شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 111
وہ ستمبر ۶۳۴ء کے تیسرے ہفتے
کی ایک صبح تھی۔رومی سالار توما نے شہر کے ہر دروازے کی حفاظت کیلئے جو دستے متعین
کیے ہوئے تھے ، ان سب میں سے زیادہ سے زیادہ نفری نکال کر اکٹھی کی، اور وہ دروازہ
کھلوایا جو اس کے اپنے نام سے موسوم تھا۔ … بابِ توما۔ … اور اپنی قیادت میں مسلمانوں
کے اس دستے پر حملہ کر دیا جو اس دروازے کے سامنے متعین تھا۔
یہ پانچ ہزارمسلمان سواروں کا دستہ تھا۔جس کے سالار شرحبیلؓ
بن حسنہ تھے۔توما کے حملے کا انداز آج کے دور کی جنگ کا سا تھا۔اس نے دیوار اور بُرجوں
سے مسلمانوں پر تیروں کی بوچھاڑیں مارنی شروع کیں اور اس کے ساتھ فلاخنوں سے سنگ باری
کی۔تیروں اور پتھروں کے سائے میں توما نے اپنی فوج کو تیز حملے کیلئے آگے بڑھایا تھایہ
طریقہ کارگر تھا۔مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور نظر آنے لگے تھے اور ان کا دھیان تیروں
اور پتھروں سے بچنے میں لگ گیا تھا۔
’’کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا۔‘‘ … سالار شرحبیلؓ نے چلّا کر کہا۔ … ’’تمام
تیر انداز آگے ہو جاؤ۔‘‘
مسلمان تیر اندازوں نے جوابی تیر اندازی شروع کر دی۔رومیوں کے
پتھر اور تیر چونکہ اوپر سے آرہے تھے اور زیادہ بھی تھے اس لیے مسلمانوں کا نقصان
زیادہ ہو رہا تھا۔پہلی بوچھاڑوں میں کئی مسلمان شہید ہو گئے۔ ان کے تیروں نے رومیوں
کا کچھ نقصان کیا لیکن یہ مسلمانوں کے مقابلے میں کم تھا۔
مؤرخ واقدی، طبری اور ابو سعید نے ایک واقعہ بیان کیا ہے، رومی
تیروں سے شہید ہونے والوں میں ایک مجاہد ابان بن سعید بھی تھے جن کا پورا نام ابان
بن سعید بن العاصؓ تھا۔فوراً ہی ابان کی شہادت کی خبر پیچھے ان خیموں تک پہنچ گئی جن
میں مسلمان خواتین اور بچے تھے۔
ابان بن سعید کی بیوی بھی وہیں تھیں۔ان کی شادی ہوئے چند ہی
دن گزرے تھے۔یہ خاتون لشکر کے ساتھ زخمیوں کی دیکھ بھال اور پانی پلانے کے فرائض کیلئے
آئی تھیں،اور محاذ پر ہی اسے ابان شہید نے اپنے عقد میں لے لیا۔کسی بھی مؤرخ نے اس
خاتون کا نام نہیں لکھا،اسے پتا چلا کہ اس کا خاوند شہید ہو گیا ہے تو وہ اٹھ دوڑی
اور شرحبیلؓ کے دستے میں جا پہنچی۔
’’کہاں ہے میرے خاوندکی لاش؟‘‘ … وہ چلّانے لگی۔ … ’’کہاں ہے سعید کے
بیٹے کی لاش؟‘‘
پانچ ہزار گھوڑ سواروں میں جن پر تیر اور پتھر برس رہے تھے ،
ابان بن سعید شہید کی بیوہ دوڑتی اور شہید کی لاش کا پوچھتی پھرتی تھی۔کسی نے اسے پیچھے
جانے کوکہا اور یہ بھی کہ اس کے خاوند کی لاش اس کے پاس بھیج دی جائے گی لیکن وہ تو
صدمے سے دماغی توازن کھو بیٹھی تھی۔
کسی نے اسے وہ جگہ دِکھادی جہاں ابان کی لاش پڑی تھی۔ابھی لاشیں
نہیں اٹھائی جا سکتی تھیں،ابان تیر انداز تھے۔ان کے جسم میں تین تیر اترے ہوئے تھے،اور
وہ گھوڑے سے گر پڑے تھے۔ان کی کمان لاش کے قریب پڑی تھی اور ترکش میں ابھی کئی تیر
موجود تھے۔ان کی بیوی نے کمان اور ترکش اٹھائی اور دوڑ کر تیر اندازوں کی صف میں جا
پہنچی۔
سامنے دیوار پر ایک پادری کھڑا تھا۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑے سائز
کی صلیب تھی،جو اس نے اوپر کر رکھی تھی۔یہ اس دور کا رواج تھا کہ صلیب فوج کے ساتھ
رکھتے تھے تاکہ فوج کا یہ احساس زندہ رہے کہ وہ صلیب کی ناموس کی خاطر لڑ رہے ہیں۔
ابان شہید کی بیوہ اپنے تیر اندازوں سے آگے نکل گئی۔اس کے قریب
تیر گرنے اور زمین میں اترنے لگے۔اپنے تیر اندازوں نے اسے پیچھے آنے کو کہا۔لیکن وہ
کسی کی سن ہی نہیں رہی تھی،اس کی بے خوفی خولہ بنتِ الازور جیسی تھی۔وہ جوں جوں آگے
کو سرکتی جا رہی تھی۔اس کے قریب رومیوں کے آئے ہوئے تیر زمین پر کھڑے ہوتے جا رہے
تھے۔یہاں تک کہ ایک تیر اس کے پہلو میں کپڑوں میں لگا اور وہیں لٹک گیا۔یہ تیر بھی
اسے آگے بڑھنے سے نہ روک سکا۔
آخر وہ رُک گئی اور اس نے کمان میں تیر ڈالا اور کمان سامنے
کرکے شست باندھتے کچھ دیر لگائی،اس نے کمان اتنی زیادہ کھینچ لی جتنی زیادہ ایک تندرست
مرد کھینچ سکتا ہے، اور اس نے تیر چھوڑ دیا۔اس کا تیر رومی تیروں کی بوچھاڑوں کو چیرتا
ہوا اس پادری کی گردن میں اُتر گیا جسنے صلیب کو تھام رکھا تھا ۔پہلے اس کے ہاتھ سے
صلیب گری اور لڑھکتی ہوئی باہر آپڑی۔ پادری بھی پیچھے یا دائیں بائیں گرنے کے بجائے
دیوار پر گرا اور صلیب کے پیچھے پیچھے باہر کی طرف آپڑا۔
ابان شہید کی بیوہ نے نعرہ لگایا اور پیچھے آگئی۔ … ’’میں نے
انتقام لے لیا ہے … سہاگ کے بدلے صلیب گرا دی ہے۔‘‘
وہ تیر اندازوں سے آملی اور تیر چلاتی رہی۔صلیب اور پادری کے
گرنے کا اثر مسلمانوں پر یہ ہوا کہ ان کا حوصلہ بڑھ گیا اور ان کا حوصلہ اس لیے بھی
بڑھا کہ یہ تیر ایک عورت نے چلایا تھا۔صلیب کے گرنے کا اثر جو رومیوں پر ہوا وہ ان
کے لڑنے کے جذبے کیلئے اچھانہ تھا۔
…………bnb…………
دروازہ … بابِ توما … کھل چکا تھا۔تومانے دیکھ لیا تھا کہ اس
کی تیر اندازی اور سنگ باری نے مسلمانوں کی حالت کمزور کر دی ہے۔اس نے حملے کاحکم دے
دیا۔عجیب بات یہ ہے کہ اس نے سواروں کے مقابلے میں سوار نہ نکالے۔ا ن پیادوں سے حملہ
کرایا،اور کمان خود باہر آکر کی۔وہ سپاہیوں کی طرح لڑرہا تھا۔مؤرخ واقدی اور بلازری
نے لکھا ہے کہ توماکی آواز ایسی تھی جیسے اونٹ بدمستی کی حالت میں بڑی بلند اور غصیلی
آوازیں نکالتا ہے۔
شرحبیلؓ نے بڑی تیزی سے اپنے سواروں کو آمنے سامنے کی لڑائی
کی ترتیب میں کرلیا۔تومانے یہ چال چلی کہ اپنے دستوں کو پھیلا دیا۔اس کی فوج کی تعداد
مسلمانوں کی نسبت زیادہ تھی۔اس کے پیادے سواروں کا مقابلہ بڑی بے جگری اور مہارت سے
کررہے تھے ۔شہر کے دوسرے دروازوں کے سامنے مسلمانوں کے جو دستے متعین تھے۔وہ اس وجہ
سے شرحبیلؓ کی مدد کو نہیں آرہے تھے کہ ایسا ہی حملہ دوسرے دروازوں سے بھی ہو سکتا
تھا۔
توماگرج اور دھاڑ رہا تھا۔اسے مسلمانوں کا پرچم نظر آگیا۔اس
کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کا سالار وہاں ہے، وہ سیدھا اِدھر آیا،شرحبیلؓ نے اسے
دیکھ لیا اور تلوار سونت کر اس کے مقابلے کیلئے تیار ہو گئے۔دونوں نے ایک دوسرے کو
للکارا، ان میں دس بارہ قدم فاصلہ رہ گیا ہوگا کہ ایک تیر توما کی دائیں آنکھ میں
اُتر گیا،اس نے ہاتھ اس آنکھ پر رکھ لیے،اور وہ بیٹھ گیا۔شرحبیلؓ نے آگے بڑھ کر اس
پر حملہ نہ کیا۔توما کے محافظوں نے اس کے گرد حصار بنالیا پھر اسے اٹھا کر لے گئے۔
مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ وہ تیر ابان بن سعید کی
بیوہ نے چلایا تھا۔
اپنے سالارکے گرنے سے رومیوں کا حوصلہ بھی گر پڑا اور وہ پیچھے
ہٹنے لگے۔شرحبیلؓ کے پہلوؤں والے تیر اندازوں نے تیروں کی بوچھاڑیں مارنی شروع کر
دیں۔رومی تیزی سے پیچھے ہٹے اور قلعے کے دروازے میں غائب ہوتے چلے گئے اور پیچھے جو
لاشیں چھوڑ گئے ان کا کوئی حساب نہ تھا۔
’’رومیوں کا سپہ سالار مارا گیا ہے۔‘‘ … مسلمانوں نے نعرے لگانے شروع
کر دیئے۔ … ’’ہم رومیوں کے قاتل ہیں … رومی سالار کو ایک عورت نے مارڈالا ہے … توما
رومی کو اندھاکرکے مارا ہے … باہر آؤرومیو!اپنی صلیب اور پادری کو اٹھا لے جاؤ۔‘‘
دیوار پر کھڑے رومی یہ نعرے سن رہے تھے،اور یہ نعرے شہر کے اندر
بھی سنائی دے رہے تھے۔یہ نعرے رومی فوج اور دمشق کے شہریوں کے حوصلے اور جذبے کیلئے
تیروں کی طرح مہلک تھے۔
مسلمانوں کا جانی نقصان بھی کچھ کم نہیں تھا۔بہت سے مجاہدین
رومیوں کے تیروں اور پتھروں سے شہید اور زخمی ہو گئے۔پھر اتنی تعداد لڑائی میں شہید
ہوئی۔شرحبیلؓ پریشان سے ہو گئے اور خالدؓ کے پاس گئے۔
شرحبیلؓ بن حسنہ نے خالدؓ بن ولید کو لڑائی کی ساری روئیداد
سنائی اور یہ بھی بتایا کہ رومی سالار توما اگر مرا نہیں تو وہ لڑائیکیلئے ناکارہ ہو
گیا ہے ۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی کتنی نفری شہید اور کتنی نفری زخمی ہو گئی
ہے۔
’’اگر رومیوں نے ایسا ہی ایک اور حملہ کیا تو شاید ہم نہ روک سکیں۔‘‘
… شرحبیلؓ نے خالدؓ سے کہا۔ … ’’مجھے کمک کی ضرورت ہے۔‘‘
’’حسنہ کے بیٹے!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ایسا حملہ کسی اور دروازے سے
ہم میں سے کسی اور پر بھی ہو سکتا ہے۔کسی بھی دستے کی نفری کم نہیں کی جاسکتی … ابنِ
حسنہ! خدا کی قسم، تو ہمت ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔کیا اپنے اتنے زیادہ ساتھیوں
کے خون نے تیرا حوصلہ کمزور کر دیا ہے؟‘‘
’’نہیں ابنِ ولید!‘‘ … شرحبیلؓ نے کہا۔ … ’’اگر مجبوری ہے تو میں ایک
آدمی کی بھی کمک نہیں مانگوں گا۔‘‘
’’میں تجھے تنہا نہیں چھوڑوں گا۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’تجھ پر حملہ
ہوا تو ہم دیکھتے رہیں گے، اگر حملہ تیری برداشت سے باہر ہوا تو ضرار تیری مدد کو پہنچے
گا۔پھر بھی ضرورت پڑی تو میں آجاؤں گا … تیرے پاس جتنی بھی نفری رہ گئی ہے اسے تیار
رکھ۔ رومیوں کے سالار کو اگر آنکھ میں تیر لگا ہے تو ایک دو دن رومی باہر آکر حملہ
نہیں کریں گے۔‘‘
خالدؓ کی رائے صحیح نہیں تھی،توما نے ایک معجزہ کر دکھایا تھا۔وہ
صحیح معنوں میں جنگجو تھا۔چونکہ وہ شاہی خاندان کافرد تھا، اس لیے سلطنتِ روم کی جو
محبت اس کے دل میں تھی وہ قدرتی تھی۔بعد میں پتا چلا تھا کہ اس کی آنکھ میں تیر لگا
تو اسے اٹھا کر اندر لے گئے۔جراح نے دیکھا کہ تیر اتنا زیادہ اندر نہیں اترا کہ توما
کی ہلاکت کا باعث بن جائے۔ کھوپڑی کی ہڈی کو تیر نے مجروح نہیں کیا تھا۔ یہ صرف آنکھ
میں اترا لیکن نکالا نہیں جا سکتا تھا۔
’’کاٹ دو اسے!‘‘ … توما نے جراح سے کہا۔ … ’’باقی اندر ہی رہنے دو،
اور اس آنکھ پر پٹی باندھ دو،دوسری آنکھ پر پٹی نہ آئے۔میں آج رات ایک اور حملہ
کروں گا۔‘‘
’’سالارِ اعلیٰ!‘‘ … جراح نے کہا۔ … ’’کیا کہہ رہے ہیں آپ؟آپ لڑائی
کے قابل نہیں۔‘‘
’’اس ایک آنکھ کے بدلے مسلمانوں کی ایک ہزار آنکھیں ضائع کروں گا۔‘‘
… توما نے کہا۔ … ’’میں انہیں صرف شکست نہیں دوں گا، میں ان کے وطن عرب تک ان کا تعاقب
کروں گا۔میں اپنے کام کو اس وقت مکمل سمجھوں گا جب ان کے ملک کو اس قابل رہنے دوں گا
کہ وہاں صرف جانور رہ جائیں گے۔‘‘
توما کے یہ الفاظ متعدد مؤرخوں نے لکھے ہیں اور واقعہ تفصیل
سے بیان کیا ہے۔ان میں یورپی تاریخ دان ہنری سمتھ خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ان سب کی
تحریروں کے مطابق توما کے حکم سے جراح نے تیر آنکھ کے قریب سے کاٹ دیااور اوپر پٹی
کس کر باندھ دی۔یہ جذبے اور عزم کی پختگی کا کرشمہ تھا کہ تومانے اتنے شدید زخم کو
برداشت کر لیا اور حکم دیا کہ آج ہی رات باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے گا۔
’’اتنی ہی فوج بابِ توما کے سامنے اکٹھی کی جائے جتنی میں دن کے حملے
میں لے کر گیا تھا۔‘‘ … توما نے حکم دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔
چلتے چلتے اس نے شراب پی اور ہتھیار بند ہو کر باہر نکل گیا۔
…………bnb…………
اُن راتوں کو چاند پورا ہوتا تھا۔فضاء صاف رہتی تھی۔اس لئے چاندنی
شفاف ہوتی تھی۔توما نے بڑا اچھا طریقہ اختیار کیا۔اس نے اپنے تمام دستوں کے کمانڈروں
کو حکم دیا کہ تین اور دروازوں بابِ صغیر، بابِ شرق، اور بابِ جابیہ۔سے باہر جا کر
مسلمانوں پر اس طرح حملے کریں کہ اپنے آپ کو لڑائی میں اتنا زیادہ نہ الجھائیں بلکہ
انہیں اپنے ساتھ لڑائی میں مصروف رکھیں، وہ خود بڑا حملہ بابِ توما سے کر رہا تھا۔دوسرے
دروازوں سے حملے کرانے سے اسکا مطلب یہ تھا کہ شرحبیلؓ کو کسی طرف سے مدد نہ مل سکے۔
’’تمہارا دشمن اس وقت حملے کی توقع نہیں رکھتا ہوگا۔‘‘ … توما نے اپنے
نائب سالاروں سے کہا۔ … ’’تم انہیں سوتے میں دبوچ لو گے۔‘‘
توما کی فوج چار دروازوں سے باہر نکلی۔وقت آدھی رات کا تھا۔چاندنی
اتنی صاف تھی کہ اپنے پرائے کو پہچانا جا سکتا تھا، مسلمانوں پر چار جگہوں سے حملے
ہوئے،ایک دروازے کے سامنے سالار ابو عبیدہؓ تھے، دوسرے کے سامنے یزیدؓ بن ابو سفیان
تھے، ابو عبیدہؓ نے رومیوں کو جلدی بھگا دیا اور رومی قلعے میں واپس چلے گئے۔
یزیدؓ بن ابو سفیان کی حالت کمزور سی ہو گئی۔رومیوں نے ان پر
بڑا ہی شدید ہلہ بولا تھا۔یزیدؓ نے مقابلہ تو کیا لیکن رومی ان پر حاوی ہوتے جا رہے
تھے ۔ضرار بن الازور مدد دینے کے کام پر معمور تھے ۔انہیں پتا چلا کہ یزیدؓ کو مدد
کی ضرورت ہے تو وہ دو ہزار سوار اور پیادہ مجاہدین کے ساتھ یزیدؓ کے پاس پہنچ گئے۔ضرار
کی جسمانی حالت لڑنے کے قابل نہیں تھی،ان کے بازو میں تیر لگا تھا اور جسم پر دو تین
اور گہرے زخم تھے۔پھر بھی وہ میدانِ جنگ میں موجود تھے اور ان کی برچھی پورا کام کر
رہی تھی۔
ضرار نے اپنی اور یزیدؓ کی فوج کو ملا کر حملے کا حکم دیا۔یہ
بڑا ہی شدید حملہ تھا،رومیوں پر ایسا رعب طاری ہوا کہ وہ قلعے میں واپس چلے گئے۔ان
کی لاشیں اور زخمی پیچھے رہ گئے۔
تیسرے دروازے کے سامنے رافع بن عمیرہ کے دستے تھے۔ان پر بھی
رومیوں نے شدید حملہ کیا اور رافع کے پاؤں اکھاڑ دیئے۔مسلمان بڑی بے خوفی سے لڑرہے
تھے لیکن رومیوں کا دباؤ بڑا سخت تھا۔اتفاق سے خالدؓ نے دیکھ لیا اور وہ چار سو سواروں
کو ساتھ لے کر رافع کے پاس پہنچے۔
’’میں فارس جلیل ہوں!‘‘ … خالدؓ نے نعرہ لگایا۔ … ’’میں خالد ابنِ ولید
ہوں۔‘‘
خالدؓ نے رومیوں پر صرف چار سو سواروں سے حملہ کر دیا۔رومی جو
رافع کے دستوں پر غلبہ پا رہے تھے ، پیچھے کو دوڑ پڑے، اور دروازے میں داخل ہو کر دروازہ
بند کر دیا۔
اصل لڑائی تو بابِ توماکے سامنے ہو رہی تھی۔توما نے خود وہاں
حملہ کیا تھا۔شرحبیلؓ کی نفری تھوڑی تھی۔مجاہدین کی تعداد کم رہ گئی تھی،اور وہ دن
کی لڑائی کے تھکے ہوئے بھی تھے ۔شرحبیلؓ نے اب بھی پہلوؤں کے تیر اندازوں کو استعمال
کیا ۔رومی تیر کھا کھاکر گرتے تھےلیکن حملے کیلئے آگے بڑھے آرہے تھے۔شرحبیلؓ نے دن
کے حملے میں توما کی گرجدار آواز سنی تھی، انہوں نے رات کو بھی اسی آواز کی للکار
سنی تو وہ حیران رہ گئے کہ توما حملے کی قیادت کر رہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ رومی تیروں
کی بوچھاڑوں میں بھی آگے بڑھے آرہے تھے۔
چاندنی رات میں دونوں فوجوں کی بڑی سخت ٹکر ہوئی۔شرحبیلؓ کے
مجاہدین نے حملہ روک لیا اور بڑی خونریز لڑائی ہوتی رہی۔مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ لڑائی
کم و بیش دو گھنٹے جاری رہی اور وہ دونوں فوجوں کے آدمی گرتے رہے۔شرحبیلؓ کو کسی طرف
سے بھی مدد ملنے کی توقع نہیں تھی۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔

No comments:
Post a Comment