Featured Post

Khalid001

18 April 2020

Khalid123


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  123
جب مجاہدین کا لشکر مرج الروم کے سبزہ زار کے قریب گیا تو رومی لشکر دو بڑے حصوں میں لڑائی کیلئے تیار کھڑا تھا۔
ابو عبیدہؓ نے اپنے دستوں کو اس جگہ رومی لشکر کے سامنے روکا جہاں رومی سالار تھیوڈورس کے دستے تھے اور خالدؓ نے اپنے دستوں کو رومی سالار شنس کے دستوں کے سامنے صف آراء کیا۔رومیوں نے کوئی حرکت نہ کی۔وہ شاید مسلمان کو حملے میں پہل کا موقع دینا چاہتے تھے۔لیکن خالدؓ نے پہل نہ کی۔ابو عبیدہؓ کو بھی انہوں نے پہلے حملہ نہ کرنے دیا۔دونوں مسلمان سالار حیران تھے کہ رومی آگے بڑھ کر حملہ کیوں نہیں کرتے۔حالانکہ ان کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی۔مسلمان اسے ایک چال سمجھ کر آگے نہ بڑھے۔
سورج غروب ہو گیا۔دونوں طرف کی فوجیں پیچھے ہٹ گئیں اور سپاہیوں کو کچھ دیر سونے کی اجازت دے دی گئی۔
مؤرخوں نے لکا ہے کہ خالدؓ دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے عادی تھے لیکن سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے اس لیے خالدؓ ان کی موجودگی میں کوئی آزادانہ فیصلہ نہیں کر سکتے تھے۔لیکن ان کی فطرت میں جو جنگجو سپاہی تھا وہ انہیں سونے نہیں دے رہا تھا۔خالدؓ بے چینی سے کروٹیں بدلتے رہے۔دشمن ان کے سامنے موجود تھا اور لڑائی نہیں ہوئی تھی۔ایک تو وجہ یہ تھی کہ انہیں نیند نہیں آرہی تھی اور ایک وجہ اور تھی جو انہیں بے قرار کرتی جا رہی تھی۔یہ شاید ان کی چھٹی حس تھی۔ انہوں نے رومیوں کے پڑاؤ کی طرف سے ہلکی ہلکی آوازیں بھی سنی تھیں۔
انہیں شک ہونے لگا کہ دشمن سویا نہیں اور کسی نہ کسی سرگرمی میں مصروف ہے۔آدھی رات کے بہت بعدکا وقت تھا، جب خالدؓ اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے پڑاؤ میں خراماں خراماں چلتے پڑاؤ سے نکل گئے۔ وہاں سبزہ ہی سبزہ تھااور درخت بہت تھے۔خالدؓ جھاڑیوں اوردرختوں کی اوٹ میں دشمن کے پڑاؤ کی طرف چلے گئے۔
وہ اس جگہ پہنچ گئے جہاں رومی سالار تھیوڈورس کے دستوں کو ہونا چاہیے تھا لیکن وہاں رومی فوج کا ایک بھی سپاہی نہیں تھا۔کوئی سنتری نہ تھا جو انہیں روکتا۔ شام کے وقت انہوں نے وہاں رومی دستوں کو پڑاؤ ڈالتے دیکھا تھا۔رات ہی رات وہ کہاں چلے گئے؟ کچھ اور آگے جا کر انہیں ایسی نشانیاں ملیں جن سے صاف پتا چلتا تھا کہ فوج نے یہاں قیام کیا تھا۔
خالدؓ اس طرف چلے گئے جدھر رومیوں کی فوج کے دوسرے حصے کا پڑاؤ تھا۔خالدؓ کو دور سے ہی پتا چل گیا کہ فوج وہاں موجود ہے۔وہ چھپتے چھپاتے اور آگے چلے گئے۔رومی سنتری گھوم پھر رہے تھے۔خالدؓدشمن کے پڑاؤ کے اردگرد بڑھتے گئے۔ چاندنی میں انہیں دشمن کا کیمپ دکھائی دے رہا تھا۔
خالدؓ کو یقین ہو گیا کہ رومیوں کی آدھی فوج کہیں چلی گئی ہے۔خالدؓ بڑی تیزی سے چلتے ابوعبیدہؓ کے پاس چلے گئے اور انہیں بتایا کہ رومیوں کی آدھی فوج لاپتا ہو گئی ہے۔
’’کہاں چلی گئی ہو گی؟‘‘ … ابو عبیدہؓ نے پوچھا۔
’’جہاں بھی گئی ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اسے وہیں پہنچانے کیلئے دن میں رومیوں نے لڑائی سے گریز کیا تھا۔‘‘
کچھ دیر دونوں سالار اسی پر تبادلہ خیال کرتے رہے،کہ رومیوں کی فوج کا ایک حصہ کہاں غائب ہو گیا ہے،مؤرخوں کے مطابق یہ سالار تھیوڈورس کے دستے تھے جو چلے گئے تھے۔پیچھے سالار شنس رہ گیا تھا۔اس کے دستوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ تھی۔
…………bnb…………

صبح ہوتے ہی رومی لڑائی کیلئے تیار ہو گئے۔ابو عبیدہؓ پہلے ہی تیار تھے۔انہوں نے رومیوں پر حملہ کر دیا۔انہوں نے اپنے دستوں کو حسبِ معمول تین حصوں میں تقسیم کر لیا تھااور حملہ دشمن کے پہلوؤں پر کیا تھا۔خود انہوں نے دشمن کے قلب پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ جہاں انہیں سالار شنس کا پرچم دکھائی دے رہا تھا۔
مجاہدین نے دشمن کے پہلوؤں پر حملہ کیااور ابو عبیدہؓ آگے بڑھے اور شنس کو مقابلے کیلئے للکارا۔شنس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور آگے گیا۔ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور ا س کی طرف گئے ۔دونوں سالاروں نے ایک دوسرے پر وار کیااور دونوں کی تلواریں ٹکرائیں۔شنس نے ذرادور جا کر گھوڑا موڑا لیکن ابو عبیدہؓ نے اپنے گھوڑے کو زیادہ آگے نہ جانے دیا۔فوراً ہی موڑ کر پھر ایڑ لگائی۔شنس ابھی سیدھا بھی نہیں ہوا تھا کہ ابو عبیدہؓ کی تلوار ا س کے کندھے پر پڑی لیکن اس کی زرہ نے اسے بچا لیا۔
دونوں کے گھوڑے پھر دوڑتے ایک دسرے کی طرف آئے تو شنس نے وار کرنے کیلئے تلوار اوپرکی۔ابو عبیدہؓ نے برچھی کی طرح وار کر کے تلوار اس کی بغل میں اتاردی۔ذرا ہی آگے جا کر گھوڑے کو موڑا۔شنس کو زخم پریشان کر رہا تھا۔وہ اپنے گھوڑے کو بروقت نہ موڑ سکا۔ابو عبیدہؓ نے اس کی ایک ٹانگ پر بھر پور وار کیااور ٹانگ کاٹ ڈالی۔شنس گر رہا تھا جب ابو عبیدہ ؓپھر واپس آئے اور شنس کی گردن کو ڈھلکا ہوا دیکھ کر گردن پر وار کیا۔شنس کا پورا سر تو نہ کٹا لیکن الگ ہو کرلٹکنے لگا۔پھر اس کی لاش گھوڑے سے اس طرح گری کہ ایک پاؤں رکاب میں پھنس گیا۔ابو عبیدہؓ نے شنس کے گھوڑے کو تلوار کی نوک چبھوئی۔گھوڑا بدک کر دوڑ پڑااور اپنے سوار کی لاش گھسیٹتا پھرا۔
اس کے ساتھ ہی ابو عبیدہؓ نے اپنے قلب کے دستوں کو دشمن کے قلب پر حملے کا حکم دے دیا جہاں کھلبلی بپا ہو چکی تھی۔کیونکہ اس کا سالار مارا گیا تھا۔رومی پیچھے ہٹنے لگے لیکن مجاہدین نے ان کے عقب میں جاکر ان کیلئے بھاگ نکلنا مشکل کر دیا۔پھر بھی بہت سے رومی نکل گئے اور حمص کا رخ کر لیا۔
یہ معرکہ مارچ ۶۳۵ء (محرم الحرام ۱۴ ھ) میں لڑا گیا تھا۔
…………bnb…………

اسی صبح دمشق کے باہر بھی خونریزی ہو رہی تھی۔پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ دمشق مسلمانوں کے قبضے میں تھا لیکن وہاں مسلمان فوج کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔دمشق میں حاکمِ شہر اور سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔شہنشاہِ ہرقل کا منصوبہ یہ تھا کہ دمشق میں مسلمان فوج کی تعداد کم ہے اس لیے اسے آسانی سے ختم کیا جا سکے گا۔اس نے یہ کام اپنے ایک تجربہ کار سالار تھیوڈورس کو سونپا تھا۔
دمشق کے دفاع کا ایک انتظام یہ بھی تھا کہ دیکھ بھال کیلئے چند آدمی شہر سے دور دور گھومتے پھرتے رہتے تھے۔اس صبح یزیدؓ بن ابی سفیان کو اطلاع ملی کہ رومی فوج آرہی ہے ۔دمشق پر ہر لمحہ حملے کی توقع رہتی تھی، رومی کوئی ایسے گئے گزرے تو نہیں تھے کہ اپنی شہنشاہی کا کھویا ہوا اتنا بڑاشہر واپس لینے کی کوشش نہ کرتے۔ یزیدؓ بن ابی سفیان ہر وقت تیاری کی حالت میں رہتے تھے، انہوں نے رومی فوج کے آنے کی اطلاع ملتے ہی اپنے دستوں کو شہرکے باہر صف آراء ہونے کا حکم دیا۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ مسلمان محاصرے میں لڑنے کے عادی نہیں تھے۔ انہیں محاصرہ کرنے کا تجربہ تھا۔محصور ہو کر لڑنے کا انہیں کوئی تجربہ بھی نہیں تھااور انہیں محصور ہونا پسند بھی نہیں تھا۔وہ میدان میں اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن سے بھی لڑ جاتے تھے۔
رومی چونکہ جنوب مغرب کی طرف سے آرہے تھے اس لیے یزیدؓ نے اپنے دستے کو اسی سمت جنگی ترتیب میں کھڑا کر دیا، رومی فوج سامنے آئی تو پتا چلا کہ اس کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ان رومی دستوں کا سالار تھیوڈورس تھا۔وہ انطاکیہ سے بیروت کے راستے دمشق کو فتح کرنے آرہا تھا۔جب مرج الروم پہنچا تو ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کی زیرِ قیادت مجاہدین کی فوج آگئی۔اسے دمشق پہنچنا تھا وہ وقت ضائع نہیں کر سکتا تھا۔
مؤرخ واقدی ،ابنِ ہشام اور ابو سعید لکھتے ہیں کہ اس نے بڑی کارگر ترکیب سوچ لی، ایک یہ کہ مسلمانوں کے سامنے مرج الروم میں صف آراء رہا لیکن لڑائی سے گریز کرتا رہا۔رات ہوگئی تو نہایت خاموشی سے اپنے دستوں کو دمشق لے گیا۔ رومی سالار شنس پیچھے رہ گیا۔اس کے ذمے یہ کام تھا کہ ابو عبیدہؓ اور خالدؓ کے دستوں کو یہیں روکے رکھے۔اس مقام سے دمشق بیس میل بھی نہیں تھا۔تھیوڈورس صبح کے وقت دمشق کے مضافات تک پہنچ گیا۔
وہ جب دمشق کے قریب گیا تو مسلمانوں کے قلعے کے باہر منتظر پایا۔یہ دمشق کے دفاعی دستے تھے جن کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔تھیوڈورس کو معلوم تھا کہ دمشق کے دفاع میں مسلمانوں کی یہی نفری ہے جو باہر کھڑی ہے۔اس نے اپنے دستوں کو للکار کر کہا کہ عرب کے ان بدوؤں کو کچل ڈالو۔دمشق تمہارا ہے۔
’’مجاہدو!‘‘ … یزیدؓبن ابی سفیان نے اپنے دستوں سے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔ … ’’دمشق تمہاری آبرو ہے۔ دشمن شہر کی دیوار کے سائے تک بھی نہ پہنچے۔کفر کے طوفان کو شہر سے باہر روک لو۔‘‘
یہ جوش و جذبات کی للکار تھی۔جس نے مجاہدین کو گرما دیا،لیکن حقیقت بڑی تلخ تھی۔کہ دشمن کی تعداد کئی گنا زیادہ اور کمک کی کوئی صورت نہیں تھی۔نہ صرف یہ کہ دمشق ہاتھ سے جارہا تھا بلکہ مجاہدین میں سے کسی کا بھی زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔مجاہدین جہاں بھی لڑے کم تعداد میں لڑے لیکن کمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔رومیوں کی نفری اتنی زیادہ تھی کہ وہ یزیدؓ کے دستوں کو آسانی سے گھیرے میں لے سکتے تھے۔ہرقل نے یہی کچھ سوچ کر وہاں زیادہ نفری بھیجی تھی اور تھیوڈورس اس کا آزمودہ سالار تھا۔
تھیوڈورس نے مسلمانوں کو دیکھ کر اپنے دستوں کو روکا نہیں ،ا س نے حملے کا حکم دے دیا۔حملہ دونوں پہلوؤں کی طرف سے ہوا تھا۔یزیدؓ بن ابی سفیان سمجھ گئے کہ رومی انہیں اندر کی طرف سکڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔یزیدؓ بن ابی سفیان نے اپنے دستے کو اور زیادہ پھیلا دیا اور سوار دستے سے کہا کہ وہ دشمن کے پہلوؤں پر جانے کی کوشش کریں لیکن رومی تو سیلاب کی مانند تھے مسلمان جذبے سے حملے روک رہے تھے اور وہ اس سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے۔وہ دفاعی لڑائی لڑنے پر مجبور تھے جوابی حملہ نہیں کر سکتے تھے۔
رومی شہر کی طرف جانے کیبھی کوشش کر رہے تھے۔یزیدؓ نے اس کا انتظام پہلے ہی کر رکھا تھا۔انہوں نے شہر کے ہر دروزے کے سامنے اور کچھ دور تیر انداز کھڑے کر رکھے تھے اور ان کے ساتھ تھوڑی تھوڑی تعداد میں گھوڑ سوار بھی تھے۔
سورج سر کے اوپر آگیا ۔آدھا دن گزر گیا تھا مجاہدین ابھی تک رومیوں کے موج در موج حملے روک رہے تھے اور ان کے نعروں اور للکار میں ابھی جان موجود تھی،اس وقت تک زخمیوں اور شہیدوں کی وجہ سے ان کی تعداد مزید کم ہو گئی تھی۔ رومی نفری کی افراط کے باوجود مسلمانوں پر غالب نہیں آسکے تھے لیکن مسلمانوں کے جسم اب جواب دینے لگے تھے۔گھوڑے بھی تھک گئے تھے۔
دوپہر کے بعد مجاہدین کو صاف طور پرمحسوس ہونے لگا کہ شکست ان کے بہت قریب آگئی ہے۔وہ پسپائی کے عادی نہیں تھے۔انہوں نے کلمہ طیبہ کا بلند ورد شروع کر دیا اور اس کوشش میں لہو لہان ہونے لگے کہ حملہ روک کر حملہ کریں بھی ۔ان کی تنظیم ٹوٹ گئی تھی اور وہ اب انفرادی طور پر لڑ رہے تھے۔سالار یزیدؓ بن ابی سفیان سپاہی بن چکے تھے۔ وہ اپنے علم برداد اور محافظوں سے کہتے تھے کہ علم نہ گرنے دینا۔
بڑی جلدی وہ وقت آگیا جب مجاہدین کو یقین ہو گیا کہ ایک طرف دشمن کی قید اور دوسری طرف موت ہے۔وہ جیتے جی یہ نہیں سننا چاہتے تھے کہ دشمن دمشق پر قابض ہو گیا ہے۔
عین اس وقت جب مجاہدین نے زندگی کا آخری معرکہ لڑنے کیلئے جانوں کی بازی لگا دی تھی ،رومیوں کے عقب میں شور اٹھااور دیکھتے ہی دیکھتے رومیوں میں بھگدڈ مچ گئی۔ دمشق کے دفاع میں لڑنے والوں کو پتا نہیں چل رہا تھا کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے اور رومیوں پر کیاآفت ٹوٹی ہے۔ان کی تنظیم درہم برہم ہو گئی اور ان کے حملے بھی ختم ہو گئے۔
’’اسلام کے جانثارو!‘‘ … یزیدؓ بن ابی سفیان نے بلند آواز سے کہا۔ … ’’اﷲکی مدد آگئی ہے۔ حوصلے بلند رکھو۔‘‘
حقیقت یہ تھی کہ یزیدؓ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ رومیوں کے عقب میں کیا ہو رہا ہے۔انہوں نے رومیوں پر حملے کاحکم دے دیا۔ رومیوں کو حملہ روکنے کا بھی ہوش نہ رہا۔ یزیدؓ بن ابی سفیان پہلو کی طرف نکل گئے۔ محافظ ان کے ساتھ تھے، وہ رومیوں کے عقب میں جار ہے تھے۔ شوروغوغا اس قدر زیادہ تھا کہ اپنی آواز بھی نہیں سنائی دیتی تھی صرف یہ پتا چلتا تھا کہ رومیوں میں بھگدڑ اور افراتفری بپا ہو گئی ہے۔
کچھ اور آگے گئے تو یزیدؓ کے کانوں میں آواز پڑی:
انا فارس الضدید
انا خالد بن الولید
’’دمشق کے محافظو!‘‘ … یزیدؓ بن ابی سفیان گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کرتے ہوئے پیچھے آئے۔ … ’’خدا کی قسم! ابنِ ولید آگیا ہے۔ابو سلیمان پہنچ گیاہے۔اﷲکی مدد پہنچ گئی ہے۔اﷲکو پکارنے والوں! اﷲنے ہماری سن لی ہے۔خداکی قسم !رومی اپنی قبروں پر لڑ رہے ہیں۔فتح حق پرستوں کی ہوگی۔‘‘
اس دور کی تحریری روایات سے پتا چلتا ہے کہ یزیدؓ پر دیوانگی طاری ہو گئی تھی اور ایسی ہی دیوانگی ان کے دستے پر طاری ہو گئی اور ا س کے ساتھ ہی رومیوں کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔
…………bnb…………

یزیدؓ بن ابی سفیان کیلئے خالدؓ کا آجانا ایک معجزہ تھا۔لیکن خالدؓ اتنی جلدی آ کیسے گئے؟ ہم پھر گزشتہ رات مرج الروم چلے چلتے ہیں جہاں خالدؓ چھپ چھپ کر رومیوں کے کیمپ دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ رومیوں کی فوج کا وہ حصہ جو دن کے وقت ان کے سامنے صف آراء تھا وہاں نہیں ہے۔خالدؓ کو یقین ہو گیاکہ یہ حصہ کہیں چلا گیا ہے۔تو انہوں نے سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ سے بات کی۔ خالدؓ دور اندیش تھے انہیں شک ہوا کہ رومیوں کی فوج کا یہ حصہ دمشق کی جانب گیا ہے اور رومیوں کا مقصد صرف یہ ہو سکتا ہے کہ دمشق پر قبضہ کر لیا جائے۔
’’ہرقل معمولی دماغ کا آدمی نہیں۔‘‘ … خالدؓ نے ابو عبیدہؓ سے کہا۔ … ’’اسے معلوم ہو گا کہ دمشق میں ہمای نفری بہت تھوڑی ہے میں اس کے سوااور کچھ نہیں سمجھ سکتا کہ دمشق خطرے میں ہے۔اگر تو مجھے اجازت دے تو میں دمشق پہنچ جاؤں۔‘‘
’’تجھ پر اﷲکی سلامتی ہو ابو سلیمان!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے کہا۔ … ’’میں تجھے اجازت دیتا ہوں اور تجھے اﷲ کے سپرد کرتا ہوں۔یہ جو رومی پیچھے رہ گئے ہیں، انہیں میں سنبھال لوں گا۔‘‘
خالدؓ نے ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا۔اپنے سوار دستے کو تیار کر کے دمشق کو روانہ ہو گئے۔ راستے میں کئی نشانیاں اور کئی آثا ر انہیں یقین دلاتے رہے کہ اس راستے پر ایک فوج گزری ہے۔تھیوڑورس آدھی رات سے پہلے مرج الروم سے روانہ ہو گیا۔ خالدؓ رات کے آخری پہر روانہ ہوئے اور دمشق اس وقت پہنچے جب مسلمان ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے تھے اور انہیں کمک کی ذرا سی بھی توقع نہیں تھی۔
خالدؓ کو وہاں وہی نظر آیا جو انہوں نے سوچا تھا۔ انہوں نے عقب سے رومیوں پر ہلہ بول دیا۔ خالدؓ کو رومیوں کا پرچم نظر آیا تو اپنے محافظوں کے ساتھ وہاں جا پہنچے۔انہیں تھیوڈورس بوکھلاہٹ کے عالم میں دکھائی دیا۔ اسے دمشق اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا۔وہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا تھا اور اس کی فوج فتح کے قریب پہنچ کر کٹنے لگی تھی۔
’’میں رومیوں کا قاتل ہوں۔‘‘ … خالدؓ نے تھیوڈورس کو للکارا۔ … ’’میں وہیں سے آیا ہوں جہاں سے رات کو تو آیا تھا۔‘‘
تھیوڈورس نے تلوار نکال لی۔دونوں سالاروں کے محافظ الگ ہٹ گئے۔ خالدؓ نے تھیوڈورس کے دو تین وار بے کار کر دیئے اور اس کے اردگرد گھوڑا دوڑاتے رہے۔تھیوڈورس کو بھرپور وار کر نے کیلئے موزوں پوزیشن نہیں مل رہی تھی۔ وہ خالدؓ کے رحم و کرم پر تھا وہ مانا ہوا جنگجو سالار تھا لیکن اس کا مقابلہ ایسے سالار کے ساتھ آپڑا تھا جو ہر لمحہ شکار کی تلاش میں رہتا تھا۔
آخر اس نے بڑے غصے میں خالدؓ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن خالدؓ نے ایک پینترا بدل کر اپنے آپ کو تھیوڈورس کی زد سے دور کر لیا اور دوسرے پینترے میں ایسا وار کیا کہ تھیوڈورس گھوڑے پر بھی دوہرا ہو گیا۔خالدؓ کے دوسرے وار نے اسے ختم کر دیا۔
اب رومیوں کے کرنے کا ایک ہی کام رہ گیا تھا کہ بھاگیں اور اپنی جانیں بچائیں۔ وہ رومی خوش قسمت تھے جو زندہ نکل گئے۔ مالِ غنیمت میں زرہ، خودیں ،ہتھیار، اور گھوڑے قابلِ ذکر تھے۔
اُدھر ابو عبیدہؓ نے دوسرے رومی سالار شنس کو ختم کر دیا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

1 comment:

  1. Lucky Club Casino Site Review 2021
    Lucky Club Casino: All things casino, including slots, table games, casino luckyclub games, video poker, and more. Rating: 4.5 · ‎Review by LuckyClub

    ReplyDelete

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages