Featured Post

Khalid001

21 March 2020

Khalid105


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  105
ایک ہزار تین سو باون سال پہلے ماہ اگست کے ایک روز جب مدینہ میں مسلمان اجنادین کی فتح پر خوشیاں منا رہے تھے ،مدینہ سے دور، بہت ہی دور، شمال میں روم کی شہنشاہی کے ایک اہم شہر حمص پر مایوسی اور ماتم کی سیاہ کالی گھٹا چھا گئی تھی۔رومیوں کے شہنشاہ پرقل کے محل میں قہر اور غضب کی آوازیں گرج رہی تھیں۔بصرہ کی شکست کی خبر لے کر جانے والا قاصد اگر وہاں سے کھسک نہ آتا تو ہرقل غصے میں اس کا سر کاٹ دیتا۔
’’ہمارے سپہ سالار وردان کو کیا ہو گیا تھا؟‘‘شہنشاہِ ہرقل نے غضب ناک آواز میں پوچھا۔
’’مارا گیا ہے۔‘‘ … اسے کانپتی ہوئی آواز میں جواب ملا۔
’’اور وہ قُبقُلار؟ … وہ کہتا ہے کہ میری تلوار کی ہوا سے ہی دشمن کٹ جاتا ہے۔‘‘
’’وہ بھی مارا گیا ہے۔‘‘
’’اورفاموس؟‘‘
’’وہ لڑائی سے پہلے ذاتی مقابلے میں مارا گیا تھا۔‘‘
شہنشاہِ ہرقل نے ان تمام سالاروں کے نام لیے جو اجنادین کی لڑائی میں شامل تھے،اور جن کی بہادری اور جنگی قیادت پر اسے بھروسہ تھا۔اسے یہی جواب ملا کہ مارا گیا ہے یا شدید زخمی ہو گیا ہے۔وہ سب ہلاک یا زخمی نہیں ہوئے تھے۔ان میں سے بعض بھاگ گئے تھے۔
’’… اور اب مسلمان دمشق کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘ … شہنشاہِ ہرقل کو بتایا گیا۔
’’دمشق کی طرف؟‘‘ … اس نے ہڑبڑا کر کہا۔ … ’’نہیں … نہیں … میں انہیں دمشق تک پہنچنے نہیں دوں گا۔ وہ دمشق ہم سے نہیں لے سکتے۔ وہاں میرا شیر موجود ہے … تُوما … دمشق کا سالار تُوما ہے۔‘‘
ہر قل تیز تیز قدم اٹھاتا اپنے شاہانہ کمرے میں چل رہا تھا اور اپنی ایک ہتھیلی پر دوسرے ہاتھ کے مکے مارے جا رہا تھا۔اس کے خوشامدی، درباریوں ، خاص خادموں اور اس کی خدمت میں حاضر رہنے والی بڑی حسین لڑکیوں کو معلوم تھا کہ جب شہنشاہ پریشانی ، یاسےّت ، اور غصے کی کیفیت میں ہوتا ہے تو سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی شراب پیش کرتی ہے۔
ایک لڑکی جو باریک ریشمی لباس میں برہنہ لگتی تھی، چاندی کے پیالے میں شراب لے کر آئی، اور اشتعال انگیز ادا سے ہرقل کے سامنے گئی۔ہرقل بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح پھنکار رہا تھا۔اس نے لڑکی کے ہاتھوں میں طشتری دیکھ کر بڑی زور سے طشتری کے نیچے ہاتھ مارا۔ شراب کا پیالہ لڑکی کے منہ پر لگا، طشتری چھت تک جا کر واپس آئی۔ ہرقل نے لڑکی کو دھکا دیا تووہ دروازے میں جا پڑی۔
’’شراب … شراب … شراب!‘‘ … ہرقل نے غصے سے کہا۔ … ’’تم نے شراب اور حسین لڑکیوں سے دل بہلانے اور بدمست رہنے والوں کا انجام نہیں دیکھا؟تم نہیں دیکھ رہے وہ سلطنتِ روم کو ذلت و رسوائی میں پھینک رہے ہیں؟ … اور جنہوں نے ہمیں شکست دی ہے انہوں نے اپنے اوپر شراب حرام کر رکھی ہے۔‘‘ … اس نے حکم دیا۔ … ’’گھوڑا تیار کرو۔ میں انطاکیہ جارہا ہوں،اور میں اس وقت وہاں سے واپس آؤں گا جب میں آخری مسلمان کی بھی لاش دیکھ لوں گا۔‘‘
بادشاہ جنگ کیلئے جب کوچ کرتے تھے تو اس کیلئے بہت سے انتظامات کیے جاتے تھے ۔محافظ دستہ اور بادشاہ کی من پسند عورتیں ساتھ جاتی تھیں۔ایسے انتظامات ہر وقت تیار رہتے تھے۔مگر اب کے ہرقل تو جیسے اُڑ کر انطاکیہ پہنچنے کی کوشش میں تھا۔اس کے کوچ کے انتظامات کرنے والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی،اور وہ انتظامات میں مصرو ف ہو گئے۔
…………bnb…………


خالدؓاجنادین میں سات روز رہے۔انہوں نے اپنے سالاروں سے کہا کہ دشمن کو کہیں سستانے اور دم لینے کی مہلت نہ دو۔اسے اتنی مہلت نہ دو کہ وہ اپنی بکھری ہوئی جمیعت کو اکٹھا کر سکے۔اس اصول کے تحت دمشق کی طرف ان کا کوچ بہت تیز تھا۔انہوں نے اپنے جاسوس پہلے بھیج دیئے تھے۔اب خالدؓ نے جاسوسی کا نظام مزید بہتر بنا دیاتھا۔وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کر سکتے تھے کہ قیصرِ روم کی سلطنت بہت وسیع ہے، اور اس کے مطابق اس کی فوج بھی زیادہ ہے اور برتر بھی۔ایسی فوج پر غلبہ پانے کیلئے اس کے احوال و کوائف کا قبل از وقت معلوم کرنا ضروری تھا،اور اتنا ہی ضروری ان علاقوں کے خدوخال کا جاننا تھا جہاں جہاں اس فوج کے دستے موجود تھے ان کی نقل و حرکت کے متعلق قبل از وقت معلومات حاصل کرنا بھی سودمند تھا۔
راستے میں بیت المقدس آتا تھا۔خالدؓ نے اس اہم شہر کو نظر انداز کر دیا اورا س سے کچھ فاصلے سے آگے چلے گئے۔لیکن ایک مقام کو نظر انداز کرنامشکل تھا۔اس بستی کا نام فحل تھا جو ایک مضبوط قلعہ تھا۔خالدؓاس کے قریب پہنچے تو ایک فقیر نے جو پاگل لگتا تھا، خالدؓ کا راستہ روک لیا۔ خالدؓبن ولید نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔
’’کیاخبرلائے ہو؟‘‘ … خالدؓ نے اس سے پوچھا۔
وہ خالدؓ کا جاسوس تھا۔
’’اس بستی کا نام فحل ہے۔‘‘ … جاسوس نے کہا۔ … ’’آپ دیکھ رہے ہیں یہ قلعہ ہے۔اس کے اندر فوج ہے۔باہر کچھ بھی نہیں۔رومیوں سے ہماری جہاں کہیں بھی ٹکر ہو گی، اس قلعے سے رومیوں کو کمک اور دیگر مدد ملے گی۔‘‘
خالدؓ نے اس قلعے کا محاصرہ ضروری نہ سمجھا۔وہ اپنی نفری کم نہیں کرنا چاہتے تھے۔دمشق کی تسخیر کوئی معمولی مہم نہیں تھی۔بلکہ اپنی شکست کے امکانات بڑھتے جا رہے تھے،خالدؓ نے اپنے ایک نائب سالار ابوالاعور کو بلایا اور اسے حکم دیا کہ وہ ایک سوار دستہ اپنے ساتھ رکھے اور فحل کے قریب کہیں تیاری کی حالت میں موجودرہے۔یہاں سے فوج باہر نکلے تو تیروں کی بوچھاڑیں مارے اور کسی کو باہر نہ نکلنے دے۔
خالدؓ وہاں رُکے نہیں۔ابوالاعور نے ایک سوار دستہ وہاں روک لیا اور اس قلعہ بندبستی کے جتنے دروازے تھے ان سب کے سامنے سوار متعین کر دیئے۔سواروں کو گھوڑوں سے اترنے کی اور محدود سے فاصلے تک گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی گئی۔
…………bnb…………


خالدؓ کی فوج جس کی تعداد بتیس ہزار سے کم ہو گئی تھی ،بظاہر بے ترتیب قافلے کی صورت میں دمشق کی جانب جا رہی تھی ، لیکناس کے ہر دستے کو اپنے فرائض کا علم تھا۔ان میں ہراول دستہ بھی تھا اور ان میں عقب اور پہلوؤں کے حفاظتی دستے بھی تھے اور یہ تمام دستے چوکنے ہو کر چلے جارہے تھے،کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت ان پر حملہ ہو سکتا تھا،داؤد عیسائی نے خالدؓکو خبردار کیا تھا کہ وہ تو ابھی روم کی شہنشاہی میں داخل ہوئے ہیں اور اس شہنشاہی کی حدود بہت وسیع ہیں۔
اس وقت تک رومی فوج کے دستے جہاں جہاں تھے وہاں ہرقل کا یہ حکم پہنچ چکا تھا کہ مسلمانوں کی فوج کو روکاجائے۔اس حکم کے تحت دمشق کی طرف جانے والے راستوں پر رومیوں نے اپنے جاسوس بھیج دیئے تھے ۔دریائے یرموک کے کنارے واقوصہ ایک قصبہ تھا۔کسی رومی جاسوس نے خالدؓ کے لشکر کو آتے دیکھ لیااور پیچھے جاکر اطلاع دی۔ جب خالدؓ واقوصہ کے قریب پہنچے تو رومی فوج کے بہت سے دستے خالدؓکا راستہ روکنے کیلئے تیار کھڑے تھے۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اجنادین کی لڑائی سے بھاگے ہوئے کئی رومی فوجی واقوصہ پہنچ چکے تھے۔انہیں بھی ان دستوں میں شامل کر لیا گیا تھا جو مسلمانوں کو روکنے کیلئے جنگی ترتیب میں کھڑے تھے مگر ان میں لڑنے کا جذبہ سرد تھا۔ کیونکہ ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا،جن کمانداروں اور سپاہیوں نے ابھی مسلمانوں سے جنگ نہیں لڑی تھی ، وہ اجنادین کے بھگوڑوں سے پوچھتے تھے کہ مسلمان لڑنے میں کیسے ہیں؟
’’دیکھ لو!‘‘ … انہیں کچھ اس قسم کے جواب ملے۔ … ’’تیس ہزار نے نوّے ہزار کو اس طرح شکست دی ہے کہ سپہ سالار سے چھوٹے سے سالار تک ایک بھی زندہ نہیں … انہوں نے ہماری آدھی نفری مار ڈالی ہے۔ زخمیوں کا کوئی حساب ہی نہیں … مت پوچھو دوستو، مت پوچھو۔ میں تو انہیں انسان سمجھتا ہی نہیں۔ان کے پاس کوئی جادو ہے یا وہ جنات جیسی کوئی مخلوق ہیں … ان کا ایک ایک آدمی دس دس آدمیوں کا مقابلہ کرتا ہے … ان کے سامنے کوئی جم کر لڑ ہی نہیں سکتا … پوچھتے کیا ہو، وہ آرہے ہیں۔خود دیکھ لینا۔‘‘
’’وہ‘‘ … آئے اور … ’’انہوں‘‘نے دیکھ لیا۔
دیکھ یہ لیا کہ مسلمان جو بے ترتیب قافلے کی طرح آرہے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے وہ جنگی ترتیب میں ہو گئے۔عورتیں اور بچے پیچھے رہ گئے،اور ان کا حفاظتی دستہ اپنی جگہ پر چلا گیا۔خالدؓ اپنے محافظوں وغیرہ کے ساتھ آگے ہو گئے اور دونوں فوجیں آمنے سامنے آگئیں۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ خالدؓکی جنگی چالوں کااور مجاہدین کو لڑانے کا انداز ایسا تھا کہ دشمن بوکھلا جاتا پھر مسلمانوں کے حملے کی شدت سے دشمن کے سپاہیوں پر خوف طاری ہو جاتا تھا۔ان میں سے جو سپاہی بھاگ نکلتے تھے ، وہ جہاں جاتے اس خوف کو اپنے ساتھ لے جاتے، اور فوج میں پھیلاتے تھے۔یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ بلاوجہ نہیں بھاگے، وہ اس خوف کو مبالغے سے اور ایسے طریقے سے بیان کرتے کہ سننے والے یہ سجھ لیتے کہ مسلمانوں میں کوئی مافوق الفطرت قوت ہے۔اس طرح خالدؓنے دشمن پر ایک نفسیاتی اثر ڈال رکھا تھا جو ہر میدان میں ان کے کام آتا تھا۔
یہ قوت مافوق الفطرت ہی تھی جو عقیدے کی سچائی ، ایمان کی پختگی اور جذبے کی شدت سے پیدا ہوئی تھی۔مسلمان اﷲکے حکم سے لڑتے تھے ، ان کے دلوں میں کوئی ذاتی غرض یا لالچ نہیں تھا۔
واقوصہ کے میدان میں جب رومی مسلمانوں کے مقابلے میں آئے تو ان کے انداز میں جوش و خروش تھا اور جارحیت بھی شدید نظر آتی تھی لیکن خالدؓنے جب حملہ کیا تو رومیوں میں لڑنے کا جذبہ اتنا شدید نہ تھا جتنا ہونا چاہیے تھا۔خالدؓنے سامنے سے حملہ کیا اور دونوں پہلوؤں کے کچھ دستوں کو پھیلا کر اس حکم کے ساتھ آگے بڑھایا کہ دشمن کے پہلوؤں کی طرف جاکر حملہ کریں۔
مؤرخوں کے مطابق رومی سامنے سے حملے کو روکنے کیلئے ایسی صورت اختیار کر بیٹھے کہ اپنے پہلوؤں کو نہ دیکھ سکے۔ان پر جب دائیں اور بائیں سے بھی حملہ ہوا اور ان کے دائیں بائیں کے دستے مسلمانوں کے دباؤ سے اندر کو سکڑنے اور سمٹنے لگے تو وہ گھبرا گئے،اور ان پر وہ خوف طاری ہو گیا جوخالدؓ کے نام سے منسوب تھا،اس خوف نے رومیوں کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔
ان رومی دستوں کیلئے حکم یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ دنوں تک روکے رکھیں۔وجہ یہ تھی کہ دمشق میں جو رومی فوج تھی اس میں دوسری جگہوں سے دستے بھیج کر اضافہ کیا جا رہا تھا۔ہرقل ا س کوشش میں تھا کہ اس کے یہ دستے مسلمانوں سے پہلے دمشق پہنچ جائیں۔اس کیلئے ضروری تھا کہ واقوصہ میں مسلمانوں کی فوج کو روک لیا جاتا اور ایسی لڑائی لڑی جاتی جو طول پکڑ جاتی۔ایسی لڑائی کے طور طریقے مختلف ہوتے ہیں۔خالدؓ نے رومیوں کو کچھ سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔رومی بے شمار لاشیں اور زخمی میدان میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔
خالدؓوہاں اتنا ہی رُکے کہ اپنے شہیدوں کا جنازہ پڑھ کر دفن کیا، زخمیوں کو ساتھ لیا،اور مالِ غنیمت اکٹھا کیا اور چل پڑے۔
یہ اگست ۶۳۴ء کا تیسرا ہفتہ (جمادی الآخر ۱۳ ھ) تھا۔
…………bnb…………


شہنشاہِ ہرقل انطاکیہ جا پہنچا اور وہاں اپنا ہیڈ کوارٹر بنالیا۔حمص سے انطاکیہ کو روانہ ہونے سے پہلے اس نے دمشق کی رومی فوج کے سالاروں … توما، ہربیس، اور عزازیر … کو پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ فوراً انطاکیہ پہنچیں ۔ہرقل کے پہنچتے ہی تینوں سالار انطاکیہ پہنچ گئے۔
’’کیا تم نے سن لیا ہے کہ تمہارے سالار وردان اور قبقلار بھی مارے جا چکے ہیں؟‘‘ … شہنشاہِ ہرقل نے ان سے پوچھا۔ … ’’کیا تم بھی قیصرِ روم کی عظمت کو ذہن سے اتار دو گے؟کیا تمہاری نظروں میں بھی صلیب کا تقدس ختم ہو چکا ہے؟‘‘
’’مسلمان ابھی تو ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔‘‘ … سالار توما نے کہا۔ … ’’ہمیں ابھی نہ آپ نے آزمایا ہے نہ مسلمانوں نے۔انہیں آنے دیں۔میں آپ کی بیٹی کے آگے شرمسار نہیں ہوں گا۔‘‘
توما شہنشاہِ ہرقل کا داماد تھااور وہ دمشق کا سپہ سالار تھا۔بڑا پکا مذہبی آدمی تھا اور اپنے مذہب عیسائیت کے فروغ اور تحفظ کیلئے سرگرم رہتا تھا۔
’’توما!‘‘ … ہرقل نے اسے کہا۔ … ’’تم مذہب میں اتنے مگن رہتے ہو کہ دمشق کے دفاع کی طرف پوری توجہ نہیں دے رہے۔‘‘
’’میں تو یہ سمجھتاہوں کہ مذہب نہ رہا تو دمشق بھی نہیں رہے گا۔‘‘ … توما نے کہا۔ … ’’کیا آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کے خلاف جنگ بھی مذہب میں شامل ہے؟ … میں یہاں اکیلا تو نہیں۔جنگی معاملے سالار ہربیس کے پاس ہیں،اور سالار عزازیر بھی میرے ساتھ ہے۔کیا عزازیر فارسیوں کو اور پھر ترکوں کوکئی لڑائیوں میں شکستیں نہیں دے چکا ہے؟‘‘
’’جتنا بھروسہ مجھے عزازیر پر ہے اتنا تم دونوں پر نہیں۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’عزازیر تجربہ کار سالار ہے۔تم دونوں کوابھی ثابت کرناہے کہ تم عزازیر کے ہم پلہ ہو۔‘‘
عزازیر رومیوں کا بڑا ہی قابل اور دلیر سالار تھا۔اس نے بہت سی لڑائیاں لڑیں اور ہر میدان میں فتح حاصل کی تھی،عربی زبان پر اسے اتنا عبور حاصل تھا کہ وہ عربی بولتا تو شک ہوتا تھا کہ عرب کا رہنے والا ہے۔ دمشق کی فوج کا کمانڈر دراصل وہی تھا۔
انطاکیہ میں کُلوس نام کا ایک رومی سالار تھا۔اسے ہرقل نے پانچ ہزارنفری کی فوج دے کر دمشق جانے کو کہا۔
’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘ … کُلوس نے کہا۔ … ’’میں حلفیہ کہتا ہوں کہ میں آپ کے سامنے اس وقت آؤں گا جب میری برچھی کی انّی کے ساتھ مدینہ کے سالار خالد بن ولید کا سر ہو گا۔‘‘
’’تم مجھے صرف حلف سے خوش نہیں کر سکتے۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’میں صرف ابنِ ولید کا سر نہیں، تمام مسلمانوں کی لاشیں دیکھناچاہتا ہوں … فوراً دمشق پہنچو۔ وہاں کمک کی ضرورت ہے۔سب چلے جاؤ اور دمشق کو بچاؤ۔‘‘
تمام سالار فوراً روانہ ہو گئے۔ ہرقل کا ایک مشیرِ خاص ہرقل کے پاس موجود رہا۔
’’شہنشاہِ ہرقل!‘‘ … اس مشیر نے کہا۔ … ’’سالار کُلوس کو دمشق نہ بھیجتے تو اچھا تھا۔اگر اسے بھیجنا ہی تھا تو سالار عزازیر کو دمشق سے نکال لیتے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیا شہنشاہ بھول گئے ہیں کہ ان دونوں میں ایسی چپقلش ہے جو دشمنی کی صورت اختیار کر جایا کرتی ہے۔‘‘ … مشیر نے کہا۔ … ’’ان کی آپس میں بول چال بند ہے … دراصل کُلوس عزازیر کی اچھی شہرت سے حسد کرتا ہے، کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‘‘
’’کیا تم یہ خطرہ محسوس کر رہے ہوکہ وہ لڑائی کے دروان ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے؟‘‘ … ہرقل نے پوچھا۔
’’ہاں شہنشاہِ روم!‘‘ … مشیر نے کہا۔ … ’’میں یہی خطرہ محسوس کررہا ہوں۔‘‘
’’ایسا نہیں ہوگا۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’انہیں یہ احساس تو ضرور ہوگا کہ وہ مل کرنہ لڑے تو بڑی بُری شکست کھائیں گے،اور وہ مجھے خوش کرنے اور ایک دوسرے کو میری نظروں میں گرانے کیلئے جوش و خروش سے لڑیں گے……اور اگر انہوں نے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو انہیں یقیناًمعلوم ہو کہ ان کی سزا کیا ہو گی۔‘‘
مشیر خاموش ہو گیا لیکن اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار پہلے سے زیادہ ہو گئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages