شمشیر بے نیام
سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر
عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر
قسط نمبر: 116
اگلی صبح خالدؓ واپس روانہ ہوئے۔وہ بہت خوش تھے۔انہوں نے معاہدہ
نہیں توڑا تھااور اپنا مقصد بھی پورا کر لیا تھا۔
دمشق تک جانے والا راستہ آدھا طے ہوا تھا کہ انطاکیہ کی طرف
سے بارہ چودہ گھوڑ سوار آئے۔وہ رومی تھے۔ ان میں ایک اونچی حیثیت کا معلوم ہوتا تھا۔وہ
خالدؓ سے ملنا چاہتا تھا، اسے خالدؓ تک پہنچا دیا گیا۔
’’میں شہنشاہِ ہرقل کا ایلچی ہوں۔‘‘ … اس نے کہا۔ … ’’اور یہ میرے محافظ
ہیں، میں امن سے آیا ہوں۔ اس امید کے ساتھ کہ آپ سے بھی مجھے امن اور دوستی ملے گی۔‘‘
’’کیا پیغام لائے ہو؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’شہنشاہِ ہرقل کو اطلاع مل گئی ہے کہ آپ نے ہماری فوج اور دمشق سے
ہجرت کرنے والوں پر حملہ کیا ہے۔‘‘ … ہرقل کے ایلچی نے کہا۔ … ’’شہنشاہ نےآپ کے حملے
کے متعلق کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے اپنی بیٹی واپس مانگی ہے،اور کہا ہے کہ آپ جس قدر
فدیہ طلب کریں گے ، ادا کیا جائے گا۔شہنشاہ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ فیاض اور کشادہ
ظرف ہیں۔ اگر آپ فدیہ نہ لینا چاہیں تو میری بیٹی مجھے بخش دیں۔‘‘
ہرقل نے خالدؓ کو فیاض اور کشادہ ظرف کہہ کر ان کی خوشامد نہیں
کی تھی۔وہی خالدؓ جو میدانِ جنگ میں دشمن کیلئے قہر تھے ، میدان کے باہر اتنے ہی حلیم
اور فیاض تھے۔
’’اگر تمہارے شہنشاہ نے بخشش مانگی ہے تو اس کی بیٹی کو بخشش کے طور
پر لے جاؤ۔‘‘ … خالدؓ نے ایلچی سے کہااور رکابوں پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے حکم
دیا۔ … ’’رومیوں کے شہنشاہ ہرقل کی بیٹی کو اس کے ایلچی کے حوالے کر دو۔خدا کی قسم!میں
نے تم سب کی طرف سے اسے بخشش کے طور پر چھوڑ دیا ہے۔ہمیں ہرقل کی سلطنت چاہیے اس کی
بیٹی نہیں۔‘‘
ہرقل کی بیٹی اس کے سفیر کے ساتھ چلی گئی۔
یونس ابن مرقس نے ٹھیک ہی کہا تھاکہ ہرقل ہر قیمت پر اپنی بیٹی
واپس لے گا،یونس کو خالدؓ نے اپنے حصے کے مالِ غنیمت میں سے بے انداز انعام دینا چاہا
لیکن اس نے صاف انکار کر دیااور کہاکہ وہ باقی عمر شادی نہیں کرے گا۔بعد میں اس نے
اپنی زندگی اسلام اور جہاد کیلئے وقف کر دی تھی لیکن اس کی باقی زندگی صرف دو سال تھی۔وہ
جنگِ یرموک میں شہید ہو گیا تھا۔
…………bnb…………
خالدؓ جب مالِ غنیمت کے ساتھ دمشق میں داخل ہوئے تو ان کی فوج
نے دیوانہ وار ان کا استقبال کیا۔وہ کامیاب لَوٹے تھے۔خالدؓ نے پہلا کام یہ کیا کہ
امیر المومنینؓ کے نام بڑا لمبا پیغام لکھوایا جس میں انہیں دمشق کی فتح کی خوشخبری
سنائی۔یہ بھی لکھا کہ وہ دمشق میں کس طرح داخل ہوئے تھے اور ابو عبیدہؓ نے کیا غلطی
کی تھی۔انہوں نے تفصیل سے لکھا کہ وہ کس طرح رومیوں کے پیچھے گئے اور ان کے سالاروں
توما اور ہر بیس کو ہلاک کیا پھر ہرقل کی بیٹی کس طرح واپس کی، مالِ غنیمت کے متعلق
لکھا کہ اس کا پانچواں حصہ خلافت کیلئے جلدی بھیج دیا جائے گا۔
خالدؓ نے یہ پیغام اکتوبر ۶۳۴ء کی پہلی تاریخ (۲شعبان ۱۳ ھ) کے روز بھیجا تھا۔
قاصد روانہ ہو گیا۔کئی گھنٹے گزر گئے تو ابوعبیدہؓ خالدؓ کے
خیمے میں آئے۔ابو عبیدہؓ مغموم تھے۔خالدؓ نے پوچھا … ’’ان کا چہرہ ملول کیوں ہے؟‘‘
’’ابنِ ولید!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے بوجھل آواز میں کہا۔ … ’’خلیفہ ابو
بکر فوت ہو گئے ہیں، اور اب عمر خلیفہ ہیں۔‘‘
خالدؓ سُن ہو کر رہ گئے،اور کچھ دیر ابو عبیدہؓ کے منے پر نظریں
جمائے رہے۔
’’کب فوت ہوئے ہیں؟‘‘ … خالدؓ نے سرگوشی میں یوں پوچھا جیسے سسکیاں
لے رہے ہوں۔
’’۲۲جمادی الآخر کے روز!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔
یہ تاریخ ۲۲ اگست ۶۳۴ء تھی۔حضرت ابو
بکرؓ کو فوت ہوئے ایک مہینہ اور آٹھ دن ہو گئے تھے۔
’’اطلاع اتنی دیر سے کیوں آئی؟‘‘
’’اطلاع جلدی آگئی تھی۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے جواب دیا۔ … ’’مدینہ سے
قاصد آیا تو اس نے دیکھا کہ ہم نے دمشق کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس نے سوچا کہ محاصرے
کے دوران یہ اطلاع دی تو اپنے لشکر میں کہرام بپا ہو جائے گا، اور اس محاصرے پر بہت
برا اثر پڑے گا۔اس نے صر ف یہ بتایا کہ مدینہ میں خیریت ہے اور کمک آرہی ہے۔ایک دو
دنوں بعد اس نے پیغام مجھے دے دیا اور چلا گیا۔میں نے پڑھا اور یہی بہتر سمجھا کہ دمشق
کا فیصلہ ہو جائے تو تجھے اور لشکر کو اطلاع دوں۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے نئے خلیفہ کا خط
جو ابوعبیدہؓ کے نام لکھا گیا تھا، خالدؓ کو دے کر کہا۔ … ’’اور یہ وہ خبر ہے جو میں
تجھے لڑائی ختم ہونے تک نہیں دینا چاہتا تھا۔‘‘
خالدؓ خط پڑھنے لگے۔ یہ خلیفہ عمرؓ نے ابو عبیدہؓ کو لکھا تھا:
’’خلیفہ المسلمین عمرؓ کی طرف سے ابو عبیدہ کے نام!
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
’’میں تجھے اﷲسے ڈرتے رہنے کی نصیحت کرتا ہوں۔اﷲلازوال ہے جو ہمیں گمراہی
سے بچاتا ہے، اور اندھیرے میں روشنی دِکھاتا ہے۔میں تمہیں خالد بن ولید کی جگہ وہاں
کے تمام لشکر کا سپہ سالار مقرر کرتا ہوں۔فوراً اپنی جگہ لو، ذاتی مفاد کیلئے مومنین
کو کسی مشکل میں نہ ڈالنا۔انہیں اس پڑاؤ پر نہ ٹھہرانا جس کے متعلق تو نے پہلے دیکھ
بھال نہ کرلی ہو۔کسی لڑائی کیلئے دستوں کو اس وقت بھیجنا جب وہ پوری طرح منظم ہوں،
اور کوئی ایسا فیصلہ نہ کرنا جس سے مومنین کا جانی نقصان ہو۔اﷲنے تجھے میری آزمائش
کا، اور مجھے تیری آزمائش کا ذریعہ بنایاہے۔دنیاوی لالچوں سے بچتے رہنا۔ کہیں ایسا
نہ ہو کہ جس طرح تجھ سے پہلے تباہ ہوئے ہیں تو طمع سے تباہ ہوجائے۔تو جانتا ہے وہ اپنے
رتبے سے کس طرح گرے ہیں۔‘‘
اس خط کا مطلب یہ تھا کہ خلیفۃ المسلمین عمرؓ نے خالدؓ کو سپہ
سالاری سے معزول کر دیا تھا۔ اب ابو عبیدہؓ سپہ سالار تھے۔بلکہ وہ ایک مہینہ آٹھ دن
پہلے سے سپہ سالار تھے۔
’’اﷲکی رحمت ہو ابو بکر پر!‘‘ … خالدؓ نے خط ابو عبیدہؓ کو دے کر کہا۔
’’وہ زندہ ہوتے تو میرا یہ انجام نہ ہوتا۔‘‘
مؤرخ یعقوبی اور واقدی لکھتے ہیں کہ … ’’اللہ کی تلوار جھک
گئی تھی۔ اُس رات خالدؓ سو نہ سکے۔ ابوبکرؓ کو یاد کرتے اور روتے رہے۔‘‘
…………bnb…………
رات جو خالدؓ نے مدینہ سے دور دمشق میں خلیفہ اول ابو بکرؓ کی
رحلت پر روتے گزاردی تھی، اس رات ڈیڑھ دو مہینے پہلے مدینہ پر ماتم کے بادل چھانے لگے
تھے۔امیرالمومنین ابو بکرؓ ایسی حالت میں ٹھنڈے پانی سے نہا بیٹھے جب ان کا جسم گرم
اور پسینے میں شرابور تھا۔فوراً انہیں بخار ہو گیا۔علاج ہوتا رہا لیکن بخار جسم کو
کھاتا رہا۔اگر امیرالمومنینؓ آرام کرتے تو شاید بخار کا درجہ حرارت گر جاتا مگر بیماری
کی حالت میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو امور سلطنت میں مصروف رکھا۔
ایک روایت یہ ہے کہ ابو بکرؓ نے علاج کروایا ہی نہیں تھا۔انہیں
ایک روز تیمارداروں نے کہا کہ طبیب کو بلا کر علاج کرائیں۔
’’میں ن طبیب کو بلایا تھا۔‘‘ … امیرالمومنینؓنے کہا۔ … ’’اس نے کہا
تھا کہ علاج اور آرام کی ضرورت ہے۔میں نے اسے کہا تھا کہ میں جو چاہوں گا کروں گا
، میں نے اسے واپس بھیج دیا تھا۔‘‘
’’علاج کیوں نہیں کرایا امیرالمومنین؟‘‘
’’آخری منزل پر آن پہنچا ہوں میرے رفیقو!‘‘ … خلیفۃ المسلمین ابو
بکرؓ نے جواب دیا۔ … ’’اﷲ نے جو کام میرے سپرد کیے تھے وہ اگر سب کے سب پورے نہیں ہوئے
تو میرے لیے یہ اطمینان کیا کم ہے کہ میں نے کوتاہی نہیں کی … میں اﷲکے محبوب کے پاس
جا رہا ہوں۔‘‘
تاریخ گواہ ہے کہ خلیفۃ المسلمین ابو بکر ؓنے اپنے دو سال تین
ماہ کے دورِ خلافت میں معجزہ نما کام کیے تھے۔رسولِ کریمﷺ کی وفات کے فوراًبعدارتداد
کا جو فتنہ تمام تر سر زمینِ عرب میں پھیل گیا تھا وہ ایک جنگی طاقت تھی جسے ختم کرنے
کیلئے اس سے زیادہ جنگی طاقت کی ضرورت تھی۔لیکن ابو بکرؓ نے تدبر سے اور جنگی فہم و
فراست سے مجاہدینِ اسلام کی قلیل تعداد کو استعمال کیااور تھوڑے سے عرصے میں ارتداد
کے فتنے اور اس کی جنگی طاقت کو ریزہ ریزہ کردیا۔اس کے نتیجے میں ان تمام قبیلوں نے
جو ارتداد کی لپیٹ میں آگئے تھے۔اسلام قبول کرلیا۔
ابو بکرؓ نے آنے والے مسلمان حکمرانوں ، اُمراء اوروزراء کیلئے
یہ سبق ورثے میں چھوڑا کہ ان میں بے لوث جذبہ ہو، اقتدار کی ہوس، اور کوئی ذاتی مفاد
نہ ہو تو پوری قوم مجاہدین کا لشکر بن جاتی ہے اور قوم کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ
ہو وہ کفر کی چٹانوں کے دل چاک کر دیا کرتی ہے۔یہ سربراہِ سلطنت پر منحصر ہے کہ قوم
فتح کامرانی کی رفعتوں تک جاتی ہے یا ذلت و رسوائی کی اندھیری کھائیوں میں۔
ارتداد کے علاوہ بھی کہیں بغاوت اورکہیں شورش تھی۔خلیفہ ابو
بکرؓ نے ہر سو امن و امان قائم کر دیا تھا۔فتنہ و فساد نہ رہا۔ بغاوت اور شورش نہ رہی
تو ابو بکرؓ نے انتہائی جرات مندانہ فیصلہ کیا۔انہوں نے مسلمانوں کو فارس جیسی شہنشاہی
کے خلاف اور پھر اسی جیسی دوسری بڑی جنگی طاقت کے خلاف بھیج دیا۔مجاہدین نے کسریٰ کی
طاقت کو کچل کر اس کے بے شمار علاقے کو اسلامی سلطنت میں شامل کر لیا پھر قیصرِ روم
کی فوج پر دہشت بن کر چھاگئے اور اس کے کئی علاقے اسلامی سلطنت میں آگئے۔کسریٰ بھی
اور قیصر بھی اپنے آپ کو ناقابلِ تسخیر سمجھتے تھے۔مسلمانوں نے خلیفہ اولؓ کے احکام
کی پیروی کرتے ہوئے، ان دونوں دشمنانِ اسلام کا گھمنڈ توڑ دیا اور اسلامی فوج کو ایک
طاقت بنا دیا۔انہی جنگوں میں مجاہدین کو فوج کی صورت میں منظم کیا گیا تھا۔
ابو بکرؓ کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ اسلام ایک مذہب کی
صورت میں ہی عرب سے عراق اور شام میں نہ پھیلا بلکہ اس سے اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب
بھی پھیلی بلکہ یوں کہنا درست ہوگا کہ ایک نئے کلچر نے جنم لیا جسے لوگوں نے اسلامی
کہا اور اسے اپنایا۔اس سے پہلے تو لوگ فارس اور روم کے کلچر کو ہی تہذیب و تمدن سمجھتے
تھے اور اسے فوراً قبول کر لیتے تھے۔
…………bnb…………
خلیفہ اولؓ جیسے تھک سے گئے تھے،اور پوری طرح سے مطمئن تھے کہ
وہ خالق حقیقی کے حضور جا رہے ہیں، اور سرخرو جا رہے ہیں۔اس دور کی تحریروں سے اور
مؤرخین کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ابو بکرؓ کو ایک مسئلہ پریشان کر رہا تھا۔یہ
تھا ان کی جانشینی کا مسئلہ۔ انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے اس مسئلہ کا ذکر کیا تھا۔
’’میرے اﷲ کے رسول (ﷺ) کو موت نے اتنی مہلت نہیں دی تھی کہ کسی کو خود
خلیفہ مقرر کرتے۔‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا تھا۔ … ’’اور سقیفہ بنی ساعدہ میں مہاجرین اور
انصار کے درمیان اختلاف پر فتنہ و فساد پیدا ہو گیا تھا۔یہ تو اﷲ کو منظور نہ تھا کہ
اس کے رسول (ﷺ) کی امت جس کی تعداد ابھی بہت تھوڑی ہے، آپس میں لڑ کر ختم ہو جائے۔
اﷲنے امت کا اتحاد میرے ہاتھ پر قائم رکھا۔خدا کی قسم!میں رسول(ﷺ) کی امت کو اس فساد
میں نہیں ڈال کر مروں گا کہ میرے بعد خلیفہ کون ہو۔ میں خود خلیفہ مقرر کرکے جان اﷲکے
سپرد کروں گا۔‘‘
عظیم تھے خلیفہ اولؓ کہ انہوں نے یہ بات سوچ لی تھی۔اس دور کے
تھوڑا عرصہ بعد کے وقائع نگار اور مبصر لکھتے ہیں کہ خلیفہ اولؓ نے سوچ لیا تھا کہ
قبیلوں یا طبقوں یا افراد میں جب اقتدار کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے تو قوم کا اتحاد پھٹے
ہوئے دامن کی مانند ہو جاتا ہے۔فوجوں کی پیش قدمی پسپائی میں بدل جاتی ہے، پیچھے ہٹتا
ہوا دشمن آگے بڑھنے لگتا ہے۔ پھر فوج بھی اقتدار کی جنگ کا ہتھیار بن جاتی ہے اور
سالار سلطانی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔
مسلمانوں کا وہ دور فتوحات سے مالامال ہو رہا تھا۔درخشاں روایات
جنم لے رہی تھیں اور یہی تاریخِ اسلام کی بنیاد بن گئی تھیں۔ابو بکرؓ کی دوربیں نگاہوں
نے دیکھ لیا تھا کہ قیصرو کسریٰ جو پسپائی اور زوال کے عمل سے گزر رہے ہیں، اور نیست
و نابود ہوجانے تک پہنچ گئے ہیں۔وہ مسلمانوں کے نفاق سے فائدہ اٹھائیں گے، اور عفریت
بن کر اسلام کو نگل جائیں گے۔
’’کیا عمرؓ کو لوگ قبول کرلیں گے؟‘‘ … ابو بکرؓ نے اپنے اہلِ خانہ سے
کہا۔ … ’’شاید نہ کریں … عمر کا مزاج بہت سخت ہے … اپنے احباب سے مشورہ لے لیتا ہوں۔‘‘
ابو بکرؓ نے عبدالرحمٰنؓ بن عوف کو بلایا اور تنہائی میں بٹھایا۔
’’ابنِ عوف!‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا۔ … ’’کیا تو مجھے سچے دل سے بتا سکتا
ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟تو اسے کیسا سمجھتا ہے؟‘‘
’’خدا کی قسم خلیفہ رسول!‘‘ … عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔ … ’’جو میں
جانتا ہوں، وہ اس سے بہتر نہیں جو تو جانتا ہے۔‘‘
’’جو کچھ بھی تو جانتا ہے کہہ دے۔‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا۔
’’خلیفہ رسول!‘‘ … عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے کہا۔ … ’’ہم میں سے کوئی بھی
ایسا نہیں جو عمر بن خطاب سے بہتر ہو۔ لیکن اس کی طبیعت میں جو سختی ہے، وہ بھی ہم
میں سے کسی میں نہیں۔‘‘
’’رائے میری بھی یہی ہے ابنِ عوف!‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا۔ … ’’تم سب کو
عمر کی سختی اس لئے زیادہ محسوس ہو تی ہے کہ میرے مزاج میں بہت نرمی ہے۔ کیا ایسا نہیں
ہو گا کہ اپنے بعد خلافت کا بوجھ اس کے کندھوں پر ڈال دوں تو اس کی سختی کم ہوجائے؟
… ایسے ہی ہوگا۔کیا تو نے نہیں دیکھا کہ میں کسی پر سختی کرتا ہوں تو عمر اس کے ساتھ
نرمی سے پیش آتا ہے؟اور اگر میں کسی کی غلطی یا کوتاہی پر اپنا رویہ نرم رکھتا ہوں
تو عمر اس پر سختی کرتا ہے؟وہ سمجھتا ہے کہ کب سختی اور کب نرمی کی ضرورت ہے۔‘‘
’’بے شک !ایسا ہی ہے۔‘‘ … عبدالرحمٰنؓ نے کہا۔ … ’’خلیفہ رسول!بے شک
ایسا ہی ہے۔‘‘’’
’’اس بات کا خیال رکھنا ابو محمد(عبدالرحمٰن بن عوف)!‘‘ … ابو بکرؓ
نے کہا۔ … ’’میرے تیرے درمیان جو باتیں ہوئی ہیں وہ کسی تک نہ پہنچیں۔‘‘
عبدالرحمٰنؓ بن عوف چلے گئے تو امیرالمومنینؓ نے اپنے ایک اوررفیق
اور مشیر عثمانؓ بن عفان کو بلایا۔
’’ابو عبداﷲ!‘‘ … ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔ … ’’تجھ پر اﷲکی
رحمت ہو۔کیا تو بتا سکتا ہے کہ عمر بن خطاب کیسا آدمی ہے؟‘‘
’’امیرالمومنین!‘‘ … عثمانؓ بن عفان نے جواب دیا۔ … ’’خدا کی قسم!ابنِ
خطاب کو تو مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہے پھر تو مجھ سے کیوں پوچھتا ہے؟‘‘
’’اس لئے کہ میں اپنی رائے رسول اﷲ(ﷺ) کی امت پر نہیں ٹھونسنا چاہتا۔‘‘
… ابو بکرؓ نے کہا۔ … ’’میں تیری رائے ضرور لوں گا۔‘‘
’’امیرالمومنین !‘‘ … عثمانؓ بن عفان نے کہا۔ … ’’عمر کا باطن اس کے
ظاہر سے اچھا ہے، اور جو علم و دانش اس کے پاس ہے وہ ہم میں سے کسی میں نہیں۔‘‘
’’ایک اور سوال کا جواب دے دے ابو عبداﷲ!‘‘ … ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن
عفان سے کہا۔ … ’’اگر میں اپنے بعد خلافت عمر کے سپرد کرجاؤں تو تیرا کیا خیال ہے
کہ وہ تم سب پر سختی کرے گا؟‘‘
’’ابنِ خطاب جو کچھ بھی کرے گا ہم اس کی اطاعت میں فرق نہیں آنے دیں
گے۔‘‘ … عثمانؓ بن عفان نے کہا۔
’’ابو عبداﷲ!اﷲ تجھ پررحم و کرم کرے۔‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا۔ … ’’میں
نے جو تجھے کہا اور تو نے جو مجھے کہا۔یہ کسی اور کے کانوں تک نہ پہنچے۔‘‘
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید
فرمائیں۔
No comments:
Post a Comment