شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 115
’’سالارِ محترم!‘‘ … خالدؓکواپنے قریب ایک آواز سنائی دی۔
… ’’آپ کو دمشق مبارک ہو۔‘‘
خالدؓ نے اُدھر دیکھا، وہ یونس ابن مرقس تھا۔اسے دیکھ کر خالدؓکو
یاد آیا کہ اس شخص نے اس لڑکی کی خاطر دمشق فتح کروادیا تھا جس کے ساتھ اس کی شادی
ہو چکی تھی۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ اسے یونس ابن مرقس کے ساتھ نہیں بھیج رہے تھے۔
’’ابنِ مرقس!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’دمشق تجھے مبارک ہو۔یہ کارنامہ
تیرا ہے۔تو نہ ہوتا تو ہم اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔‘‘
’’لیکن میں نے جسے حاصل کرنے کیلئے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا اور یہاں
کی بادشاہی ختم کرادی ہے۔وہ مجھے نہیں ملی۔‘‘
’’کیا اس کے ماں باپ یہیں ہیں؟‘‘ … خالدؓنے پوچھا۔
’’وہ چلے گئے ہیں۔‘‘ … یونس ابن مرقس نے جواب دیا۔ … ’’میں لڑکی سے
ملا تھا، اسے کہا کہ وہ ماں باپ کو بتائے بغیر میرے ساتھ آجائے ،میری محبت اس کی روح
میں اتری ہوئی ہے۔وہ فوراً تیار ہو گئی لیکن کہنے لگی کہ مسلمان آگئے ہیں، یہ مجھے
اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ پھر تم کیا کرو گے؟میں نے اسے کہا کہ میں بھی مسلمان ہوں، تم
اب محفوظ ہو۔… ‘‘
’’… اس نے حیران ہو کر پوچھا کہ تم نے یہ کیوں کہا ہے کہ تم بھی مسلمان
ہو؟ … میں نے اسے بتایا کہ میں مسلمان ہو چکا ہوں۔ … اتنا سننا تھا کہ وہ بالکل ہی
بدل گئی۔ کہنے لگی کہ اپنے مذہب میں واپس آجاؤ۔ … میں نے اسلام کی خوبیاں بیان کیں
تو اس نے کہا اگر تم اپنے مذہب میں واپس نہیں آؤ گے تو میری محبت نفرت میں بدل جائے
گی۔ … میں نے کہا کہ محبت مذہب کو نہیں دیکھا کرتی۔ … میں نے یہ بھی کہا کہ میں اب
مسلمان ہی رہوں گا۔ … اس نے کہا۔ … میں قسم کھاتی ہوں کہ آج کے بعد تمہاری شکل دیکھنا
بھی گوارا نہیں کروں گی۔ میں دمشق سے جا رہی ہوں۔ … اور وہ چلی گئی۔‘‘
’’کیا تم بھی اس کی محبت کو نفرت میں نہیں بدل سکتے؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’نہیں محترم سالار!‘‘ … یونس ابن مرقس نے کہا۔ … ’’میری محبت ایسی
نہیں۔یہ لڑکی مجھے نہ ملی تو شاید میں پاگل ہو جاؤں۔میں نے آپ کو یہ شہر دیا ہے،
کیا آپ مجھے ایک لڑکی نہیں دلا سکتے؟ وہ میری بیوی ہے۔میں نے آپ کے ساتھ وعدہ کیا
تھا۔آپ چاہیں تو اپنا ایک دستہ بھیج کر لڑکی کو زبردستی لا سکتے ہیں۔آپ فاتح ہیں۔‘‘
’’ابنِ مرقس!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’معاہدہ ہو چکا ہے۔ہم جانے والوں
کا ایک بال بھی ان سے زبردستی نہیں لے سکتے۔‘‘
مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ یونس ابن مرقس عقل اور ذہانت کے
اعتبار سے کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔ خالدؓ اس سے متاثر تھے اور اس کے احسان مند
بھی تھے۔دمشق کی فتح اس یونانی جوان کے بغیر ناممکن نہیں تو بے حد مشکل ضرور تھی۔خالدؓ
کو یہ شخص اس لئے بھی اچھا لگتا تھا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور جس لڑکی کی
محبت اسے پاگل کیے ہوئے تھی اس کے کہنے پر بھی اس نے اسلام ترک نہیں کیا تھا۔
’’میں نے سنا ہے۔‘‘ … یونس ابن مرقس نے کہا۔ … ’’آ پ نے دمشق سے جانے
والوں کو تین دنوں کیلئے تحفظ کا وعدہ کیا ہے۔کیا ان تین دنوں کے دوران آپ ان لوگوں
کا تعاقب کرکے ان پر حملہ نہیں کر سکتے؟‘‘
’’نہیںابنِ مرقس!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’یہ معاہدے کے خلاف ہے۔‘‘
’’تین روز گزر جانے کے بعد تو آپ ان پر حملہ کر سکتے ہیں۔‘‘ … یونس
ابن مرقس نے کہا۔
’’تین دنوں میں تو یہ بہت دور پہنچ چکے ہوں گے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔
… ’’یہ قافلہ بہت تیز جائے گا کیونکہ اس کے پاس خزانہ ہے اور بہت قیمتی مال بھی ہے۔راستے
میں رومیوں کے قلعے آتے ہیں، وہ کسی بھی قلعے میں جا پناہ لیں گے۔میں کسی قلعے پر
اتنی جلدی حملہ نہیں کر سکوں گا۔‘‘
اے اسلام کے عظیم سالار!‘‘ … یونس ابن مرقس نے کہا۔ … ’’یہ اس
راستے پر نہیں جا رہے جس راستے پر قلعے آتے ہیں۔ میں ان قلعوں سے واقف ہوں … بعلبک،
حمص اور طرابلس … یہ قافلہ انطاکیہ جا رہا ہے ، میں جانتا ہوں قافلے کے ساتھ سالار
توما ہے۔وہ اپنی فوج اور شہریوں کو انطاکیہ لے جارہا ہے جہاں اس کا سسر شہنشاہ ہرقل
رہ رہا ہے۔ میں تمام علاقے سے واقف ہوں۔انطاکیہ تک پہنچنے کیلئے تین سے بہت زیادہ دن
سفر کرنا پڑتا ہے۔میں آپ کو ایسی طرف سے لے جاسکتا ہوں جو کوئی راستہ نہیں۔ آپ کے
گھوڑ سوار تیز ہوں تو میں چوتھے دن کی صبح تک انہیں قافلےتک پہنچا سکتا ہوں۔‘‘
خالدؓنے یہ سنا تو ان کی آنکھیں چمک اٹھیں۔یہی تو وہ چاہتے
تھے۔ان کاارادہ یہ تھا کہ مجاہدین کو مالِ غنیمت ضرور دلائیں گے۔ انہیں دمشق والوں
پر غصہ تھا جو دمشق سے اپنے مال و متاع لے کر چلے گئے تھے۔
’’میں آپ کی رہنمائی کروں گا۔‘‘ … یونس ابنِ مرقس نے کہا۔ … ’’میں
آپ سے کچھ نہیں لوں گا۔مجھے صرف میری بیوی دلا دینا۔‘‘
…………bnb…………
چوتھے دن کی صبح طلوع ہوئی تو توما کا قافلہ انطاکیہ سے ابھی
بہت دور تھا۔توما کو شکست کا افسوس تو تھا ہی لیکن وہ خوش تھا کہ اس کی چال کامیاب
رہی تھی اور وہ دمشق کے لوگوں کو قیمتی اشیاء سمیت اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ اس روز
قافلہ ایک پہاڑی سلسلے میں پڑاؤ کیے ہوئے تھا اور کچھ دیر میں چلنے کو تھا، اچانک
کسی طرف سے ہزاروں گھوڑ سوار آندھی کی طرح آئے اور رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔
اس سے ذرا ہی پہلے رومیوں پر ایک اور قہر ٹوٹا تھا،یہ بڑی تیز
بارش تھی۔ گھٹائیں پھٹ پڑی تھیں۔ اس رومی قافلے کیلئے کوئی پناہ نہیں تھی۔یہ بارش آسمانی
آفت تھی اور اس آفت میں رومی فوج اور دمشق کے باشندوں پر ایک اور آفت ہزاروں گھوڑ
سواروں کی شکل میں ٹوٹی۔ اس وقت تک قافلے والے اِدھر اُدھر بکھر گئے تھے۔وہ اپنے سامان
کو گھسیٹتے پھر رہے تھے۔ زربفت کی تین سو سے زائد گانٹھیں جو بڑے بڑے بنڈلوں کی مانند
تھیں، ہر طرف بکھری پڑی تھیں، بعض گانٹھیں کھل گئیں اور کپڑا کھل کر بکھر گیا تھا۔
زربفت کا کپڑا اتنا زیادہ بکھرا کہ اس جگہ کا نام ’’مرج الدیباج‘‘
یعنی ریشم کا خیابان پڑ گیا۔یہاں جو معرکہ لڑا گیا اسے تمام مؤرخوں نے معرکہ مرج الدیباج
لکھا ہے۔
یہ گھوڑ سوار جنہوں نے رومیوں اور دمشق والوں کے قافلے پر حملہ
کیا تھا۔ان کی تعداد ایک ہزار تھی، اور یہ خالدؓ کے بھیجے ہوئے سوار تھے۔اس حملے کی
تفصیلات یوں ہیں کہ یونس ابنِ مرقس نے جب خالدؓکو بتایا کہ وہ انہیں ایک چھوٹے راستے
سے رومیوں تک پہنچا سکتا ہے تو خالدؓ کو روشنی نظر آئی۔یونس ابنِ مرقس خالدؓ کو اس
لئے تعاقب اور حملے کیلئے اُکسا رہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو پکڑ کر اپنے ساتھ لانا
چاہتا تھا لیکن خالدؓ کچھ اور سوچ رہے تھے۔انہوں نے اپنی فوج کی مایوسی دیکھی تھی۔
دشمن مالِ غنیمت اپنے ساتھ لے جارہا تھا۔
خالدؓ پر پابندی یہ عائد ہو گئی تھی کہ رومیوں کو تین دنوں کی
مہلت دی گئی تھی۔اس دوران مسلمان ان پر حملہ نہیں کر سکتے تھے۔تین دنوں میں رومیوں
کو کسی نہ کسی پناہ میں پہنچ جانا تھا لیکن یونس ابنِ مرقس کہتا تھا کہ قافلہ انطاکیہ
جا رہا ہے اور یونس اسے راستے میں پکڑوا سکتا ہے۔ خالدؓ کو غصہ اور تاسف پریشان کر
رہا تھا۔دشمن مع مالِ غنیمت کے ابوعبیدہؓ کی غلطی یا غلط فہمی سے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔
یونس کی یقین دہانی پر خالدؓ نے حملے کا پلان تیارکر لیا۔اس پلان کے مطابق خالدؓ نے
وہ سوار دستہ ساتھ لیا جو انہوں نے گھوم پھر کرلڑنے کیلئے تیار کیا تھا، اسے طلیعہ
کہتے ہیں،یہ چار ہزار منتخب سواروں کا دستہ تھا۔یہ سب شہسوار او رجانباز تھے۔اس دستے
کا گائیڈ یونس ابنِ مرقس تھا۔وہ خوش تھا کہ خالدؓ اسے اس کی بیوی دلانے کیلئے اتنا
بڑا جنگی اہتمام کر رہے ہیں لیکن خالدؓ کے سامنے کچھ اور مسئلہ تھا جو اوپر بیان کیا
گیا ہے۔
خالدؓ نے اس دستے کو چار حصوں میں تقسیم کیا، اور روانہ ہو گئے۔ان
کی رفتار بہت تیز تھی۔خالدؓ نے ہر حصے کے سالار کو اور سواروں کو بھی بتا دیا تھا کہ
جس قافلے پر حملہ کرنے جا رہے ہیں اسے صرف قافلہ نہ سمجھیں۔ وہ سب مسلح ہیں ان کے پاس
گھوڑے بھی ہیں، اور وہ رومی ہیں جو جان کی بازی لگا کر لڑنا جانتے ہیں اور وہ پسپا
ہوتے ہیں تو منظم طریقے سے پیچھے ہٹتے ہیں، بھاگتے نہیں۔
…………bnb…………
چوتھے دن رومی فوج اور دمشق کے باشندوں کا یہ قافلہ انطاکیہ
سے ابھی کچھ دور تھا کہ موسلا دھار بارش نے اسے بکھیر دیا،جوں ہی بارش ختم ہوئی ، ایک
ہزار گھوڑ سواروں نے ان پر حملہ کر دیا۔رومی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان سواروں
کے آگے آگے ضرار بن الازور تھے جنہوں نے حسبِ معمول سر پر خود بھی نہیں رکھی تھی
اور قمیض بھی اتاری ہوئی تھی اور وہ کمر تک برہنہ تھے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ رومی سالار توما اور ہربیس پہلے تو اس پر
حیران ہوئے کہ مسلمان کدھر سے آنکلے ہیں، انہیں معلوم نہیں تھا کہ انہیں دمشق کا ہی
ایک گائیڈ مل گیاتھا جو انہیں ایک چھوٹے راستے سے لے گیا تھا۔
’’ہربیس!‘‘ … توما نے کہا۔ … ’’سب کو مقابلے کیلئے تیار کرو۔ مسلمانوں
نے ہمیں تین دن کی ضمانت دی تھی، یہ تین دن ختم ہو گئے ہیں۔‘‘
’’جم کرمقابلہ کرو۔‘‘ … ہربیس نے للکار کر کہا۔ … ’’یہ بہت تھوڑے ہیں
کاٹ دو انہیں۔‘‘
رومی فوج حملہ روکنے کی ترتیب میں ہو گئی۔دمشق کے جو شہری لڑ
سکتے تھے وہ بھی مسلمانوں کے مقابلے میں آگئے۔رومی سپاہی اور اہلِ دمشق بارش سے بھیگے
ہوئے تھے اور ان کا سامان بکھرا ہوا تھا، انہوں نے اپنی عورتوں کو بچوں کو پیچھے کر
دیا اور ان کے ڈیڑھ دو سو آدمی تلواریں اور برچھیاں لے کر عورتوں اور بچوں کی حفاظت
کیلئے کھڑے ہوگئے۔
رومی للکار کر اور نعرے لگالگا کر لڑ رہے تھے۔ضرار جو برہنہ
جنگجو کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔اپنی روایت کے مطابق لڑ رہے تھے۔بلکہ جو سامنے آیا
اسے کاٹتے جا رہے تھے،لیکن رومی جس بے جگری سے لڑ رہے تھے اس سے یہی نظر آرہا تھا
کہ وہ مسلمان سواروں کا صفایا کردیں گے۔
تقریباً نصف گھنٹہ گزرا ہو گا کہ ایک طرف سے خالدؓ کے دستے کے
ایک ہزار مزید سوار گھوڑے سرپٹ دوڑاتے آرہے تھے۔ان کے سالار رافع تھے۔رومی سالار نے
دیکھا تو انہوں نے اپنی ترتیب بدل ڈالی، اور چلا چلا کر کہنے لگے، کہ وہ ان سواروں
کو بھی ختم کردیں گے۔ان کے لڑنے کا انداز ایسا ہی تھا کہ وہ اپنے دعوے کو صحیح ثابت
کر سکتے تھے، معرکہ اور زیادہ خونریز ہو گیا۔
نصف گھنٹہ اور گزرا ہو گا کہ مزید ایک ہزار سوار شمال کی جانب
سے آئے۔ان کے سالار خلیفۃ المسلمینؓ کے بیٹے عبدالرحمٰن تھے۔اب رومیوں کے حوصلے مجروح
ہونے لگے۔یہ ایک ہزار سوار جدھر سے آئے تھے یہ رومیوں کی پسپائی کا راستہ تھا۔اُدھر
انطاکیہ تھا۔مسلمانوں نے یہ راستہ روک لیا تھا۔
اب تین ہزار مسلمان سوار رومیوں پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتے تھے لیکن رومی
اور اہلِ دمشق پہلے سے زیادہ شدت سے لڑنے لگے۔یہ معرکہ ان کیلئے زندگی اور موت کامعرکہ
بن گیا تھا۔ ان کا بڑا ہی قیمتی مال و متاع، ان کے بچے اور بڑی خوبصوت اور جوان بیٹیاں
بہنیں اور بیویاں ان کے ساتھ تھیں۔ وہ بھاگ نہیں سکتے تھے ۔ان کے لڑنے میں شدت پیدا
ہو گئی۔
تقریباً ایک گھنٹے تک رومیوں نے مسلمانوں کا ناک میں دم کیے
رکھا۔ ان کا سالار توما جس کی آنکھ میں تیر اترا ہوا تھا، سپاہیوں کی طرح لڑرہا تھا۔اچانک
ایک ہزار مزید گھوڑ سوار ایک اور سمت سے آئے ۔ان کا سالار تلوار بلند کیے نعرے لگا
رہا تھا:
اَنا فارس الضدید
اَنا خالد بن ولید
رومی اس نعرے سے بخوبی واقف تھے۔ ان ایک ہزار سواروں کے قائد
خالدؓ خود تھے۔یہ تھا خالدؓکا پلان۔ وہ ایک ایک ہزار سوار بھیجتے رہے اور آخر میں
خود ایک ہزار سواروں کے ساتھ آئے۔خالدؓ توما اور ہربیس کو ڈھونڈ رہے تھے۔
’’کہاں ہے ایک آنکھ والا رومی؟‘‘ … خالدؓ للکار رہے تھے۔ … ’’کہاں
ہے وہ جس کی ایک آنکھ میں مومن کا تیر اترا ہوا ہے۔‘‘
رومی سالاروں کی تلاش میں خالدؓ دشمن کے دور اندر چلے گئے۔وہ
اکیلے تھے۔ان کے محافظوں کو بھی پتہ نہ چلا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں۔
’’ابنِ ابی بکر!‘‘ … خالدؓ کا ایک محافظ سالار عبدالرحمٰن کو دیکھ کر
ان تک پہنچا اور لڑائی کے شوروغل میں چلا کر بولا۔ … ’’سالارِ اعلیٰ کا کچھ پتا نہیں۔اکیلے
آگے چلے گئے ہیں۔‘‘
’’نہیں، نہیں!‘‘ … عبدالرحمٰن نے گھبرا کر کہا۔ … ’’ابنِ ولید لا پتا
نہیں ہو سکتا۔اﷲکی تلوار گرنہیں سکتی۔‘‘
عبدالرحمٰن نے کچھ سواروں کو ساتھ لیا، بے طرح اور بے خطر اس
طرف گئے جدھر خالدؓ چلے گئے تھے۔لڑائی ایسی تھی جیسے سوار گتھم گتھا ہو گئے ہوں۔عبدالرحمٰن
ان میں راستہ بناتے خالدؓ کو ڈھونڈنے لگے۔دیکھا کہ خالدؓدشمن کے قلب میں پہنچے ہوئے
تھے اور وہ توما کو اور دوسرے رومی سالار ہربیس کو ہلاک کر چکے تھے، اور اب رومیوں
کے نرغے سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ
رومی زیادہ تھے۔ یہ خالدؓ تھے جو ابھی تک ہر وار بچا رہے تھے۔ رومیوں کے ہاتھوں ان
کی شہادت یقینی تھی۔ عبدالرحمٰن اپنے سواروں کے ساتھ پہنچ گئے اور رومیوں پر ایسا زور
دار حملہ کیا کہ ان میں سے کئی ایک کو ہلاک کر دیا اور خالدؓ کو وہاں سے زندہ نکال
لائے۔
اس معرکے کی صورت ایسی بن گئی تھی کہ کوئی ترتیب نہیں رہی تھی۔یہ
کھلی لڑائی تھی جو لڑنے والے اپنے اپنے انداز سے انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔مسلمان
سواروں کی کمزوری یہ تھی کہ ان کی تعداد کم تھی اس لیے وہ رومیوں اور اہلِ دمشق کی
اتنی زیادہ نفری کو گھیرے میں نہیں لے سکتے تھے۔اس سے یہ ہوا کہ رومی اپنے سالاروں
کی ہلاکت کے بعد ایک ایک دو دو معرکے میں سے نکلنے لگے۔وہ علاقہ پہاڑی تھا اور کھڈ
نالے بھی تھے۔رومی وہیں کہیں غائب ہوتے گئے، اور انطاکیہ کی طرف نکل گئے۔اس طرح معرکہ
آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔
خالدؓ کے حکم سے عورتوں کو گھیرے میں لے لیا گیا، کچھ عورتیں
بھاگ گئی تھیں۔عورتوں کے ساتھ کئی آدمیوں کو بھی قیدی بنا لیا گیا۔اس قافلے کے ساتھ
جو مال اموال، خزانہ اور دیگر قیمتی سامان جا رہا تھا، وہ سب وہیں رہ گیا۔یہ مجاہدین
کا مالِ غنیمت تھا۔
وہاں ایک حادثہ یوں ہوا کہ یونس ابن مرقس اپنی بیوی کو ڈھونڈتا
پھر رہا تھا۔ وہ اسے نظر آگئی۔وہ اس کی طرف دوڑا۔لڑکی بھاگ نکلی لیکن وہ کہیں جانہیں
سکتی تھی کیونکہ سب عورتیں مسلمان سواروں کے گھیرے میں تھیں۔لڑکی نے جب دیکھا کہ کوئی
راہِ فرار نہیں اور یونس جومسلمان ہو چکا تھا، اسے پکڑ لے گا۔تو اس نے اپنے کپڑوں کے
اندر ہاتھ ڈالا اور خنجر نکال لیا۔یونس کے پہنچنے تک لڑکی نے خنجر اپنے سینے میں گھونپ
لیا، وہ گری اور یونس اسے اٹھانے لگا۔
’’جا ابنِ مرقس!‘‘ … لڑکی نے کہا۔ … ’’میرا خاوند مسلمان نہیں ہو سکتا۔‘‘
… اور وہ مر گئی۔
یونس ابنِ مرقس دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔اس لڑکی کی خاطر
اس نے دمشق مسلمانوں کو دلوایا تھاپھر یہ خونریز معرکہ لڑایا تھامگر لڑکی نے اپناخون
بہا کر اس کی محبت کا خون کر دیا۔
مسلمان سواروں نے اپنے شہیدوں کی لاشوں اور زخمیوں کو اٹھایا،
مالِ غنیمت رومیوں کی گھوڑا گاڑیوں پر لادا، عورتوں اور بچوں کو مرے ہوئے رومیوں کے
گھوڑوں پر بٹھایا اور دمشق کو چل پڑے۔یہ اگلی صبح تھی۔
جب مالِ غنیمت وغیرہ اکٹھا کیا جا رہا تھا اس وقت خالدؓ عورتوں
کے قریب جا کر احکام دے رہے تھے، انہیں یونس ابن مرقس اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔اس
سے پوچھا کہ اسے اپنی بیوی ملی ہے یا نہیں؟
’’مل گئی ہے۔‘‘ … یونس نے روتے ہوئے جواب دیا۔ … ’’لیکن زندہ نہیں۔اس
نے اپنے خنجر سے اپنے آپ کو مار دیا ہے۔‘‘
’’غم نہ کر ابنِ مرقس!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’تو اس سے زیادہ قیمتی
انعام کا حقدار ہے۔ آ، میں تجھے اس سے زیادہ خوبصورت بیوی دوں گا۔‘‘
خالدؓ نے اسے ایک رومی عورت دِکھائی جو جوان تھی اور جس کا حسن
لا جواب تھا،اس کا لباس ریشم کا تھا اور اس کے گلے میں بڑا ہی قیمتی ہار تھا۔
’’یہ تیرا مالِ غنیمت ہے۔‘‘ … خالدؓ نے اسے حسن کا یہ پیکردکھا کر کہا۔
… ’’میں اس کے ساتھ تیری شادی کرادوں گا۔‘‘
’’نہیں سالارِ محترم!‘‘ … یونس ابنِ مرقس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں
کہا۔ … ’’میں اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا،آپ شاید نہیں جانتے۔یہ شہنشاہِ ہرقل کی
بیٹی ہے۔ یہ ان کے سالار توما کی بیوی تھی۔‘‘
’’اب یہ کسی شہنشاہ کی بیٹی نہیں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اب یہ تیری
بیوی ہو گی۔‘‘
’’یہ مجھے واپس کرنی پڑے گی۔‘‘ … یونس ابن مرقس نے کہا۔ … ’’ہرقل اپنی
بیٹی کو واپس لینے کیلئے اپنی تمام تر سلطنت کی فوج اکٹھی کرکے دمشق پر حملہ کردے گا۔
ایسا نہیں کرے گا تو فدیہ ادا کرکے اسے آپ سے واپس لے لے گا۔‘‘
خالدؓ خاموش ہو گئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment