Featured Post

Khalid001

18 April 2020

Khalid122


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  122
انطاکیہ کے بڑے گرجے کا گھنٹہ بج رہا تھا۔یہ بہت بڑا گھنٹہ تھا۔اس کی آواز سارے شہر میں سنائی دیتی تھی۔نور کے تڑکے کی خاموشی میں اس کی ’’ڈن ڈناڈن‘‘ اور زیادہ اونچی سنائی دے رہی تھی۔یہ ۶۳۵ء (۱۴ہجری) کے مارچ کا مہینہ تھا۔گرجے کا گھنٹہ تو بجا ہی کرتا تھااور لوگ اس کی آواز میں تقدس محسوس کرتے تھے۔ان پر ایسا اثر طاری ہو جاتا تھا جو ان کی روحوں کو سرشار کر دیا کرتا تھا۔مگر مارچ ۶۳۵ء کی ایک صبح اس گھنٹے کی مترنم آواز میں کچھ اور ہی تاثر تھا۔اس تاثر میں مایوسی بھی تھی اور خوف بھی۔
اس گھنٹے کی آوازیں شہنشاہ ہرقل کے محل میں بھی سنائی دے رہی تھیں۔ہرقل سونے کی کوشش کر رہا تھا۔یہ تو جاگنے کا وقت تھا لیکن وہ ساری رات نہیں سویا تھا۔محاذ کی خبریں اسے سونے نہیں دیتی تھیں،اس نے مسلمانوں کی پیش قدمی کو روکنے اور انہیں ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کے جو منصوبے بنائے تھے وہ بیکار ثابت ہو رہے تھے۔مسلمان بڑھے چلے آرہے تھے،ہرقل راتوں کو جاگتا اور نئے سے نئے منصوبے بناتا تھا۔ لیکن اس کا ہر ارادہ اور ہر منصوبہ مسلمانوں کے گھوڑوں کے سموں تلے رونداجاتا تھا۔
ایک نہایت حسین اور جوان عورت اس کے کمرے میں آئی، وہ اس کی نئی بیوی زاران تھی۔
’’شہنشاہ آج رات بھی نہیں سوئے۔‘‘ … زاران نے کہا۔ … ’’کیوں نہیں آپ ان سالار اور سپاہیوں کو سب کے سامنے تہہ تیغ کردیتے جو شکست کھا کر واپس آتے ہیں؟وہ اپنی جانیں بچا کربھاگ آتے ہیں اور دوسرے سپاہیوں میں بددلی پھیلاتے ہیں۔‘‘
شہنشاہِ ہرقل پلنگ پر لیٹا ہوا تھا، زاران اس کے پاس بیٹھ گئی۔ہرقل اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے میں ٹہلنے لگا۔
’’زاران!‘‘ … اس نے رُک کر کہا۔ … ’’وہ مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں، تم کہتی ہو کہ بچ کہ آنے والوں کو میں قتل کردوں۔میں ان کا خدا نہیں۔یہی ہیں جنہوں نے فارسیوں کو میرے قدموں میں بٹھادیا تھا۔فارسی ایسے کمزور تو نہیں تھے،ہماری ٹکرکی قوم ہے۔مسلمانوں نے انہیں بھی ہر میدان میں شکست دی ہے۔اب وہ ہمیں بھی شکست دیتے چلے آرہے ہیں۔میں مسلمانوں کی قدر کرتا ہوں۔اگر ہمارے سالاروں نے ہتھیار ڈالے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ کمزور ہیں۔بلکہ مسلمان زیادہ طاقتور ہیں۔ان کے سالاروں میں عقل زیادہ ہے۔‘‘
’’تو کیا شہنشاہ مایوس ہو گئے ہیں؟‘‘ … زاران نے پوچھا۔
’’نہیں!‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’یہ مایوسی نہیں۔ایک جنگجو ایک جنگجو کی تعریف کر رہا ہے۔مسلمان اوچھے دشمن نہیں۔اگر وہ مجھ سے ہتھیار ڈلوالیں گے تو تم میرے پاس ہی رہو گی۔ وہ تمہیں مجھ سے نہیں چھینیں گے۔‘‘
زاران اس کا دل بہلانے آئی تھی۔اس کے کچھے تنے اعصاب کو سہلانے آئی تھی۔وہ ہرقل کی چہیتی بیوی تھی۔وہ ہرقل کو بہلانا جانتی تھی۔ لیکن ہرقل نے اسے زیادہ توجہ نہ دی
۔گرجے کا گھنٹہ بج رہا تھا۔
’’لوگ گرجے کو جا رہے ہیں۔‘‘ … زاران نے کہا۔ … ’’سب آپ کی فتح کیلئے دعائیں کریں گے۔‘‘
ہرقل نے زاران کو کنکھیوں دیکھاجیسے اس عورت نے اس پر طنز کیا ہو۔ہرقل نے زاران کی بات کوبھونڈا سا مذاق سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔
’’صرف دعائیں شکست کو فتح میں نہیں بدل سکتیں زاران!‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’جاؤ! مجھے کچھ سوچنے دو۔ابھی مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔‘‘
شہنشاہ ہرقل کو اطلاع مل چکی تھی کہ اس کے سالار سقلار نے مسلمانوں کا راستہ روکنے اور انہیں پھنسانے کیلئے جو دلدل پھیلائی تھی، اسی دلدل میں اس کے اپنے سپاہیوں کی لاشیں پڑی ہیں اور فحل کے مقام پر سالار سقلار مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا ہے،اور بیسان پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔
ہرقل کا یہ منصوبہ تباہ ہو چکا تھا کہ دمشق پر حملہ نہیں کرے گا، نہ اس کا محاصرہ کرے گا بلکہ اپنی فوج کو دمشق سے دور رکھ کر دمشق کو جانے والے راستے بند کر دے گا۔ پھر مسلمانوں کو بکھیر کر لڑائے گا۔مگرمسلمانوں نے اس کے منصوبے کی پہلی کڑی کو ہی فحل کے مقام پر توڑ دیا تھا۔
…………bnb…………

روم کا شہنشاہ ہرقل ہمت ہارنے والا آدمی نہیں تھا۔اس کی زندگی جنگ و جدل میں گزری تھی۔خد انے اسے ایسی عقل دی تھی جس سے اس نے بڑے خطرناک حالات کارخ اپنے حق میں موڑ لیا تھا۔اسے روم کی شہنشاہی ۶۱۰ء میں ملی تھی۔اس وقت روم کی سلطنت میں شمالی افریقہ کا کچھ حصہ ، یونان اور کچھ حصہ ترکی کا شامل تھا۔روم کی شہنشاہی تو اس سے کہیں زیادہ وسیع و عریض تھی لیکن ہرقل کو جب اس کا تخت و تاج ملااس وقت یہ شہنشاہی سکڑ چکی تھی اور زوال پزیر تھی۔
ہرقل نے اپنے دورِ حکومت کے بیس سال دشمنوں کے خلاف لڑتے اور محلاتی سازشوں کو دباتے گزار دیئے تھے۔اس کی شہنشاہی کے دشمن معمولی قوتیں نہیں تھیں۔ایک طرف فارس کی شہنشاہی تھی۔دوسری طرف بربر تھے۔جو بڑے ظالم اور جنگجو تھے،ان کے علاوہ ترک تھے جن کی جنگی طاقت اور مہارت مسلمہ تھی۔ہرقل کی غیر معمولی انتظامی فہم وفراست اور عسکری قیادت کی مہارت تھی کہ اس نے تینوں دشمنوں کو شکست دے کر روم کی شہنشاہی کو شام اور فلسطین تک پھیلایا اور مستحکم کیا تھا۔
اتنے طاقتور دشمنوں کے خلاف متواتر معرکہ آراء رہنے سے ہرقل کی فوج تجربہ کار اور منظم ہو گئی تھی۔منظم بھی ایسی کہ پسپا ہوتے وقت بھی تنظیم کو برقرار رکھتی تھی۔ہرقل کی فوج میں صرف رومی ہی نہیں تھے ، کئی اور اقوام کے لوگ اس میں شامل تھے ۔شام اور فلسطین کے عیسائی بھی تھے، ان عیسائیوں پر اسے کلی طور پر بھروسہ نہیں تھا۔ان کے متعلق ہرقل کی رائے یہ تھی کہ یہ لوگ مالِ غنیمت کیلئے لڑتے ہیں اور جہاں دشمن کا دباؤ زیادہ ہو جاتا ہے یہ بھاگ اٹھتے ہیں۔
مسلمانوں کو وہ عرب کے بدو کہا کرتا تھا،اس نے مسلمانوں کو لٹیرے بھی کہا تھا لیکن اس نے جلد ہی تسلیم کر لیا تھا کہ اب اس کا مقابلہ ایک ایسے دشمن کے ساتھ ہے جو اس سے زیادہ عسکری فہم و فراست کا مالک ہے اور اس کے سامنے ایک مقصد ہے۔ہرقل مسلمانوں کے مقصد کو قبول نہیں کر سکتا تھا۔یہ مذہب کا معاملہ تھا لیکن وہ جان گیا تھا کہ مسلمان زمین کی خاطر اور اپنی شہنشاہی کے قیام اور وسعت کی خاطر گھروں سے نہیں نکلے بلکہ وہ ایک عقیدے پر اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔
…………bnb…………

’’میں اپنی فوج میں وہ جذبہ پیدا نہیں کر سکتا جو مسلمانوں میں ہے۔‘‘ … اسی روز اس نے اپنے ان سالاروں کو جو انطاکیہ میں موجود تھے، بلا کر کہا۔ … ’’اپنے سپاہیوں سے کہو کہ اپنے اپنے عقیدے کی خاطر لڑیں۔انہیں بتاؤ کہ جن جگہوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے ، وہاں کے لوگ اپنا مذہب ترک کرکے اسلام قبول کرتے جا رہے ہیں۔انہیں کہو کہ کچھ اور نہیں تو اپنے ذاتی وقار کی خاطر لڑو۔اپنی جوان بہنوں اور بیٹیوں کو مسلمانوں سے بچانے کیلئے لڑو۔‘‘
اس نے اپنے سالاروں کو محاذ کی تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
’’تو کیا اب تم محسوس نہیں کرتے کہ ہمیں اپنا منصوبہ بدلنا پڑے گا؟‘‘ … اس نے اپنے سالاروں سے پوچھا۔
’’ہمیں مسلمانوں پر زیادہ سے زیادہ طاقت سے حملہ کرنا چاہیے۔‘‘ … ایک سالار نے کہا۔
’’وہ تو میں کرنا ہی چاہتا ہوں۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’میں اتنی زیادہ اور ہر لحاظ سے اتنی طاقتور فوج تیار کر رہا ہوں جسے دیکھ کر پہاڑ بھی کانپیں گے۔ہم جو علاقے کھو چکے ہیں۔ ان کا ہمیں غم نہیں ہو نا چاہے۔یہ سب واپس آجائیں گے۔میں تم میں سے کسی کے چہرے پر مایوسی نہیں دیکھنا چاہتا۔میں نے بیس سال مسلسل لڑ کر سلطنتِ روم کی عظمت کو بحال کیا تھا۔اب بھی کرلوں گا، لیکن تم مسلمانوں سے مرعوب ہو گئے تو میری ناکامی یقینی ہے۔‘‘
سالاروں نے باری باری اسے جوشیلے الفاظ میں یقین دلایا کہ وہ اپنی جانیں قربان کر دیں گے۔
’’جوش باتوں میں نہیں میدانِ جنگ میں دکھایا جاتا ہے۔‘‘ … ہرقل نے کہا۔ … ’’یہ میں جانتا ہوں کہ تم جانیں قربان کر دو گے لیکن تاریخ یہ دیکھے گی کہ تمہاری جانیں کس کام آئیں اور تم دشمن کو مار کر مرے تھے یا لڑائی میں مارے جانے والے سپاہیوں کی طرح صرف مارے گئے تھے…‘‘
’’… اب سنو ہمیں کیا کرنا ہے۔میں نے دمشق پر حملہ نہیں کرنا تھا لیکن اب ہمیں دمشق کو محاصرے میں لے کر اس شہرپر قبضہ کرنا ہے۔وہاں سے جو اطلاعیں آئی ہیں ان سے پتا چلا ہے کہ دمشق کا دفاع کمزور ہے۔وہاں مسلمانوں کی نفری بہت تھوڑی ہے۔یہ ہمارا فوجی مرکز تھا جسے مسلمانوں نے اپنا مرکز بنالیا ہے۔یہ ہمیں واپس لینا چاہیے۔‘‘
اس نے ایک سالار شنس سے کہا کہ وہ حمص سے اپنے دستے لے کر دمشق پہنچے۔
’’… اور تھیوڈورس!‘‘ … اس نے اپنے ایک اور سالار سے کہا۔ … ’’تم اپنے ساتھ زیادہ نفری لے کر دمشق کو روانہ ہو جاؤ۔کوچ بہت تیز ہو تاکہ مسلمانوں کا کوئی امدادی دستہ تم سے پہلے دمشق نہ پہنچ جائے۔شنس تمہاری مدد کیلئے تمہارے قریب رہے گا۔دمشق پر قبضہ کر کے ہم اسے اڈہ بنالیں گے … اب دنیا کو بھول جاؤ۔ اپنی بیویوں اور اپنی داشتاؤں کو بھول جاؤ۔جسے ایک بار شکست ہو جائے اسے کھانے پینے کابھی ہوش نہیں رہنا چاہیے۔‘‘
ہرقل نے تاریخی اہمیت کے الفاظ کہے۔
’’جو قوم اپنی شکست کو بھول جاتی ہے۔اسے زمانہ بھول جاتا ہے،اور جو قوم اپنے دشمن سے نظریں پھیر لیتی ہے وہ ایک روز اسی دشمن کی غلام ہو جاتی ہے … تمہاری عظمت سلطنت کی عظمت کے ساتھ وابستہ ہے۔سلطنت کی عظمت کا دفاع نہیں کرو گے تو بے وقار زندگی بسر کررو گے،اور گمنام مرو گے۔‘‘
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ہرقل کے بولنے کے انداز میں رعب، عزم اور ٹھہراؤ تھا۔ اس کا انداز تحکمانہ نہیں تھا لیکن اس کے الفاظ اس کے سالاروں پر وہی تاثر پیدا کر رہے تھے جو وہ پیدا کرنا چاہتا تھا۔
سالار تھیوڈورس اور سالار شنس اسی وقت نئے احکام اور ہدایات کے ساتھ روانہ ہو گئے۔
…………bnb…………

اُس وقت ابو عبیدہؓ اور خالدؓ فحل کے شمال کی طرف جا رہے تھے۔
مسلمانوں کی فوج اب پہلے والی فوج نہیں رہی تھی۔ خالدؓ جب سالارِ اعلیٰ تھے تو انہوں نے اسے منظم کر دیا تھا۔مجاہدین تو پہلے بھی منظم ہی تھے۔ان کا خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک، نظریہ اور عقیدہ ایک تھا۔اور سالار سے سپاہی تک جنگ کے مقصد سے آگاہ تھے۔پھر بھی اسے فارس اور روم کی فوجوں کی طرح منظم کرناضروری تھا۔وہ خالدؓنے کر دیا تھا۔جاسوسی اور دیکھ بھال کو بھی باقاعدہ اور موثر بنا دیا گیا تھا۔اسکے علاوہ خالدؓنے ایک سوار دستہ تیار کیا تھا جو متحرک رہتا اور انتہائی رفتار سے وہاں پہنچ جاتا جہاں مدد کی ضرورت ہوتی تھی مگر ان کی تعداد تھوڑی تھی۔وہ روز بروز تھوڑی ہوتی جا رہی تھی اور وہ اپنے وطن سے دور ہی دور ہٹتے جارہے تھے۔
وہ اسلام کا تاریخ ساز دور تھا۔اﷲ نے انہیں یہ فرض سونپا تھا کہ وہ روایات تخلیق کریں اور اس راستے کا تعین کریں جو آنے والے ہر دور میں مسلمانوں کی روایات اور فتح اسلام کا راستہ بن جائے۔شمع رسالت مسلمانوں کے لہو سے ہی فروزاں رہ سکتی تھی اور مسلمانوں کو ہر دور اور ہر میدان میں قلیل تعداد میں رہنا تھا۔
وہ جو ۶۳۵ء کے اوائل میں شام اور فلسطین میں آگے ہی آگے بڑھے جا رہے تھے۔انہوں نے اپنا آپ اور اپنا سب کچھ اسلام کی قربان گاہ میں رکھ دیا تھا۔وہ ایک مقدس لگن سے سرشار تھے۔تلواروں کی جھنکار اور تیروں کے زناٹے اور زخمیوں کی کربناک آوازیں ان کیلئے وجد آفریں موسیقی بن گئی تھیں۔ان کے رکوع و سجود بھی تلواروں کی چھاؤں میں ہوتے تھے۔وہ اب گوشت پوست کے جسم نہیں، دین و ایمان اور جذبہ ایثار کے پیکر بن گئے تھے جو روح کی قوتوں سے حرکت کرتے تھے اور یہ حرکت بہت ہی تیز تھی۔
ابو عبیدہؓ اور خالدؓ اپنے دستوں کے ساتھ حمص کی جانب جا رہے تھے۔وہ فحل سے چلے تھے جہاں سے حمص تقریباً اسّی میل دور تھا۔ان کے راستے میں دمشق پڑتا تھا جو کم و بیش تیس میل دور تھا۔لیکن ان سالاروں نے دمشق سے کچھ دور سے گزر جانا تھا۔
دمشق اور فحل کے درمیان ایک سر سبز علاقہ تھا،جو بہت خوبصورت اور روح پرور تھا،اس سبزہ زار کا نام مرج الروم تھا۔مسلمان دستوں کو کچھ دیر کیلئے وہاں رکنا تھا۔وہ اس سے تھوڑی ہی دور رہ گئے تھے کہ ایک گھوڑ سوار جو فوجی معلوم نہیں ہوتا تھا راستے میں کھڑا ملا۔وہ کوئی شکاری معلوم ہوتا تھا۔جب دونوں سالار اس کے سامنے سے گزرے تو اس نے اپنا گھوڑا ان کے پہلو میں کر لیا اور ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔
’’کیا خبر ہے؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے اس سے پوچھا۔
’’رومی ہمارے منتظر ہیں۔‘‘ … گھوڑ سوار نے جواب دیا۔ … ’’تعداد ہم سے زیادہ ہے۔حمص کی طرف دشمن کا ایک لشکر آرہا ہے۔‘‘
یہ گھوڑ سوار کوئی شکاری یا اجنبی نہیں تھا یہ ایک مسلمان جاسوس تھا، جو شکاریوں کے بہروپ میں بہت آگے نکل گیا تھا،وہ اکیلا نہیں تھا۔اس کے چند اور ساتھی بھی آگے گئے ہوئے تھے ۔ جاسوسی اتنا آسان کام نہیں تھا کہ دشمن کی نقل وحرکت دیکھی اور واپس آکر اپنے سالاروں کر اطلاع دے دی۔دشمن کے جاسوس بھی آگے آئے ہوئے ہوتے تھے، وہ جاسوسی کے علاوہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ دوسری طرف کا کوئی جاسوس ان کے علاقے میں نہ آیا ہوا ہو۔ پتہ چل جانے کی صورت میں وہ جاسوس پکڑا یا مارا جاتا تھا۔
اس جاسوس نے سبزہ زار میں جس رومی فوج کی موجودگی کی اطلاع دی تھی، مؤرخوں کے مطابق وہ رومی سالار تھیوڈورس کے دستے تھے اور وہ رومی فوج آرہی تھی اس کا سالار شنس تھا۔
’’ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے خالدؓ سے پوچھا۔ … ’’کیا تو یہ نہیں سوچ رہا کہ ہم ان رومیوں کو نظر انداز کرکے آگے نکل جائیں؟ ہماری منزل حمص ہے۔‘‘
’’نہیں!‘‘ … خالدؓ نے جواب دیا۔ … ’’ان دو فوجوں کے ادھر آنے کا مقصد اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ دمشق کے راستوں کی ناکہ بندی کر رہے ہیں۔مجھے دمشق خطرے میں نظر آرہا ہے۔‘‘
’’اگر رومی دو حصوں میں آرہے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی دو حصوں میں ہو جائیں؟‘‘… ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔
’’دو حصوں میں ہی ہونا پڑے گا۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’اﷲہمارے ساتھ ہے۔ہماری راہنمائی اﷲکرے گا۔‘‘
’’اﷲتجھے سلامت رکھے!‘‘ … ابوعبیدہؓ نے کہا۔ … ’’کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ مجاہدین کو بتا دیں؟‘‘
خالدؓ رکابوں میں کھڑے ہو گئے اور اپنی فوج کو رکنے کا اشارہ کیا۔
’’مجاہدینِ اسلام!‘‘ … ابوعبیدہؓ نے بڑی ہی بلند آواز میں اپنی فوج سے کہا۔ … ’’د شمن نے ہمارا راستہ روک لیا ہے۔کیا تم نے کفر کے پہاڑوں کے سینے چاک نہیں کیے؟ کیا شرک اور ارتداد کی چٹانوں کو تم نے پہلے روندا نہیں؟ یہ رومی لشکر جو ہمارے راستے میں کھڑ اہے۔ تعداد میں زیادہ ہے۔لیکن اس میں ایمان کی طاقت نہیں جو تم میں ہے۔ اﷲتمہارے ساتھ ہے۔ باطل کے ان پجاریوں کے ساتھ نہیں۔ اﷲکی خوشنودی کو اپنے دل میں رکھو اور اپنے آپ کو ایک اور معرکے کیلئے تیار کرو۔‘‘
’’ہم تیار ہیں۔‘‘ … مجاہدین کے نعرے گرجنے لگے۔ … ’’ہم تیار ہیں … لبیک ابو عبیدہ … لبیک ابو سلیمان!‘‘
ایسا جوش و خروش جس میں گھوڑے بھی کھر مارنے لگے ہوں او ایسے گرجدار نعرے جیسے مجاہدین کا یہ لشکر تروتازہ ہو اور پہلی بار کوچ کر رہا ہو۔یہ ایمان کی تازگی اور روحوں کا جوش تھا۔
…………bnb…………

بعض مؤرخوں نے مرج الروم کی لڑائی کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔اس کی جنگی تفصیلات دو یورپی مؤرخوں نے لکھی ہیں جن میں ہنری سمتھ قابلِ ذکر ہے۔اس نے اسے جنگی مبصر کی نگاہوں سے دیکھا اور لکھا ہے۔ ان تحریروں کے مطابق ابو عبیدہؓ اور خالدؓ نے اپنے دستوں کو الگ کرکے اس طرح تقسیم کر لیا کہ دونوں سالار ایک دوسرے کی مدد کو بھی پہنچ سکیں۔
دونوں حصوں کا ہراول مشترک تھااور ہراول سے آگے دیکھ بھال کا بھی انتظام تھا۔دونوں سالار اس زمین پر اجنبی تھے۔دائیں اور بائیں سے بھی حملہ ہو سکتا تھا۔دو مسلمان جاسوسوں کو جو بہت آگے چلے گئے تھے ، ایک شتر سوار ملااور رک گیا۔
’’میرے دوستو!‘‘ … اس نے مسلمان جاسوسوں سے کہا۔ … ’’تم اُدھر سے آرہے ہو اور میں اُدھر جا رہا ہوں۔سنا ہے اُدھر سے مسلمان لشکر آرہا ہے۔اگر تم نے اس لشکر کو دیکھاہو تو بتا دو۔ میں راستہ بدل دوں گاکہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میرا اونٹ مجھ سے چھین لیں۔‘‘
’’اور تو یہ بتا کہ آگے کہیں رومی لشکر موجود ہے؟‘‘ … مسلمان جاسوس نے پوچھااور کہنے لگا۔ … ’’ہمیں بھی وہی ڈر ہے جو تجھے ہے۔رومی ہم سے گھوڑے چھین لیں گے۔‘‘
’’رومی لشکر کا تو کہیں نام و نشان نہیں۔‘‘ … شتر سوار نے جواب دیا۔ … ’’کس نے بتایا ہے تمہیں؟‘‘
’’مرج الروم سے آنے والوں نے!‘‘ … ایک مسلمان جاسوس نے جواب دیا۔
’’کسی نے غلط بتایا ہے۔‘‘ … شتر سوار نے کہا۔ … ’’میں اُدھر ہی سے آرہا ہوں۔‘‘
دونوں مسلمان جاسوس کسی بہروپ میں گھوڑوں پر سوار تھے ۔ایک نے شتر سوار کی ٹانگ پکڑکر اتنی زور سے کھینچی کہ وہ اونٹ کی پیٹھ سے زمین پر جا پڑا۔دونوں مسلمان بڑی تیزی سے گھوڑوں سے کودے اور شتر سوار کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا۔تلواریں نکال کر نوکیں اس کی شہہ رگ پر رکھ دیں۔
’’تم عیسائی عرب ہو۔‘‘ … ایک جاسوس نے اسے کہا۔ … ’’اور رومیوں کے جاسوس ہو۔ انکار کرو۔ ہم تمہارے دونوں بازو کندھوں سے کاٹ دیں گے … موج الروم کی پوری خبر سناؤ۔‘‘
اس نے جان بخشی کے وعدے پر تسلیم کر لیا کہ وہ رومیوں کا جاسوس ہے اور ا س نے یہ بھی بتا دیا کہ رومی سالار تھیوڈورس اپنے دستوں کے ساتھ پہلے ہی مرج الروم میں موجود تھا اور دوسرا سالار شنس بھی کچھ دیر پہلے پہنچ گیا ہے۔
اس رومی جاسوس کو پکڑ کر پیچھے لے گئے اور اسے سالار ابو عبیدہؓ اور سالار خالدؓ کے حوالے کر دیاگیا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages