Featured Post

Khalid001

22 March 2020

Khalid117


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  117
ابو بکرؓ نے کئی اور صحابہؓ سے عمرؓ کے متعلق رائے لی۔ان میں مہاجرین بھی تھے اور انصار بھی۔ابو بکرؓ نے ہر ایک سے کہا تھا کہ وہ کسی اور سے اس گفتگو کا ذکر تک نہ کرے، لیکن یہ معاملہ اتنا اہم تھا کہ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بات کی۔یہ آئندہ خلافت کامعاملہ تھا اور صحابہ کرامؓ کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ ابو بکرؓ عمرؓ کو خلیفہ مقرر کر رہے تھے۔عمرؓ سخت طبیعت کے مالک تھے۔ان کے فیصلے بڑے سخت ہوتے اور وہ بڑی سختی سے ان پر عمل کراتے تھے۔
ان سب نے ایک وفد اس مقصد کیلئے بنایا کہ ابو بکرؓ کو قائل کریں کہ عمرؓ بن خطاب کو خلیفہ مقرر نہ کریں۔جب وفد خلیفہ اولؓ کے پاس گیا تو وہ لیٹے ہوئے تھے۔بخار نے انہیں اتنا کمزور کر دیا تھا کہ اپنے زور سے اٹھ بھی نہیں سکتے تھے۔
’’امیرالمومنین!‘‘ … وفد کے قائد نے کہا۔ … ’’خدا کی قسم!عمر خلیفہ نہیں ہو سکتا۔اگر تو نے اس کو خلیفہ مقرر کر دیاتو اﷲکی باز پرس کا تیرے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔عمر تیری خلافت میں سب پر رعب اور غصہ جھاڑتا ہے وہ خود خلیفہ بن گیا تو اس کا رویہ ظالموں جیساہو جائے گا۔‘‘
ابو بکرؓ کو غصہ آگیا۔انہوں نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن اٹھ نہ سکے۔
’’مجھے بٹھاؤ۔‘‘ … انہوں نے غصیلی آواز میں کہا۔
انہیں سہارا دے کر بٹھادیا گیا۔
’’کیا تم سب مجھے اﷲکی باز پرس سے اور اس کے غضب سے ڈرانے آئے ہو؟‘‘ … ابو بکرؓ نے غصے اور نقاہت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ … ’’میں اﷲکے حضور جا کرکہوں گا کہ میرے رب! میں نے تیرے بندوں میں سے بہترین بندے کو خلافت کی ذمہ داری سونپی ہے، … اور میں نے جو کہا ہے وہ تمام لوگوں کو سنا دو۔میں نے عمر بن خطاب کو خلیفہ مقرر کر دیا ہے۔‘‘
وہ جو سب ابو بکرؓ کو ان کے فیصلے کے خلاف قائل کرنے آئے تھے خاموش ہو گئے،اور شرمسار بھی ہوئے کہ انہوں نے امیرالمومنینؓ کو بیماری کی حالت میں پریشان کیا ہے۔وہ سب اٹھ کر چلے گئے۔
اس سے اگلے روز ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان کو بلایا، عثمانؓ خلیفہ کے کاتب تھے۔
’’ابو عبداﷲ!‘‘ … ابو بکرؓ نے عثمانؓ بن عفان سے کہا۔ … ’’لکھ جو میں بولتا ہوں۔‘‘ … انہوں نے لکھوایا:
’’بسم اﷲالرحمٰن الرحیم۔ یہ وصیت ہے جو ابو بکر بن ابو قحافہ نے اس وقت لکھوائی ہے جب وہ دنیا سے رخصت ہوکر موت کے بعد کی زندگی میں داخل ہو رہا تھا۔ایسے وقت پکا کافر بھی ایمان لے آتا ہے، اور جس نے کبھی سچ نہ بولا ہو، وہ بھی سچ بولنے لگتا ہے۔میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو تمہارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں، تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے، میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔اگر عمر نے تم پر زیادتی کی اور عدل و انصاف نہ کیا تو وہ ہر انسان کی طرح اﷲکے حضور جواب دہ ہو گا۔مجھے امید ہے کہ عمر عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا۔میں نے جو فیصلہ کیا ہے اس میں تمہاری بھلائی اور بڑائی کے سوا اور کچھ نہیں سوچا۔‘‘
وصیت لکھواتے لکھواتے ابو بکرؓ پر غشی طاری ہو گئی تھی، انہوں نے یہاں تک لکھوایا۔ … ’’ میں اپنے بعد عمر بن خطاب کو…‘‘ اور وہ غشی میں چلے گئے۔عثمانؓ بن عفان نے خود یہ فقرہ مکمل لکھ دیا۔ … ’’تمہارا خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ تم سب پر اس کی اطاعت فرض ہے۔ میں نے تمہاری بھلائی اور بہتری میں کوئی کسر نہیں رہنے دی۔‘‘
ابو بکرؓ ہوش میں آگئے۔
’’ابو عبداﷲ!‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا۔ … ’’پڑھ جو میں نے لکھوایا ہے۔‘‘
عثمانؓ بن عفان نے پڑھ کر سنایا۔
’’اﷲاکبر!‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا۔ … ’’خدا کی قسم! تم نے جو سوچ کرلکھا ہے وہ سوچ غلط نہیں تھی۔تو نے یہ سوچ کر عبارت پوری کردی، کہ میں غشی کی حالت میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا تو نا مکمل وصیت خلافت کیلئے جھگڑے کا باعث بن جائے گی۔‘‘
’’بے شک امیرالمومنین!‘‘ … عثمانؓ بن عفان نے کہا۔ … ’’میں نے یہی سوچ کر عبارت مکمل کرلی تھی۔‘‘
’’اﷲتجھے اس کی جزا دے۔‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا۔ … ’’انہوں نے عثمانؓ بن عفان کے الفاظ نہ بدلے اور وصیت مکمل لکھوادی۔
’’مجھے اٹھا کر مسجد کے دروازے تک لے چلو۔‘‘ … امیرالمومنینؓ نے کہا۔
ان کے مکان کا ایک دروازہ مسجد میں کھلتا تھا۔ وہ دروازہ کھولا گیا، نماز کا وقت تھا، بہت سے لوگ مسجد میں آچکے تھے۔ ابو بکرؓ کی زوجہ اسماء بنت عمیس دونوں ہاتھوں سے سہارا دے کر مسجد والے دروازے تک لے گئیں۔ نمازیوں نے انہیں دیکھاتو متوجہ ہوئے۔
’’میرے بھائیو!‘‘ … ابو بکرؓ نے نقاہت کے باوجود بلند آواز سے بولنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ … ’’کیا تم اس شخص پر راضی ہو گے جسے میں خلیفہ مقررکروں؟ میں نے اس میں تمہاری بھلائی سوچی ہے اور اپنے کسی رشتے دار کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ میرے بعد عمر بن خطاب خلیفہ ہوگا۔ کیا تم سب اس کی اطاعت کرو گے؟‘‘
’’ہاں امیرالمومنین!‘‘ … بہت سی آوازیں سنائی دیں۔ … ’’ہم اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں۔ہم ابنِ خطاب کی اطاعت قبول کریں گے۔‘‘
اس کے بعد ابو بکرؓ نے وصیت پر اپنی مہر ثبت کردی۔
…………bnb…………


ابو بکرؓ کا پیشہ تجارت تھا لیکن خلافت کابوجھ کندھوں پر آپڑا تو تجارت کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ گزر اوقات تو کرنی ہی تھی، انہوں نے اپنے کنبے کیلئے بیت المال سے کچھ الاؤنس منظور کرا لیا تھا، اب جب انہوں نے محسوس کرلیا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکیں گے، تو انہوں نے اپنے اہلِ خانہ سے کہا، کہ ان کی جو تھوڑی سی زمین ہے وہ ان کی وفات کے بعد بیچ کر یہ تمام رقم جو وہ گزارے کیلئے بیت المال سے لیتے رہے ہیں، بیت المال میں جمع کرادیں۔
’’سب میرے قریب آجاؤ!‘‘ … ابو بکرؓ نے آخری وقت اہلِ خانہ کو بٹھا کر کہا۔ … ’’مجھے صرف دو کپڑوں کا کفن پہنا کر دفن کرنا، تم دیکھتے رہے ہو کہ میں ایک ہی کپڑا پہنا کرتا تھا، اس کے ساتھ ایک کپڑا اور ملالینا، ان کپڑوں کو پہلے دھو لینا۔‘‘
’’ہم تین نئے کپڑے لے سکتے ہیں۔‘‘ … عائشہؓ نے کہا۔ … ’’کفن تین کپڑوں کا ہوتا ہے۔‘‘
’’نہیں عزیز بیٹی!‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا۔ … ’’کفن تو اس لئے ہوتا ہے، کہ جسم سے کوئی مواد اور نمی نکلے تو اسے کفن چوس لے۔کفن پرانے کپڑوں کا ہوا تو کیا؟نئے کپڑے پہننے کا حق زندہ لوگوں کا ہے۔ مجھے غسل اسماء بنت عمیس (زوجہ) دے گی، اگر اکیلے غسل نہ دے سکے تو اپنے بیٹے کو ساتھ لے لے۔‘‘
اتنے میں اندر اطلاع دی گئی کہ عراق کے محاذ سے مثنیٰ بن حارثہ آئے ہیں۔ گھر کے کسی فرد نے کہا کہ امیرالمومنینؓ اس وقت بات کرنے کے قابل نہیں۔
’’نہیں‘‘ … امیرالمومنینؓ نے قدرے درشت لہجے میں کہا۔ … ’’اسے آنے دو۔وہ بہت دور سے آیا ہے۔جب تک میرا سانس چل رہا ہے، میں اپنے فرائض سے کوتاہی نہیں کر سکتا۔‘‘
مثنیٰ کو اندر بلا لیا گیا۔ انہوں نے جب ابو بکرؓ کی حالت دیکھی تو پشیمان ہو گئے، اور بات کرنے سے جھجکنے لگے۔
’’مجھے گناہگار نہ کر ابنِ حارثہ!‘‘ … ابو بکرؓ نے کہا۔ … ’’ہو سکتا ہے تو مدد لینے آیا ہو۔میں اگر تیرے لیے کچھ نہ کر سکا تو اﷲکی باز پرس پر کیا جواب دوں گا؟‘‘
’’یا امیرالمومنین!‘‘ … مثنیٰ بن حارثہ نے کہا۔ … ’’محاذ ہمارے قابو میں ہے۔حالات ہمارے حق میں ہیں لیکن تعداد کی کمی پریشان کرتی ہے۔مسلمان اب اتنے نہیں رہے کہ انہیں فوج میں شامل کرکے محاذوں پر بھیجا جائے۔جو جہاد کے قابل تھے وہ پہلے ہی محاذوں پر ہیں۔امیرالمومنین کے حکم سے ان لوگوں کو مجاہدین کی صفوں میں کھڑا نہیں کیا جا سکتا جو مرتد ہو گئے تھے۔میں یہ درخواست لے کر آیا ہوں کہ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو سچے دل سے اسلام قبول کر چکے ہیں اور محاذوں پر جانا چاہتے ہیں۔کیا امیرالمومنین انہیں فوج میں شامل ہونے کی اجازت دیں گے؟‘‘
’’ابنِ خطاب کو بلاؤ۔‘‘ … امیرالمومنینؓ نے کہا۔
عمرؓ دور نہیں تھے،جلدی آگئے۔
’’ابنِ خطاب!‘‘ … امیرالمومنینؓ نے عمرؓ سے کہا۔ … ’’ابنِ حارثہ مدد مانگنے آیا ہے۔یہ جو کہتا ہے ایسا ہی کر اور اسے فوراً مدد دے کر محاذ پر روانہ کر … اور اگر میں اس دوران فوت ہو جاؤں تو اس کام میں رکاوٹ نہ ہو۔‘‘
…………bnb…………


عربوں میں رواج تھا کہ باتیں شاعرانہ الفاظ اور انداز سے کیا کرتے تھے۔خلیفہ اول ابو بکرؓ کی نزع کے وقت کی چند باتیں تاریخ میں محفوظ ہیں۔ان کی بیٹی عائشہؓ ان کے ساتھ لگی بیٹھی تھیں۔انہوں نے باپ کو نزع کے عالم میں دیکھ کر اس وقت کے ایک شاعر حاتم کا ایک شعر پڑھا:
’’نزع کا عالم طاری ہوتا ہے، سانس نہ آنے سے سینہ گھٹنے لگتا ہے، تو دولت انسان کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔‘‘
’’نہیں بیٹی!‘‘ … ابو بکرؓ نے نحیف آواز میں کہا۔ … ’’ہمیں دولت سے کیا کام؟اس شعر کے بجائے تو نے قرآن کی یہ آیت کیوں نہ پڑھی … تجھ پر نزع کا عالم طاری ہو گیا ہے۔ یہی ہے وہ وقت جس سے تو ڈرا کرتا تھا۔‘‘
ابو بکرؓ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے تو انہیں آخری ہچکی آئی۔انہوں نے سرگوشی میں یہ دعا کی۔’’یا اﷲ!مجھے مسلمان کی حیثیت میں دنیا سے اٹھانا اور بعد از مرگ مجھے صالحین میں شامل کرنا۔‘‘یہ خلیفہ اول ابو بکرؓ کے آخری الفاظ تھے۔دن سوموار تھا۔سورج غروب ہو چکا تھا۔تاریخ ۲۲ اگست ۶۳۴ء (بمطابق ۲۱جمادی الآخر ۱۳ ہجری) تھی۔
اسی رات دفن کر دینے کا فیصلہ ہوا۔ ابو بکرؓ کی وصیت کے مطابق ان کی زوجہ اسماء بنتِ عمیس نے غسل دیا۔میت پر پانی ان کے بیٹے عبدالرحمٰن ڈالتے جاتے اور عبدالرحمٰن کی والدہ غسل دیتی جاتی تھیں۔
غسل کے بعد وہ چارپائی لائی گئی جس پر رسولِ کریمﷺ کا جسدِ مبارک قبر تک پہنچایا گیا تھا۔ اس چارپائی پر خلیفہ رسول کا جنازہ اٹھا،اور جنازہ مسجدِ نبوی میں رسول اﷲﷺکے مزار اور منبر کے درمیان رکھا گیا۔نمازِ جنازہ کی امامت عمرؓ نے کی۔
مدینہ کی وہ رات سوگوار تھی۔گلیوں میں ہچکیاں اور سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔رات بھی رو رہی تھی،وہ عٖظیم ہستی اس دنیا سے اٹھ گئی تھی جس نے اسلامی سلطنت کی نہ صرف بنیادیں مضبوط بنائی تھیں۔بلکہ ان پر مضبوط عمارت کھڑی کر دی تھی۔
ابو بکرؓ کو رسولِ کریمﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔قبر اس طرح کھودی گئی کہ ابو بکرؓ کا سر رسولِ کریمﷺ کے کندھوں کے ساتھ تھا۔اس طرح رسولِ کریمﷺ اور خلیفہ رسول کی وہ رفاقت جو انہوں نے زندگی میں قائم رکھی تھی ، وفات کے بعد بھی قائم رہی۔ابو بکرؓ سب سے پہلے آدمی تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا۔
…………bnb…………


اب خلیفۃ المسلمین عمرؓ بن خطاب تھے۔ انہوں نے اپنی خلافت کے پہلے روز ہی جو پہلا حکم نامہ جاری کیا وہ خالدؓ کی معزولی کا تھا۔انہوں نے تحریری حکم نامہ ابو عبیدہؓ کے نام قاصد کے ہاتھ بھیج دیا۔خالدؓ اب سالارِ ااعلیٰ نہیں بلکہ نائب بنا دیئے گئے تھے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ کسی مفتوحہ علاقے کے امیر نہیں بن سکتے تھے۔
مدینہ میں عمرؓ نے اپنی خلافت کے دوسرے دن مسجد نبوی میں نماز کی امامت کی اور خلیفہ کی حیثیت سے پہلا خطبہ دیا۔انہوں نے سب سے پہلے یہ بات کہی: … ’’قوم اس اونٹ کی مانند ہے جو اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چلتا ہے۔اسے جہاں بٹھا دیا جاتا ہے وہ اسی جگہ بیٹھا اپنے مالک کا انتظار کرتا رہتا ہے۔رب کعبہ کی قسم!میں تمہیں صراطِ مستقیم پر چلاؤں گا۔‘‘ … انہوں نے خطبے میں اور بھی بہت کچھ کہااور آخر میں کہا۔ … ’’میں نے خالد بن ولید کو اس کے عہدے سے معزول کر دیا ہے، اور ابو عبیدہ اس فوج کے سالارِ اعلیٰ اور شام کے مفتوحہ علاقوں کے امیر ہیں۔‘‘
مسجد میں جتنے مسلمان موجود تھے ان کے چہروں کے رنگ بدل گئے۔بعض کے چہروں پر حیرت اور بعض کے چہروں پر غصہ صاف دکھائی دے رہا تھا، وہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔خالدؓ کی فتوحات تھوڑی اور معمولی نہیں تھیں۔ابو بکرؓ ان کی ہر فتح اور ہر کارنامہ مسجد میں بیان کیا کرتے تھے اور یہ خبر تمام تر عرب میں پھیل جاتی تھی۔خالدؓ کی زیادہ تر فتوحات معجزہ نما تھیں،اس طرح خالدؓ سب کیلئے قابلِ احترام شخصیت بن گئے تھے مگر عمرؓ نے خلیفہ بنتے ہی خالدؓ کو معزول کر دیا۔
ہر کوئی عمرؓ سے پوچھنا چاہتا تھا کہ خالدؓ نے کیا جرم کیا ہے جس کی اسے اتنی سخت سزا دی گئی ہے؟ان میں کچھ ایسے بھی تھے جو پوچھے بغیر عمرؓ کے فیصلے کی مخالفت کرناچاہتے تھے لیکن کسی میں بھی اتنی جرات نہیں تھی کہ عمرؓ سے باز پرس کرتا۔سب جانتے تھے کہ عمرؓ ابو بکرؓ جیسے نرم مزاج نہیں،اور ان کی طبیعت میں اتنی درشتی ہے جو بعض اوقات برداشت سے باہر ہو جاتی ہے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages