Featured Post

Khalid001

09 November 2019

Khalid100


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  100
خالدؓ نے ایک سوار کو دیکھا جو ان کی طرف آرہا تھا۔وہ دوسروں سے کچھ الگ تھلگ لگتا تھا۔ایک اس لیے کہ اس کا قد لمبا تھا اور جسم دبلا پتلا تھا۔عرب ایسے دبلے پتلے نہیں ہوتے تھے، یہ سوار کچھ آگے کو جھکا ہوا بھی تھا۔اس کی داڑھی گھنی نہیں تھی،اور لمبی بھی نہیں تھی۔اس داڑھی کو اس شخص نے مصنوعی طریقے سے کالا کر رکھا تھا۔
وہ اس لیے بھی الگ تھلگ تھا کہ خالدؓ نے اسے لڑتے دیکھا تھا اور اس کاانداز کچھ مختلف سا تھا۔سب کی توجہ اس شخص کی طرف اس وجہ سے بھی ہوئی تھی کہ اس کے ہاتھ میں پیلے رنگ کا پرچم تھا۔یہ وہ پرچم تھاجو خیبر کی لڑائی میں رسولِ اکرمﷺ نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔
خالدؓ اسے پہچان نہ سکے، دھوپ بہت تیز تھی۔اس نے سر پر کپڑا ڈال رکھا تھا جس سے اس کا آدھا چہرہ ڈھکا ہوا تھا، خالدؓ کے قریب آکر وہ شخص مسکرایا تو خالدؓ نے دیکھا کہ اس آدمی کے سامنے کے دو تین دانت ٹوٹے ہوئے ہیں۔
’’ابو عبیدہ!‘‘ … خالدؓنےمسرت سے کہا اور اس کی طرف دوڑے۔
وہ ابو عبیدہؓ تھے۔ مرج راہط سے خالدؓ نے انہیں پیغام بھیجا تھا کہ وہ انہیں بصرہ کے باہر ملیں۔ابو عبیدہؓ حواریں کے مقام پر پراؤ ڈالے ہوئے تھے جہاں سے انہوں نے شرحبیلؓ بن حسنہ کو چار ہزار مجاہدین دے کو بصرہ پر حملہ کرایا تھا۔ان کے پاس خالدؓ کا قاصد بعد میں پہنچا تھا۔ابو عبیدہؓ پیغام پر اس وقت بصرہ پہنچے جب خالدؓ رومیوں کے ساتھ بڑے سخت معرکے میں الجھے ہوئے تھے۔انہوں نے تلوار نکالی اور معرکے میں شامل ہو گئے۔
ابوعبیدہؓ کی اس وقت عمر پچپن سال کے لگ بھگ تھی۔وہ رسولِ کریمﷺکے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ان کے دادا اپنے وقتوں کے مشہور جراح تھے۔اسی نسبت سے انہوں نے اپنا نام ابو عبیدہ بن الجراح رکھ لیا تھا۔ان کا نام عامر بن عبداﷲبن الجراح تھا۔لیکن انہوں نے ابو عبیدہ کے نام سے شہرت حاصل کی۔دبلا پتلا اور کچھ جھکا ہونے کے باوجود ان کے چہرے پر جلال جیسی رونق رہتی تھی۔وہ دانشمند تھے۔میدانِ جنگ میں بھی ان کی اپنی شان تھی اور ذہانت اور عقلمندی میں بھی ان کا مقام اونچا تھا۔
ابو عبیدہؓ کے سامنے کے دانت جنگِ احد میں ٹوٹے تھے۔ اس معرکے میں رسولِ اکرمﷺ زخمی ہو گئے تھے۔آپﷺ کے خود کی زنجیروں کی دو کڑیاں آپﷺ کے رخسار میں ایسی گہری اتری تھیں کہ ہاتھ سے نکلتی نہیں تھیں۔ ابو عبیدہؓ نے یہ دونوں اپنے دانتوں سے نکالی تھیں اور اس کامیاب کوشش میں ان کے سامنے کے دو یا تین دانت ٹوٹ گئے تھے۔
ابنِ قتیبہ نے لکھا کہ رسولﷺ ابو عبیدہؓ سے بہت محبت کرتے تھے اور حضورﷺنے ایک بار فرمایا تھا کہ ’’ابو عبیدہ میری امت کا امین ہے ۔‘‘ اس حوالے سے ابو عبیدہ ؓکو لوگ امین الامت کہنے لگے۔
اس دور کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ خالدؓ نے جب ابو عبیدہؓ کو بصرہ کے میدان میں دیکھا تو انہیں خدشہ محسوس ہوا کہ ابو عبیدہؓ ان کی سپہ سالاری کو قبول نہیں کریں گے، گو خلیفۃ المسلمینؓ نے ابو عبیدہؓ کو تحریری حکم بھیجا تھا کہ جب خالدؓ شام کے محاذ پر پہنچ جائیں تو تمام لشکر کے سالارِ اعلیٰ خالدؓ ہوں گے لیکن خالد ؓکو احساس تھا کہ معاشرے میں جو مقام اور رتبہ ابو عبیدہؓ کو حاصل تھا وہ انہیں حاصل نہیں تھا۔خالدؓ خود بھی ابو عبیدہؓ کا بہت احترام کرتے تھے۔
یہ احترام ہی تھا کہ بصرہ کے میدانِ جنگ میں خالدؓنے انہیں اپنی طرف آتے دیکھا تو خالدؓ دوڑ کر ان تک پہنچے ۔ابو عبیدہؓ گھوڑے سے اترنے لگے۔
’’نہیں ابنِ عبداﷲ!‘‘ … خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔ … ’’گھوڑے سے مت اتر۔میں اس قابل نہیں ہوں کہ امین الامت میرے لیے گھوڑے سے اترے۔‘‘
ابو عبیدہؓ گھوڑے پر سوار رہے اور جھک کر دونوں ہاتھ خالدؓکی طرف بڑھائے۔خالدؓ نے احترام سے مصافحہ کیا۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓ نے سے کہا۔ … ’’امیر المومنین کا پیغام مجھے مل گیا تھا جس میں انہوں نے تمہیں ہم سب کا سالارِ اعلیٰ مقرر کیا ہے ۔میں اس پر بہت خوش ہوں۔کوئی شک نہیں کہ جنگ کے معاملات میں جتنی عقل تجھ میں ہے وہ مجھ میں نہیں۔‘‘
’’خدا کی قسم ابنِ عبداﷲ!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’امیرالمومنین کے حکم کی تعمیل مجھ پر فرض ہے ورنہ میں تم پر سپہ سالار کبھی نہ بنتا۔ رتبہ جوتمہیں حاصل ہے وہ مجھے نہیں۔‘‘
’’ایسی بات نہ کر ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’ابو بکر نے بالکل صحیح فیصلہ کیا ہے۔ میں تیرے ماتحت ہوں،تیرے حکم پر آیا ہوں، اﷲتجھے غسانیوں اور رومیوں پر فتح عطا فرمائے۔‘‘
…………bnb…………

خالدؓ نے بصرہ کومحاصرے میں لینے کا حکم دیا۔رومیوں اور عیسائیوں کی لاشیں جہاں پڑی تھیں۔وہیں پڑی رہیں۔اوپر گِدّھوں کے غول اڑ رہے تھے اور درختوں پر اتر رہے تھے۔مجاہدین اپنے شہیدوں کی لاشیں اٹھا رہے تھے ان کی تعداد ایک سو تیس تھی۔
خالدؓنے شہر پناہ کے اردگرد گھوڑا دوڑا کر جائزہ لیا کہ دیوار کہیں سے توڑی جاسکتی ہے یا نہیں۔دیوار کے اوپر سے تیر آرہے تھے لیکن مسلمان ان کی زد سے دور تھے۔
قلعے کے اندر مایوسی چھائی ہوئی تھی۔جبلہ بن الایہم اور رومی سپہ سالار خاموشی سے ایک دوسرے کا منہ دیکھ رہے تھے۔
’’کیا تم بالکل ہمت ہار بیٹھے ہو؟‘‘ … جبلہ بن الایہم نے رومی سالار سے پوچھا۔
’’تم نے کہاں کہاں ہمت نہیں ہاری!‘‘ … رومی سالار نے شکست کا غصہ جبلہ پر نکالا اور کہا۔ … ’’مسلمانوں کے راستے میں سب سے پہلے تم اور عیسائی آئے تھے اور مسلمانوں کو نہ روک سکے۔مرج راہط میں بھی تمہاری فوج ناکام رہی۔کیا تو مجھے اور میری فوج کو مروانا چاہتا ہے؟باہر نکل کے دیکھ۔ فوج کی نفری کتنی رہ گئی ہے ہمارے ساتھ۔ کچھ نفری میدانِ جنگ میں ماری گئی ہے، اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے بہت سے سپاہی اور کماندار اجنادین کی طرف بھاگ گئے ہیں۔قلعے میں تھوڑی سی نفری آئی ہے۔دیوار پر جاکر باہر دیکھ اور لاشوں سے حساب کر کہ ہمارے پاس کیا رہ گیا ہے؟‘‘
باہر سے مسلمانوں کی للکار سنائی دے رہی تھی۔
’’رومی سالار باہر آکر صلح کی بات کرے۔‘‘
’’رومیو!قلعہ ہمارے حوالے کر دو۔‘‘
’’ہم نے خود قلعہ سر کیا تو ہم سے رحم کی امید نہ رکھنا۔‘‘
اس کے ساتھ ہی خالدؓ کے حکم سے مجاہدین دروازے توڑنے کیلئے آگے جاتے رہے، مگر اوپر کے تیروں نے انہیں کامیاب نہیں ہونے دیا۔انہوں نے ایک جگہ سے دیوار توڑنے کی کوشش بھی کی۔لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
شہر کے لوگوں پر خوف طاری تھا،وہ مسلمانوں کی للکار سن رہے تھے۔وہ جانتے تھے کہ فاتح فوجیں شہر کے لوگوں کو کس طرح تباہ کیا کرتی ہیں۔مسلمان کہہ رہے تھے کہ قلعے خود دے دو گے تو شہری اور ان کے گھر محفوظ رہیں گے۔
جبلہ بن الایہم اور رومی سالار کمرے سے باہر نہیں آتے تھے۔شہر کے لوگ ایک ایک لمحہ خوف و ہراس میں گزار رہے تھے۔وہ تنگ آکر جبلہ کے محل کے سامنے اکٹھے ہو گئے۔
’’مسلمانوں سے صلح کر لو۔‘‘ … وہ کہہ رہے تھے۔ … ’’ہمیں بچاؤ، قلعہ انہیں دے دو۔ ہمارا قتلِ عام نہ کراؤ۔‘‘
جبلہ اور رومی سالار نے تین چار دنوں تک کوئی فیصلہ نہ کیا، خالدؓ نے محاصرے کے بہانے اپنے لشکر کو آرام کی مہلت دے دی۔ انہوں نے شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر اسے دفن کر دیا۔
آخر ایک روز قلعے پر سفید جھنڈا نظر آیا،قلعے کا دروازہ کھلا اور رومی سالار باہر آیا۔ اس نے صلح کی بھیک مانگی۔ خالدؓ نے ان پر یہ شرط عائد کی وہ جزیہ ادا کریں۔رومی سالار نے قلعہ خالدؓ کے حوالے کردیا۔ یہ جولائی ۶۳۴ء (جمادی الاول) کا وسط تھا۔
رومی اور غسانی قلعے سے نکلنے لگے۔
شرجیلؓ بن حسنہ نے دیکھا تھا کہ رومی سپاہی اجنادین کی طرف بھاگ رہے تھے۔شرجیلؓ نے اپنا ایک جاسوس اجنادین بھیج دیا۔اس جاسوس نے آکر اطلاع دی کہ رومی فوج اجنادین میں جمع ہو رہی ہے اور توقع ہے کہ وہاں نوے ہزار فوج تیار ہو جائے گی۔
’’ہماری اگلی منزل اجنادین ہو گی۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔
…………bnb…………

نپولین ان جرنیلوں میں سے تھا جنہوں نے اپنے اپنے دور میں تاریخ کا پانسہ پلٹا اور کرۂ ارض کو ہلا دیا تھا۔فرانس کے تاریخ ساز جرنیل نپولین نے خالدؓبن ولید کے متعلق کہا تھا: … ’’اگر مسلمانوں کی فوج کا سپہ سالار کوئی اور ہوتا تو یہ فوج اجنادین کی طرف پیش قد می ہی نہ کرتی۔‘‘
نپولین کا دور خالدؓکے دور کے تقریباً بارہ سو سال بعد کا تھا۔ تاریخ کے اس نامور جرنیل نے ان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا اور ان کی فوجوں کی کیفیت اور کارکردگی کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ جولائی ۶۳۴ء میں بصرہ کی فتح کے بعد خالدؓ نے اپنی فوج کو اجنادین کی طرف پیش قدمی کا جو حکم دیا تھا وہ مسلمانوں کی فوج کی جسمانی کیفیت اور تعداد کے بالکل خلاف تھا۔ انہیں جاسوس نے صحیح رپورٹ دی تھی، کہ اجنادین میں رومیوں نے جو فوج مسلمانوں کو کچلنے کیلئے اکٹھی کر رکھی ہے، اس کی تعداد نوے ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے کم نہیں۔ یہ فوج تازہ دم تھی۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ تھی اور یہ فوج مسلسل لڑتی چلی جاتی تھی۔صرف بصرہ کی لڑائی میں ایک سو تیس مجاہدین شہید اور بہت سے زخمی ہوئے تھے۔
یہاں موزوں معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کی اسلامی فوج کے متعلق کچھ تفصیل پیش کی جائے۔اسلامی فوج کی کوئی وردی نہیں تھی۔جس کسی کو جیسے کپڑے میسر آتے تھے وہ پہن لیتا تھا۔ ایسا تو اکثر دیکھنے میں آتا تھا کہ کئی سپاہیوں نے بڑے قیمتی کپڑے پہن رکھے ہیں اور سالار، نائب سالار وغیرہ بالکل معمولی لباس میں ہیں۔ وجہ تھی کہ سپاہی مالِ غنیمت میں ملے ہوئے کپڑے پہن لیتے تھے۔
اسلامی فوج کی ایک خوبی یہ تھی کہ سالاروں کمانداروں یعنی افسروں کا کوئی امتیازی نشان نہ تھا۔افسری کا یہ تصور تھا ہی نہیں جو آج کل ہے۔بعض قبیلوں کے سردار سپاہی تھے اور انہی قبیلوں کے بعض ادنیٰ سے آدمی کماندار تھے۔ عہدے اور ترقیاں نہیں تھیں۔ آج ایک آدمی جذبے کے تحت فوج میں سپاہی کی حیثیت سے شامل ہواہے تو ایک دو روز بعد وہ ایک دستے کاکماندار بن گیا ہے۔ جذبہ اور جنگی اہلیت دیکھی جاتی تھی، ایسے بھی ہوتا تھا کہ ایک معرکے کا افسر اگلے معرکے میں سپاہی ہو۔
اسلام کی تعلیمات کے مطابق افسری اور ماتحتی کا تصور کچھ اور تھا۔ جس کسی کو افسر بنایا جاتا تھا وہ فرائض کی حد تک افسر ہوتا تھا۔ اس کا کوئی حکم ذاتی نوعیت کا نہیں ہوتا تھا۔ چونکہ افسر کے انتخاب کا معیار کچھ اور تھا اس لیے اس وقت کا معاشرہ خوشامد اور سفارش سے آشنا ہی نہیں ہوا تھا۔
اتنی وسیع اسلامی سلطنت کا زوال اس وقت شروع ہوا تھا جب مسلمان افسر اور ماتحت میں تقسیم ہو گئے تھے اور حاکموں نے ماتحتوں کو محکوم سمجھنا شروع کر دیا تھااور وہ خوشامد پسند ہو گئے تھے۔
ہتھیارون کا بھی کوئی معیار نہ تھا۔ فوج میں شامل ہونے والے اپنے ہتھیار خود لاتے تھے۔زِرہ اور خود ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی تھی۔مسلمان سپاہی جو زرہ اور خودپہنتے تھے وہ دشمن سے چھینی ہوئی ہوتی تھیں۔ ان میں اس قسم کی یکسانیت نہیں ہوتی تھی جیسی فوجوں میں ہوا کرتی ہے۔
اسلامی فوج کا کوچ منظم فوج جیسا نہیں ہوتا تھا۔یہ فوج غیر منظم قافلے کی مانند چلتی تھی۔ان کی خوراک اور رسد ان کے ساتھ ہوتی تھی۔بیل گائیں، دنبے اور بھیڑ بکریاں جو فوج کی خوراک بنتی تھیں، فوج کے ساتھ ہوا کرتی تھیں، رسد کا باقاعدہ انتظام بہت بعد میں کیا گیا تھا۔
گھوڑ سوار کوچ کے وقت پیدل چلا کرتے تھے تاکہ گھوڑے سواروں کے وزن سے تھک نہ جائیں۔سامان اونٹوں پر لدا ہوتا تھا، عورتیں اور بچے ساتھ ہوتے تھے انہیں اونٹوں پر سوار کرایاجاتا تھا۔
اس وقت کی اسلامی فوج کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ فوج ہے،اس کوقافلہ سمجھا جاتا تھا لیکن اس فوج کی ایک تنظیم تھی۔آگے ہراول دستہ ہوتا تھا جسے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا پورا احساس ہوتا تھا، اس کے پیچھے فوج کا ایک بڑا حصہ، اس کے پیچھے عورتیں اور بچے اور اس کے پیچھے عقب کی حفاظت کیلئے ایک دستہ ہوتا تھا۔اسی طرح پہلوؤں کی حفاظت کا بھی انتظام ہوتا تھا۔
یہ فوج عموماً دشوار رستہ اختیار کیا کرتی تھی۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا تھا کہ منزل تک کا راستہ چھوٹا ہو جاتا تھا، دوسرا فائدہ یہ کہ راستے میں دشمن کے حملے کا خطرہ نہیں رہتا تھا، اگر دشمن حملہ کر بھی دیتا تو اسلامی فوج فوراً علاقے کی دشواریوں یعنی نشیب و فراز وغیرہ میں روپوش ہو جاتی تھی، دشمن ایسے علاقے میں لڑنے کی جرات نہیں کرتا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages