Featured Post

Khalid001

20 April 2020

Khalid132


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  132
اِدھر مرکز یعنی قلب میں کیفیت یہ تھی کہ خالدؓ دشمن کی چال سمجھ چکے تھے۔ رومی ابھی تک مسلمانوں کے قلب کے سامنے موجود تھے۔ وہ ہلکاسا حملہ کرکے پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ خالدؓ جان گئے کہ دشمن انہیں مصروف رکھناچاہتا ہے تاکہ وہ اپنے پہلوؤں کی طرف توجہ نہ دے سکیں۔ خالدؓ کو دائیں بائیں پہلوؤں کی اطلاعیں ملیں تو انہوں نے ماہان کا پلان بے کار کرنے کا طریقہ سوچ لیا۔ پہلے تو انہوں نے دائیں پہلو کو مدد بھیجی پھر بائیں طرف توجہ دی جہاں کے سالار یزیدؓ بن ابی سفیان تھے۔
’’ابن الازور!‘‘ … خالدؓ نے اپنے متحرک سوار دستے کے سالار ضرار بن الازور کو بلا کر کہا۔ … ’’کیا تو دیکھ رہا ہے کہ دشمن ہمارے بازوؤں پر غالب آگیا ہے؟‘‘
’’دیکھ رہا ہوں ابن الولید!‘‘ … ضرار نے کہا۔ … ’’میں تیرے حکم کا منتظر ہوں۔ کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ میرا گھوڑا کس بے چینی سے کھر مار رہا ہے۔‘‘
’’بائیں پہلو پر جلد جا ابن الازور!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’سواردستہ اپنے ساتھ لے اور یزید کی مدد کو اس طرح پہنچ کہ جن رومیوں کے ساتھ وہ الجھا ہوا ہے ان پر پہلو سے حملہ کردو۔‘‘
’’کس حال میں ہے یزید؟‘‘ … ضرار نے پوچھا۔
’’حال جو مجھے بتایا گیا ہے وہ میں کیسے بیان کروں؟‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ابی سفیان جو کبھی ہمارے قبیلہ قریش کی آنکھ کا تارا تھا وہ بھی پسپاہو گیا۔ دوسری اطلاع ملی ہے کہ پسپا ہو کر آنے والے پھر آگے چلے گئے لیکن تو جانتا ہے کہ حوصلہ ایک ضرب کھالے تو دوسری ضرب کھانے کی تاب نہیں رہتی۔‘‘
’’اﷲ ہم سب کو حوصلہ دے گا۔‘‘ … ضرار بن الازور نے کہا۔
ضرار تاریخی جنگجو تھے۔ دل میں اﷲ اور رسولﷺ کا عشق ، زبان پر اﷲ اور رسولﷺ کا نام اور ان کی تلوار اﷲ کے نام پر چلتی تھی۔ وہ تو اپنی جان سے لا تعلق ہو چکے تھے۔ خالدؓ کا حکم ملتے ہی انہوں نے اپنے سوار دستے کو ساتھ لیا اور یہ دستہ اپنی ہی اڑائی ہوئی گرد میں غائب ہو گیا۔
وقت بعد دوپہر کا تھا۔ گرمی جھلسا رہی تھی ۔گھوڑے پسینے میں نہا رہے تھے۔ پیاس سے مجاہدین کے منہ کھل گئے تھے اور ان کی روحیں پانی کی نہیں دشمن کے خون کی پیاسی تھیں۔
ضرار بن الازور کے دستے نے ان رومیوں پر ایک پہلو سے حملہ کیا جنہیں یزیدؓ نے اپنے حملے میں الجھا رکھا تھا۔ یہ رومی زنجیر بند تھے۔ انہیں پہلی بار احساس ہو اکہ زنجیریں نقصان بھی دے دیا کرتی ہیں۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ دس دس آدمی ایک ہی زنجیر میں بندھے ہوئے تھے۔ انہوں نے جب حملہ کیا تھا تو ان کی رفتار زنجیروں کی وجہ سے سست تھی۔ اب ان پر ضرار نے حملہ کیا تو وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ مسلمانوں کی تلواروں اور برچھیوں سے بچنے کیلئے انہیں تیزی سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے تھا لیکن زنجیریں انہیں تیزی سے پیچھے ہٹنے نہیں دے رہی تھیں۔
ضرار کے سواروں کا ہلہ بڑا ہی تیز اور زوردار تھا ضرار بڑے ذہین سالار تھے اور ان کے ساتھی وہ اپنے ہی طریقے اور جوش سے لڑنے والے سپاہی بھی تھے۔ ان کی دلیری کا یہ عالم تھا کہ دشمن کی صفوں میں گھس جایا کرتے تھے۔ یہاں بھی انہوں نے ایسی ہی دلیری کا مظاہرہ کیا وہ رومیوں کے سالار کو ڈھونڈ رہے تھے۔
انہیں وہ سالار نظر آگیا۔ وہ دیرجان تھا۔ اس کے اردگرد اس کے محافظ سوار کھڑے تھے اور وہاں رومی پرچم بھی تھا۔ ضرار اگر اسے للکارتے تو پہلے انہیں اس کے محافظوں کا مقابلہ کرنا پڑتا جو اکیلے آدمی کے بس میں نہیں تھا۔ ضرار محافظوں کو نظر انداز کرکے ان کے حصارمیں چلے گئے اور تلوار کا ایسا وار کیا کہ دیرجان کی گردن تقریباً آدھی کٹ گئی۔
پیشتر اس کے کہ دیرجان کے محافظ ضرار کو گھیر لیتے ضرار وہاں سے غائب ہو گئے تھے۔ محافظوں میں ہڑبونگ مچ گئی۔ ان کا سالار گھوڑے سے لڑھک گیا۔ دو محافظوں نے اسے تھام لیا اور گھوڑے سے گرنے نہ دیا لیکن اس کی زندگی ختم ہو چکی تھی۔ اسے اب مرنا تھا۔ وہ ذبح ہونے والے بکرے کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اسے پیچھے لے جانے لگے تو وہ دم توڑ گیا۔
ادھر ضرار ایک قہر کی طرح رومیوں پر برس رہے تھے۔ ادھر خالدؓ نے اسی پہلو کے اس مقام پر حملہ کردیا جہاں رومیوں کا سالار گریگری تھا۔ ضرار اور خالدؓ کے حملوں نے رومیوں کا زور توڑ دیا۔ زیادہ نقصان ان رومی سپاہیوں کا ہوا جو زنجیروں سے ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے تھے، وہ تیزی سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے تھے۔
اس جوابی حملے کا اثر یہ ہوا کہ رومی پیچھے ہٹ گئے لیکن یہ پسپائی نہیں تھی۔ وہ محاذ یا خیمہ گاہ تک چلے گئے ۔ ان کا نقصان بہت ہوا تھا۔ لیکن ان کے پاس نفری کی کمی نہیں تھی۔ مسلمان فوج پر یہ اثر ہوا کہ ان کا حوصلہ اور جذبہ بحال ہو گیا اور ان میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ اتنے بڑے لشکر کو پیچھے ہٹایا جا سکتا ہے تو اسے شکست بھی دی جا سکتی ہے۔
اس روز مزید لڑائی نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ سورج غروب ہو رہا تھا۔
وہ رات بیداری کی رات تھی۔ مسلمان عورتیں آگے جا کر لڑنے کیلئے بیتاب ہوئے جا رہی تھیں لیکن ان کیلئے دوسرے کام بھی تھے۔ جن میں فوج کیلئے پانی فراہم کرنا اور کھانا پکانا تھا، اور اس سے بھی زیادہ اہم کام زخمیوں کی مرہم پٹی تھا۔ عورتیں زخمیوں کے زخم صاف کرتی اور ان پر پٹیاں باندھتی تھیں۔ ان کے انداز میں جو خلوص اور جو اپنائیت تھی اس سے زخمیوں کے حوصلے اور زیادہ مضبوط ہو گئے۔ ان میں جو اگلے روز لڑنے کے قابل نہیں تھے وہ بھی لڑنے کو تیار ہو گئے۔
مجاہدین رات کو اپنے ساتھیوں کی لاشیں ڈھونڈتے اور پیچھے لاتے رہے، کچھ زخمی بے ہوش پڑے تھے۔ انہیں بھی انہوں نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اٹھایا اور پیچھے لے آئے۔
ادھر ماہان نے اپنے سالاروں کو اپنے سامنے بٹھا رکھا تھا۔
’’میں شہنشاہِ ہرقل کو کیا جواب دوں گا؟‘‘ … وہ سخت برہم تھا۔ … ’’تم ہی بتاؤ کہ میں شہنشاہ کو کیا بتاؤں کہ ان چند ہزار مسلمانوں کو ہم اپنے گھوڑوں کے قدموں تلے کچل کیوں نہیں سکے؟‘‘
کوئی سالار اسے تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔
’’ہمارا ایک سالار بھی مارا گیا ہے۔‘‘ … ماہان نے کہا۔ … ’’کیا تم نے ان کے کسی سالار کو قتل کیا ہے؟‘‘
اس کے تمام سالار خاموش رہے۔
’’قورین!‘‘ … اس نے اپنے ایک سالار قورین سے کہا۔ … ’’تم سالار دیر جان کے دستے لے لو … اور سوچ لو کہ پسپا ہونا ہے تو زندہ میرے سامنے نہ آنا۔ آگے ہی کہیں مارے جانا۔‘‘ … اس نے تمام سالاروں سے کہا۔ … ’’کل کے سورج کے ساتھ مسلمانوں کا سورج بھی غروب ہو جائے … ہمیشہ کیلئے۔‘‘
ماہان نے مسلمانوں کو اگلے روز ختم کردینے کا نیا پلان بنایا اور سالاروں کو سمجھایا۔ اپنے مرے ہوئے سالار دیرجان کی جگہ اس نے قورین کو اس کے دستوں کا سالار مقرر کیا۔
مسلمان سالاروں نے بھی رات جاگتے گزاری۔ زخمیوں کی عیادت کی اور مجاہدین کا حوصلہ بڑھایا۔
اگلے روز کی لڑائی پہلے سے کہیں زیادہ شدید اور خونریز تھی۔ مسلمانوں کے دائیں پہلو پر سالار عمروؓ بن العاص کے دستے تھے، اور ان کے ساتھ ہی سالار شرحبیلؓ بن حسنہ کے دستے تھے۔ رومیوں نے اس جگہ حملہ کیا جہاں ان دونوں کے دستے آپس میں ملتے تھے ۔دونوں سالاروں نے مل کر رومیوں کا یہ حملہ بے جگری سے لڑ کر پسپا کردیا۔
رومیوں نے اپنا پہلے والا طریقہ اختیار کیا، انہوں نے دوسرا حملہ تازہ دم دستوں سے کیا، اس طرح وہ بار بار تازہ دم دستے آگے لاتے رہے اور مسلمان ہر حملہ روکتے رہے۔ انہوں نے اپنی تنظیم اور ترتیب برقرار رکھی مگر جسمانی طاقت جواب دینے لگی۔ رومیوں کی کوشش یہی تھی کہ مسلمانوں کو اتنا تھکا دیا جائے کہ حملہ روکنے کے قابل نہ رہیں۔
دوپہر کے وقت جب گرمی انتہا پر پہنچ گئی تو رومیوں نے زیادہ نفری سے بڑا ہی سخت حملہ کیا۔اس کے آگے پوری کوشش کے باوجود مسلمان جم نہ سکے۔ عمروؓ بن العاص کے پورے کا پورا اور شرحبیلؓ بن حسنہ کا تقریباً نصف دستہ پسپا ہو گیا۔اس روز بھی ایسے ہی ہوا جیسے گشتہ روز ہوا تھا۔بھاگنے والوں کو عورتوں نے روک لیا، انہیں ڈنڈے بھی دکھائے، طعنے بھی دیئے، غیرت کو بھی جوش دلایا اور ان کا حوصلہ بھی بڑھایا۔
کسی مؤرخ نے ایک تحریر لکھی ہے کہ ایک مجاہد بھاگ کر پیچھے آیا اور عورتوں کے قریب آکر گر پڑا۔ اس کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں، منہ کھل گیا تھا۔ایک عورت دوڑتی اس تک پہنچی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔
’’کیا تو زخمی ہے؟‘‘ … عورت نے پوچھا۔
وہ بول نہیں سکتا تھا، اس نے سر ہلا کر بتایا کہ وہ زخمی نہیں۔
’’پھر توبھاگ کیوں آیا ہے؟‘‘ … عورت نے پوچھا۔ … ’’کیا تیرے پاس تلوار نہیں تھی؟‘‘
مجاہد نے نیام سے تلوار نکالی جس پر نوک سے دستے تک خون جما ہوا تھا۔
’’کیا تیرے پاس دل نہ تھا جو تو بھاگ آیا ہے؟‘‘ … عورت نے پوچھا۔
مجاہد نے اکھڑی ہوئی سانس کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا اور بول نہ سکا۔
’’کیا تیری بیوی یہاں ہے؟‘‘
اس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’بہن؟‘‘ … عورت نے پوچھا۔ … ’’ماں؟‘‘
’’کوئی نہیں۔‘‘ … اس نے بڑی مشکل سے کہا۔
’’کیا یہ عورتیں تمہاری مائیں اور بہنیں نہیں؟‘‘ … عورت نے کہا۔ … ’’کیا تو برداشت کر لے گا کہ انہیں کفار اٹھا کر لے جائیں۔‘‘
’’نہیں۔‘‘ … مجاہد نے جاندار آواز میں کہا۔
’’کیا تو اﷲ کی راہ میں اپنی جان قربان نہیں کرے گا؟‘‘
’’ضرور کروں گا۔‘‘ … اس نے جواب دیا۔
’’پھر یہاں کیوں آن گرا ہے؟‘‘ … عورت نے کہا۔
’’تھک کر چور ہو گیا ہوں۔‘‘ … مجاہد نے کہا۔
’’لے میرا ہاتھ پکڑ!‘‘ … عورت نے کہا۔ … ’’میں تجھے اٹھاتی ہوں۔ نہیں اٹھنا تو تلوار مجھے دے۔ تیری جگہ تیری بہن لڑے گی۔‘‘
مجاہد اٹھ کھڑا ہوا اور میدانِ جنگ کی طرف چل پڑا۔
’’بھائی!‘‘ … عورت نے کہا۔ … ’’اﷲ تجھے فاتح واپس لائے۔‘‘
مسلمانوں کی پسپائی بزدلی نہیں تھی۔ وہ تو ہمت سے بڑھ کر لڑے تھے۔ ان کا اتنے بڑے لشکر سے لڑ جانا ہی ایک کارنامہ تھا۔ جہاں تک رومیوں کو شکست دینے کا تعلق تھا یہ ارادہ ناکام سی خواہش بنتا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کا بار بار پسپا ہو جانا کوئی اچھا شگون نہ تھا لیکن خالدؓ شکست کو قبول کرنے والے سالار نہیں تھے۔ باقی تمام سالار بھی عزم کے پکے تھے۔
سالار اپنے ان مجاہدین کو جو پیچھے آگئے تھے اکٹھا کرکے منظم کر رہے تھے۔ خالدؓ بھی پریشانی کے عالم میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے اور قاصدوں کو گیارہ میل لمبے محاذ پر مختلف سالاروں کو احکام پہنچانے کیلئے دوڑا رہے تھے۔ ایک خاتون ان کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔
’’ابن الولید!‘‘ … خاتون نے کہا۔ … ’’خد اکی قسم! عرب نے تجھ سے بڑھ کر کوئی دلیر اور دانشمند آدمی پیدا نہیں کیا۔ کیا تو میری ایک بات پر غور نہیں کرے گا؟ … سالار آگے آگے ہو تو سپاہی اس کے پیچھے جان لڑا دیتے ہیں۔ سالار شکست کھانے پر اتر آئے تو اس کے سپاہی بہت جلد شکست کھا جاتے ہیں۔‘‘
’’میری بہن!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’ہمارے لیے دعا کر۔ تیرے کانوں میں یہ آواز نہیں پڑے گی کہ اسلام کے سالار رومیوں سے شکست کھا گئے ہیں۔‘‘
اس خاتون نے کوئی ایسا مشورہ نہیں دیا تھا جو خالدؓ کیلئے نیا ہوتا ، وہ تو اپنی فوج کے آگے رہنے والے سپہ سالار تھے لیکن اس خاتون کے جذبے سے خالدؓ متاثر ہوئے۔ خواتین کا جذبہ تو ہر لڑائی میں ایسا ہی ہوتا تھا لیکن یرموک کی جنگ میں عورتوں کے جذبے کی کیفیت کچھ اور ہی تھی وہ مردوں کے دوش بدوش لڑنے کیلئے بیتاب تھیں۔ یہ حقیقت ہے کہ خواتیں نے مجاہدین کے جسموں اور جذبوں میں نئی روح پھونک دی تھی۔
اس کے فوراً بعد خالدؓ نے وہ سوار دستہ ساتھ لیا جو انہوں نے خاص مقصد کیلئے تیار کیا اور اسے گھوم پھرکر لڑنے کی ٹریننگ دی تھی، انہوں نے رومیوں کے ایک حصے پر جس کا سالار قناطیر تھا، حملہ کر دیا۔ انہوں نے حملہ دائیں پہلو پر کیا تھا۔ خالدؓ کے حکم کے مطابق سالار عمروؓ بن العاص نے اسی حصے کے بائیں پہلو پر حملہ کیا ان کے ساتھ سالار شرحبیلؓ بن حسنہ بھی اپنے دستوں کے ساتھ تھے یہ دستے پیادہ تھے۔
رومیوں نے بڑی بے جگری سے یہ دو طرفہ حملہ روکا۔ وہ اگلے دستوں کو پیچھے کرکے تازہ دم دستے آگے لاتے تھے۔ تھکے ماندے مسلمانوں نے جیسے قسم کھالی تھی کہ پیچھے نہیں ہٹیں گے ، اس لڑائی میں مسلمانوں نے جانوں کی بے دریغ قربانی دی۔ شہید ہونے والوں کی تعداد کئی سو ہو گئی تھی۔ وہ رومیوں کو شکست تو نہ دے سکے صرف یہ کامیابی حاصل کی کہ رومیوں کو ان کے محاذ تک پسپا کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اس دن کا سورج میدانِ جنگ کے خاک و خون میں ڈوب گیا۔
…………bnb…………

اس روز کی جنگ پہلے سے زیادہ شدید اور خونریز تھی۔یہ پہلی جنگ تھی جس میں مسلمان صرف ایک دن میں سینکڑوں کے حساب سے شہید ہوئے اور زخمیوں کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا۔تاریخ میں صحیح اعداد و شمار نہیں ملتے۔ رومیوں کا جانی نقصان مسلمانوں کی نسبت بہت زیادہ تھا۔
لڑنے کے جذبے اور حوصلے کی کیفیت یہ تھی کہ مسلمانوں میں خود اعتمادی بحال ہو گئی تھی۔حالانکہ ان کی تعدادخاصی کم ہو گئی تھی۔ اور انہیں کمک ملنے کی توقع بھی نہیں تھی۔ ان کا حوصلہ اسی کامیابی سے قائم ہو گیا تھا کہ وہ پسپا نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے رومیوں کو پسپا کر دیا تھا۔
رومیوں میں مایوسی پیدا ہو گئی تھی کیونکہ انہیں توقع تھی کہ اتنے بڑے لشکر سے تو پہلے دن ہی مسلمانوں کو تہ تیغ کر کے خالدؓ کو زندہ پکڑ لیں گے لیکن تیسرا دن گزر گیا تھا۔مسلمان پیچھے ہٹتے اور پھر حملہ کر دیتے تھے ۔ہار مانتے ہی نہیں تھے۔
رومیوں کے سالارِ اعلیٰ کی ذہنی حالت تو بہت ہی بری تھی۔ اس نے آج رات پھر سالاروں کو بلایا اور ان پر برس پڑا۔ وہ ان سے پوچھتا تھاکہ وجہ کیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ابھی تک شکست نہیں دے سکے۔ سالاروں نے اپنا اپنا جواز بیان کیالیکن ماہان کا غصہ اور تیز ہو گیا۔آخر رومی سالاروں نے حلف اٹھایا کہ وہ اگلے روز مسلمانوں کو شکست دے کر پیچھے آئیں گے۔
گذشتہ رات کی طرح اس رات بھی خالدؓ اور ابو عبیدہؓ تمام تر محاذ پر پھرتے رہے، خالدؓ نے حکم دیا کہ جو زخمی چل پھر سکتے ہیں وہ اگلے روز کی لڑائی میں شامل ہوں گے۔
عورتیں زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی رہیں، رات کے آخری پہر عورتیں اکٹھی ہوئیں۔ ابو سفیانؓ کی بیوی ہند اورضرار بن الازور کی بہن خولہ نے عورتوں کو بتایا کہ کل کا دن فیصلہ کن ہوگا۔
’’… اور اپنے آدمیوں کی جسمانی حالت ہم سب دیکھ رہی ہیں۔‘‘ … ہند نے کہا۔ … ’’مجھے اپنی شکست نظر آرہی ہے اور کمک نہیں آرہی۔ اب ضرورت یہ ہے کہ تمام عورتیں لڑائی میں شامل ہو جائیں۔‘‘
’’کیا ہمارے مرد ہمیں اپنی صفوں میں شامل ہونے دیں گے؟‘‘ … ایک عورت نے پوچھا۔
’’ہم مردوں سے اجازت نہیں لیں گی۔‘‘ … ہند نے کہا۔ … ’’وہ اجازت نہیں دیں گے۔ کیا تم سب لڑنے کیلئے تیار ہو؟‘‘
تمام عورتوں نے جوش و خروش سے کہا کہ وہ کل مردوں سے پوچھے بغیر میدانِ جنگ میں کود پڑیں گی۔
اگلے روزکیلئے رومیوں نے جنگ کی جو تیاری کی وہ بڑی خوفناک تھی۔ مسلمان خواتین نے ہتھیار نکال لیے۔ کل انہیں بھی میدان میں اترنا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages