Featured Post

Khalid001

22 March 2020

Khalid119


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  119
ابو عبیدہؓ اپنے سالاروں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ دمشق فتح ہو چکا تھا،اگلی پیش قدمی کا منصوبہ تیار ہو رہا تھا،اور فوج آرام کر رہی تھی۔
ایک گھوڑ سوار گھوڑا سر پٹ دوڑاتا ابو عبیدہؓ کے خیمے کے قریب آکر رکا ۔سوار کود کر اترا اور دوڑتا ہوا خیمہ میں داخل ہو گیا۔وہ ہانپ رہا تھا۔اس کے چہرے پر گرد کی تہہ جمی ہوئی تھی۔سب اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’سالارِ اعلیٰ!‘‘ … اس نے ابو عبیدہؓ کو مخاطب کیا۔ … ’’وہ سب مارے جا چکے ہوں گے،وہ گھیرے میں آئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’کون؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ … ’’کس کی بات کر رہے ہو؟کون کس کے گھیرے میں آیا ہوا ہے؟‘‘
’’ابوالقدس!‘‘ … سوار نے کہا۔ … ’’ابو القدس کے پانچ سو سواروں کی بات کررہا ہوں … ان کی مدد کو جلدی پہنچیں۔ایک بھی زندہ نہیں رہے گا۔‘‘
جن مؤرخوں نے یہ واقعہ لکھا ہے ان سب نے لکھا ہے کہ یہ واحد سوار تھا جو میلے میں بھگدڑ مچ جانے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رومیوں کے گھیرے سے نکل آیا تھا۔ابھی گھیرا مکمل نہیں ہوا تھا۔اس مجاہد نے اندازہ کر لیا تھا کہ اس کے ساتھیوں کا کیا انجام ہو گا۔اس نے انتہائی تیز رفتار سے گھوڑا دوڑایا اور دمشق پہنچا تھا۔
اس نے بڑی تیزی سے بولتے ہوئے تفصیل سے بتایا کہ ابو القدس کے میلے میں کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے۔ابو عبیدہؓ کا رنگ زرد ہو گیا۔انہوں نے خالدؓکی طرف دیکھا۔خالدؓ کے چہرے پر پریشانی کا گہرا تاثر تھا۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے التجا کے لہجے میں کہا۔ … ’’اﷲکے نام پر ابو سلیمان!تیرے سوا انہیں گھیرے سے اور کوئی نہیں نکال سکتا۔جاؤ فوراً جاؤ۔‘‘
’’اﷲ کی مدد سے میں ہی انہیں گھیرے سے نکالوں گا۔‘‘ … خالدؓنے جوش سے اٹھتے ہوئے کہا۔ … ’’میں تیرے حکم کے انتظار میں تھا امین الامت!‘‘
’’مجھے معاف کر دینا ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’میں نے تیری نیت پر شک کیا تھا۔اس لیے حکم نہ دیا۔میرا خیال تھا کہ معزولی نے تیرے اوپر بہت برا اثر کیا ہے۔‘‘
’’خدا کی قسم! مجھ پر ایک بچے کو سالارِ اعلیٰ مقرر کر دیا جائے گا تو میں اس کا بھی مطیع رہوں گا۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’مجھے تو رسول اﷲ(ﷺ) کے امین الامت نے کہا ہے۔ کیا میں ایسے گناہ کی جرات کر سکتا ہوں کہ تیرا حکم نہ مانوں؟میں تو تیرے قدموں کی خاک کی برابری بھی نہیں کر سکتا … اور بتا دے سب کو کہ ابو سلیمان ابن الولید نے اپنی زندگی اسلام کیلئے وقف کر دی ہے۔‘‘
مؤرخ واقدی لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے،اور وہ کچھ دیر ابن الولیدؓ کو دیکھتے رہے۔
’’تجھ پر اﷲکی رحمت ہو۔‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’جا ابو سلیمان! اپنے بھائیوں کی جانیں بچا۔‘‘
…………bnb…………


تاریخوں میں ایسی تفصیلات نہیں ملتیں کہ خالدؓ اپنے ساتھ کتنے سَو یا کتنے ہزار سوار لے کر گئے تھے۔باقی حالات مختلف تاریخوں میں بیان کیے گئے ہیں۔خالدؓنے برہنہ مجاہد ضرار بن الازور کو ساتھ لے لیا تھا اور ان دونوں کے پیچھے مسلمان رسالہ سر پٹ گھوڑے دوڑاتا جا رہا تھا۔
خالدؓ اور ضرار تو گھرے ہوئے مجاہدین کی مدد کو چلے گئے ، پیچھے ابو عبیدہؓ کی حالت بگڑ گئی۔
’’اﷲ، اﷲ، اﷲ!‘‘ … وہ دعا کیلئے ہاتھ اٹھا کر گڑگڑانے لگے۔ … ’’خلیفۃ المسلمین عمر نے مجھے لکھا تھا کہ مالِ غنیمت کے لالچ میں مجاہدین کو ایسی مشکل میں نہ ڈالنا کہ ان کی جانیں ضائع ہو جائیں۔عمر نے لکھا تھا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے دیکھ بھال کر لینا……مجھے معاف کر دینا اﷲ! مجھ سے یہ کیا فیصلہ ہوا ہے۔میں نے ایک عیسائی کی بات کو سچ مانا اور میں نے ایک کمسن لڑکے کو پانچ سو سواروں کی کمان دے دی اور اسے اتنابھی نہ کہا کہ وہ اپنے دستے کو دور روک کر ہدف کی دیکھ بھال ضرور کرلے۔‘‘
ابو عبیدہؓ کے رفیق سالار انہیں تسلیاں دیتے رہے لیکن ابو عبیدہؓ نے جو پانچ سو قیمتی سواروں کو اپنی لغزش کی بھٹی میں جھونک دیا تھا اس پر وہ مطمئن نہیں تھے۔
…………bnb…………


خالدؓ اور ضرار اپنے سواروں کے ساتھ انتہائی رفتار سے ابوالقدس پہنچ گئے۔وہاں مجاہدین کی حالت بہت بری تھی۔خالدؓ کے حکم سے ان کے سواروں نے تکبیر کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ان نعروں سے ان کا مقصد یہ تھا کہ گھیرے میں آئے ہوئے مسلمان سواروں کی حوصلہ افزائی ہو۔ اور رومیوں پر دہشت طاری ہو۔
اس کے بعد خالدؓ نے اپنانعرہ بلند کیا:
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید
رومیوں نے پہلے معرکوں میں یہ نعرہ سنا تھا۔اس نعرے کے ساتھ ہی مسلمانوں نے انہیں جس حالت میں کاٹا اور بھگایا تھا، اسے تو وہ باقی عمر نہیں بھول سکتے تھے۔
رومی سوار اپنے نرغے میں لیے ہوئے مسلمانوں کو تو بھول ہی گئے۔خالدؓ نے اپنے سواروں کو پھیلا کر برق رفتار حملہ کرایا تاکہ رومیوں کو آمنے سامنے کی لڑائی کی ترتیب میں آنے کی مہلت ہی نہ ملے۔خالدؓ کو اپنی ایک کمزوری کا احسا س تھا۔وہ دمشق سے گھوڑوں کو دوڑاتے ہوئے ابو القدس تک پہنچے تھے۔گھوڑے تھک گئے تھے۔ان کے جسموں سے پسینہ ٹپک رہا تھا۔خالدؓ کی کوشش یہ تھی کہ رومیوں کو جلدی بھگایا جائے ورنہ گھوڑے جواب دے جائیں گے۔
ضرار بن الازور نے اپناوہی کمال دکھایا جس پر وہ رومیوں میں مشہور ہو گئے تھے۔انہوں نے اپنی خود ، زرہ، اور اپنی قمیض بھی اتار پھینکی، اور رومیوں پر ٹوٹ پڑے۔رومی سوار اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔وہ اپنے نرغے میں لیے ہوئے مسلمان سواروں میں سے کئی ایک کو شہید اور زیادہ ترکو شدید زخمی کر چکے تھے،ان میں سے جو بچ گئے تھے، انہیں خالدؓ کے آجانے سے نیا حوصلہ ملا۔رومی خالدؓ اور ضرار کے سواروں کے مقابلے کیلئے مُڑے تو پیچھے سے ان بچے کچھے سواروں نے ان پر ہلہ بول دیاجو کچھ دیر پہلے تک ان کے نرغے میں آئے ہوئے تھے۔
معرکہ خونریز اور تیز تھا۔اب رومی گھیرے میں آگئے تھے۔ان کی تعداد زیادہ تھی۔وہ سکڑتے تھے تو ان کے گھوڑوں کو کھل کر حرکت کرنے کی جگہ نہیں ملتی تھی۔مسلمان سواروں نے انہیں بری طرح کاٹا اور زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ رومی سوار معرکے سے نکل نکل کر بھاگنے لگے۔آخر وہ اپنی بہت سی لاشوں اور شدید زخمیوں کو پیچھے چھوڑکر بھاگ گئے۔
ان مسلمان سواروں کا جانی نقصان کم نہ تھا جو رومیوں کے گھیرے میں لڑتے رہے تھے۔خالدؓنے حکم دیا کہ میلے کا سامان اکٹھا کیا جائے۔انہوں نے بہت سے مجاہدین کو زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے پر لگا دیا۔خالدؓ کی اپنی یہ حالت تھی کہ ان کے جسم پر کئی زخم آئے تھے اور ان کے کپڑے خون سے سرخ ہو گئے تھے۔انہیں ان زخموں کی جیسے پرواہ ہی نہیں تھی۔زخم خالدؓ کیلئے کوئی نئی چیز نہیں تھی۔ان کے جسم پر اس وقت تک اتنے زخم آچکے تھے کہ مزید زخموں کی جگہ ہی نہیں تھی۔
خالدؓ واپس دمشق آئے۔وہ جو مالِ غنیمت ساتھ لائے تھے وہ بہت زیادہ اور قیمی تھا۔زخمی ہو کر گرنے والے اور مرنے والے رومیوں کے سینکڑوں گھوڑے بھی ان کے ساتھ تھے مگر اس مالِ غنیمت کیلئے بڑی قیمتی جانوں کی قیمت دی گئی تھی۔
ابو عبیدہؓ کو اس جانی نقصان پر بہت افسوس تھا۔البتہ انہیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ خالدؓ نے اپنے خلاف یہ شک دور کر دیاتھا کہ معزولی کی وجہ سے ان میں پہلے والی دلچسپی اور جوش و خروش نہیں رہا۔خالدؓنے اپنا جسم زخمی کراکے یہ ثابت کر دیاتھا کہ معزولی کا ان پر ذرا سا بھی اثر نہیں ہوا۔
ابو عبیدہؓ نے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ خلافت کیلئے مدینہ بھیجا، اور اس کے ساتھ عمرؓ کو پوری تفصیل بھی لکھی کہ انہوں نے کیا کاروائی کی تھی۔اس سے کیا صورتِ حال پیدا ہوئی اور خالدؓ نے کیا کارنامہ کیا۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہؓ نے خالدؓ کی بے تحاشہ تعریف لکھی۔
…………bnb…………


ہر محاذسے اور ہر میدان سے رومی پسپا ہو رہے تھے۔رومیوں کا شہنشاہ ہرقل انطاکیہ میں تھا۔اس کے ہاں جو بھی قاصد آتا تھا وہ ایک ہی جیسی خبر سناتا تھا:
’’اس قلعے پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔‘‘
’’فلاں میدان سے بھی اپنی فوج پسپا ہو گئی ہے۔‘‘
’’مسلمان فلاں طرف پیشقدمی کر گئے ہیں۔‘‘
’’ہمارے فلاں شہر کے لوگوں نے مسلمانوں کو جزیہ دینا قبول کر لیا ہے۔‘‘
ہر قل کے کانوں میں اب تک کوئی نئی بات پڑی ہی نہیں تھی۔نیند میں بھی وہ یہی خبریں سنتا ہو گا۔اس کے وزیر مشیر اور سالار وغیرہ اب اس کے سامنے کوئی شکست کا پیغام لے کر جانے سے ڈرتے تھے۔لیکن انہیں اس کے سامنے جانا پڑتا تھا اور اس کے ساتھ شکست کی باتیں کرنی اور سننی پڑتی تھیں۔
وہ انطاکیہ کی ایک شام تھی۔انطاکیہ کی شامیں حسین ہوا کرتی تھیں۔یہ شہر سلطنتِ روما کا ایک اہم اور بارونق شہر تھا۔روم کے اعلیٰ حکام، امراء اور وزراء یہاں رہتے تھے۔اب تو کچھ عرصے سے شہنشاہِ روم ہرقل نے اسے عارضی دارالحکومت اور فوجی ہیڈ کوارٹر بنا لیا تھا۔رومی جنگجو تھے۔اُس دور میں ان کی سلطنت دنیا کی سب سے وسیع اورمستحکم سلطنت تھی۔استحکام کی وجہ یہ تھی کہ روم کی فوج مستحکم تھی۔اسلحہ کی برتری اور نفری کی افراط کے لحاظ سے یہ فوج اپنے دشمنوں کیلئے دہشت ناک تھی۔
اس فوج نے اور اس کے سالاروں اور دیگر اعلیٰ حکام نے انطاکیہ کو پر رونق شہر بنا رکھا تھا۔عیش و عشرت کا ہرسامان موجود تھا۔وہاں قحبہ خانے تھے۔رقص اور نغمے تھے اور وہاں نسوانی حسن کی چلتی پھرتی نمائش لگی رہتی تھی۔وہاں شامیں مسکراتی اور راتیں جاگتی تھیں لیکن اب انطاکیہ کی شامیں اداس ہو گئی تھیں۔
فوجی یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ جب کوئی نیا دستہ آتا تھا تو قحبہ خانوں کی رونق بڑھ جاتی تھی اور چلتی پھرتی طوائفوں میں اضافہ ہو جاتا تھا۔مگر انطاکیہ میں باہر سے جو فوجی آتے تھے وہ زخمی ہوتے تھے، اور جو زخمی نہیں ہوتے تھے ان کے چہروں پر مردنی چھائی ہوئی ہوتی تھی،ہر فوجی شکست کی تصویر بناہوتا تھا۔ان کی چال میں اور ان کے چہروں پر شکست صاف نظر آتی تھی۔ غیر عورتیں ان کے قریب کیوں آتیں، ان کی اپنی بیویاں انہیں اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتی تھیں۔ان رومی فوجیوں نے روم کی جنگی روایات کو توڑ دیا تھا،قیصرِ روم کی عظمت کو پامال کر دیا تھا۔
انطاکیہ میں جو رومی عورتیں تھیں، انہوں نے ہرقل کو بھی نہیں بخشا تھا،وہ شام انطاکیہ کی ایک افسردہ شاموں میں سے ایک شام تھی۔ہرقل شاہی بگھی پر کہیں سے آرہا تھا۔اس کے آگے آٹھ گھوڑے شاہانہ چال چلتے آرہے تھے۔ان کے سوار ہرقل کے محافظ تھے۔ان سواروں کی شان نرالی تھی۔ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں جن کی انیاں اوپر کو تھیں ، اور ہر برچھی کی انی سے ذرا نیچے ریشمی کپڑے کی ایک ایک جھنڈی تھی۔بگھی کے پیچھے بھی آٹھ دس گھوڑ سوار تھے۔
ایک شور اٹھا۔ … ’’ شہنشاہ کی سواری آرہی ہے۔‘‘
لوگ اپنے شہنشاہ کو دیکھنے کیلئے راستے کے دونوں طرف کھڑے ہو گئے ان میں عورتیں بھی تھیں۔عورتیں عموماً اپنے دروازوں کے سامنے یا منڈیروں پر کھڑی ہو کر اپنے شہنشاہ کو گزرتا دیکھا کرتی تھیں لیکن اس شام چند ایک عورتیں ہرقل کے راستے میں آگئیں۔اگلے دو سوار محافظوں نے گھوڑے دوڑائے اور عورتوں کو راستے سے ہٹانے لگے۔لیکن عورتیں غل مچانے لگیں کہ وہ اپنے شہنشاہ سے ملنا چاہتی ہیں۔
دواور سوار آگے بڑھے کیونکہ عورتیں پیچھے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ہرقل کی بگھی ان تک پہنچ گئی۔وہ عورتوں کو دیکھ رہا تھا۔اس نے بگھی رکوالی اور اُتر آیا۔
’’چھوڑ دو انہیں۔‘‘ … ہرقل نے گرج جیسی آواز میں کہا۔ … ’’انہیں مجھ تک آنے دو۔‘‘
وہ آگے گیا،اور عورتوں نے اسے گھیر لیا۔وہ سب بول رہی تھیں۔
’’میں کچھ نہیں سمجھ رہا۔‘‘ … ہرقل نے بلند آواز سے کہا۔ … ’’کوئی ایک بولو، میں سنوں گا۔‘‘
’’شہنشاہِ روم!‘‘ … ایک عورت بولی۔ … ’’توکچھ نہیں سمجھے گا۔‘‘
’’جس نے سلطنتِ روم کی تباہی برداشت کرلی ہے وہ غیرت والی عورت کی بات نہیں سمجھے گا۔‘‘ … ایک اور عورت نے کہا۔ … ’’ہم سب رومی ہیں۔ہم مقامی نہیں۔ یہاں کی عورتیں تیرے راستے میں نہیں آئیں گی۔ رومی چلے جائیں، عرب کے مسلمان آجائیں، انہیں کیا! بے عزتی تو ہماری ہو رہی ہے۔ بے عزتی روم کی ہو رہی ہے۔‘‘
’’اب آگے بولو۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’جوکہنا ہے وہ کہو۔‘‘
’’کیا تو نے فیصلہ کر لیا ہے کہ تو نے ہمیں مسلمانوں کے حوالے کرناہے؟‘‘ … ایک عورت نے کہا۔ … ’’اس کے سوا اور کوئی بات کانوں میں نہیں پڑتی کہ فلاں شہر پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے اور وہاں کی رومی عورتیں مسلمانوں کی لونڈیاں بن گئی ہیں۔‘‘
’’ہماری فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی تو ہمیں آگے جانے دے۔‘‘ … ایک اور عورت نے کہا۔ … ’’گھوڑے برچھیاں اور تلواریں ہمیں دے دے۔‘‘
’’جس فوج سے فارسی بھی ڈرتے تھے۔‘‘ … ایک اور بولی۔ … ’’وہ فوج اب ڈرے ہوئے، زخمی اور بھگوڑے سپاہیوں کا ہجوم بن گئی ہے۔‘‘
’’یہاں اب روم کا جو بھی فوجی آتا ہے کسی نہ کسی قلعے یا میدان سے بھاگا ہوا آتا ہے۔‘‘ … ایک اور عورت نے کہا۔
ہرقل کے محافظ ڈر رہے تھے کہ شہنشاہِ روم کا عتاب ان پر گرے گا کہ وہ چند ایک عورتوں کو اس کے راستے سے نہیں ہٹا سکے۔تماشائی اس انتظار میں تھے کہ ہرقل ان تمام عورتوں کو گھوڑوں تلے کچل دینے کا حکم دے گا لیکن ہرقل خاموشی سے ، تحمل اور بردباری سے عورتوں کے طعنے سن رہا تھا۔ شاید اس لئے کہ وہ مقامی نہیں رومی عورتیں تھیں۔
’’ہماری فوج بزدل ثابت ہوئی ہے۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’میں بزدل نہیں ہو گیا۔شکست کھا کر جو بھاگ آئے ہیں وہ پھر لڑیں گے ۔میں نے شکست کو قبول نہیں کیا ہے۔‘‘
’’پھر ہمارا شہنشاہ کیا سوچ رہا ہے؟‘‘ … ایک عورت نے پوچھا۔
’’تم جلد ہی سن لو گی۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’میں زندہ ہوں۔میں جو سوچ رہا ہوں وہ کر کے دکھاؤں گا۔فتح اور شکست ہوتی ہی رہتی ہے۔وہ قوم ہمیشہ دوسروں کی غلام رہتی ہے جو شکست کو تسلیم کر لیتی ہے۔میں تمہیں کسی کا غلام نہیں بننے دوں گا،مسلمانوں نے جہاں تک آنا تھا وہ آچکے ہیں۔اب میری باری ہے۔وہ میرے پھندے میں آگئے ہیں۔اب وہ زندہ واپس نہیں جائیں گے۔انہوں نے جو لیا ہے اس سے کئی گنا زیادہ دیں گے … میرے لیے دعا کرتی رہو، تم بہت جلد خوشخبری سنو گی … اور تم اپنے خاوندوں کے، اپنے بھائیوں کے، اپنے باپوں کے، اور اپنے بیٹوں کے حوصلے بڑھاتی رہو۔‘‘
’’ہم ان پر اپنے گھروں کے دروازے بند کر دیں گی۔‘‘ … ایک عورت نے کہا۔
’’تم انہیں گلے لگاؤ گی۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’اب وہ فاتح بن کر تمہارے سامنے آئیں گے۔‘‘
عورتوں نے اپنے شہنشاہ کوراستہ دے دیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages