Featured Post

Khalid001

21 March 2020

Khalid110


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  110
اب مسلمانوں کی نفری بھی زیادہ ہو گئی تھی، اور قیادت خالدؓ کی تھی۔خالدؓ کے ساتھ جو چار ہزار سوار گئے تھے وہ تازہ دم تھے۔اس کے علاوہ پورا لشکر ضرار کے قیدی ہو جانے پر آگ بگولہ تھا۔رومیوں کیلئے اس حملے کو برداشت کرنا ناممکن ہو گیا۔انہوں نے جم کر لڑنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ کی چالوں اور ان کے لشکر کے غیض و غضب کے سامنے رومی ٹھہر نہ سکے۔رومیوں کی فوج چونکہ ایک منظم اور تربیت یافتہ فوج تھی اس لیے اس کی پسپائی بھی منظم تھی۔اسے پسپا کرنے میں خالدؓ کو بہت زور لگانا پڑا۔رومیوں کی پسپائی سے یہ مقصد تو پورا ہو گیا کہ دمشق کے دفاعی دستے کمک اور رسد سے محروم رہے۔رومیوں کا یہ کمال تھا کہ وہ جو رسد ساتھ لائے تھے وہ اپنے ساتھ ہی لے جا رہے تھے۔
اب دوسرا مقصد سامنے تھا اور وہ تھا ضرار کی رہائی۔اس مقصد کیلئے خالدؓ نے رومیوں کا تعاقب جاری رکھا۔رومی اور تیزی سے پسپا ہونے لگے۔خالدؓ نے ہر داؤ کھیلا مگر رومیوں نے کوئی داؤکامیاب نہ ہونے دیا، خالدؓ نے تعاقب کی رفتار کم نہ کی۔ان کی کوشش یہ تھی کہ رومی کہیں رکنے نہ پائیں۔خالدؓخود پیچھے رہ گئے۔
یہ بہن کا ایثار تھا جو اﷲنے قبول کیا، اور یہ ضرار کا عشقِ رسولﷺ تھا جو اﷲکو اچھا لگا۔ضرار کی سرفروشی کو اﷲنے نظر انداز نہ کیا۔پتا چلا کہ ضرار رومیوں کی قید میں زندہ ہیں۔یہ خبر دینے والے دو عربی تھے جو اس علاقے میں آکر آباد ہوئے تھے،خالدؓ کے دو چار سوار ایک چھوٹی سی ایک بستی کے قریب سے گزرتے گزرتے رک گئے۔وہ پانی پینا چاہتے تھے۔بستی کے لوگ اس خیال سے خوفزدہ ہو گئے کہ یہ فاتح فوج کے آدمی ہیں اس لئے یہ لوٹ مار کریں گے اور جوان لڑکیوں پر ہاتھ ڈالیں گے۔آبادی میں ہڑبونگ سی مچ گئی۔دو آدمی مسلمان سواروں کے پاس آئے۔
’’ہم بھی عربی باشندے ہیں۔‘‘ … انہوں نے سواروں سے کہا۔ … ’’ہم مسلمان تو نہیں پھر بھی عرب کی مٹی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ہماری خاطر اس بستی پر ہاتھ نہ اٹھائیں۔
’’تم نہ کہتے تو بھی ہم اس بستی کی طرف دیکھنا گوارا نہ کرتے۔‘‘ … ایک مسلمان سوار نے کہا۔ … ’’ان لوگوں سے کہو کہ ہم سے نہ ڈریں، ہم تم سب کے محافظ ہیں،ہم پانی پی کر چلے جائیں گے۔‘‘
دونوں عربوں نے بستی کے لوگوں سے کہا کہ وہ ڈریں نہیں اور اپنے گھروں میں رہیں۔ان عربوں نے سواروں کو اور ان کے گھوڑوں کو پانی پلایا،اور اس دوران وہ سواروں کے ساتھ باتیں بھی کرتے رہے۔باتوں باتوں میں ان عربوں نے سواروں کو بتایا کہ ایک گھوڑے پر رومیوں نے ایک آدمی کو باندھ رکھا تھااس کا سر ننگا تھا اور اس کی قمیص بھی نہیں تھی اور اس کے ایک بازو پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔
’’اسے انہوں نے یہاں پانی پلانے کیلئے روکا تھا۔‘‘ … ایک عرب نے بتایا۔ … ’’وہ تمہارا ساتھی معلوم ہوتا تھا۔‘‘
مسلمان سواروں کو شک نہ رہا۔یہ ضرار تھے۔سواروں نے ان عربوں سے مزید معلومات لیں۔ضرار کے ساتھ تقریباً ایک سو رومی تھے۔وہ رومی لشکر کی پسپائی سے بہت پہلے وہاں سے گزرے تھے اور وہ حمص کی طرف جا رہے تھے۔
مسلمان سواروں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ وہ پیچھے جاکر سپہ سالار کو ضرار بن الازور کے متعلق یہ اطلاع دے۔
…………bnb…………


’’الحمدﷲ!‘‘خالدؓ نے یہ خبر سن کر کہا۔’’ضرار زندہ ہے اور وہ زندہ رہے گا۔انہوں نے اسے قتل کرنا ہوتا تو کر چکے ہوتے۔وہ اسے اپنے بادشاہ کے پاس لے جا رہے ہیں……ابنِ عمیرہ کو بلاؤ۔‘‘
رافع بن عمیرہ آئے تو خالدؓ نے انہیں ضرار کے متعلق جو اطلاع ملی تھی، پوری سنا کرکہا کہ وہ ایک سو سوار چن لیں جو جان پر کھیلنے والے شہسوار ہوں،انہیں ساتھ لے کر حمص کی طرف ایک ایسا راستہ اختیار کریں جو راستہ نہ ہو۔مطلب یہ تھا کہ راستہ چھوٹا کرکے حمص کی طرف جائیں اور ان ایک سو رومیوں کو روکیں، اور ابن الازور کو رہا کرائیں۔
رافع جب سواروں کا انتخاب کر رہے تھے تو ضرار کی بہن کو پتا چل گیا کہ رافع ضرار کو آزاد کرانے جا رہے ہیں،وہ رافع کے پاس دوڑی گئیں اور کہنے لگیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ جائیں گی۔
’’نہیں بنت الازور!‘‘ … رافع نے کہا۔ … ’’خدا کی قسم!جو کام ہمارا ہے، وہ ہم ایک عورت سے نہیں کرائیں گے۔تجھے تیرا بھائی چاہیے۔وہ تمہیں مل جائے گا۔نہیں ملے گا تو ہم بھی واپس نہیں آئیں گے۔‘‘
’’میں اگر سپہ سالار سے اجازت لے لوں!‘‘
’’ابنِ ولید تجھے اجازت نہیں دے گا الازور کی بیٹی!‘‘ … رافع نے کہا۔
خولہ مایوس ہو گئیں۔
رافع چنے ہوئے ایک سو سواروں کے ساتھ بڑی عجلت سے روانہ ہوگئے۔انہوں نے حمص کی طرف جانے والے راستے کا اندازہ کر لیا تھا۔وہ اس راستے سے دور دور تیز رفتار سے گھوڑے دوڑاتے گئے، وہ زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے کہ ایک طرف سے ایک گھوڑا سر پٹ دوڑتا آ رہا تھا۔ وہ رومی نہیں ہو سکتا تھا،رومی ہوتا تو اکیلا نہ ہوتا۔وہ خالدؓ کا قاصد ہو سکتا تھا ، کوئی نیا حکم لایا ہوگا۔وہ قریب آیا تو اس کا سبز عمامہ اور چہرے پر کپڑے کا نقاب نظر آیا۔
’’ابنِ عمیرہ!‘‘ … سوار نے للکار کر کہا۔ … ’’اپنے بھائی کو آزاد کرانے کیلئے میں آگئی ہوں۔‘‘
’’کیا سپہ سالار نے تجھے اجازت دے دی ہے؟‘‘ … رافع نے پوچھا۔ … ’’اپنے بھائی کو قید سے چھڑانے کیلئے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں۔‘‘ … خولہ بنت الازور نے کہا۔ … ’’اگر تو مجھے اپنے سواروں میں شامل ہونے نہیں دے گا تو میں اکیلی آگے جاؤں گی۔‘‘
’’خدا کی قسم بنتِ الازور!‘‘ … رافع نے کہا۔ … ’’میں تجھے اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔آہمارے ساتھ چل۔‘‘
یہ جواں سال عورت ساتھ چل پڑی۔
…………bnb…………


ایک سو رومی سوار ضرار بن الازور کو گھوڑے پر اس حالت میں بٹھائے لے جا رہے تھے کہ ان کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے اور پاؤں اس طرح بندھے ہوئے تھے گھوڑے کے پیٹ کے نیچے سے رسی گزار کر دونوں ٹخنوں سے بندھی ہوئی تھی۔رومی ان پر پھبتیاں کستے اور ان کا مذاق اڑاتے جا رہے تھے، اور ضرار چپ چاپ سنتے جا رہے تھے۔
ایک جگہ راستہ نشیب میں چلا جاتا تھا، اس کے دائیں بائیں علاقہ کھڈوں کا تھا،جب رومی اس نشیب میں سے گزر رہے تھے تو اچانک دائیں بائیں، آگے اور پیچھے سے رافع کے سواروں نے ان پر ہلہ بول دیا۔رومیوں کیلئے یہ حملہ غیر متوقع تھا۔وہ اس طرح جا رہے تھے جیسے میلے پر جا رہے ہوں۔
ضرار کی بہن خولہ نے اپنے بھائی کو دیکھا تو اس نے رومیوں پر اس طرح حملے شروع کر دیئے جس طرح وہ پوری رومی فوج پر کر چکی تھی۔رافع بھی ایسے ہی جوش میں تھے۔ان کے سوار ہزاروں میں سے چنے ہوئے تھے۔انہوں نے رومیوں کا ایسا برا حال کر دیا کہ ان میں سے جو مرے نہیں یا زخمی نہیں ہوئے تھے بھاگ اٹھے۔
خطرہ یہ تھا کہ رومی ضرار کو قتل کردیں گے۔ان کی بہن تلوار اور برچھی چلاتی ضرار تک پہنچ گئی،رومیوں نے ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہونے دی لیکن رافع نے ایسا ہلہ بولا کہ رومی سوار بکھر گئے۔پھر فرداً فرداً بھاگ اٹھے۔سب سے پہلے ضرار نے رافع سے ہاتھ ملایااور جب بہن بھائی ملے تو وہ منظر رقت انگیز بھی تھا اور ولولہ انگیز بھی۔بہن اپنے بھائی کے زخم دیکھنے کو بیتاب تھی۔
بعض مؤرخوں نے خولہ کے یہ الفاظ لکھے ہیں: … ’’میرے عزیز بھائی!میرے دل کی تپش دیکھ ، کس طرح ترے فراق میں جل رہا ہے۔‘‘
’’اپنے زخم دکھاؤ ضرار!‘‘ … بہن نے بیتابی سے کہا۔
’’مت دیکھو خولہ!‘‘ … ضرار نے بہن سے کہا۔ … ’’اور یہ زخم مجھے بھی نہ دیکھنے دو۔یہ زخم دیکھنے کا وقت نہیں۔‘‘ … ضرار نے رافع اور ان کے سواروں سے کہا۔ … ’’چلو دوستو!رومی کہاں ہیں؟دمشق کے محاصرے کا کیا بنا؟‘‘
رومی لڑ بھی رہے تھے اور پسپا بھی ہو رہے تھے۔یہ ان کی تنظیم بھی تھی اور جرات بھی کہ وہ بھاگ نہیں رہے تھے۔ایک ایسی جگہ آگئی جس کے دونوں طرف چٹانیں اور کچھ بلند ٹیکریاں تھیں۔رومی لشکر کو سکڑنا پڑا۔خالدؓ نے اپنے دونوں پہلوؤں کے سالاروں سے کہا کہ وہ چٹانوں کی دوسری اطراف میں نکل جائیں،اور سر پٹ رفتار سے رومیوں کے عقب میں چلے جائیں۔
رومی نہ دیکھ سکے کہ چٹانوں کے پیچھے سے ان پر کیا آفت ٹوٹنے والی ہے۔خالدؓ نے تعاقب کی رفتار کم کر دی۔رومی سمجھے ہوں گے کہ مسلمان تھک گئے ہیں۔انہوں نے پسپائی روک لی۔خالدؓ نے اپنے دستوں کو روک لیا۔
اچانک عقب سے رومیوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔سامنے سے خالدؓ نے شدید حملہ کر دیا۔رومیوں کی یہ حالت ہو گئی کہ وہ گھوڑوں کو چٹانوں اور ٹیکریوں پر چڑھالے گئے،اور دوسری طرف اتر کر بھاگنے لگے۔توقع یہ تھی کہ رومی رسد وغیرہ کا جو ذخیرہ ساتھ لا رہے تھے وہ مسلمانوں کے ہاتھ آجائے گا۔لیکن رومیوں نے گھوڑا گاڑیوں اور اونٹوں کو پہلے ہی حمص روانہ کر دیا تھا۔
حمص کی طرف جانے والی رہگزر پر رومیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔زخمی تڑپ اور کراہ رہے تھے۔ان کے گھوڑے اِدھر اُدھر آوارہ پھر رہے تھے۔مجاہدین نے حکم ملتے ہی اپنے ساتھیوں کی لاشیں اور زخمیوں کو اٹھانا، زخمی اور مرے ہوئے رومیوں کے ہتھیاروں کو اکٹھا اور ان کے گھوڑوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔
’’کاش!میرے پیچھے دمشق نہ ہوتا۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’میں دشمن کے ایک آدمی کو بھی دمشق تک نہ پہنچنے دیتا۔‘‘
خالدؓ نے تعاقب ترک کر دیا۔لیکن اس خطرے کے پیشِ نظر کہ رومی کہیں اکٹھے یا حمص سے کمک منگوا کرواپس نہ آجائیں۔اپنے ایک سالار سمط بن الاسود کو بلایا۔
’’ایک ہزار سوار اپنے ساتھ لو اور رومیوں کے پیچھے جاؤ۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’انہیں کہیں اکٹھے نہ ہونے دینا۔جنگی قیدی نہیں لینے۔جو سامنے آئے اسے ختم کرو۔ فوراً روانہ ہو جاؤ۔‘‘
’’ولید کے بیٹے!‘‘ … خالدؓ کو کسی کی پکار سنائی دی۔
’’وہ آگیا میرا ننگا جنگجو!‘‘ … خالدؓ نے ضرار کو آتے دیکھ کر نعرہ لگایا۔
ضرار کو اپنے زخموں کی پرواہ نہیں تھی، وہ گھوڑے سے کود کر اترے۔خالدؓ بھی کود کر اترے اور تاریخِ اسلام کے دو عظیم مجاہد ایک دوسرے کے بازوؤں میں جکڑ گئے۔خولہ گھوڑے پر سوار تھی۔اس کا چہرہ نقاب میں تھا۔صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔جن کی چمک اور زیادہ روشن ہو گئی تھی۔
’’خدا کی قسم ابن الازور!‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’تیری بہن نے تیری خاطر میرا بھی منہ پھیر دیا تھا۔‘‘
’’اس بہن پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ … ضرار نے کہا۔ … ’’تو مجھے بتا میں کیا کروں؟‘‘
’’کیا تو محسوس نہیں کر رہا کہ تجھے آرام کرنا چاہیے؟‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’پہلے جرّاح کے پاس جا، اور اسے اپنے زخم دِکھا۔‘‘
ضرار بن الازور جراح کے پاس تو چلے گئے لیکن صرف پٹیاں بندھوا کر واپس آگئے۔
…………bnb…………


سالار سمط بن الاسود رومیوں کے تعاقب میں گئے۔رومی بری طرح بھاگے جا رہے تھے ان کی آدھی نفری تو لڑائی اور پسپائی میں ختم ہو گئی تھی اور باقی نصف بکھر گئی تھی۔سمط جب حمص کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ رومی حمص کے قلعے میں داخل ہونے جا رہے ہیں۔اس دور میں حمص ایک قلعہ بند قصبہ ہوا کرتا تھا۔
سمط وہاں جا کر رُک گئے۔انہیں معلوم نہیں تھا کہ قلعہ کے اندر کتنی فوج ہے، پھر بھی انہوں نے اپنے ہزار سواروں کو قلعے کے اردگرد اس انداز سے دوڑایا جیسے وہ محاصرہ کرنا یا قلعے پر حملہ کرنا چاہتے ہوں۔
قلعے کا دروازہ کھلا اور تین چار آدمی جو فوجی نہیں تھے باہر آئے۔وہ رومی نہیں مقامی باشندے تھے۔سالار سمط بن الاسود نے انہیں اپنے پاس بلایا۔
’’کیوں آئے ہو؟‘‘ … سمط نے پوچھا۔
’’امن اور دوستی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔‘‘ … ایک نے کہا۔ … ’’رومی مزید لڑائی نہیں چاہتے۔‘‘
’’کیا تمہارا شہنشاہ ہرقل بھی مزید لڑائی نہیں چاہتا؟‘‘ … سمط نے پوچھا۔
’’ہم شہنشاہِ روم کی ترجمانی نہیں کر سکتے۔‘‘ … حمص کے ایک شہری نے کہا۔ … ’’ہم یہ پیغام لائے ہیں کہ حمص والے نہیں لڑنا چاہتے۔آپ جس قدر سامانِ خوردونوش چاہتے ہیں ہم سے لے لیں۔آپ جتنے دن بھی یہاں قیام کرنا چاہتے ہیں کریں۔آپ کی فوج اور گھوڑوں کو خوراک ہم مہیا کریں گے۔‘‘
کسی بھی تاریخ میں نہیں لکھا کہ سالار سمط نے حمص میں رومیوں سے صلح کی کیا شرائط منوائی تھیں۔وہ واپس آگئے۔خالدؓ اپنے لشکر کے ساتھ دمشق جا چکے تھے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ خالدؓ جب دمشق پہنچے تو شہر کے اندر مایوسی اور خوف و ہراس کی لہر دوڑ گئی۔شہر والوں کو پہلے یہ اطلاع ملی تھی کہ انطاکیہ سے کمک اور رسد آرہی ہے۔اب انہیں اطلاع ملی کہ کمک کو مسلمانوں نے راستے میں ختم کر دیا ہے۔دمشق میں رومی سالار توما تھا جو شہنشاہِ ہرقل کا داماد تھا۔چند ایک شہری وفد کی صورت میں توما کے پاس گئے۔
’’کیا آپ کو کسی نے بتایا ہے کہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟‘‘ … ایک شہری نے کہا۔
’’کیا تم لوگ یہ نہیں جانتے کہ یہ بزدلی ہے؟‘‘ … توما نے کہا۔ … ’’ہم نے ابھی محاصرہ توڑنے کی کاروائی کی ہی نہیں،کیا تم لوگ مجھے یہ مشورہ دینے آئے ہو کہ میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال دوں؟‘‘
’’ہم سالارِ معظم کو شہر کی صورتِ حال بتانے آئے ہیں۔‘‘ … وفد کے ایک اور آدمی نے کہا۔ … ’’شہر کے لوگ یہ سن کے ہراساں ہیں کہ جس فوج نے محاصرہ کر رکھا ہے اور ہماری کمک کو بھی ختم کر دیا ہے وہ اس شہر میں بھی داخل ہو جائے گی پھر گھر ہمارے لوٹے جائیں گے بچے ہمارے کچلے جائیں گے،اورلڑکیاں ہماری اٹھائی جائیں گی۔‘‘
’’ہم یہاں تک نوبت نہیں آنے دیں گے۔‘‘ … سالار توما نے کہا۔
’’سالارِ معظم!‘‘ … ایک اور شہری نے کہا۔ … ’’آپ کو یقیناً معلوم ہو گا کہ نوبت کہاں تک پہنچ چکی ہے۔شہر میں خوراک کی اتنی کمی رہ گئی ہے کہ لوگوں نے دوسرے وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہے، دو تین دنوں بعد صرف پانی رہ جائے گا۔غور کریں۔لوگ فاقہ کشی سے تنگ آکر بغاوت بھی کرسکتے ہیں۔یہ صورت سلطنتِ روم کیلئے اچھی نہیں ہوگی۔‘‘
’’کیا تم لوگ نہیں جانتے کہ بغاوت کی سزا کیا ہے۔‘‘ … توما نے شاہی رعب سے کہا۔
’’ہم جانتے ہیں سالارِ اعلیٰ!‘‘ … وفد کے ایک آدمی نے کہا۔ … ’’ہم آپ کوقحط اور اس سے پیدا ہونے والی بغاوت کے نتائج بتانے آئے ہیں، کیا اس تباہی سے اور لوگوں کو بھوکا مارنے سے بہتر نہ ہوگا کہ آپ مسلمانوں سے صلح کر لیں؟‘‘
’’دشمن سے صلح کا مطلب ہوتا ہے ہتھیار ڈالنا۔‘‘ … توما نے کہا۔ … ’’میں لڑے بغیر کوئی ایسا فیصلہ نہیں کروں گا جو روم کی عظیم سلطنت کی توہین کا باعث ہو۔ہم اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور تم لوگ ایک وقت کی بھوک برداشت نہیں کر سکتے … جاؤ۔کل تک انتظار کرو۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages