Featured Post

Khalid001

18 April 2020

Khalid129


شمشیر بے نیام

سیدنا خالد بن ولیدؓ کی حیات پر عنایت اللہ التمش کے قلم سے لا زوال تحریر

قسط نمبر:  129
ابو عبیدہؓ نے اپنے تمام سالاروں کو اکٹھا کرکے بتایا کہ دشمن نے صلح کی پیشکس کی تھی جو ٹھکرادی گئی ہے اوراب لڑائی نا گزیر ہوگئی ہے اور تمام مجاہدین کو یہ بھی بتا دیا جائے کہ رومیوں نے ہمیں اپنے لشکر اور اپنی جنگی طاقت سے ڈرایا ہے۔
مؤرخ کے مطابق خالدؓاور ماہان کی بات چیت کی ناکامی کے بعد جب دونوں طرف کی فوجوں کو بتایا کہ جنگ ہو کے رہے گی اور کل صبح سے فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آجائیں گی، اس وقت سے دونوں فوجوں پر ہیجانی کیفیت طاری ہو گئی، رومی محاذ پر پادریوں نے لشکر کو صلیبیں دکھاکر مذہب کے نام پر گرمایا اور انہیں صلیب اور یسوع مسیح کے نام پر مر مٹنے کی تلقین کی۔پادریوں کے الفاظ اور ان کا انداز اتنا جوشیلا تھا کہ سپاہیوں نے صلیب کی طرف ہاتھ کرکے حلف اٹھائے کہ وہ فتح حاصل کریں گے ورنہ مر جائیں گے۔
مسلمانوں نے عبادت اور دعا کیلئے رات کا وقت مقرر کیا۔ انہیں گرمانے اور جوش دلانے کیلئے وعظ کی ضرورت نہیں تھی۔ جس مقصد کیلئے وہ گھروں سے نکلے تھے اس مقصد کی عظمت سے وہ آگاہ تھے۔ انہوں نے اپنی جانیں اﷲ کے سپرد کردی تھیں۔
اسی روز دونوں فوجوں نے صف بندی اور دستوں کو موزوں جگہوں پر پہنچانے کا کام شروع کر دیا۔ ماہان نے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور انہیں آگے لاکر صف آراء کیا۔ اس کے محاذ کی لمبائی بارہ میل تھی اور گہرائی اتنی زیادہ کہ صفوں کے پیچھے صفیں تھیں جو دور پیچھے تک چلی گئی تھیں۔
رومی افواج کو اس ترتیب سے کھڑا کیا گیا تھا کہ ایک پہلو پر سالار گریگری کے دستے تھے اور دوسرے پہلو پر سالار قناطیر کے دستے، قلب میں سالارِ اعلیٰ ماہان کی آرمینی فوج اور سالار دیرجان کے دستے تھے۔گھوڑ سوار دستوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیاتھا اور انہیں ایسی جگہوں پر کھڑا کیا گیاجہاں ان کے سامنے مسلمانوں کے پیادہ دستے تھے۔ رومیوں کے پاس سوار دستے اتنے زیادہ تھے کہ انہوں نے سواروں کے پیچھے بھی سوار کھڑے کر دیئے۔ سالار جبلہ بن الایہم کے سوار دستے اور شتر سواروں کو بارہ میل لمبے محاذ کے آگے کھڑا کیا گیا۔
ماہان نے ایک بندوبست اور کیا، گریگری کے دستے ایک پہلو پر تھے۔ ان میں تیس ہزار پیادے تھے ان تمام پیادوں کو زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ ایک زنجیر میں دس دس آدمی باندھے گئے،زنجیریں اتنی لمبی تھیں کہ ان سے بندھے ہوئے سپاہی آسانی سے لڑ سکتے تھے۔ زنجیروں کا ایک مقصد یہ تھا کہ سپاہی بھاگ نہیں سکیں گے اور دوسرا مقصد یہ کہ مسلمان حملہ کریں گے تو ان زنجیروں سے الجھ جائیں گے گریں گے اور صفیں توڑ کر آگے نہیں نکل سکیں گے۔
خالدؓ رومیوں کی صف بندی دیکھ رہے تھے۔ سالارِ اعلیٰ ابو عبیدہؓ تھے، ان میں ایک قابل سالار کی ساری خصوصیات موجود تھیں لیکن میدانِ جنگ میں بڑی احتیاط سے قدم اٹھاتے تھے اور خطرہ مول لینے سے کچھ گریز کرتے تھے۔ جنگِ یرموک میں انہوں نے سپہ سالاری کے فرائض خالدؓ کے حوالے کر دیئے تھے۔ یہ جنگ ایسی تھی جس میں خطرے مول لینے ہی تھے۔ دشمن کی اتنی زیادہ طاقت کے مقابلے میں روایتی طریقوں سے جنگ نہیں لڑی جا سکتی تھی۔ سپہ سالار ابو عبیدہؓ ہی تھے انہوں نے یہ صورتِ حال خالدؓ کے سپرد کر دی تھی۔
خالدؓنے ابو عبیدہؓ سے کہا کہ وہ تمام سالاروں اور کمانداروں کو اکٹھا کریں۔ خالدؓ انہیں صف آرائی اور جنگ کے متعلق کچھ بتانا چاہتے تھے۔چونکہ وہ سپہ سالار نہیں تھے اس لیے سالاروں پر ان کا حکم نہیں چل سکتاتھا۔ ابو عبیدہؓ نے سب کو بلا لیا۔
خالدؓ نے انہیں بتایا کہ دشمن کی تعداد کو وہ دیکھ رہے ہیں اور اپنی تعداد بھی ان کے سامنے ہے اس لئے یہ زندگی اور موت کی جنگ ہو گی۔ اس کے بعدخالدؓ نے مجاہدین کو اس طرح تقسیم کیا چالیس ہزار تعداد میں کل دس ہزار گھوڑ سوار تھے، تیس ہزار پیادوں کو چھتیس حصوں میں تقسیم کیا، ہر حصے میں آٹھ سو سے نو سو پیادے آئے۔
گھوڑ سواروں کو انہوں نے دو دو سو کے تین حصوں میں تقسیم کیا۔ایک کی کمان قیس بن ہبیرہ کو دی۔ دوسرے کی مسرہ بن مسروق کو اور تیسرے کی کمان عامر بن طفیل کو دی۔
مسلمانوں کے محاذ کی لمبائی گیارہ میل تھی۔ یعنی دشمن سے ایک میل کم۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی صف آرائی کی گہرائی تھی ہی نہیں۔ ایک پہلو پر یزیدؓ بن ابی سفیان کے اوردوسرے پہلو پر عمروؓبن العاص کے دستے تھے، انہیں دو دو سو کا ایک سوار دستہ بھی دیا گیا تھا۔
ابو عبیدہؓ قلب میں تھے۔ انہوں نے سالار شرحبیلؓ بن حسنہ کے دستوں کو اپنے ساتھ دائیں طرف رکھا۔ان کے ساتھ ساتھ سالار عکرمہؓ بن ابی جہل اور عبدالرحمٰن بن خالد بھی تھے۔ چار ہزار گھوڑ سواروں کو خالدؓنے اپنی کمان میں اگلی صفوں کے پیچھے رکھا تھا۔انہیں ہر اس جگہ پہنچنا تھا جہاں دشمن کا دباؤ زیادہ ہونا تھا اور ان سواروں نے گھوم پھر کر لڑنا تھا۔
اگلی صف کے پیادوں کو لمبی برچھیاں دی گئی تھیں۔جو نیزے کہلاتی تھیں۔ان کی انّیاں تین دھاری اور چار دھاری تھیں اور بہت تیز۔ ان پیادوں میں تیر انداز خاص طور پر رکھے گئے تھے۔رومیوں کے حملے کو نیزوں اور تیروں کی بوچھاڑوں سے روکنا تھا۔اس کے بعد تیغ زنوں نے اپنے جوہر دکھانے تھے۔
اس دور کے رواج کے مطابق بہت سے مجاہدین کے بیوی بچے اور بعض کی بہنیں ان کے ساتھ تھیں ۔ان عورتوں اور بچوں کو فوج کے پیچھے رکھا گیا۔ابو عبیدہؓ وہاں گئے۔
’’قوم کی بیٹیو!‘‘ … ابو عبیدہؓ نے عورتوں سے کہا۔ … ’’ہم تمہاری حفاظت کریں گے لیکن تمہیں ایک کام کرنا ہے۔اپنے پاس پتھر جمع کر لو اور اپنے خیموں کے ڈنڈے اپنے ہاتھوں میں رکھو۔اگر کوئی مسلمان بھاگ کر پیچھے آئے تو اسے پتھر مارو۔ ڈنڈے اس کے منہ پر مارو۔ بھاگنے والوں کی بیویوں اور بچوں کو ان کے سامنے کھڑا کر دو۔‘‘
عورتوں نے اسی وقت خیموں سے ڈنڈے نکال لیے اور پتھر اکٹھے کرنے لگیں۔
صف بندی ہو چکی تو ابو عبیدہؓ ، خالدؓ اور دوسرے سالار ایک سرے سے دوسرے سرے تک گئے۔وہ مجاہدین کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔وہ ہنستے اور مسکراتے تھے اور کہیں رک جاتے تو خالدؓ چندالفاظ کہہ کر ان کے جذبوں کو سہارا دیتے تھے۔ ان کے الفاظ کچھ اس قسم کے تھے کہ اﷲ کی طرف سے بڑے سخت امتحان کا وقت آگیا ہے۔ اﷲ کی مدد اسی کو حاصل ہوتی ہے جو ا س کی راہ پر ثابت قدم رہتا ہے، دنیا میں اور آخرت میں عزت اور تکریم انہیں ملتی ہے جن کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہوتی ہے، اور وہ کفر کی تیز دھار تلوار کا مقابلہ بے خوف ہو کرکرتے ہیں۔
مؤرخ طبری نے لکھا ہے کہ یہ سالار ایک دستے کے سامنے سے گزرے تو ایک مجاہد نے کہا ۔’’رومی اتنے زیادہ اور ہم کتنے تھوڑے ہیں۔‘‘
خالدؓ نے گھوڑا روک لیا۔
’’میرے رفیق!‘‘ … خالدؓ نے بڑی بلند آواز میں کہا۔ … ’’کہو رومی کتنے تھوڑے اور ہم کتنے زیادہ ہیں۔طاقت تعداد کی نہیں ہوتی، طاقت اﷲ کی مدد سے بنتی ہے، تعداد رومیوں کے پاس ہے اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔ اﷲجس کا ساتھ چھوڑ دے وہ بہت کمزور ہو جاتا ہے۔‘‘
زیادہ تر مؤرخوں نے لکھا ہے کہ سالار اور کماندار جب اپنی فوج میں گھوم پھر رہے تھے تو یہ آیت بلند آواز پڑھتے جاتے تھے:
’’کتنی ہی بار چھوٹی چھوٹی جماعتیں اﷲ کے چاہنے سے بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں۔ اﷲ صبر و استقامت والوں کا ساتھ دیتا ہے۔‘‘ (قرآن حکیم ۲/۲۴۹)
…………bnb…………

وہ اگست ۶۳۶ء کے تیسرے، رجب ۱۵ ھ کے دوسرے ہفتے کی ایک رات تھی۔مجاہدین تمام رات عبادتِ الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں مصروف رہے۔اﷲ کے سوا کون تھا جو ان کی مدد کو پہنچتا۔ اکثر مجاہدین سورہ انفال کی تلاوت کرتے رہے۔
رومی محاذ بھی شب بھر بیدار رہا۔ وہاں پادریوں نے سپاہیوں کو عبادت اور دعا میں مصروف رکھا۔ دونوں طرف مشعلیں بھی جلتی رہیں اور جگہ جگہ لکڑیوں کے ڈھیر جلتے رہے تاکہ رات کو دشمن حملہ کرنے آئے تو آتانظرآجائے۔ دونوں فوجوں پر ہیجان اور کھچاؤکی کیفیت طاری تھی۔
مسلمانوں کے محاذ سے صبح کی اذان کی آواز اٹھی۔ مجاہدین نے وضو اور زیادہ تر نے تیمم کرکے باجماعت نماز پڑھی اور اپنی جگہوں پر چلے گئے۔جنگ شروع ہونے والی تھی جس کا شمار تاریخ کی بہت بڑی جنگوں میں ہوتا ہے۔
سورج افق سے اٹھا تو اس نے زمین پر بڑا ہی ہیبت ناک منظر دیکھا ۔چالیس ہزار کی فوج ڈیڑھ لاکھ نفری کی فوج کے مقابلے میں کھڑی تھی۔ شان تو ہرقل کے لشکر کی تھی اس کے جھنڈے لہرا رہے تھے اور بہت سی صلیبین اوپر کو اٹھی ہوئی تھیں۔ اس میں ذرا سے بھی شک کی گنجائش نہیں تھی کہ یہ لشکر اپنے سامنے کھڑی اس چھوٹی سی فوج کو نیست و نابود کر دے گا۔
جرجہ رومی فوج کا ایک سالار تھا جو انفرادی مقابلوں میں بہت شہرت رکھتا تھا، اپنے سالارِ اعلیٰ ماہان کے حکم سے وہ آگے بڑھا۔
’’کیا خالد بن ولید میں اتنی ہمت ہے کہ میری تلوار کے سامنے آسکے؟‘‘ … جرجہ نے للکار کر کہا۔
’’میں ہوں رومیوں کا قاتل!‘‘ … خالدؓ للکارتے ہوئے آگے بڑھے۔ … ’’میں ہوں خالد بن ولید!‘‘
خالدؓ دونوں فوجوں کے درمیان جا کر رُک گئے، انہوں نے تلوار نکال لی تھی لیکن جرجہ نے تلوار نہ نکالی۔ وہ گھوڑے پر سوار آ رہا تھا۔ خالدؓ اپنے گھوڑے کو اس کے گھوڑے کے اتنا قریب لے گئے کہ دونوں گھوڑوں کی گردنیں مل گئیں ۔جرجہ نے پھر بھی تلوار نہ نکالی۔
’’ابنِ ولید!‘‘ … جرجہ نے کہا۔ … ’’جھوٹ نہ بولنا کہ جنگجو جھوٹ نہیں بولا کرتے۔ دھوکہ بھی نہ دینا کہ اعلیٰ نسل کے لوگ دھوکہ نہیں دیا کرتے۔‘‘
’’پوچھ اے دشمنِ اسلام!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’جنگجو جھوٹ نہیں بولے گا دھوکہ نہیں دے گا۔ پوچھ کیا پوچھتا ہے؟‘‘
’’کیا میں اسے سچ سمجھوں کہ تیرے رسول(ﷺ) کو خدا نے آسمان سے تلوار بھیجی تھی؟‘‘ … جرجہ نے پوچھا۔ … ’’اور یہ تلوار تیرے رسول(ﷺ) نے تجھے دی تھی؟ اور جب تیرے ہاتھ میں یہ تلوار ہوتی ہے تو دشمن شکست کھاکر بھاگ جاتا ہے؟‘‘
’’یہ سچ نہیں!‘‘ … خالدؓنے کہا۔
’’پھر تو سیف اﷲ کیوں کہلاتا ہے؟‘‘ … جرجہ نے پوچھا۔ … ’’پھر تو اﷲ کی شمشیر کیوں بنا؟‘‘
’’سچ یہ ہے کہ اے دشمنِ اسلام!‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’رسول اﷲ ﷺ نے میری تیغ زنی کے جوہر دیکھے تھے تو آپ(ﷺ) نے بے ساختہ کہا تو اﷲ کی تلوار ہے۔ آپﷺ نے مجھے اپنی تلوار انعام کے طور پر دی تھی۔ اب نکال اپنی تلوار اور تو بھی اس کا ذائقہ چکھ لے۔‘‘
’’اگر میں تلوار نہ نکالوں تو؟‘‘
’’پھر کہو، لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’تسلیم کر کہ محمد(ﷺ) اﷲ کے رسول ہیں۔‘‘
’’میں ایساکہنے سے انکار کر دوں تو تو کیا کرے گا؟‘‘
’’پھر تجھ سے جزیہ مانگوں گا۔‘‘ … خالدؓنے کہا۔ … ’’اور تجھے اپنی حفاظت میں رکھوں گا۔‘‘
’’اگر میں جزیہ دینے سے انکار کر دوں؟‘‘
’’پھر نکال اپنی تلوار!‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اور پہلا وار کر لے کہ تجھے کوئی افسوس نہ رہے کہ وار کرنے کا تجھے موقع نہیں ملا تھا۔‘‘
جرجہ کچھ دیر خاموش رہا اور خالدؓ کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔
’’اگر کوئی آج اسلام قبول کرے تو اس کو کیا درجہ دو گے؟‘‘ … جرجہ نے پوچھا۔
’’وہی درجہ جو ہر مسلمان کا ہے۔‘‘ … خالدؓ نے کہا۔ … ’’اسلام میں کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں۔‘‘
’’میں تیرے مذہب میں آنا چاہتا ہوں۔‘‘ … جرجہ نے کہا۔ … ’’میں اسلام قبول کرتا ہوں۔‘‘
خالدؓ کے چہرے پر حیرت کا بڑا گہرا تاثر آگیا۔
’’کیا تو اپنے ہوش و حواس میں ہے اے رومی سالار!‘‘ … خالدؓ نے پوچھا۔
’’ہاں ابنِ ولید!‘‘ … جرجہ نے جواب دیا۔ … ’’مجھے اپنے ساتھ لے چل۔‘‘
خالدؓ نے اپنا گھوڑا موڑا۔ جرجہ نے اپنا گھوڑا خالدؓکے پہلو میں کر لیا اور وہ مسلمانوں کے محاذ میں آگیا۔ خالدؓ نے اسے کلمہ پڑھایا اوروہ مسلمانوں کے محاذ میں شامل ہو گیا۔
مسلمانوں نے تکبیر کے نعرے بلند کیے اور رومی لشکر نے بڑی بلند آواز سے جرجہ پر لعن طعن کی لیکن جرجہ کو کچھ اثر نہ ہوا۔
بڑی ہی خونریز جنگ شروع ہونے والی تھی اور جرجہ اپنے ہی لشکر کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گیا تھا۔
…………bnb…………
ہر قسط کے آخر میں اپنی قیمتی آراء سے مستفید فرمائیں۔
اگلی قسط کے لیے کلک کریں ç

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages