Featured Post

Khalid001

20 April 2020

Khalid131


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  131
دونوں طرف کی فوجوں کے درمیان ڈیڑھ ایک میل کا فاصلہ تھا۔ خالدؓ نے حسبِ معمول دشمن کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے اور اطلاع دینے کیلئے اپنے آدمی آگے بھیج رکھے تھے لیکن دشمن کے محاذ کی صورت ایسی تھی کہ قریب جا کر کچھ دیکھنا ممکن نہ تھا۔ اپنے آدمی بلندیوں سے دیکھتے رہتے تھے۔
مسلمان فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ آگے گیا ہوا ایک آدمی دوڑتا آیا اور خالدؓ کو بتایا کہ رومی تیار ہو کر ترتیب میں آرہے ہیں۔
’’ترتیب کیسی ہے؟‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’ترتیب حملے کی معلوم ہوتی ہے۔‘‘ … جاسوس نے جواب دیا۔ … ’’پہلے دف بجے تھے پھر ان کے دستے بڑی تیزی سے ترتیب میں آگئے۔ سوار گھوڑوں پر سوار ہو چکے ہیں۔‘‘
’’ہو نہیں سکتا کہ رومی کہیں اور جا رہے ہوں۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’وہ حملے کیلئے آرہے ہیں۔‘‘
خالدؓ کچھ پریشان بھی ہوئے لیکن وہ حوصلہ ہارنے والے نہیں تھے، تیاری کا وقت نہیں تھا۔ اگر رومی تیار تھے تو انہوں نے مسلمانوں کو اس حالت میں آ دبوچنا تھا، جب وہ تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے بڑی تیزی سے تمام سالاروں کو اطلاع بھجوادی کہ دشمن کا حملہ آرہا ہے۔
مسلمان جب تیار ہو رہے تھے۔ اس وقت رومی لشکر اپنے محاذ سے چل پڑا تھا۔ اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ رومی سالاروں کو توقع تھی کہ وہ مسلمانوں کو بے خبری میں جا لیں گے لیکن وہ جب قریب آئے تو مسلمان تیار تھے وہ خلافِ توقع اتنی جلدی تیار ہو گئے تھے۔ خالدؓ نے انہیں لمبا چوڑا حکم نہیں بھیجاتھا نہ کوئی ہدایت جاری کی تھی۔ صرف اتنا پیغام دیا تھا کہ دشمن کا حملہ آرہا ہے۔ اپنے اپنے محاذ پر تیار رہو۔
صبح کا اجالا سفید ہو رہا تھا۔ رومی سیلاب کی طرح بڑھے آرہے تھے۔ ان کا رخ مسلمانوں کے قلب کی طرف تھا۔ ان کے بہت سے دستے دائیں اور بائیں پہلوؤں کی طرف بھی آرہے تھے لیکن معلوم یہی ہوتا تھا کہ وہ حملہ قلب پر کریں گے۔
خالدؓ نے اپنے قلب کے دستوں کو آگے بڑھ کر دشمن کا استقبال کرنے کا حکم دیا۔ انہوں نے دفاع کا طریقہ وہی اختیار کیا کہ برچھی بازوں اور تیراندازوں کو آگے رکھا گیا۔ رومی جو اس امید پر بہت تیزی سے آرہے تھے کہ مسلمان بے خبر ہوں گے اور یہ بڑی آسان فتح ہو گی۔ مسلمانوں کو ہرلحاظ سے تیار دیکھ کر ذرا سست ہو گئے اور ان کے قدم رکنے لگے۔ انہوں نے گزشتہ روز حملہ کرکے دیکھ لیا تھا۔
مسلمان تیر اندازوں نے اتنی تیزی سے تیر چلانے شروع کر دیئے کہ فضاء میں ایک جال تن گیا۔ رومی رک کر پیچھے ہٹے اور تیروں کی زد سے دور نکل گئے۔ کچھ دیر بعد وہ ڈھالیں آگے کر کے بڑھنے لگے۔ تیر اندازوں نے ایک بار پھر تیروں کا مینہ برسا دیا، لیکن اب کے رومی بڑھتے آئے، تیر کھاکھا کر گرتے بھی رہے اور وہ نیزہ بازوں تک آپہنچے۔ رومیوں کے پاس مروانے کیلئے بہت نفری تھی۔
نیزہ بازوں نے رومیوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کی لیکن رومیوں کی یلغار اتنی شدید تھی کہ رک نہ سکی۔ تب قلب کے دستے آگے بڑھے اور مجاہدین نے جان کی بازی لگا دی، خالدؓ یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ رومی پیچھے ہٹنے لگے ہیں، مجاہدین ان کے پیچھے گئے لیکن خالدؓ نے انہیں روک دیا۔
کچھ دیر بعد رومی پھر آگے بڑھے اور مجاہدین نے پہلے کی طرح حملہ روکا۔ خاصی خونریزی ہوئی اور رومی پیچھے ہٹ گئے اور اس کے بعد یہی سلسلہ چلتا رہا۔ مسلمان سالاروں کو معلوم نہیں تھا کہ ماہان کا پلان ہی یہی ہے کہ مسلمانوں کے قلب اور محفوظہ کو الجھائے رکھو، تاکہ اپنے پہلوؤں سے بے خبر رہیں اور انہیں کمک نہ دے سکیں۔
خالدؓ اس دھوکے کو سمجھ تو نہ سکے لیکن انہوں نے ہر حملہ اس طرح روکا کہ مرکزیت اور جمعیت کو درہم برہم نہ ہونے دیا، رومیوں نے پیچھے ہٹ کر مسلمان سالاروں کو موقع دیا کہ وہ جوابی حملہ کریں لیکن خالدؓ نے اپنے دستوں کو دفاع میں ہی رکھا۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ رومیوں کی نفری اور نفری کی جسمانی طاقت زائل ہوتی رہے۔
…………bnb…………

خالدؓنے اپنے پہلوؤں کی طرف توجہ نہ دی۔ انہوں نے سالاروں کو بتا رکھا تھا کہ کمک کی امید نہ رکھیں۔ سالاروں کو بھی اپنی بے مائگی کا احساس تھا اور یہ احساس اسلامی لشکرکے ہر ایک فرد کو تھا کہ صورتِ حال کتنی ہی دگرگوں ہو جائے مدد صرف اﷲ کی طرف سے ملے گی۔
رومیوں کے اصل حملے تو مسلمانوں کے پہلوؤں پر ہو رہے تھے۔ جو ماہان کے پلان کے عین مطابق تھے۔ دائیں پہلو پر یوں ہوا کہ رومیوں نے وہاں بڑا تیز حملہ کیا۔ اس پہلو کی کمان عمروؓ بن العاص کے پاس تھی، مجاہدین نے یہ حملہ نہ صرف روک لیا بلکہ دشمن کو پسپا کر دیا۔ دشمن نے یہ حملہ کرنے والے دستوں کو پیچھے کرکے دوسرا حملہ تازہ دم دستوں سے کیا۔ یہ پہلے حملے سے زیادہ شدید تھا۔
مسلمانوں نے اس کا بھی مقابلہ کیا لیکن ان کے جسم شل ہو گئے۔ انہوں نے رومیوں کو اس سے کہیں زیادہ نقصان پہنچایا جتنا رومیوں نے انہیں پہنچایا تھا اور انہوں نے اس حملے کا دم خم توڑ دیا۔ رومی بری طرح ناکام ہو کر پیچھے ہٹ گئے لیکن مسلمانوں کی جسمانی حالت ایسی ابتر ہو گئی کہ وہ مذید لڑنے کے قابل نہ رہے۔
رومیوں نے تیسرا حملہ تازہ دم دستوں سے کیا، اب کہ حملہ آوروں کی نفری بھی زیادہ تھی، مسلمانو ں نے جذبے کے زور پر حملہ روکنے کی کوشش کی تھی مگر جسم ہی ساتھ نہ دیں تو جذبہ ایک حد تک ہی کام آسکتا ہے۔ وہ حد ختم ہو چکی تھی۔ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے۔ ان کی ترتیب اور تنظیم ٹوٹ گئی۔ بیشتر اس طرح پسپا ہوئے کہ خیمہ گاہ تک جا پہنچے اور جنہوں نے پسپائی کو قبول نہ کیا وہ درمیانی دستوں یعنی قلب کی طرف جانے لگے۔
سالار عمروؓ بن العاص بھاگنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ان کے پاس محفوظہ میں دو ہزار سوار تھے جو وہاں موجودرہے۔ عمروؓ بن العاص نے ان دو ہزار سواروں سے رومیوں پر حملہ کر دیا۔ اس کی قیادت عمروؓ بن العاص نے خود کی، سواروں نے حملہ بہت تیز اور سخت کیا، اور رومیوں کو کچھ پیچھے ہٹا دیا۔ لیکن رومیوں نے تازہ دم دستے آگے لا کر ان دو ہزار مسلمان سواروں کا حملہ ناکام کر دیا اور اتنا دباؤ ڈالا کہ مسلمان سوار منہ موڑ گئے۔ وہ تو جیسے بڑے ہی تیز و تند سیلاب کے بھنور میں پھنس گئے تھے یہ بھی ان کی بہادری تھی کہ وہ لڑائی میں سے زندہ نکل آئے اور خیمہ گاہ کی طرف چلے گئے۔
’’دشمن کو پیٹھ دکھانے والوں پر اﷲ کی لعنت!‘‘ … یہ مسلمان عورتوں کی آوازیں تھیں۔ جو خیموں کے ڈنڈے ہاتھوں میں لیے کھڑی تھیں۔
عورتوں نے بھاگ آنے والے مسلمانوں پر لعن طعن اور طنز کے تیر برسائے ، اور (مؤرخوں کے مطابق) بعض کو عورتوں نے ڈنڈے بھی مارے۔
’’خد اکی قسم!مسلمان خاوند اتنے بے غیرت نہیں ہو سکتے۔‘‘ … یہ بیویوں کی آوازیں تھیں، وہ اپنے خاوندوں سے چلّا چلّا کر کہہ رہی تھیں۔ … ’’کیا تم ہمارے خاوند ہو؟ جو ہمیں غیر مسلموں سے محفوظ نہیں رکھ سکتے؟‘‘
اس دور کے عربی رواج کے مطابق چند ایک مسلمان عورتوں نے دف اٹھا کر اس کی تال پر گیت گانا شروع کر دیا۔ یہ کوئی باقاعدہ ترانا نہیں تھا۔ عورتوں نے خود گیت گڑھ لیا اور گانے لگیں:
’’ہائے تمہاری غیرت کہاں گئی؟
اپنی ان بیویوں کو جو خوبصورت ہیں۔
نیک بھی ہیں
حقیر اور قابلِ نفرت کفار کے پاس
چھوڑ کر بھاگ رہے ہو ‘ اس لئے کہ
کفار ان کو اپنی ملکیت میں لے لیں
ان کی عصمتوں کی بے حرمتی کریں
اور ان کو ذلیل و خوار کر دیں۔‘‘
مسلمان پسپائی میں حق بجانب تھے۔ اتنی زیادہ نفری کے حملے کو روکنا ان کیلئے زیادہ دیر تک ممکن نہیں تھا۔ لیکن ابو عبیدہؓ نے اس لئے عورتوں سے کہا تھا کہ وہ بھاگ آنے والوں کو ڈنڈے اور پتھر ماریں کہ وہ تاریخ ِ اسلام کو پسپائی سے پاک رکھنا چاہتے تھے۔
ان کا مقصد پورا ہو گیا۔ بھاگ آنے والوں کو عورتوں نے نیا حوصلہ دیا۔ ان کا خون کھول اٹھا اور وہ واپس چلے گئے۔ عمروؓ بن العاص نے انہیں جلدی جلدی منظم کیا اور رومیوں پر جوابی حملے کی تیاری کرنے لگے۔
…………bnb…………

بائیں پہلو کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔ ان کے والد ابی سفیانؓ ان کے ماتحت لڑ رہے تھے۔ اس پہلو پر بھی رومیوں نے حملہ کیا تھا جو مسلمانوں نے روک کر پسپاکر دیا تھا۔ دوسرا حملہ جس رومی دستے نے کیا وہ زنجیروں میں بندھا ہوا تھا۔دس دس سپاہی ایک ایک زنجیر کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ زنجیریں اتنی لمبی تھیں کہ سپاہی آسانی سے لڑ سکتے تھے۔
چونکہ اس دستے کے سپاہی زنجیروں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے اس لئے ان کے حملے کی رفتار تیز نہیں تھی۔ مجاہدین نے پہلا حملہ بڑی جانفشانی سے روکا تھا اور رومیوں کو پسپا کرنے کیلئے انہیں چند گھنٹے لڑناپڑا تھا۔اس کے فوراً بعد تازہ دم دستوں کا حملہ روکنا ان کیلئے محال ہو گیا۔ حملہ آوروں کی نفری تین گنا سے بھی کچھ زیادہ تھی چنانچہ مسلمانوں کے جسموں نے ان کے جذبوں کا ساتھ نہ دیا اور ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ پسپا ہونے لگے۔
ان کی عورتوں کے خیمے ان کے پیچھے محفوظ فاصلے پر تھے۔ پسپا ہونے والوں میں ان کے سالار کے والد ابی سفیانؓ بھی تھے۔ وہ کوئی معمولی شخص نہیں تھے قبیلے کے سرداروں میں سے تھے۔ قبولِ اسلام سے پہلے انہوں نے مسلمانوں سے کئی لڑائیاں لڑی تھیں اور مسلمانوں کی تباہی اور بربادی میں پیش پیش رہتے تھے۔ قبولِ اسلام کے بعد بھی وہ اپنے بدلے ہوئے کردار میں اہم حیثیت کے مالک رہے لیکن رومیوں کے سیلاب کے آگے ٹھہر نہ سکے، اور عورتوں کے کیمپ کی طرف پسپا ہوئے۔
وہاں بھی عورتوں نے پسپا ہو کر آنے والوں کا استقبال ڈنڈوں سے کیا۔ ان میں ابی سفیانؓ کی بیوی ہند بھی تھیں۔ وہ ان کی طرف دوڑی آئیں اور ڈنڈہ آگے کر کے انہیں روک لیا۔
’’اے ابنِ حرب!‘‘ … ہند نے ابی سفیانؓ سے کہا۔ … ’’تو کدھر بھاگا آرہاہے؟‘‘ … انہوں نے ابی سفیانؓ کے گھوڑے کے سر پر ڈنڈہ مارا اور کہا۔ … ’’یہیں سے لوٹ جا اور ایسی بہادری سے لڑ کہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تو نے رسول اﷲﷺ کے خلاف جو کارروائیاں کی تھیں اﷲ وہ بخش دے۔‘‘
ابی سفیانؓ اپنی بیوی کو جانتے تھے۔ وہ بڑی زبردست خاتون تھیں۔ ابی سفیانؓنے انہیں اتنا کہنے کی بھی جرات نہ کی کہ وہ بھاگ آنے پر مجبور تھے وہ جانتے تھے کہ ہند کے سامنے بولے اور کچھ دیر رکے رہے تو ہند ڈنڈوں سے مار مار کر انہیں بے ہوش کردیں گی۔
دوسری عورتوں نے یہاں بھی وہی منظر بنا دیا جو دائیں پہلو کے مجاہدین کی عورتوں نے بنا دیا تھا۔بیویوں نے اپنے خاوندوں کو شرمسار کیا اور انہیں ایسا جوش دلایا کہ وہ سب واپس چلے گئے۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عورتیں اپنے مردوں کے ساتھ میدانِ جنگ تک چلی گئیں۔ ان میں ایک عورت کچھ زیادہ ہی آگے چلی گئی۔ ایک رومی سپاہی اس کے سامنے آگیا وہ اسے ایک عورت ہی سجھ رہا تھا۔ لیکن اس عورت نے تلوار نکال لی اور اس رومی کو مار ڈالا۔
سالار یزیدؓ بن ابی سفیان ایک جگہ پریشانی کے عالم میں اپنے بکھرے ہوئے مجاہدین کو ڈھونڈتے نظر آئے انہوں نے دیکھاکہ پسپا ہونے والے واپس آگئے ہیں تو ان کے چہرے پر رونق واپس آگئی۔ رومی پیچھے ہٹ گئے تھے ۔یزیدؓ نے اپنے دستوں کو بڑی تیزی سے منظم کیا اور جوابی حملے کا حکم دے دیا۔
ہند نے بہت ہی بلند آواز میں وہی گیت گانا شروع کر دیا جو انہوں نے احد کی جنگ میں اپنے قبیلے کو گرمانے کیلئے گایا تھا۔ اس وقت ہند مسلمان نہیں تھیں۔ ا س گیت کا لب لباب یہ تھا کہ ہم تمہارے لیے راحت اور لطف کا ذریعہ بنتی ہیں۔اگر تم نے دشمن کو شکست دی تو ہم تمہیں گلے لگالیں گی اور اگر تم پیچھے ہٹ آئے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گی۔
جنگِ یرموک میں بھی ہند نے وہی گیت گایا۔
…………bnb…………

خالدؓ کی نظر پورے محاذ پر تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ دائیں اور بائیں پہلوؤں پر کیا ہو رہا ہے۔ انہیں احساس تھا کہ پہلوؤں کو مدد کی ضرورت ہے لیکن خالدؓ نے مدد کو انتہائی مخدوش صورتِ حال میں استعمال کرنے کی سوچ رکھی تھی۔انہیں خبریں مل گئی تھیں کہ دایاں پہلو پسپا ہو گیااور بایاں پہلو بھی بکھر کر پیچھے ہٹ گیا ہے۔ خالدؓ نے دونوں پہلوؤں کے سالاروں کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ جوابی حملہ کریں۔ نفری کتنی ہی تھوڑی کیوں نہ ہو۔
آخر انہیں اطلاع ملی کہ دائیں پہلو کے سالار نے جوابی حملہ کر دیا ہے۔ خالدؓ نے محفوظہ کے سوار دستے کے ساتھ متحرک سوار دستے کے کچھ حصے کو اس حکم کے ساتھ ادھر بھیج دیا کہ وہ دائیں پہلو پر رومیوں پر دوسری طرف سے حملہ کریں۔
اس وقت دائیں پہلو سے عمروؓ بن العاص نے جوابی حملہ کیا تھا۔ یہ تھکے ہوئے مجاہدین کاحملہ تھاجو نئے جوش اور ولولے سے کیا گیا تھا لیکن نفری بہت کم تھی۔ پھر بھی حملہ کر دیا گیا تھا۔
’’اب زندہ نہ جائیں۔‘‘ … یہ رومیوں کی للکار تھی۔ … ’’اب بھاگ کر نہ جائیں۔‘‘
رومی نفری کی افراط پر ایسادعویٰ کر سکتے تھے کہ وہ مسلمانوں کی اس قلیل سی نفری کو زندہ نہیں جانے دیں گے۔ لیکن اچانک ان کے پہلو پر بڑا تیز حملہ ہو گیا حملہ آور گھوڑ سوار تھے وہ نعرے لگاتے اور گرجتے آئے تھے۔
’’ابنِ العاص!‘‘ … سوار دستوں کا سالار للکار رہا تھا۔ … ’’ہم آگئے ہیں۔ حوصلہ قائم رکھو۔‘‘
عمروؓ بن العاص کے تھکے ہارے مجاہدین کے حوصلوں میں بھی اور جسموں میں بھی جان پڑ گئی اور اس کے ساتھ ہی رومیوں کے حوصلوں سے جان نکل گئی وہ اب دو طرفہ حملوں کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ وہ بوکھلا گئے۔ مسلمان سوارتازہ دم تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ساتھیوں کی بری حالت دیکھ کر اور زیادہ جوش میں آگئے تھے۔ یہ انتقام کا قہر تھا۔
اگر دونوں طرف نفری برابر ہوتی یا دشمن کی نفری ذرا زیادہ ہی ہوتی تو دشمن کا بے تحاشہ نقصان ہوتا اور وہ میدان چھوڑ جاتا لیکن نفری کے معاملے میں رومی سیلابی دریا تھے۔ مسلمانوں کے حملے کاان پر یہ اثر پڑا کہ وہ اپنی بہت سی لاشیں اور بے شمار زخمی چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔ لیکن بھاگے نہیں ۔ بلکہ منظم طریقے سے اپنے محاذ تک واپس چلے گئے۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages