Featured Post

Khalid001

21 March 2020

Khalid106


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  106
خالدؓ کے مجاہدین دمشق کی جانب بڑھے جا رہے تھے۔
رومی سالار عزازیر نے دمشق پہنچتے ہی شہر کے دفاع کو مضبوط بنانا شروع کر دیا۔دمشق کی شہرِ پناہ کے چھ دروازے تھے اور ہر دروازے کا ایک نام تھا۔عزازیر نے دمشق کو محاصرے سے بچانے کا یہ انتظام کیا کہ زیادہ فوج شہر کے باہر رکھی تاکہ مسلمانوں کو شہر تک پہنچنے ہی نہ دیا جائے۔انہیں شہر سے باہر ختم کر دیا جائے۔شہر میں خاص طور پر منتخب کیے ہوئے دستے رکھے گئے۔ان میں ایک محافظ دستہ تھا جسے جانباز دستہ کہا جاتا تھا۔
اس ایک میل سے کچھ زیادہ لمبے اور چار فرلانگ چوڑے شہر کی آبادی میں اس خبرنے ہڑبونگ بپاکردی تھی کہ مسلمان شہرکو محاصرے میں لینے آرہے ہیں۔اس خبرسے پہلے مسلمانوں کی دہشت شہر میں داخل ہو چکی تھی۔سالار شہریوں کو بھی شہر کے دفاع کیلئے تیار کر رہے تھے لیکن شہریوں سے انہیں تعاون نہیں مل رہا تھاشہری تو اپنا مال و دولت اور اپنی جوان لڑکیوں کو چھپاتے پھر رہے تھے۔ان میں سے بعض نے اپنے کنبوں کو اپنے ساتھ لے کر بھاگنے کی بھی کوشش کی لیکن فوج نے انہیں روک دیا۔
مجاہدین کا لشکر دمشق سے زیادہ دور نہیں رہ گیا تھا۔جاسوس جو آگے گئے ہوئے تھے وہ باری باری پیچھے آتے ، رپورٹ دیتے اور پھر آگے چلے جاتے تھے۔اب مجاہدین کی جذباتی کیفیت ایسی تھی جیسے ان کا کوئی گھر نہ ہو، کوئی وطن نہ ہو، بیوی نہ ہو، بچہ نہ ہو، بس اﷲہی اﷲہو، جس کے نام کا وہ ورد کرتے جاتے یا چند مجاہدین مل کرکوئی جنگی ترانہ گاتے تھے۔انہوں نے اپنا رشتہ اﷲکے ساتھ اور رسول اﷲﷺکی روحِ مقدس کے ساتھ جوڑلیا تھا۔انہوں نے اپنی جانیں اﷲکی قربان گاہ پر رکھ دیں تھیں۔رومیوں کیلئے وہ جسم تھے لیکن اپنے لیے وہ روحیں تھیں، اور اپنے جسموں اور تکالیف اور ضروریات سے وہ بے نیاز ہو گئے تھے۔ انہیں تو جیسے یہ احساس بھی نہیں رہا تھا کہ ان کی تعداد بہت کم ہے اوردشمن کی تعداد کئی گنا ہے۔
ان کے سپہ سالار خالدؓ کی جذباتی کیفیت بھی ایسی ہی تھی لیکن تاریخ کے اس عظیم جرنیل کی نگاہ حقائق پر تھی۔وہ سوچتے رہتے تھے کہ اتنی کم نفری کو اتنی زیادہ نفری کے خلاف کس طرح استعمال کیا جائے کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں۔انہوں نے رومیوں کو دیکھ لیا اور تسلیم کر لیا تھا کہ یہ ایک عمدہ فوج ہے۔انہوں نے یہ بھی پیشِ نظر رکھا تھا کہ رومی اپنے ملک میں ہیں اور جو سہولتیں انہیں حاصل ہیں وہ ہمیں نہیں مل سکتیں۔شکست کی صورت میں مسلمانوں کیلئے وہاں کوئی پناہ نہیں تھی۔اس صورت میں انہیں قید یا قتل ہونا تھا۔ان احوال و کوائف کے پیشِ نظر خالدؓ نے اپنی فوج میں کچھ تبدیلیاں کی تھیں۔
ایک تو انہوں نے جاسوسی کے انتظامات اور ذرائع کو پہلے سے بہتر بنا کر انہیں منظم کردیا،چند اور تبدیلیوں میں قابلِ ذکر یہ ہے کہ خالدؓنے ایک سوار دستہ بنایا جس میں چار ہزار منتخب گھوڑ سوار رکھے۔یہ تیز رفتار اور متحرک دستہ تھا۔اسے طلیعہ کہتے تھے۔متحرک سے مراد یہ ہے کہ اس رسالے نے جم کر نہیں بلکہ بھاگتے دوڑتے ، اور اِدھر اُدھر ہو جاتے اور دشمن کو گھما پھرا کر لڑاتے جنگ میں شریک رہنا تھا۔
خالدؓ نے اس دستے کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھی،دمشق کی جانب کوچ کے دوران یہ سوار دستہ مسلمانوں کے لشکر کے ہراول میں تھا۔
کوچ کا چوتھا دن تھا۔ہراول کا یہ سوار دستہ ایک بستی مراج الصفر کے قریب پہنچا تو آگے گئے ہوئے دو جاسوس آئے۔خالدؓ اس دستے کے ساتھ تھے۔جاسوسوں نے انہیں بتایا کہ تھوڑی دور آگے رومی فوج تیاری کی حالت میں پڑاؤ کیے ہوئے ہے۔جاسوسوں کے اندازے کے مطابق وہ مقام دمشق سے بارہ تیرہ میل دور تھا۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس رومی فوج کی تعداد بارہ ہزار تھی،اور اس میں زیادہ تر سوار تھے،اس کے دو سالار تھے،ایک عزازیر اور دوسرا کلوس۔یہ وہی سالار تھے جن کی آپس میں دشمنی تھی۔انہیں دمشق کے سپہ سالارتوما نے اس منصوبے کے تحت بھیجا تھا کہ مسلمانوں کے لشکر کو دمشق تک نہ پہنچنے دیا جائے۔اگر اسے تباہ نہ کیا جا سکے تو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ واپس چلاجائے۔اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اتنی سی کامیابی ہر قیمت پر حاصل کی جائے کہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ دن دمشق سے دور رکھا جائے تاکہ دمشق کے دفاع کیلئے مزید دستے وہاں پہنچائے جا سکیں اور شہر میں اتنی خوراک پہنچا کر جمع کی جا سکے کہ محاصرہ طول پکڑ اجائے تو شہر میں قحط کی صورت پیدا نہ ہو۔
خالدؓ کیلئے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ ان کے ساتھ ہراول کا صرف یہ سوار دستہ تھا جس کی نفری چار ہزار تھی۔باقی لشکر ابھی بہت دور تھا۔ہراول کی رفتار تیز تھی۔دشمن کی موجودگی کی اطلاع پر خالدؓ نے رفتار سست کردی۔اس کا ایک مقصد یہ تو تھا کہ پورا لشکر آجائے،اور دوسرا یہ کہ دشمن کے قریب شام کو پہنچیں تاکہ رات کو آرام کیا جاسکے،اور علی الصباح لڑائی شروع کی جائے۔
اگر جاسوس آگے گئے ہوئے نہ ہوتے تو خالدؓ لاعلمی میں چار ہزار سواروں کے ساتھ دشمن کے سامنے جا پہنچتے۔پھر صورتِ حال ان کے حق میں نہ رہتی۔رومیوں کے اس بارہ ہزار لشکر نے بڑی اچھی جگہ پڑاؤ ڈالاہوا تھا،وہاں ایک وادی تھی جس میں گھنے درخت تھے اور ایک پہاڑی تھی۔رومی اس پہاڑی کے سامنے اور وادی کے منہ میں تھے،انہوں نے لڑائی کیلئے یہ جگہ منتخب کی تھی جو ان کو کئی جنگی فائدے دے سکتی تھی۔مسلمان اس پھندے میں آسکتے تھے۔
خالدؓ نے اپنی رفتار ایسی رکھی کہ سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے دشمن کے سامنے پہنچے۔دشمن سے ان کا فاصلہ ایک میل کے لگ بھگ تھا۔خالدؓ نے اپنے دستے کو روک لیا اور وہیں پڑاؤ کرنے کو کہا۔سورج غروب ہو گیا اس لیے یہ خطرہ نہ رہا کہ دشمن حملہ کردے گا۔
جمادی الثانی ۱۳ ہجری کے چاند کی اٹھارہویں تاریخ تھی۔آدھی رات کو چاندنی بڑی صاف تھی۔خالدؓپاپیادہ آگے چلے گئے۔رومیوں کے سوار گشتی سنتری گشت پر تھے۔خالدؓ ان سے بچتے پہاڑی تک گئے۔وہ زمین کے خدوخال کا جائزہ لے رہے تھے۔رات گزرتے ہی انہیں یہاں لڑنا تھا،وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے سوار دستے کیلئے بھاگنے دوڑنے کی جگہ ہے یا نہیں۔
خالدؓکیلئےپریشانی یہ تھی کہ ان کا لشکر بہت دور تھا۔انہوں نے پیغام تو بھیج دیاتھا کہ رفتار تیز کریں۔پھر بھی لشکر جلدی نہیں پہنچ سکتا تھا۔اس کی رفتار تو پہلے ہی تیز تھی۔مسلمانوں کا کوچ ہوتا ہی تیز تھا۔
…………bnb…………

۱۹ اگست ۶۳۴ء (۱۹جمادی الثانی ۱۳ ھ) کی صبح طلوع ہوئی۔فجر کی نمازسے فارغ ہوتے ہی خالدؓنے اپنے سوار دستے کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا۔رومی بھی تیاری میں آگئے۔خالدؓ نے رومیوں کی ترتیب دیکھی تو انہیں شک ہو اکہ رومی حملے میں پہل نہیں کرنا چاہتے۔خالدؓ بھی پہل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔انہیں اتنا وقت درکار تھا کہ باقی لشکر پہنچ جائے۔
خالدؓنے رومیوں کا ارادہ معلوم کرنے کیلئے اپنے سوار دستے کے ایک حصے کو حملہ کرکے پیچھے یا دائیں بائیں نکل جانے کا حکم دیا،تقریباًایک ہزار گھوڑے سمندری طوفان کی موجوں کی طرح گئے ۔رومیوں نے حملہ روکنے کے بجائے یہ حرکت کی کہ پیچھے ہٹنے لگے۔مسلمان سوار اس خیال سے آگے نہ گئے کہ دشمن گھیرے میں لے لے گا،ویسے بھی انہیں آمنے سامنے کی لڑائی نہیں لڑنی تھی۔وہ جس رفتار سے گئے تھے اسی رفتار سے گھوڑے موڑتے ہوئے دور کا چکر کاٹ کر آگئے۔
چند ایک سالار خالدؓکے ساتھ تھے۔ سب کو توقع تھی کہ اب رومی حملے کیلئے آئیں گے۔ان کی فوج تین گنا تھی مگر انہوں نے کوئی جوابی حرکت نہیں کی۔
’’خدا کی قسم!رومی کچھ اور چاہتے ہیں۔‘‘ … خالدؓ نے اپنے سالاروں سے کہا۔ … ’’یہ ہمارے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں اور میں اپنے لشکر کے انتظار میں ہوں۔‘‘
’’ان کے ساتھ کھیلو ابنِ ولید!‘‘ … سالار ضرار بن الازور نے کہا۔ … ’’یہ لڑنا نہیں چاہتے۔ہمارا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’اور انہیں شاید معلوم نہیں کہ ہمارا لشکر ابھی دور ہے۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔
’’یہ بھی سوچ ابنِ ولید!‘‘ … سالار شرحبیلؓ نے کہا۔ … ’’کیا یہ چوکس نہیں کہ ہمارا لشکر شاید کسی اور طرف سے ان پر حملہ کر دے گا؟‘‘
’’میں ان کا دھیان پھیر دیتا ہوں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔
رومیوں کی توجہ اپنی طرف کرنے کیلئے خالدؓ نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ دشمن کو انفرادی مقابلوں کیلئے للکارا۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اس دور میں جب فوجوں کی لڑائی سے پہلے دونوں فوجوں میں سے ایک ایک آدمی سامنے آتا اور ان میں انفرادی لڑائی ہوتی تھی۔
خالدؓنے ضرار بن الازور، شرحبیلؓ بن حسنہ اور امیرالمومنین ابوبکرؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن کو مقابلے کیلئے آگے کیا۔
…………bnb…………


یہ تینوں سالار تھے۔وہ دونوں فوجوں کے درمیان جا کر گھوڑے دوڑانے اور دشمن کو للکارنے لگے۔رومیوں کی صفوں سے تین سوار نکلے۔وہ بھی سالاری کے رتبے کے آدمی تھے۔ رومی جنگجو قوم تھی۔اس قوم نے تاریخ ساز تیغ زن اور شہسوار پیدا کیے ہیں۔ خالدؓ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں جو رومی نکلے وہ زبردست لڑاکے تھے۔
کھلے میدان میں مقابلے شروع ہو گئے۔یہ تین جوڑیوں کامقابلہ تھا۔تینوں جوڑ الگ ہو گئے۔گھوڑے دوڑ رہے تھے گھوم رہے تھے،اور برچھیوں سے برچھیاں ٹکرا رہی تھیں۔دونوں فوجوں کے نعرے گرج رہے تھے ۔گھوڑے اپنی اُڑائی ہوئی گرد میں چھپتے جا رہے تھے ۔پھر گرد سے ایک گھوڑا نکلا۔اس کا سوار ایک طرف لڑھک گیا تھا۔گھوڑا بے لگام ہو کر اِدھر اُدھر دوڑ رہا تھا۔ وہ ایک رومی سالار تھا جو بڑا گہرا زخم کھا کر گھوڑے سے گر رہا تھا۔ رومیوں کی صفوں سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا نکلا اور گرتے ہوئے سوار کے پیچھے گیا۔ اس نے گھوڑے کے سوار کو گھوڑے کی پیٹھ پر کردیا لیکن وہ مر چکا تھا۔
تھوڑی ہی دیر بعد ایک اور رومی سوار گرا پھر تیسرا بھی گر پڑا،تینوں رومی مارے گئے۔ضرار بن الازور کا انداز وہی تھا کہ مقابلے میں اترتے ہی انہوں نے خود، زِرہ اور قمیض اتار کر پھینک دی تھی۔مقابلہ ختم ہوا تو تین رومیوں کی لاشیں ایک دوسرے سے دور دور پڑی تھیں۔ضرار، شرحبیلؓ اور عبدالرحمٰن رومیون کی اگلی صف کے قریب جا کر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے۔
’’رومیو! یہ لاشیں اٹھاؤ۔آگے آؤ بزدلو!‘‘
’’ہے کوئی اور موت کا طلبگار!‘‘
’’ہم رومیوں کے قاتل ہیں۔‘‘
’’رومیو!یہ زمین تم پر تنگ ہو گئی ہے۔‘‘
ادھر مجاہدینِ اسلام نے وہ شوروغل بپا کر رکھا تھا کہ آسمان ہلنے لگتا تھا۔
ایک اور آدمی گھوڑا دوڑاتا میدان میں آیااور اس نے تلوار لہرا کر گھوڑا چکر میں دوڑایا۔
عبدالرحمٰن بن ابی بکر اس کی طرف گئے تو ضرار نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور چلّائے۔ … ’’پیچھے رہ ابی بکر کے بیٹے!اسے میرے لیے چھوڑ دے۔‘‘ … وہ عبدالرحمٰن کے قریب سے گزر گئے۔رومی نے گھوڑا ان کی طرف موڑا لیکن ضرار نے اس کے گھوڑے کو پوری طرح سے مڑنے بھی نہیں دیا،انہوں نے تلوار کی نوک رومی کے پہلو میں اتاردی۔لیکن اتنی نہیں کہ وہ گر پڑتا۔ ضرار نے اسے مقابلے کا موقع دیاتھا۔ اس نے مقابلہ کیا لیکن اس کا دم خم پہلے زخم سے ہی ختم ہو چکا تھا۔ ضرار اس کے ساتھ کھیلتے رہے آخر ایسا بھرپوروار کیا کہ وہ گھوڑے پر دُہرا ہوا اور پھر لڑھک کے نیچے آپڑا۔
مدینہ کے ان تین سالاروں کے مقابلے میں چند اور رومی آئے اور مارے گئے۔ضرار، شرحبیلؓ اور عبدالرحمٰن نے صرف یہی نہیں کیا بلکہ رومیوں کی اگلی صف کے قریب جاکر گھوڑے دوڑاتے اور انہیں للکارتے تھے بلکہ کوئی رومی صف سے آگے ہوکر ان کی طنزیہ للکار کا جواب دیتا تو وہ ان تینوں میں سے جس کے سامنے ہوتا اسے برچھی یا تلوار سے ختم کر دیتا۔اس طرح انہوں نے چند ایک رومیوں کو بھی زخمی کیا اور قتل بھی۔
خالدؓ پہلے تو تماشہ دیکھتے رہے پھر وہ جوش میں آگئے۔انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے چلے گئے۔
’’پیچھے آجاؤ تم تینوں!‘‘ … خالدؓ نے بڑی بلند آواز میں کہااور میدان میں گھوڑا دوڑانے لگے۔
ان کے ہاتھ میں برچھی تھی ۔مؤرخوں نے ان کی للکار کے الفاظ لکھے ہیں:
’’میں اسلام کا ستون ہوں۔ …  میں اﷲکے رسول ﷺ کا صحابی ہوں۔ … میں خالد بن ولید ہوں۔ … میں اپنی فوج کا سپہ سالار ہوں۔ … میرے مقابلے میں سپہ سالار آئے۔‘‘
واقدی اور طبری نے لکھا ہے کہ رومی سالاروں عزازیر اور کلوس کے درمیان چپقلش تھی۔جب خالدؓنے کہا کہ ان کے مقابلے میں سپہ سالار آئے تو رومی سالار عزازیر نے اپنے ساتھی سالار کلوس کی طرف دیکھا اور کہا کہ کلوس اپنے آپ کو سپہ سالار سمجھتا ہے، میں تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، کلوس یہ سن کر خاموش رہا اور مقابلے کیلئے آگے بھی نہ بڑھا۔
’’ہمارا سالار کلوس ڈر گیا ہے۔‘‘ … عزازیر نے طنزیہ کہا۔
اس نے کلوس کو کچھ اور طعنے بھی دیئے۔کلوس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ خالدؓکے مقابلے میں ہچکچا رہا ہے۔لیکن عزازیر اس پر طعنوں کے تیر چلا رہا تھا۔ان سے تنگ آکر کلوس نے گھوڑا بڑھایا اور خالدؓکی طرف گیا۔
چار مؤرخوں نے متفقہ طور پر بیان کیا ہے کہ خالدؓ کے ہاتھ میں برچھی تھی۔کلوس ان کی طرف آیا تو اس کا انداز حملے والا نہیں تھا اور اس نے خالدؓ کو کچھ ایسا اشارہ کیا تھا جیسے کوئی بات کرنا چاہتا ہو۔ خالدؓ نے اس کے اشارے کی پرواہ نہیں کی، دشمن کا دوستانہ اشارہ دھوکا بھی ہو سکتا تھا۔ خالدؓنے اپنا گھوڑا اس کی طرف دوڑایا اور اس پر برچھی کا وار کیا۔ کلوس تجربہ کار جنگجو تھا۔اس نے اپنے آپ کو اس وار سے صاف بچا لیا۔
خالدؓ نے آگے جا کر گھوڑا موڑا اور کلوس پر دوسرے حملے کیلئے گئے۔اب کہ انہوں نے سنبھل کر کلوس کو برچھی ماری۔کلوس نے اب پھر ان کا وار بیکار کر دیا۔خالدؓنے برچھی پھینک دی۔کلوس نے دیکھا کہ اب خالدؓ خالی ہاتھ آرہے ہیں۔تو اس نے تلوار تانی۔ خالدؓ نے گھوڑ اس کی طرف لیا اور گھوڑے کو زیادہ آگے نہ جانے دیا، اسے فوراً روک کر موڑا اور کلوس پر آئے۔ کلوس نے گھوڑا موڑا وہ بہتر پوزیشن میں آکروار کرنا چاہتا تھا۔ لیکن خالدؓنے پیچھے سے آکر اسے مضبوطی سے پکڑ لیا اور گھوڑے سے گرا دیا۔ انہوں نے گھوڑے سے کود کر کلوس کو دبوچ لیاکلوس زمین پر پڑا تھا۔اس نے اٹھنے کی ذرا سی بھی کوشش نہ کی۔ خالدؓ نے اپنے محافظوں کو پکارا کہ آئیں ۔دو تین محافظ دوڑے گئے۔خالدؓنے انہیں کہا کہ کلوس کو قیدی بنا لیں۔ اس طرح کلوس مرنے سے بچ گیا اور قیدی بن گیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages