Featured Post

Khalid001

21 March 2020

Khalid107


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  107
جب کلوس کو قیدی بنا کر خالدؓکے محافظ لے گئے تواسے پیچھے لے جانے کے بجائے سامنے کھڑا کر دیا گیا۔تاکہ رومی اسے دیکھتے رہیں۔خالدؓ پھر گھوڑے پر سوار ہو گئے،اور گھوڑا چکر میں دوڑاتے اور رومیوں کو للکارتے تھے اور ان کا مذاق بھی اڑاتے تھے۔ کلوس کا گھوڑا ایک جگہ رُک گیا تھا ۔خالدؓکے اشارے پر ان کا ایک محافظ کلوس کا گھوڑا پکڑ لایا۔
خالدؓ کی للکار کے جواب میں اب رومی سالار عزازیر سامنے آیا۔
’’او کلوس!‘‘ … سالار عزازیر نے خالدؓکو للکارنے کے بجائے اپنے ساتھی سالار کلوس کو للکار کر طعنہ دیا۔ … ’’دیکھ لے اپنا انجام بزدل کمینے!تو مجھے رسوا کر رہا تھا۔ اب میری تلوار کا کمال دیکھ۔‘‘ … اس نے خالدؓ پر حملہ کرنے کے بجائے گھوڑا عام چال سے خالدؓ کی طرف بڑھایا،اور خالدؓ سے طنزیہ لہجے میں کہا۔’’عربی بھائی!میں تجھ سے کچھ پوچھوں گا۔میرے قریب آجا۔‘‘
’’او اﷲکے دشمن!‘‘ … خالدؓ نے اس کے طنز کو سمجھتے ہوئے کہا۔ … ’’میں تیرے قریب گیا تو تیرا سر تیرے جسم کے ساتھ نہیں رہے گا۔تو ہی آجا۔‘‘
عزازیر نے تلوار نکالی اور خالدؓ کی طرف آیالیکن وہ ہنس رہا تھا جیسے خالدؓ کو کچھ سمجھتا ہی نہ ہو۔وہ خالدؓ سے کچھ دور رک گیا۔
’’عربی بھائی!‘‘ … اس نے کہا۔ … ’’تجھے میرے مقابلے میں آنے کیلئے کس نے کہا ہے؟کیا تو نے سوچا نہیں کہ تو میرے ہاتھوں مارا جائے گا تو تیرے ساتھی سالار تیرے بغیر کیاکریں گے؟‘‘
’’اﷲسے دشمنی رکھنے والے رومی!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میرے ساتھیوں نے کیا کردکھایا ہے؟انہیں اگر میری اجازت ہوتی تو یہ تیرے اس سارے لشکر کو اسی طرح کاٹ دیتے جس طرح تیرے یہ ساتھی کٹے ہوئے مردہ پڑے ہیں۔ میرے ساتھی آخرت سے محبت کرتے ہیں۔یہ دنیا اور یہ زندگی تو ان کیلئے کچھ بھی نہیں … تو ہے کون؟میں تجھے نہیں جانتا۔‘‘
’’او بد قسمت عربی!‘‘ … عزازیر نے خالدؓ کا مذاق اڑانے والے لہجے میں کہا۔ … ’’میں اس ملک کا جابر سالار ہوں میں تیرے لیے قہر ہوں۔میں فارسیوں کے لشکر کا قاتل ہوں۔ترکوں کے لشکر کو برباد کرنے والا ہوں۔‘‘
’’میں تیرا نام پوچھ رہا ہوں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔
’’میں موت کا فرشتہ ہوں۔‘‘ … عزازیر نے کہا۔ … ’’میرا نام عزازیر ہے لیکن میں عزرائیل ہوں۔‘‘
’’خد اکی قسم !جس موت کا تو فرشتہ ہے وہ موت تجھے ڈھونڈ رہی ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’وہ تجھے جہنم کے سب سے نیچے والے حصے میں پہنچائے گی۔‘‘
عزازیر کو خالدؓکے اس طنز پر بھڑک اٹھنا چاہیے تھا۔لیکن اس نے اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھا۔
’’میرے عربی بھائی!‘‘ … اس نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’تو کلوس کے ساتھ کیا سلوک کر رہا ہے جو تیری قید میں ہے؟‘‘
’’وہ دیکھ رومی سالار!‘‘ … خالدؓ نے جواب دیا۔ … ’’تیرا سالار بندھا ہوا ہے۔‘‘
عزازیر کا رویہ اور لہجہ اور زیادہ ٹھنڈا ہو گیا۔
’’کیا وجہ ہے کہ تونے ابھی تک اسے قتل نہیں کیا؟‘‘ … عزازیر نے کہا۔ … ’’تو نہیں جانتا کہ رومیوں میں اگر کوئی سب سے زیادہ عیار اور شیطان ہے تو وہ کلوس ہے … تو اسے قتل کیوں نہیں کرتا؟‘‘
’’کوئی وجہ نہیں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’صرف یہ ارادہ ہے کہ تم دونوں کو اکٹھا قتل کروں گا۔‘‘
ان دونوں رومی سالاروں کی آپس میں دشمنی اتنی زیادہ تھی کہ وہ خالدؓ کی کسی بات پر بھڑکتا ہی نہیں تھا۔
’’میری ایک بات پر کان دھر عربی سالار!‘‘ … عزازیر نے دوستانہ لہجے میں کہا۔ … ’’اگر تو کلوس کومیرے سامنے قتل کر دے تو میں تجھے ایک ہزار دینار، دس قبائیں ریشم کی اور اعلیٰ نسل کے پانچ گھوڑے دوں گا۔‘‘
’’او روم کے جابر سالار!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’یہ سب تو مجھے کلوس کو قتل کرنے کا انعام دے رہا ہے ، یہ بتا کہ میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچنے کیلئے تو مجھے کیا دے گا؟ اپنی جان کی قیمت بتا دے؟‘‘
’’تو ہی بتا۔‘‘ … عزازیر نے کہا۔ … ’’کیا لے گا؟‘‘
’’جزیہ!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اگر نہیں تو اسلام قبول کرلے۔‘‘
اب عزازیر بھڑکا۔
’’آعرب ے بدو!‘‘ … عزازیر نے کہا۔ … ’’اب میرا وار دیکھ۔ہم عظمت کی طرف جاتے ہیں۔تو ذلت میں جاتا ہے۔آ، اپنے آپ کو میرے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا۔‘‘
…………bnb…………


اس نے تلوار ہوا میں لہرائی اور خالدؓ پر حملہ کرنے کیلئے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔ خالدؓ اس سے تیز نکلے۔انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی۔عزازیر ان کے قریب ہی تھا۔خالدؓ نے تلوار کا وار کیا جو عزازیر نے پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر بے کار کر دیا۔اس کے بعد خالدؓ نے ہر طرف سے آکر اس رومی سالار پر وار کیے مگر وہ بڑی پھرتی سے اِدھر اُدھر ہو کر وار بچاتا رہا۔ اس نے بعض وار اپنی تلوار پر روکے۔
مؤرخ واقدی نے اس دور کی تحریروں کے حوالے سے خالدؓ اور عزازیر کے مقابلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ عزازیر وار روکتا تھا اور وار کرتا نہیں تھا۔ رومی لشکر سے تو دادوتحسین کا شور اٹھ ہی رہا تھا۔ مسلمانوں نے بھی عزازیر کی پھرتی کی داد دی۔ خالدؓ نے اپنا ہاتھ روک لیا۔
’’اے عرب کے سالار!‘‘ … عزازیر نے کہا۔ … ’’کیا میں تجھے قتل نہیں کر سکتا؟ … میں تجھے زندہ پکڑوں گا اور تجھ سے یہ شرط منواؤں گا کہ تو جدھر سے آیا ہے، اپنے لشکر کے ساتھ اُدھر ہی چلا جائے۔‘‘
’’خداکی قسم!اب تو میرے ہاتھوں زندہ گرفتارہوگا۔‘‘ … خالدؓ نے بھڑک کر کہا اور اس پر جھپٹے۔
عزازیر نے گھوڑے کو تیزی سے موڑااور بھاگ نکلا۔ خالدؓ نے گھوڑا س کے پیچھے ڈال دیا۔ عزازیرنے گھوڑا تیز کر دیااور دونوں فوجوں کے درمیان چکر میں گھوڑا دوڑانے لگا۔ اب مسلمانوں کالشکر نعرے لگانے لگا۔ خالدؓ اس کے تعاقب میں رہے۔عزازیر اپنا گھوڑا ذرا آہستہ کرلیتا اور جب خالدؓ اس تک پہنچتے تو وہ گھوڑے کو ایڑ لگا دیتا۔
اس دوڑ اور تعاقب میں بہت سا وقت گزر گیا۔خالدؓ کا گھوڑا سست پڑنے لگا اور اس کا پسینہ پھوٹ آیا۔عزازیر کا گھوڑا خالدؓ کے گھوڑے سے بہتر اور زیادہ طاقتور تھا، عزازیر نے دیکھ لیا کہ خالدؓ کا گھوڑا رہ گیا ہے اس نے اپنا گھوڑا گھمایا اور خالدؓ کے اردگرد چکر کاٹنے لگا۔
’’او عربی!‘‘ … عزازیر نے للکار کر کہا۔ … ’’تو سمجھتا ہے میں تیرے ڈر سے بھاگ اٹھا ہوں۔میں تجھے کچھ دیر اور زندہ دیکھنا چاہتا تھا۔میں تیری روح نکالنے والا فرشتہ ہوں۔‘‘
خالدؓنے دیکھا کہ ان کا گھوڑا عزازیر کے گھوڑے کاساتھ نہیں دے سکتا تو وہ اپنے گھوڑے سے کود کر اُترے۔ان کے ہاتھ میں تلوار تھی۔عزازیر نے خالدؓکو آسان شکار سمجھا،اور ان پر گھوڑا دوڑا دیا۔خالدؓ کھڑے رہے۔عزازیر قریب آیا تو اس نے گھوڑے سے جھک کر خالدؓ پر وار کیا۔ خالدؓ بچتے نظر نہیں آتے تھے، لیکن انہوں نے سر نیچے کرکے وار کو بیکارکر دیا۔
عزازیر گھوڑے کو گھما کر آیا۔خالدؓ پہلے کی طرح کھڑے رہے۔اب کے پھر عزازیر نے اُن پر وار کیا،خالدؓ نے نہ صرف یہ کہ جھک کر اپنے آپ کو بچا لیا،بلکہ دشمن کے گھوڑے کی اگلی ٹانگوں پر ایسی تلوار ماری کہ گھوڑے کی ایک ٹانگ کٹ گئی، اور دوسری گھوڑے کے بوجھ کے نیچے دوہری ہو گئی۔ گھوڑا گرااور عزازیر گھوڑے کے آگے جا پڑا۔
وہ بڑی تیزی سے اٹھا لیکن خالدؓنے اسے پوری طرح اٹھنے نہ دیا۔ تلوار پھینک کر اسے دبوچ لیا اور اسے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔ اسے پھر اٹھایا اور پہلے سے زیادہ زور سے پٹخا۔ عزازیر کو اس خوف نے بے جان کر دیا کہ خالدؓ اسے مار ڈالیں گے لیکن خالدؓ نے اسے گھسیٹا اور اسی طرح اپنے لشکر کی طرف لے گئے اور کلوس کے پا س جا کھڑا کیا۔
’’یہ لے!‘‘ … خالدؓ نے اسے کہا۔ … ’’اپنے دوست کلوس سے مل۔‘‘
خالدؓ نے حکم دیا کہ عزازیر کو بھی باندھ دیا جائے۔
…………bnb…………


اِدھر اﷲنے دشمن کے دو سپہ سالار مسلمانوں کو دے دیئے اُدھر شور اٹھا کہ باقی لشکر آگیا ہے۔خالدؓ اپنے اسی لشکر کے انتظار میں تھے اور وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اس لشکر کے ساتھ تاریخ اسلام کے دو عظیم سالار تھے۔ … عمروؓ بن العاص اور ابو عبیدہؓ۔
خالدؓ نے ذرا سا بھی وقت ضائع کیے بغیر اپنی فوج کو جنگی ترتیب میں کیا۔چار ہزار جانباز سواروں کے دستے طلیعہ کو اپنی کمان میں رکھا اور حملے کا حکم دے دیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کے برابر تھی بلکہ کچھ زیادہ ہی تھی۔رومیوں نے مقابلہ تو کیا لیکن ان کے انداز میں جارحیت نہیں تھی، وہ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے۔
ان کا حوصلہ اور جذبہ تو اسی ایک وجہ سے ٹوٹ گیا تھاکہ ان کے دو سپہ سالار مسلمانوں کی قید میں تھے،اور باقی سالار انفرادی مقابلوں میں مارے جاچکے تھے۔اس رومی فوج میں پہلی جنگوں سے بھاگے ہوئے آدمی بھی تھے۔ان پر مسلمانوں کا خوف طاری تھا۔انہوں نے مسلمانوں کو قہر اورغضب سے لڑتے اور اپنے ساتھیوں کو کٹتے دیکھا تھا۔انہوں نے بے دلی سے مقابلہ کیا اور پیچھے ہٹتے گئے۔انہیں لڑانے والا کوئی تھا ہی نہیں۔
مسلمانوں نے انہیں پسپائی سے روکنے کیلئے ان کے عقب میں جانے کی کوشش کی لیکن پیچھے درختوں سے اٹی ہوئی وادی تھی جس میں وہ غائب ہوتے جا رہے تھے۔ان کی پیٹھ کے پیچھے دمشق تھا جو قلعہ بند شہر تھا۔فاصلہ بارہ میل تھا۔یہ رومیوں کیلئے ایک کشش تھی۔پناہ قریب ہی تھی۔چنانچہ وہ فرداً فرداً درختوں کے جھنڈ میں سے گزرتے دمشق کی طرف بھاگ رہے تھے۔
رومی ایسی بری طرح مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہو رہے تھے کہ میدانِ جنگ ان کی لاشوں اور تڑپتے ہوئے زخمیوں سے اَٹ گیا۔دوڑتے گھوڑے اور پیادے انہیں کچل رہے تھے۔رومیوں نے اپنے پہلوؤں کے دستوں کو عام پسپائی کیلئے کہہ دیا۔مسلمانوں نے تعاقب نہ کیا کیونکہ خالدؓ اپنی نفری کو بچانا چاہتے تھے۔وہ بڑے کوچ کے تھکے ہوئے بھی تھے۔
بچے کچھے رومی دمشق پہنچ گئے اور شہر کے اردگرد دیوار نے انہیں پناہ میں لے لیا۔
مسلمانوں نے مالِ غنیمت اکٹھا کیا۔عورتوں نے زخمیوں کو اٹھایااور انہیں مرہم پٹی کیلئے پیچھے لے گئیں۔شہیدوں کی لاشیں ایک جگہ رکھ کر جنازہ پڑھایا گیا اور انہیں الگ الگ قبروں میں دفن کیا گیا۔
خالدؓ نے رات وہیں گزارنے کا حکم دیااور تمام سالاروں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں بتایا کہ دمشق کے محاصرے کو کامیاب کرنے کیلئے ضروری ہوگا کہ دمشق کی طرف آنے والے تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی جائے تاکہ دشمن اپنے دمشق کے دستوں کو کمک اور رسد نہ پہنچا سکے۔
خالدؓ نے فحل کے قلعے کے قریب پہلے ہی ایک گھوڑ سوار دستہ چھوڑ دیا تھا۔وہاں سے امداد آنے کی توقع تھی۔خالدؓ نے دو گھوڑ سوار دستے دو مقامات پر بھیج دیئے۔ان کیلئے حکم تھا کہ ان راستوں سے کمک آئے تو اس پر حملہ کر دیں۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages