھا۔انہیں کسریٰ کی فوج کہیں بھی نظر نہیں آئی۔ یہ لشکر بدوی قبیلوں کا تھا ۔خالدؓ کا لشکر ابھی کوچ کی ترتیب میں تھا۔جو دراصل ترتیب نہیں تھی ۔منزل ابھی دس میل دور تھی۔ابھی لشکر قافلے کی صورت میں چلا آرہا تھا،عین التمر پہنچ کر شہرکو محاصرے میں لینا تھا لیکن راستے میں ایک انسانی دیوار آگئی جو مسلمانوں کیلئے غیر متوقع تھی۔ مؤرخوں نے ان قبیلوں کی تعداد نہیں لکھی سوائے اس کے کہ وہ تعداد میں مدینہ کے مجاہدین سے خاصے زیادہ تھے۔ عین التمر کی اپنی فوج اس تعداد کے علاوہ تھی۔ اس طرح مسلمانوں کا مقابلہ کم از کم تین گناطاقتور دشمن سے تھا۔
خالدؓ نے فوراً اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔پہلے کی طرح وہ خود قلب میں رہے اور اپنے دونوں تجربہ کار سالاروں عاصم بن عمرو اور عدی بن حاتم کو دائیں اور بائیں پہلوؤں میں رکھا۔خالدؓ نے تمام سالاروں کو اپنے پاس بلایا۔
’’ہماری ترتیب وہی ہے جو آمنے سامنے کے ہر معرکے میں ہواکرتی ہے۔‘‘ … خالدؓ نے سالاروں سے کہا۔ … ’’لیکن لڑنے کا طریقہ مختلف ہوگا۔ اب قلب سے حملہ نہیں ہوگا۔ میرا اشارہ ملتے ہی دونوں پہلو دشمن کے پہلوؤں پر ہلّہ بول دیں اور وہاں دشمن کو پوری طرح الجھا لیں۔ تھوڑی دیر بعد اس طرح پیچھے ہٹیں کہ دشمن کو یہ تاثر ملے کہ تم پسپا ہو رہے ہو۔ تھوڑا سا پیچھے آکر پھر آگے بڑھواور پھر پیچھے ہٹو، اس طرح دشمن کے پہلوؤں کو آپس میں الجھائے رکھنا کہ اپنے قلب کی انہیں ہوش نہ رہے۔ میں سیدھا دشمن کے قلب پر حملہ کروں گا لیکن کچھ دیر بعد۔ تم دونوں اس کوشش میں رہنا کہ دشمن کے پہلوؤں سے اس کے قلب کو مدد نہ مل سکے۔‘‘
’’ولید کے بیٹے!‘‘ … دشمن کی طرف سے للکار سنائی دی۔ … ’’آنکھیں کھول … دیکھ تیری موت تجھے کس کے سامنے لے آئی ہے؟ … میں عقہ ہوں … عقہ بن ابی عقہ!‘‘
’’ولید کا بیٹا دیکھ چکا ہے!‘‘ … خالدؓ نے گھوڑے پر سوار ہو کر اور رکابوں میں کھڑے ہوکر للکار کاجواب دیا۔ … ’’تیری مکروہ آواز سنے بغیر دیکھ لیا ہے … کیا کسریٰ کے سالاروں نے محل میں ناچنا اور گانا شروع کر دیا ہے کہ ان کی لڑائی تم لڑنے آگئے ہو؟‘‘
’’ابن ولید!‘‘ … عقہ کی للکار بلند ہوئی۔ … ’’کیا توزندہ واپس جانے کا خواہش مند نہیں؟‘‘
’’میں زندہ واپس جاؤں گا۔‘‘ … خالدؓنے گلا پھاڑ کر کہا۔ … ’’خدا کی قسم! تیرے سر کو تیرے جسم سے الگ کرکے جاؤں گا۔‘‘
خالدؓ اپنے سالاروں کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’ربِ کعبہ کی قسم!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’میں عقہ کو زندہ پکڑوں گا پھر اسے زندہ نہیں رہنے دں گا … تم سب اپنے اپنے دستوں تک پہنچو اور سب کو بتاؤ کہ آج تمہارا مقابلہ دو فوجوں کے ساتھ ہے۔ ایک یہ فوج ہے جو تمہارے سامنے سیاہ پہاڑ کی مانند کھڑی ہے اور ایک وہ فوج ہے جو شہر کے اندر ہے یا کہیں روپوش ہے اور نہ جانے کی طرف سے تم پر حملہ کر دے گی۔ سب کو بتا دو کہ آج جس نے پیٹھ دکھائی وہ اﷲ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ مدینہ کے مجاہدین مسلسل لڑ رہے تھے اور کوچ کر رہے تھے،اور ان کی تعداد بھی کم تھی۔عین التمر میں دشمن کو للکار کر خالدؓ بظاہر غلطی کر رہے تھے لیکن خالدؓکے چہرے پرسنجیدگی ضرور تھی،پریشانی کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی۔انہیں دشمن للکار رہا تھا۔
…………bnb…………

خالدؓ نے اشارہ دے دیا۔ ایک پہلو سے سالار عاصم بن عدی اور دوسرے پہلو سے سالار عدی بن حاتم نے بدوی قبیلوں لے لشکر کے پہلوؤں پر حملہ کر دیا۔عقہ بن ابی عقہ اپنے لشکر کے قلب میں تھا اور اس کی نظر مسلمانوں کے قلب پر تھی جہاں خالدؓ تھے ،اسے توقع تھی کہ دستور کے مطابق سامنے سے قلب کے دستے حملہ کریں گے مگر خالدؓ دستور سے ہٹ گئے تھے۔
دونوں فوجوں کے پہلو جب گتھم گتھا ہوئے تو تھوڑی دیر میں اپنی اڑائی ہوئی گرد میں چھپ گئے تھے۔ اس گرد سے گھوڑوں کے ہنہنانے ،تلوار اور ڈھالوں کے ٹکرانے کی مہیب آوازیں اور زخمیوں کی کرب ناک صدائیں اٹھ رہی تھیں۔ ایک قیامت تھی جو گرد کے اندر بپا تھی۔
پہلوؤں کے دونوں سالاروں نے خالدؓ کی ہدایت کے مطابق اپنے دستے پیچھے ہٹائے ۔بدوی قبیلے اس خوش فہمی میں مسلمانوں کے پیچھے گئے کہ مسلمان پسپا ہو رہے ہیں۔ وہ جوش و خروش سے نعرے لگا رہے تھے لیکن مسلمان رک گئے اور انہوں نے دشمن پر ایسا دباؤ ڈالا کہ وہ پیچھے ہٹنے لگے۔
مسلمان ایک بار پھر پیچھے ہٹنے لگے۔بدوی پھر ان کے پیچھے آگئے۔ اس طرح مسلمانوں نے دشمن کے پہلوؤں کو ایسا الجھایا کہ انہیں اپنے قلب کی ہوش نہ رہی، گرد اتنی زیادہ ہو گئی تھی کہ پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ اس کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ خالدؓ بڑی غور سے دیکھ رہے تھے ۔ان کی نظر عقہ پر تھی جو (مؤرخ بلاذری اور طبری کے مطابق) یہ دیکھ دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا کہ مسلمانوں کا قلب کیوں آگے نہیں بڑھتا۔ مسلمانوں کے قلب کے دستوں کا انداز کچھ ایسا ڈھیلا ڈھالا سا تھا جیسے وہ حملہ نہیں کرنا چاہتے۔
عقہ بن ابی عقہ نے جب مسلمانوں کے قلب کے دستوں کو اس لاتعلقی کی سی حالت میں دیکھا تو اس نے مسلمانوں کے پہلوؤں کے دستوں کو کچلنے کیلئے قلب سے خاصی نفری اپنے پہلوؤں کی مدد کیلئے بھیج دی۔ خالدؓ اسے اسی دھوکے میں لانا چاہتے تھے جس میں وہ آگیا۔ خالدؓ نے اپنے محافظوں کو ساتھ رکھا۔ انہیں وہ بتا چکے تھے کہ عقہ کو زندہ پکڑنا ہے۔ خالدؓ نے قلب کے دستوں کو دشمن کے قلب پر حملے کا اشارہ دے دیا۔
عقہ کیلئے حملہ اچانک اور غیر متوقع تھا۔خالدؓ نے اپنے محافظوں سے عقہ اور اس کے محافظوں کو گھیرے میں لے لیا، عقہ کے محافظ بے جگری سے لڑ رہے تھے۔ مسلمانوں کو وہ قریب نہیں آنے دے رہے تھے۔ عقہ ان کے درمیان میں تھا، مسلمانوں کے دستوں نے بدوی قبائلیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔ عقہ بھاگ نکلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’سامنے آ عقہ!‘‘ … خالدؓ نے اسے للکارا۔ … ’’تو مجھے قتل کرنا چاہتا تھا۔‘‘
بعض مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓنے کمند پھینک کر عقہ کو پکڑ لیا۔ لیکن مؤرخوں کی اکثریت کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ عقہ خالدؓ کی للکار پر مقابلے میں آگیا۔ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ عقہ کو تاریخ کے ماہر جنگجو اور تیغ زن قرار دیا ہے۔ مستند یہی ہے کہ خالدؓ اور عقہ کے درمیان بڑا سخت مقابلہ ہوا۔ خالدؓ کو اﷲکے رسولe نے اﷲکی تلوار کا خطاب عطا کیا تھا۔ انہوں نے عقہ کا ہر وار بچایااور موقع کی تلاش میں رہے۔ انہیں جوں ہی موقع ملا،عقہ کو گھوڑے سے گرا دیا۔ خالدؓ اپنے گھوڑے سے کود کر اترے۔ عقہ ابھی سنبھل ہی رہا تھا کہ خالدؓکی تلوار کی نوک عقہ کے پہلو کے ساتھ لگ چکی تھی۔ اس کے ساتھ ہی خالدؓ کے تین چار محافظوں نے برچھیوں کی انّیاں عقہ کے جسم کے ساتھ لگا دیں۔
عقہ نے ہتھیار ڈال دیئے۔
اس کے کئی محافظ ہلاک اور زخمی ہو چکے تھے۔جو بچ گئے وہ بھاگ اٹھے۔فوراًیہ خبر بدوی قبائل تک پہنچ گئی کہ ان کا سردارِ عالیٰ ہتھیار ڈال چکا ہے۔ یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ عقہ مارا گیا ہے۔ اِدھر مسلمانوں کے سالار عاصم اورعدی دشمن کے پہلوؤں کے دستوں کا بہت نقصان کر چکے تھے۔ اس خبر کے ساتھ ہی کہ عقہ مارا گیا یا پکڑا گیا ہے،پہلوؤں کے سپاہی پسپا ہونے لگے۔
تھوڑی دیر تک صورتِ حال یہ ہو گئی کہ بدوی ایک ایک دو دو،عین التمر کی طرف بھاگے جا رہے تھے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages