Featured Post

Khalid001

15 September 2019

Khalid080


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  80
عقہ خالدؓ کا قیدی تھا لیکن وہ پریشان نہیں تھا۔اسے توقع تھی کہ عین التمرکی فارسی فوج اس کی مدد کیلئے پا بہ رکاب ہوگی،اور آہی رہی ہوگی۔وہ مسلمانوں کی حالت دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہاتھا،مسلمان تھک کر نڈھال ہو چکے تھے،خالدؓ نے اپنے قاصدوں کو بلایا۔
’’تمام سالاروں اور کمانداروں کو پیغام دو کہ بدوی لشکر کی پسپائی کو ابھی اپنی فتح نہ سمجھیں۔‘‘ … خالدؓ نے قاصدوں سے کہا۔ … ’’ابھی مالِ غنیمت کی طرف بھی نہ دیکھیں، ایک اور فوج آرہی ہے۔وہ تازہ دم ہوگی۔اس کے مقابلے کیلئے تیار رہو۔‘‘
یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ مہراں بن بہرام کی فوج کس طرف سے آئے گی یا وہ عین التمر میں قلعہ بند ہو کر لڑے گی۔اس فوج پر نظر رکھنے کیلئے مثنیٰ بن حارثہ اپنے چھاپہ مار دستے کے ساتھ عین التمر تک کے علاقے میں موجود اور متحرک تھا، اس نے خالدؓ کو بار بار یہی پیغام بھیجا تھا کہ آتش پرستوں کی فوج کہیں بھی نظر نہیں آرہی۔ پھر اس کا یہ پیغام خالدؓ تک پہنچا کہ عقہ کے قبائلی خوف و ہراس کی حالت میں بھاگ بھاگ کر عین التمر میں پناہ لے رہے ہیں۔
مثنیٰ بن حارثہ کے چھاپہ مار بھاگنے والے بدوی قبیلوں کا تعاقب کرکے انہیں مار رہے تھے۔جب عقہ کے پہلے چند ایک آدمی عین التمر میں داخل ہوئے تو انہیں مہراں کے پاس لے گئے۔ … ’’تم موت سے بھاگ کر آئے ہو۔‘‘ … مہراں نے انہیں کہا۔ … ’’کیا تم نہیں جانتے کہ یہاں بھی تمہارے لیے موت ہے؟اس نے حکم دیا۔لے جاؤان بزدلوں کو اور انہیں قتل کر دو۔‘‘
’’کس کس کو قتل کرو گے؟‘‘ … ایک بدوی نے پوچھا۔
’’پہلے عقہ کو قتل کرو۔‘‘ … جس نے ہتھیار ڈال کر سارے لشکر میں بزدلی پھیلائی۔‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’مسلمانوں نے جس طرح حملے کیے انہیں ہمارے سردار سمجھ ہی نہ سکے۔‘‘ … ایک اور نے کہا۔
انہوں نے میدانِ جنگ کی صورتِ حال ایسے رنگ میں پیش کی کہ مہراں گھبرا گیا۔مسلمانوں کے لڑنے کے جذبے اور جوش و خروش کو انہوں نے مبالغے سے بیان کیا اور بتایا کہ اپنا جو لشکر مسلمانوں کے ہاتھوں کٹنے سے بچ گیا ہے ،شہر کی طرف بھاگا آرہا ہے۔
’’تو کیا ہمارے لیے یہ بہتر نہیں ہو گا کہ ہم مسلمانوں کو وہاں لے جا کر کاٹیں جہاں ان کا دم ختم ہو چکا ہو؟‘‘ … مہراں بن بہرام نے اپنے سالارں سے کہا۔ … ’’پھر وہ پسپا ہونے کے بھی قابل نہیں رہیں گے۔‘‘
’’کیا سوچ کر آپ نے یہ بات کہی ہے؟‘‘ … ایک سالار نے کہا۔ … ’’اتنا بڑا شہر چھوڑ کر ہم چلے جائیں گے تو یہ پسپائی ہوگی،یہ کہیں کہ آپ پر مسلمانوں کا خوف طاری ہو گیا ہے اور آپ یہاں سے بھاگنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’جو میں سوچ سکتا ہوں وہ تم نہیں سوچ سکتے۔‘‘ … مہراں نے شاہانہ رعب سے کہا۔ … ’’میں یہاں کا حاکم ہوں۔جاؤ،میرے اگلے حکم کا انتظار کرو۔‘‘
سالار خاموشی سے چلے گئے۔وہ سالار تھے۔ شہر کا دفاع ان کی ذمہ داری تھی۔وہ مسلمانوں کو شہر پیش کرنے کے بجائے لڑ کر مرنا بہتر سمجھتے تھے۔ انہوں نے آپس میں طے کر لیا کہ وہ مہراں کا یہ حکم نہیں مانیں گے ،لیکن میدانِ جنگ سے بھاگ کر آنے والے بنی تغلب،نمر اور ایادکے آدمی ٹولیوں میں شہر کے دروازے میں داخل ہو رہے تھے ،وہ دس میل کی مسافت طے کر کے آئے تھے جو انہوں نے خوف اور بھگدڑ کی کیفیت میں طے کی تھی۔ان میں بعض زخمی تھے۔
’’کاٹ دیا … سب کو کاٹ دیا۔‘‘ … وہ گھبراہٹ کے عالم میں کہہ رہے تھے۔ … ’’ان کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔بڑے زبردست ہیں۔‘‘
’’عقہ بن ابی عقہ مارا گیا ہے۔‘‘ … وہ شہر پر خوف طاری کر رہے تھے۔ … ’’ھذیل لا پتہ ہے۔‘‘
’’دروازے بند کر دو۔‘‘ … بعض چلّا رہے تھے۔ … ’’وہ آرہے ہیں۔‘‘
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ زرتشت کے پجاریوں پر پہلے ہی مسلمانوں کی دہشت طاری تھی۔مسلمانوں نے ان کے بڑے نامور سالار مار ڈالے تھے،اب عین التمر والے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ یہ جنگجو قبیلے کس حالت میں واپس آرہے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر پر خوف و ہراس طاری ہو گیا۔شہر میں جو فوج تھی اس کی ذہنی حالت ایسے کمزور بزدل کتے جیسی ہوگئی تھی جو دُم پچھلی ٹانگوں میں دبا لیا کرتا ہے۔
ان کے سالا روں نے جب اپنی فوج کو اس ذہنی کیفیت میں دیکھا تو انہیں شہر کے حاکم اور سالارِ اعلیٰ مہراں کے اگلے حکم کی ضرورت نہ پڑی۔انہیں یہ اطلاع بھی ملی کہ مہراں خزانہ مدائن بھجوا رہا ہے اور شہر کے لوگ بھی اپنے اموال چھپا رہے تھے یا ساتھ لے کر شہر سے نکل رہے تھے۔
خالدؓ کے فن ِ حرب و ضرب کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے میدانِ جنگ میں تو دشمن کو شکست دی ہی تھی ۔دشمن کو انہوں نے نفسیاتی لحاظ سے اتنا کمزور کر دیا تھا کہ اس کے لڑنے کا جذبہ مجروح ہو گیا تھا۔آتش پرستوں کی نفسیاتی کیفیت تو یوں ہو گئی تھی کہ خالدؓ کا یا مسلمانوں کا نام سن کر ہی وہ پیچھے دیکھنے لگتے تھے کہ کمک آ رہی ہے یا نہیں۔ یا پسپائی کا راستہ صاف ہے یا نہیں۔
…………bnb…………

پھر وہ وقت جلدی آگیا جب میدانِ جنگ میں لاشیں اور بے ہوش زخمی رہ گئے اور انہیں کچلنے کیلئے وہ گھوڑے رہ گئے جو سواروں کے بغیر بے لگام دوڑتے پھر رہے تھے۔بدوی قبیلے اپنے سرداروں کے بغیر عین التمر جا پہنچے اور شہر کے دروازے بند کر لیے۔انہوں نے شہر میں واویلا بپا کیا کہ مہراں کی فوج وعدے کے مطابق ان کی مدد کو نہیں آئی لیکن وہاں ان کا واویلا سننے والا کوئی نہ تھا۔خوف و ہراس کے مارے ہوئے شہری تھے جو بھاگ نہیں سکتے تھے۔مہراں بن بہرام اپنی فوج سمیت شہر سے جا چکا تھا۔وہ فوج کو مدائن لے کر جا رہا تھا۔وہ عقہ اور ھذیل اور دوسرے قبائلی سرداروں کو کوس رہا تھا۔
’’دشمن کا تعاقب کرو۔‘‘ … خالدؓ نے اپنی سپاہ کو حکم دیا۔ … ’’زخمیوں کو سنبھالنے کیلئے کچھ آدمی یہیں رہنے دو اور بہت تیزی سے عین التمر کا محاصرہ کرلو۔‘‘
عین اس وقت مثنیٰ بن حارثہ گھوڑا سر پٹ دوڑاتا آیا اور خالدؓ کے پاس گھوڑا روک کر اترا۔وہ خالدؓسے بغلگیر ہو گیا۔
’’ولید کے بیٹے!‘‘ … مثنیٰ نے کہا۔ … ’’قسم رب العالمین کی!دشمن عین التمر سے بھاگ گیا ہے۔‘‘
’’کیا تیرا دماغ اپنی جگہ سے ہِل تو نہیں گیا؟‘‘خالدؓ نے پوچھا۔’’یوں کہہ کہ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔‘‘مثنیٰ بن حارثہ نے خالدؓکو بتایا کہ اس نے جو جاسوس عین التمر کے اردگرد بھیج رکھے تھے ،انہوں نے اطلاع دی ہے کہ فارس کی جو فوج شہر میں تھی ،شہر سے نکل گئی ہے۔
’’کیا تو نہیں سمجھ سکتا کہ یہ فوج ہمارے عقب پر اس وقت حملہ کرے گی جب ہم عین التمر کو محاصرے میں لیے ہوئے ہوں گے؟‘‘ … خالدؓنے کہا۔
’’ابنِ ولید!‘‘ … مثنیٰ نے کہا۔’’مہراں اپنی فوج کے ساتھ جا چکا ہے۔اگر وہ فوج یہاں کہیں چھپی ہوئی ہوتی تو میرے چھاپہ مار اسے چَین سے نہ بیٹھنے دیتے۔ … آگے بڑھ اور اپنی آنکھوں سے دیکھ۔ عین التمر تیرے قدموں میں پڑا ہے۔‘‘
یہ خبرجب مجاہدین کے لشکر کو ملی تو ان کے جسم جو تھکن سے ٹوٹ رہے تھے تروتازہ ہوگئے۔انہوں نے فتح و نصرت کے نعروں کی گرج میں عین التمر تک کے دس میل طے کر لیے۔مثنیٰ کے جو آدمی پہلے ہی وہاں موجودتھے ،انہوں نے بتایا کہ شہر کے تمام دروازے بند ہیں۔
خالدؓکے حکم سے شہر کا محاصرہ کر لیا گیا۔بدوی عیسائی اور ان کے دیگر ساتھی جو شہر میں پناہ لینے آئے تھے، مقابلے پر اتر آئے۔انہوں نے شہرِ پناہ کے اوپر جا کر مسلمانوں پر تیر برسانے شروع کر دیئے۔
’’عقہ بن ابی عقہ کو اور تمام جنگی قیدیوں کو آگے لاؤ۔‘‘ … خالدؓ نے حکم دیا۔
ذرا سی دیر میں تام بدوی قیدیوں کو سامنے لے آئے۔خالدؓ نے عقہ کو بازو سے پکڑ ا اور اسے اتنی آگے لے گئے جہاں وہ شہرِ پناہ سے آنے والے تیروں کے زد میں تھے۔
’’یہ ہے تمہارا سردار!‘‘ … خالدؓنےبڑی بلند آوازسے کہا۔ … ’’تم اسے بہادروں کا بہادر سمجھتے تھے،اسی نے تمہاری دوستی فارس والوں سے کرائی تھی۔کہاں ہیں تمہارے دوست؟‘‘ … خالدؓ نے عقہ کو آگے کرکے کہا۔ … ’’اس سے پوچھومہراں اپنی فوج کو بچا کر کہاں لے گیا ہے؟‘‘
پھر بے شمار قیدیوں کو آگے کر دیا گیا۔
’’یہ ہیں تمہارے بھائی!‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’چلاؤتیر!سب ان کے سینوں میں اتریں گے۔‘‘
یہ خبر کسی طرح شہر میں پھیل گئی کہ قلعے کے باہر مسلمان بنی تغلب اور دیگر قبیلوں کے قیدیوں کو لائے ہیں۔ان قیدیوں میں سے کئی ایک کے بیوی بچے اور لواحقین شہر میں تھے۔ ان کی بستیاں تو کہیں اور تھیں لیکن ان کی سلامتی کیلئے انہیں عین التمر میں لے آئے تھے ۔جنگ کی صورت میں وہ انہیں اپنی بستیوں میں محفوظ نہیں سمجھتے تھے۔ان عورتوں اور بچوں کو جب پتا چلا کہ ان کے قبیلوں کے قیدی باہر آئے ہیں تو مائیں اپنے بچوں کو اٹھائے شہر کی دیوار پر آگئیں۔میدانِ جنگ میں جانے والوں میں سے جو واپس نہیں آئے تھے ،ان کی بیویاں ،بہنیں،مائیں اور بیٹیاں اس امید پر دیوار پر آئی تھیں کہ ان کے آدمی قیدیوں میں ہوں گے۔
ان عورتوں نے دیوار کے اوپر ہنگامہ بپا کر دیا۔وہ اپنے آدمیوں کر پکار رہی تھیں۔جنہیں اپنے آدمی قیدیوں میں نظر نہیں آرہے تھے ،وہ آہ و زاری کر رہی تھیں،تیر انداز انہیں پیچھے ہٹا رہے تھے مگر عورتیں پیچھے نہیں ہٹ رہی تھیں۔
’’ہم تمہیں زیادہ مہلت نہیں دیں گے۔‘‘ … خالدؓ کے حکم سے ان کے ایک محافظ نے بلند آواز سے کہا۔ … ’’ہتھیار ڈال دو اور دروازے کھول دو۔ اگر ہمارے مقابلے میں تم ہار گئے اور دروازوں میں ہم خود داخل ہوئے تو تم سب کا انجام بہت برا ہوگا۔‘‘
’’ہم اپنی دو شرطوں پر دروازہ کھولنے پر آمادہ ہیں۔‘‘ … دیوار کے اوپر سے آواز آئی۔
’’تمہاری کوئی شرط نہیں مانی جائے گی۔‘‘ … خالدؓ کی طرف سے جواب گیا۔ … ’’ہتھیار ڈال دو۔دروازے کھول دو،تمہاری سلامتی اسی میں ہے۔‘‘
بنی تغلب اور ان کے اتحادی قبیلے جانتے تھے کہ ان کی سلامتی اسی میں ہے کہ ہتھیار ڈال دیں اور مسلمانوں سے رحم کی درخواست کریں چنانچہ انہوں نے دروازے کھول دیئے اور مسلمان شہر میں داخل ہوئے۔اس وقت کی تحریروں سے پتہ چلتاہے کہ مسلمانوں نے کسی شہری کو پریشان نہیں کیا ،البتہ مسلمانوں کے خلاف جو بدوی لڑے تھے،ان سب کو قیدی بنا لیا گیا۔یہ ان قیدیوں کے لواحقین پر منحصر تھا کہ وہ خالدؓ کا مقرر کیا ہوا فدیہ ادا کرکے اپنے قیدیوں کو رہا کرالیں۔
تمام شہر کی تلاشی لی گئی۔شہر میں ایک عبادت گاہ یا درس گاہ تھی جس میں پادری بننے کی تعلیم دی جاتی تھی۔اس وقت چالیس نو عمر لڑکے زیرِ تعلیم تھے۔ ان سب کو پکڑ لیا گیا۔ ان میں سے اکثر نے بعد میں اسلام قبول کر لیا تھا اور ان میں سے ایک کو تاریخ ِ اسلام کی ایک نامور شخصیت کا باپ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس لڑکے کا نام نصیر تھا۔ا س نے اسلام قبول کیااور ایک مسلمان عورت کے ساتھ شادی کی جس نے موسیٰ بن نصیر کو جنم دیا۔ یہ موسیٰ بن نصیر شمالی افریقہ کے امیر مقرر ہوئے۔انہوں نے ہی طارق بن زیاد کو اندلس فتح کرنے کو بھیجا تھا۔
دو تین متعصب مؤرخوں نے لکھا ہے کہ خالدؓ نے بنی تغلب، نمر اور ایاد کے ان تمام آدمیوں کو قتل کر دیا جو ان کے خلاف لڑے تھے ۔یہ ایک مفروضہ ہے جو خا لدؓکو بدنام کرنے کیلئے گھڑا گیا تھا۔مؤرخوں کی اکثریت نے ایسے قتلِ عام کا ہلکا سا بھی اشارہ نہیں دیا۔ محمد حسین ہیکل نے متعدد تاریخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ عقہ بن ابی عقہ کو کھلے میدان میں لا کر خالدؓ نے اپناعہد پورا کرتے ہوئے اس کا سر تن سے کاٹ ڈالا۔
خالدؓ نے اعلان کیا تھا کہ بدوی غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیں تو وہ بڑے برے انجام سے محفوظ رہیں گے ۔دشمن نے مسلمانوں کی شرائط پر ہتھیا ر ڈالے تھے۔ان کے قتلِ عام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
…………bnb…………

عین التمر کی فتح کے بعد خالدؓ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ انبار اورعین التمر کا مالِ غنیمت اکٹھا کرکے مجاہدین میں تقسیم کیا اور خلافت کا حصہ الگ کرکے ولید بن عقبہ کے سپرد کیا کہ وہ مدینہ امیرالمومنینؓ کو پیش کریں۔انہوں نے امیر المومنینؓ کیلئے ایک پیغام بھی بھیجا۔
ولید بن عقبہ نے مدینہ پہنچ کر امیرالمومنین ابوبکرؓ کو انبار اور عین التمر کی لڑائی اور فتح کی تفصیل سنائی ،مالِ غنیمت پیش کیا پھرخالدؓ کا پیغام دیا۔پہلے سنایا جا چکا ہے کہ خلیفۃ المسلمین ابوبکرؓ نے خالدؓ کے لیے حکم بھیجا تھا کہ وہ عیاضؓ بن غنم کے انتظار میں حیرہ میں رُکے رہیں۔اس وقت عیاضؓ دومۃ الجندل میں لڑ رہے تھے لیکن لڑائی کی صورتِ حال عیاضؓ کیلئے اچھی نہ تھی۔خالدؓ نے خلافت کے حکم کو نظر انداز کر دیا اور حیرہ سے کوچ کرکے انبار کو محاصرے میں لے لیا۔فتح پائی پھر عین التمر کا معرکہ لڑا اور کامیابی حاصل کی۔
خالدؓنے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ وہ حیرہ میں بیٹھے رہتے تو فارس والوں کو اپنی شکستوں سے سنبھلنے کا اور جوابی حملے کی تیاری کا موقع مل جاتا۔خالدؓکی کوشش یہ تھی کہ دشمن کو کہیں بھی قدم جمانے کا اور جوابی وار کرنے کا موقع نہ مل سکے۔انہوں نے آتش پرستوں کی فوج کو نفسیاتی لحاظ سے کمزور کر دیا۔خالدؓنے امیر المومنینؓ کی حکم عدولی تو کی تھی لیکن عملاًثابت کر دیا تھا کہ یہ حکم عدولی کتنی ضروری تھی۔عیاضؓ بن غنم ابھی تک دومۃ الجندل میں پھنسے ہوئے تھے اور ان کی کامیابی کی توقع بہت کم تھی۔
’’خالدؓ نے جو مناسب سمجھا وہ کیا۔‘‘ … خلیفہ ابو بکرؓ نے ولیدبن عقبہ سے کہا۔ … ’’اس نے جو سوچا تھا وہی ہوا۔عیاض کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں وہ امید افزاء نہیں۔ دومۃ الجندل پر ہمارا قبضہ بہت ضروری تھا لیکن اب مجھے عیاض کے متعلق تشویش ہونے لگی ہے‘‘ … ’’ابنِ عقبہ!تم عین التمرواپس نہ جاؤ۔دومۃ الجندل چلے جاؤاور وہاں کی صورتِ حال دیکھ کہ خالد کے پاس جاؤ اور اسے کہو کہ عیاض کی مدد کو پہنچے۔‘‘
ولید بن عقبہ روانہ ہو گئے۔عیاضؓ بن غنم خود بھی پریشان تھے۔اس کے ساتھ جو سالار تھے ،وہ انہیں کہہ رہے تھے کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کیلئے مدد کی ضرورت ہے ورنہ شکست کا خطرہ صاف نظر آرہا تھا۔ آخر (مؤرخ طبری اور ابو یوسف کی تحریروں کے مطابق) عیاضؓ بن غنم نے خالدؓ کو ایک تحریری پیغام بھیجا جس میں انہوں نے اپنی مخدوش صورتِحال اور اپنی ضرورت لکھی۔
ولید بن عقبہ بھی عیاضؓ کے پاس پہنچ گئے۔ان کا جلدی پہنچنا آسان نہ تھا۔مدینہ سے دومۃ الجندل کافاصلہ تین سو میل سے کچھ کم تھااور زیادہ ترعلاقہ صحرائی تھا۔پہنچنا جلد تھا۔ولید جب عیاضؓ کے پاس پہنچے تو وہ جیسے ہوش و حواس میں نہیں تھے۔انہوں نے آرام کی نہ سوچی،عیاضؓ کی صورتِ حال دیکھی۔
’’میں نے خالدکو مدد کیلئے کل ہی پیغام بھیجا ہے۔‘‘ … عیاضؓ بن غنم نے ولید بن عقبہ سے کہا۔ … ’’معلوم نہیں وہ خود کس حال میں ہے،لیکن میرے لیے اور کوئی چارا نہیں،تم دیکھ رہے ہو۔‘‘
’’الحمدﷲ!‘‘ … ولید نے کہا۔ … ’’خالد نے آتش پرستوں کی شہنشاہی اور ان کی جنگی طاقت کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا ہے۔امیر المومنین نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ تمہاری ضرورت کا جائزہ لے کر انہیں بتاؤں لیکن تمہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔میں مدینہ جانے کے بجائے عین التمر چلا جاتا ہوں ۔خالدتمہاری مدد کو آئے گا۔‘‘
یہ اس دور کی فرض شناسی اور جذبہ تھا جس میں خوشامد، دکھاوے اور کام چوری کا ذرا سا بھی عمل دخل نہ تھا،ولید بن عقبہ نے یہ نہ سوچا کہ وہ واپس مدینہ جائیں اور خلیفہ کے حکم کے مطابق انہیں اپنی کار گزاری بڑھا چڑھا کر سنائیں اور ساتھ یہ کہیں کہ حضور عیاض تو بڑا نالائق سالار ہے۔اگر اس کی جگہ میں ہوتا تو یوں کرتا مگرولید نے دیکھا کہ صورتِ حال مخدوش ہے تو وہ اپنے حاکم خود بن گئے اور مدینہ کے بجائے عین التمر کو گھوڑا دوڑادیا۔ان کے سامنے پورے تین سو میل صحرائی مسافت تھی۔عراق اور شام کے صحرا اسی علاقے میں ملتے اور مسافروں کیلئے جان کا خطرہ بن جاتے۔ولید نے اپنے گھوڑے پر ،اپنے آپ پر،اپنے چار محافظوں اور ان کے گھوڑوں پر یہ ظلم کیا کہ کم سے کم آرام کیلئے کہیں رُکے۔وہ موسم گرمی کے عروج کا تھا۔ مہینہ اگست ۶۳۳ء تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages